رجیع کا واقعہ
FehrestMozoei
البحث 
ماہ صفر سنہ ۴ ہجری قمری
پیغمبر اکرم دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے اور امن و امان قائم رکھنے کی غرض سے جنگی دستوں کو بھیجنے کے ساتھ ساتھ مناسب موقع سے ثقافتی اور تبلیغیاتی دستے بھی ان قبائل کی طرف بھیجتے رہتے تھے جو لاتعلق تھے۔ تاکہ اسلام کے معارف کی نشر و اشاعت ہوسکے اور کبھی خود قبائل کی درخواست پر بھی مبلغ بھیجے جاتے تھے۔
رجیع کا واقعہ احد کے بعد اس طرح پیش آیا کہ قبیلہ ”عضل“ اور ”قارہ“ کا ایک وفد رسول خدا کے پاس پہنچا اور آپ سے کہا کہ ہمارے قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے ہیں اپنے اصحاب کی ایک جماعت آپ ہمارے یہاں بھیج دیں تاکہ وہ ہم کو قرآن اور احکام اسلام سکھائیں۔
رسول خدا نے فریضہ الٰہی کے بموجب چھ افراد کو ان کے ساتھ بھیجا اور مرثد بن ابی مرثد غنوی کو اس جماعت کا قائد معین فرمایا: مبلغین اسلام احکام الٰہی پہنچانے کے لیے ان دونوں قبیلوں کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کے ایک ہاتھ میں اسلحہ اور دوسرے میں قرآن کے نوشتے اور سینہ میں علوم التہی اور عشق خدا تھا۔ مکہ سے ۷۰ کلومیٹر شمال کی جانب جب چشمہ رجیع پر پہنچے تو دونوں قبیلوں نے اپنا پیمان توڑ دیا اور ھذیل کی مدد سے ان پر حملہ کر دیا۔
معلمین قرآن نے اپنا دفاع کیا لیکن حملہ آوروں نے کہا کہ ہم تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ ہم تم کو قریش کے ہاتھوں زندہ بیچ دیں گے اور اس کے مقابل ان سے کچھ چیزیں حاصل کریں گے۔ تین مبلغین نے کسی بھی طرح اپنے کو ان کے حوالہ کرنے سے انکار کیا اور نہایت بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ دوسرے تین افراد زید، خبیب اور عبداللہ نے اپنے کو ان کے حوالہ کر دیا۔ حملہ آور تینوں کو مکہ کی طرف لے گئے تاکہ ان کو قریش کے ہاتھوں فروخت کر دیں۔ ابھی آدھے راستہ ہی پہنچے تھے کہ عبداللہ نے تلوار پر قبضہ کرکے جنگ کی یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ان لوگوں نے دوسرے دو اسیروں کو مکہ کے بڑے لوگوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ زید کو صفوان بن امیہ نے پچاس اونٹوں کے بدلے خریدا تاکہ وہ ان کو اپنے باپ امیہ بن خلف کے خون کے انتقام میں قتل کر دے۔ اور خبیب کو عقبہ بن حارث نے آٹھ مثقال سونے کے عوض خریدا تاکہ وہ ان کو اپنے باپ کے انتقام میں دار پر چڑھا دے جو بدر میں مارا گیا تھا۔
زید کی حیات کے آخری لمحہ میں ابو سفیان آگے بڑھا اور اس نے کہا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری جگہ محمد قتل ہو جائیں؟ زید نے کہا کہ خدا کی قسم مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ محمد کے پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے یا ان کو کوئی آزار پہنچائے اور میں صحیح و سالم بچ جاؤں۔
ابو سفیان نے کہا کہ :
”میں نے ابھی تک محمد جیسا کسی کو نہیں دیکھا جو اپنے اصحاب میں اس طرح کی محبوبیت رکھتا ہو۔“
خبیب نے بھی چند دنوں تک زندان میں رہ کر شہادت پائی۔ شہادت کے وقت انہوں نے اجازت مانگی تاکہ دو رکعت نماز ادا کرلیں۔ اس کے بعد انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ تم گمان کرو گے کہ میں موت سے ڈر گیا تو میں اور زیادہ نمازیں پڑھتا۔ پھر آسمان کی جانب رخ کرکے دعا کی۔ تختہ دار پر لٹکانے کے بعد ان کے سامنے کافروں نے یہ پیشکش رکھی کہ اسلام کو چھوڑ دیں۔ انہوں نے جواب میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دی اور کہا کہ خدا کی قسم روئے زمین کی ساری چیزیں مجھے دے کر اگر یہ کہا جائے کہ اسلام چھوڑ دو تو بھی میں اسلام نہیں چھوڑوں گا۔
اس مجاہد اور شہید کا پاکیزہ جسم ایک مدت تک تختہ دار پر لٹکا رہا، آخرکار خفیہ طور پر کسی نے اتارا اور دفن کر دیا۔ (تاریخ طبری ج۲ ص ۵۳۰، ۵۴۲)
بئر معونہ کا واقعہ
صبر سنہ ۴ہجری میں مدینہ میں کچھ نوجوان رسول خدا سے قرآنی و اسلامی علوم کا درس لیتے اور مسجد میں دینی بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے تھے۔ قرآن مجید سے ان کی واقفیت اتنی تھی کہ وہ مبلغ اسلام ہو سکتے تھے۔
ایک دن قبیلہ بنی عامر کا ابو براء نامی ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ: اگر آپ اپنے اصحاب میں سے کچھ افراد کو نجد کی سرزمین پر بھیج دیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آپ کی دعوت قبول کریں گے۔ آنحضرت نے فرمایا: کہ میں نجد والوں سے اپنے اصحاب کے بارے میں ڈرتا ہوں ابو براء نے کہا کہ میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہوں وہ لوگ میری پناہ میں رہیں گے۔ رسول خدا نے اسلام سے آشنائی رکھنے والے چالیس (۲) معلمین قرآن کو منذر بن عمرو کی سرکردگی میں ایک رہنما کے ساتھ سرزمین ند کی طرف روانہ کیا تاکہ وہاں اسلامی حقائق کی تبلیغ کریں۔
جب یہ لوگ بئر معونہ پہنچے تو اس جماعت کے ایک شخص نے رسول خدا کا خط قبیلہ بنی عام کے سردار کے سامنے پیش کیا۔ سردار قبیلہ نے رسول خدا کا خط پڑھے بغیر نامہ بر کو قتل کر دیا اور بنی عامر سے اس نامہ بر کے ساتھ آنے والوں کو قتل کرنے کے سلسلے میں مدد مانگی انہوں نے کہا کہ ہم ابوبراء کے امان کو نہیں توڑیں گے۔ اس نے فوراً قبائل بنی سلیم سے اس سلسلے میں نصرت چاہی انہوں نے ایک دستہ ان مبلغین اسلام سے مقابلہ کے لیے بھیج دیا۔ ان چالیس افراد نے مردانہ وار ان کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔ ان میں سے صرف ایک شخص عمرو بن امیہ نامی مجروح ہوگئے اور اس معرکہ کے بعد وہ کسی طرح مدینہ پہنچے۔
انہوں نے راستہ میں قبیلہ عامر کے دو افراد کو دیکھا اور اپنے شہید دوستوں کے انتقام میں ان دونوں کو قتل کر دیا، جب یہ مدینہ پہنچے اور انہوں نے ان مبلغین کی شہادت کے واقعہ کو رسول خدا سے نقل کیا تو آپ بہت غمگین ہوئے اور ان مجرمین پر نفرین کی۔ (سیرت ابن ہشام ج۳ ص۱۹۳)
سریہ عمرو بن امیہ
حادثہ رجیع کے بعد رسول خدا نے اس درد انگیز حادثہ میں شہید ہونے والے شہیدوں کے خون کا انتقام لینے اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے ان اصلی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے عمرو بن امیہ ضمری کو ایک آدمی کے ساتھ مامور کیا کہ وہ مکہ جا کر ابوسفیان کو قتل کر دیں۔ وہ لوگ مکہ پہنچے اور رات کے وقت شہر میں داخل ہوئے لیکن مکہ والوں میں سے ایک شخص نے انہیں پہچان لیا، مجبوراً ان لوگوں نے شہر سے باہر نکل کر ایک غار میں پناہ لی اور واپسی میں انہوں نے دو قریش کے نمک خوار اور ایک جاسوس کو گرفتار کیا اور انہیں مدینہ لے آئے۔
(تاریخ طبری ج۲ ص ۵۴۲)
غزوہٴ بنی نضیر
تاریخ ربیع الاول سنہ ۴ ہجری
مدینہ واپسی کے وقت واقعہٴ بئر معونہ میں بچ جانے والے شخص عمرو بن امیہ کے ہاتھوں بنی عامر کے دو آدمیوں کے قتل نے یک نئی مصیبت کھڑی کر دی کیونکہ اس نے غلطی سے بے قصور افراد کو قتل کر دیا تھا۔ جو عہد و پیمان بنی عامر نے رسول خدا سے کیا تھا اس کے مطابق مسلمانوں کو ان مقتولین کا خون بہا ادا کرنا چاہیے تھا۔ ایک طرف بنی نضیر کے یہودی مسلمانوں کے ہم پیمان تھے اور بنی عامر سے بھی معاہدہ رکھتے تھے۔ لہٰذا اپنے پیمان کے مفاد کے مطابق ان لوگوں کو بھی خون بہا ادا کرنے میں مسلمانوں کی مدد کرنی چاہیے۔
بئر معونہ اور رجیع کے منحوس واقعہ کے بعد جو کہ چند دنوں پہلے پیش آیا تھا، یہودی منافقین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مذاق اڑانے لگے تھے اور کہتے تھے کہ جو پیغمبر خدا کا بھیجا ہوا ہوتا ہے وہ شکست نہیں کھاتا، یہ لوگ ہر آن شورش برپا کرنے کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔
اب بنی نضیر کے یہودیوں کی بری نیتوں سے خداوند عالم کے آگاہ کرنے کا بہتین وقت آگیا تھا۔ بنی نضیر سے رسول خدا عہد و پیمان کے مطابق مقتولین کی دیت ادا کرنے میں مدد طلب کرنے کے لیے اپنے چند اصحاب کے ساتھ بنی نضیر کے قلعہ میں داخل ہوئے۔ انہوں نے ظاہراً تو رسول خدا کی پیشکش کا استقبال کیا لیکن خفیہ طور پر انہوں نے ایک دوسرے سے مشورہ کیا اور یہ ارادہ کرلیا کہ مناسب موقع ہاتھ آیا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور پیغمبر کی شمع حیات کو گل کر دیں۔
آنحضرت ایک گھر کی دیوار کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ان لوگوں نے ”عمرو“ نامی ایک شخص کو بھیجا کہ وہ کوٹھے سے ایک پتھر آپ کے سر اقدس پر گرا دے فرشتہ وحی نے رسول خدا کو آگاہ کر دیا۔ آپ اسی حالت میں جس حالت میں ان کے مشکوک افراد کی رفت و آمد کا نظارہ فرما رہے تھے۔ اطمینان سے ان کے درمیان سے اٹھے اور اکیلے ہی مدینہ کی طرف چل دیئے۔ آنحضرت کے اصحاب جو آپ کی تاخیر سے پریشان ہو گئے تھے۔ مدینہ لوٹ آئے۔ رسول خدا نے محمد بن مسلمہ کو بنی نضیر کے پاس بھیجا اور ان لوگوں سے کہلوایا کہ مدینہ کو دس دن کے اندر چھوڑ دیں جب بنی نضیر کے سربرآوردہ افراد نے اس پیغام کو سنا تو ان کے درمیان ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور ہر آدمی اپنا نظریہ پیش کرنے لگا وہ لوگ مدینہ سے نکلنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ عبداللہ ابن ابی نے ان کے پاس پیغام بھیجا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرو اور اپنا دفاع کرو میں دو ہزار افراد کو تمہاری مدد کے لیے بھیجتا ہوں اور بنی قریظہ کے یہودی بھی ہمارا تعاون کریں گے۔
منافقین کے لیڈر کے پیغام نے یہودیوں کو ہٹ دھرمی پر باقی رہنے اور اپنا دفاع کرنے کے ارادہ میں اور پکا بنا دیا اور ان کی تشویش ہوئی۔ لہٰذا قبیلہ بنی نضیر کے سردار ”حیی بن اخطب“ نے رسول خدا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم جانے والے نہیں ہیں آپ کو جو کرنا ہو کر لیجئے۔ رسول خدا نے ان تک کسی طرح کی مدد اور قوت پہنچنے سے پہلے ہی بنی نضیر کے قلعہ کا محاصرہ کرلیا چھ دن محاصرہ میں یہودیوں کا قلعہ کے باہر سے ہر طرح کا رابطہ منقطع ہوگیا۔ آخر کار ان لوگوں نے منافقین اور بنی قریظہ کی کمک سے مایوس ہو کر مجبوراً اپنے آپ کو لشکر اسلام کے حوالہ کر دیا۔ رسول خدا نے ان کو اس بات کی اجازت دی کہ اسلحہ کے علاوہ اپنے منقولہ اموال میں سے جتنا وہ چاہیں اپنے ساتھ لے جائیں۔
حریص یہودی جو بھی لے جاسکتے تھے انہوں نے اپنے اونٹوں پر لادا یہاں تک کہ گھر کے دروازوں کو چوکھٹ بازو کے ساتھ ساتھ اکھاڑ کر اونٹ پر لاد لیا۔ ان میں سے کچھ لوگ خیبر کی طرف اور کچھ شام کی طرف روانہ ہوئے۔ دو ان میں سے مسلمان بھی ہوئے۔ یہودیوں کے غیر منقول اموال اور قابل کاشت زمنیں پیغمبر کے ہاتھ آئیں۔ آپ نے انصار کو بلایا ان کی سچی خدمتوں اور ایثار و قربانیوں کو سراہا اور فرمایا کہ مہاجرین تمہارے گھروں میں تمہارے مہمان ہیں ان کی رہائش کا بار تم اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہو۔ اگر تم راضی ہو تو بنی نضیر کے مالِ غنیمت کو میں مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دوں وہ لوگ بھی تمہارا گھر خالی کر دیں؟ ”سعد بن معاذ“ اور ”سعد بن عبادہ“ قبیلہ ”اوس و خزرج“ کے دونوں سرداروں نے جواب دیا اے رسول اللہ مالِ غنیمت کو ہمارے مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیجئے اور وہ بدستور ہمارے گھروں میں مہما رہیں۔ رسول اللہ نے بنی نضیر کے تمام اموال اور قابل کاشت زمینوں کو مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا اور انصار میں سے صرف دو افراد یعنی ”سہل بن حنیف اور ابو دجانہ“ کو جو کہ بہت زیادہ تہی دست تھے، کچھ حصہ عنایت فرمایا:
بنی نضیر کے یہودیوں کی پیمان شکنی کے بارے میں خاص کر سورہٴ ”حشر“ نازل ہوا۔ (سیرت ابن ہشام)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای