جنگ کے خاتمہ اور میدان جنگ کے خالی ہو جانے کے بعد قریش کی اوباش عورتیں اور مشرکین کے سپاہی، شہیدوں کے پاکیزہ اجسام کی رف بڑھے اور اپنے انتقام کی آگ کو بجھانے کے لیے انہوں نے لرزا دینے والے مظالم کئے، شہیدوں کے طاہر جسم کو مثلہ کر دیا، ابوسفیان کی بیوی ہند، ان کی عورتوں کی پیشرو تھی اور اس نے جناب حمزہ اور تمام شہیدوں کے اعضا کاٹ کر گلوبند اور دست بند بنالیا تھا۔ جب ہند جناب حمزہ کے جسد اطہر کے پاس پہنچی تو اس نے ان کے سینہ کو چاک کرکے ان کا جگر نکال کر دانت سے چبانا چاہا لیکن اس کو چبا نہ سکی آخر میں اس نے زمین پر پھینک دیا۔
اس بدترین جرم کے ارتکاب کے بعد وہ ”ہند جگر خوار“ کے نام سے مشہور ہوگئی۔
بجز حنظلہ جن کا باپ (ابوعامر) سپاہ مشرکین میں تھا، تمام شہیدوں کے جسم کو مثلہ کر دیا گیا۔ (سیرة حلبی ج۲ ص ۲۴۴)
طرفین کے نقصانات کا تخمینہ
جنگ احد میں مسلمانوں کی طرف سے ستر آدمیوں نے جام شہادت نوش فرمایا اس میں سے چار افراد ہاجرین اور بقیہ انصار میں سے تھے۔ تقریباً ستر افراد زخمی ہوئے۔ مشرکین میں سے ۲۲ سے ۲۶ افراد تک ہلاک ہوئے جن میں آدھے افراد شمشیر علی علیہ السلام سے قتل ہوئے تھے۔ (ارشاد مفید ص۴۳)
مفہوم شہادت
منافقین مدینہ میں سے ”قرمان“ نامی ایک شخص جب رسول خدا کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ”جہنمی ہے۔“
جب جنگ احد چھڑی تو قرمان لشکر اسلام سے روگردانی کرکے عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین سے جاملا۔ جب وہ مدینہ آیا تو عورتوں نے اس کی سرزنش کی اس کو غیرت محسوس ہوئی اور وہ اسلحہ سج کر احد کی طرف روانہ ہوا اس نے مردانہ وار جنگ کی اور نہایت شجاعت اور دلیری کے ساتھ چند مشرکین کو قتل اور زخمی کیا۔ جنگ کے آخری لمحات میں بہت زیادہ زخمی ہو کر میدانِ جنگ میں زمین پر گر پڑا مسلمان اس کی طرف دوڑے اور کہا۔ شہادت تمہیں مبارک ہو۔ اس نے کہا کہ میں کیوں خوش ہوں؟ میں نے صرف اپنے قبیلہ کے شرف کے لیے جنگ کی ہے اگر میرا قبیلہ نہ ہوتا تو میں جنگ نہ کرتا۔ زخموں کے درد کو اس سے زیادہ تحمل نہ کرسکا۔ لہٰذا ترکش سے ایک تیر نکال کے اس نے خودکشی کرلی۔ (مغازی ج۱ ص ۲۲۳، ۲۲۴)
نفسیاتی سرد جنگ
لوگوں کے افکار و عقائد میں نفوذ کرنے کے لیے مساعد حالات کی ضرورت ہوتی ہے اور افکار کے نفوذ اور تخریب کاری کے لیے شکست اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے والے زمانہ جیسا مناسب اور کوئی زمانہ نہیں ہے موقع کی تلاش میں رہنے والے دشمن نے اس اصل پر تکیہ کرتے ہوئے شکست کے آخری لمحات کو اپنے عقائد کی نشر و اشاعت کے لیے غنیمت سمجھا اور اسلام مخالف نعروں کے ذریعہ سادہ لوح افراد کو دھوکہ دینے اور انہیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے کہ یہ ایسا موقع ہے جب غلط پروپیگنڈہ نہایت آسانی کے ساتھ شکست خوردہ قوم کے دلوں میں اثر کرسکتا ہے۔
ابوسفیان اور عکرمہ بن ابی جہل نے ”اعل ھبل“ ھبل سرفراز رہے کا نعرہ بلند کیا۔ یعنی ہمارے بتوں نے ہم کو کامیاب کیا۔
رسول خدا نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم کہو ”اللہ اعلیٰ واجل“ خدا برتر اور بزرگ ہے۔ مشرکین کے نعرے بدل گئے ابوسفیان نے چلانا شروع کیا ”نحن لنا العزی ولاعزی لکم“ ہمارے پاس عزیٰ نامی بت ہے۔ لیکن تمہارے پاس نہیں ہے۔ رسول خدا نے فرمایا کہ تم بھی بلند آوا سے کہو ”اللہ مولانا و لامولیٰ لکم“ اللہ ہمامرا مولا ہے اور تمہارا کوئی مولا نہیں ہے۔
مشرکین کا نعرہ دوبارہ بدل گیا ابوسفیان نے نعرہ بلند کیا کہ: یہ دن روز بدر کا بدل ہے“ مسلمانوں نے پیغمبر کے حکم سے کہا کہ یہ دونوں دن آپس میں برابر نہیں ہیں۔ ہمارے مقتولین بہشت میں اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ: ہمارا اور تمہارا آئندہ سال مقام بدر میں وعدہ رعا۔ (بحارالانوارج۲۰ ص۲۴)
کہاں جا رہے ہو؟
جنگ کی آگ بجھ گئی، دونوں لشکر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ مشرکین کے لشکر نے کوچ کا ارادہ کیا پیغمبر سوچنے لگے، دیکھیں یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ آیا یہ لوگ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں یا مکہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ موضوع واضح ہونے کے لیے رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ: اے علی تم جا کر دشمن کی خبر لاؤ اگر تم نے دیکھا کہ یہ لوگ کھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں اور اونٹوں کو کھینچتے ہوئے لے جاتے ہیں تو سمجھنا کہ مدینہ پر حملہ کا قصد ہے۔ اس صورت میں خدا کی قسم ہم ان سے لڑیں گے اور اگر وہ اونٹوں پر سوار ہوےء اور گھوڑوں کو کھینچت ہوئے لے لے تو سمجھنا کہ مکہ جانے کا ارادہ رکھت ہیں۔
حضرت عی دور سے دشمن کی تاک میں تے اور دیکھ رہے تے کہ وہ اونٹوں پر سوار ہوگئے۔ اور اپنے دیار کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
(بحارالانوار ج۲۰ ص۹۷)