حجلہٴ خون
FehrestMozoei
البحث 
حنظلہ ۲۵ سالہ جوان، جنگ احد کی آگ بھڑکانے والوں میں سے ایک شخص ابو عامر فاسق کے بیٹے تھے، جس وقت رسول خدا کی طرف سے جہاد کے لیے عام تیاری کا اعلان ہوا، اس وقت جناب حنظلہ، عبداللہ ابن ابی کی لڑکی سے شادی کرنے جا رہے تھے۔ ان کے باپ کے برخلاف جو کافر اور منافق تھا یہ دولہا دلہن اسلام اور پیغمبر پر مکمل ایمان رکھتے تھے۔ جس وقت محاذ جنگ پر جانے کی دعوت کی صدا جناب حنظلہ کے کانوں سے ٹکرائی اس وقت وہ حیران ہو گئے کہ اب کیا کریں؟ ابھی تو شادی کے مراسم ادا ہوئے ہیں، اب وہ حجلہٴ عروسی میں جائیں یا محاذ جنگ پر؟ انہوں نے بہتر سمجھا کہ رسول خدا سے اجازت لے لیں تاکہ شب زفاف مدینہ میں رہیں اور اس کے دوسرے دن میدان جنگ میں حاضر ہو جائیں۔
پیغمبر نے اجازت دے دی، صبح سویرے غسل کرنے سے پہلے اپنی دلہن سے محاذ جنگ پہ جانے کے لیے خدا حافظ کہا، دلہن کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اپنے شوہر سے اس نے چند منٹ ٹھہرنے کو کہا اور اپنے ہمسایوں میں سے چار آدمیوں کو بلالائی تاکہ وہ اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان گواہ رہیں۔ حنظلہ نے دوسری بار خدا خدا حافظ کہا اور محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوگئے۔
دلہن نے ان گواہوں کی طرف رخ کیا اور کہا کہ کل رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان شگافة ہوگیا اور میرا شوہر اس میں داخل ہوگیا اس کے بعد آسمان پھر جڑ گیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ شہادت کے درجہ پر پہنچے گا۔
جناب حنظلہ لشکر اسلام سے جا ملے اور انہوں نے ابوسفیان پر حملہ کیا، ایک تلوار جو اس کے گھوڑے پر پڑی تو وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ ابو سفیان کی چیخ پکار پر چند مشرکین اس کی مدد کو بڑھے اور اس طرح ابوسفیان کی جان بچ گئی۔ دشمن کے ایک سپاہی نے جناب حنظلہ کو نیزہ مارا، حنظلہ نے نیزہ کا شدید زخم لگنے کے باوجود اس نیزہ بردار پر حملہ کیا اور تلوار سے اس کو قتل کر ڈالا۔ نیزہ کے زخم نے آخرکار اپنا کام کر ڈالا اور جناب حنظلہ حجلہٴ خون میں عروس شہادت سے جا ملے۔
پیغمبر نے فرمایا کہ: میں نے دیکھا کہ حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے تھے، اس وجہ سے ان کو حنظلہ غسیل الملائکہ کہتے ہیں۔ (سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۷۴)
دولہا دلہن کا اخلاص اور ان کا ایمان واقعی بڑا تعجب انگیز ہے ہمارے محاذ جنگ پر لڑنے والے پیکر ایثار و قربان مجاہدین، ان کے خاندان والوں اور ان کی بیویوں کے لیے الہام بخش اور مقاومت کا نمونہ ہے۔
مدینہ میں منافقین کی ریشہ دوانیاں
جنگ احد کے سلسلہ میں عبداللہ بن ابی اور اس کے تمام منافق ساتھیوں نے سرزنش اور شماتت شروع کر دی اور جو مصیبت مسلمانوں کے سروں پر آن پڑی تھی اس پر یہ لوگ خوش تھے۔ یہودی بھی بدزبانی کرنے لگے اور کہنے لگے کہ: محمد سلطنت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ آج تک کوئی پیغمبر اس طرح زخمی نہیں ہوا۔ وہ خود بھی زخمی ہوئے اور ان کے اصحاب بھی مقتول اور زخمی ہیں۔
وہ رات بڑی حساس رات تھی ہر آن یہ خطرہ منڈلا رہا تھا کہ کہیں منافقین اور یہود، مسلمانوں اور اسلام کے خلاف شورش نہ برپا کر دیں۔ اور اختلاف پیدا کرکے اس شہر کے سیاسی اتحاد و ثبات کو نہ ختم کر دیں۔
مدینہ سے ۲۰ کلومیٹر دور ”حمراء الاسد“ میں جنگی مشق
یکشنبہ ۸ شوال سنہ ۳ ہجری قمری۔
ہر طرح کی داخلی و خارجی ممکنہ سازش کی روک تھام اور مکمل طور پر ہوشیار اور آمادہ رہنے کے لیے اوس و خزرج کے سربرآوردہ افراد نے مسلح افراد کی ایک جماعت کے ساتھ مسجد اور خانہ پیغمبر کے دروازہ پر رات بھر پہرہ دیا۔ یکشنبہ کی صبح کو رسول خدا نے نماز صبح ادا کرکے جناب بلال کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو دشمن کے تعاقب کے لیے بلائیں اور اعلان کریں کہ ان لوگوں کے سوا اور کوئی ہمارے ساتھ نہ آئے جو کل جنگ میں شرکت کرچکے ہیں۔
بہت سے مسلمان شدید زخمی تھے لیکن فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور جنگی لباس زیب تن کرکے اسلحہ سے آراستہ ہو کر تیار ہو گئے۔ پیغمبر نے پرچم علی کے ہاتھ میں دیا اور عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ میں اپنا جانشین معین فرمایا: اس حیرت انگیز روانگی کی وجہ یہ تھی کہ رسول خدا کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ قریش کے سپاہیوں نے مدینہ لوٹ کر (اسلام و مسلمانوں کا) کام تمام کر دینے کا ارادہ کرلیا ہے۔
رسول خدا حمراء الاسد تک پہنچے اور وہاں آپ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی وسیع میدان میں بکھر جائیں اور رات کے وقت اس وسیع و عریض زمین پر آگ روشن کر دیں، تاکہ دشمن کو یہ گمان ہو کہ ایک بہت بڑا لشکر ان کا پیچھا کر رہا ہے۔ رسول خدا تین رات وہاں ٹھہرے رہے اور ہر رات اس عمل کو دھرایا جاتا رہا۔
اس جگہ معبد خزاعی نے پیغمبر کی خدمت میں پہنچ کر خبر دی کہ قریش دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے کا قصد رکھتے ہیں۔ پھر معبد نے ابو سفیان سے جا کر کہا کہ میں نے لشکر بے کراں اور غیظ و غضب سے تمتماتے چہرے دیکھے ہیں۔ ابو سفیان اس خبر سے وحشت زدہ ہوگیا اور مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے باز را۔
اس جنگی مشق (پریڈ) نے مجاہدین اسلام اور اہل مدینہ کے حوصلوں کو بڑھایا، ان کے دل سے خوف کو دور کیا اور دشمن کے دل میں اور زیادہ خوف بٹھا دیا اور وہ اس طرح کہ جب تین دن کے بعد مسلمان مدینہ پلٹ کر آئے تو ان کی حالت ایسی تھی کہ گویا ایک بہت بڑی فتح حاصل کرکے لوٹے ہیں۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۴۸)
ابو عزہ شاعر کی گرفتاری
بلبل زباں ابو عزہ نامی شاعر جو کہ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر آیا تھا رسول خدا نے بغیر تاوان کے اسے اس شرط پر آزاد کر دیا تھا کہ وہ کسی کو مسلمان کے خلاف نہیں ورغلائے گا۔ لیکن اس نے عہد شکنی ی اور جنگ احد کے لیے مشرکین کو اسلام کے خلاف لڑنے کی اپنے اشعار کے ذریعہ دعوت دیتا رہا۔ وہ حمراء الاسد میں لشکر اسلام کی اسیری میں آگیا اور دوبارہ معافی کا خواستگار ہوا۔ رسول خدا نے بول نہیں فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا۔ اس کے بعد آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ (سیرت حلبی ج۲ ص ۲۵۹)
جنگ احد کے بارے میں جو آیتیں نازل ہوئیں وہ سورہ آل عمران کی ۶۰ آیتیں (۱۲۰ سے ۱۷۹ تک) ہیں۔ اس سال جو اہم واقعات رونما ہوئے ان میں سے پیغمبر کا حصہ بنت عمر کے ساتھ ماہ شعبان میں عقد اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ آپ کا نکاح ہے۔
(سیرت حلبی ج۲ ص ۲۵۸)
سریہ ابوسلمہ بن عبدالاسد

پنجشنبہ یکم محرم سنہ ۴ ہجری قمری میں
رسول خدا اس بات کو سوچ رہے تھے کہ شکست احد کی کمی کا جبر ان، فداکاری، اور زبردست اور وسیع پیمانے پر جنگی اور سیاسی کوششوں سے ہونا چاہیے۔ دوسری طرف منافقین اور یہود اسلام کے داخلی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ حلیف و ہم عہد قبیلے اپنے کام میں سست پڑ گئے تھے۔ اگر رسول خدا ایک جنگی اور سیاسی قابل قدر مشق یا حملہ نہ کرتے تو مدینہ کی مثال اس مجروح کی ہوتی جو حجاز کے بیابان میں پڑا ہو اور اپنا دفاع نہیں کرسکتا ہے اور بدو مردہ خواروں اور قریش و بنی کنانہ اور ان کے حلیف عرب و یہود کے کینہ توز بھیڑیوں کے لیے لذیذ لقمہ بن جاتا ہے۔
اسی حالت میں قبیلہ طی کے ایک شخص نے پیغمبر کو خبر دی کہ ”بنی اسد“ مدینہ پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کے مال کو لوٹنے کے لیے بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ رسول خدا نے ابو سلمہ کو سردار لشکر بنایا اور پرچم ان کے ہاتھ میں دے کر ایک سو پچاس مجاہدین کو ان کے ہمراہ کیا اور حکم دیا کہ راتوں کو خفیہ راستوں سے سفر کریں اور دن میں پناہ گاہوں میں سو جائیں۔ اور دشمن کے سروں پر اچانک بجلی کی طرح گر پڑیں تاکہ دشمن کو دوسرے قبیلوں سے مدد لینے کی فرصت نہ مل سکے۔ ابو سلمہ، حضرت کے حکم کے مطابق روانہ ہوئے اور مدینہ سے ۳۳۰ کلومیٹر کی دوری پر مقام ”قطن“ کے اطراف میں پہنچے وہاں ان کو پتہ چلا کہ دشمن ڈر کے مارے بھاگ گئے ابو سلمہ نے اونٹوں اور بھیڑوں کے ایک باقی ماندہ گلہ کو جمع کیا اور وہ بہت زیادہ مالِ غنیمت لے کر مدینہ پلٹ آئے، احد کے بعد اس کامیابی کا یہودیوں اور منافقین پر مثبت اثر ہوا دشمن کے اوپر منہ توڑ حملہ کرنے والے اور ہم پیمان قبیلہ کے لیے دفاعی تکیہ گاہ کے عنوان سے لشکر اسلامی دوبارہ نمایاں ہوا۔ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۴۰)
سریہ عبداللہ بن انیس انصاری
تاریخ دو شنبہ ۵ محرم سنہ ۴ ہجری قمری کو
رسول خدا کو خبر ملی کہ ”سفیان بن خالد“ نے مقام ”عرنہ“ میں جانبازان اسلام سے لڑنے کے لیے کچھ لشکر آمادہ کر رکھا ہے۔ رسول خدا نے اس جنگی سازش کو ناکام بنانے کے لیے عبداللہ بن انیس کو حکم دیا کہ عرنہ جائیں اور اس کو قتل کر دیں۔
عبداللہ کہتے ہیں: کہ اس ذمہ داری کے بعد میں نے تلوار سنبھالی اور چل پڑا یہاں تک عصر کے وقت اس کے قریب پہنچ گیا۔ جب اس کے نزدیک گیا تو اس نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے کہا کہ
”قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ہوں۔ میں نے سنا ہے ہے تم مسلمانوں سے جنگ کے لیے لشکر جمع کر رہے ہو، میں تم سے ملنے آیا ہوں۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ اس طرح ہم اس کے ساتھ چلتے رہے یہاں تک کہ جب وہ بالکل تنہا ہوگیا اور ہم نے اس پر مکمل طور پر دسترس حال کرلی تو ہم نے تلوار سے حملہ کرکے اس کو قتل کر دیا جب رسول خدا کے پاس پہنچے تو انہوں نے فرمایا ہ ”ہمیشہ سرخ رو اور سر بلند رہو۔“ (طبقات ابن سعد ج۲ ص ۵۱)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای