علی علیہ السلام نے پھر نئے پرچم دار پر حملہ کیا اور و بھی اپنے گندے خون میں لوٹنے لگا۔ رسول خدا کے حکم سے عام حملہ شروع ہوا مجاہدین اسلام ایسی شجاعت سے لڑ رہے تھے جن کی تعریف بیان سے باہر ہے۔ اور اسی درمیان چند افراد جیسے علی، حمزہ اور ابودجانہ بے خونی کی عظیم مثال تاریخ بشریت میں ثبت کرتے جا رہے تھے۔ سپاہ دشمن پر بجلیاں گرا رہے تھے ان کی تمام ت کوشش یہ تھی کہ پرچم داروں کے پیر اکھاڑ دیں، جنگ زیادہ تر اسی حصہ میں ہو رہی تھی اس لیے کہ اس زمانہ میں پرچم کا سرنگوں ہو جانا شکست کے برابر اور خاتمہٴ جنگ سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے مشرکین کے پرچم دار اپنی انتہائی شجاعت کا مظاہرہ کر رہے تھے اور بنی عبدالدار کے قبیلہ کے افراد نہایت غیظ و غضب کے عالم میں اپنے پرچم دار کے اردگرد جنگ کر رہے تھے اور جب کوئی پرچم دار قتل ہو جاتا تھا تو احتیاطی فوجیں بلافاصلہ جلدی سے بڑھ کر پرچم کھول دیتی تھیں اس درمیان دشمن کے شہ سواروں نے تین مرتبہ سپاہیان اسلام کے محاصرہ کو توڑنا چاہا اور ہر بار عبداللہ بن جبیر کے لشکر نے مردانہ وار نہایت بہادری اور تیر اندازی کے ذریعہ ن کو پیچھے دھکیل دیا۔
علی علیہ السلام کی تلوار، حمزہ کی دلیری اور عاصم بن ثابت کی تیر اندازی سے ”بنی عبدالدار“ کے پرچم داروں میں سے نو افراد یکے بعد دیگرے قتل ہو گئے تھے رعب و وحشت نے مشرکین کے سپاہیوں کو گھیر رکھا تھا۔ آخری بار انہوں نے صواب نامی غلام کو پرچم دیا۔ صواب سیاہ چہرہ اور وحشت ناک ہیولے کے ساتھ پیغمبر کی طرف بڑھا آنکھیں سرخ تھیں اور منہ سے کف جاری تھا۔ لیکن علی علیہ السلام نے اس پر حملہ کیا اور تلوار کی ایسی ضربت اس کی کمر پر لگائی کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔
مسلمانوں نے مشرکین کی صفوف کو درہم برہم کر دیا وہ عورتیں، جو دف بجا رہی تھیں اور گانے گا رہی تھیں، دف پھینک کر پہاڑوں کی طرف بھاگیں، مشرکین کے لشکر میں فرار اور شکست کے آثار رونما ہوگئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان میں سے زیادہ تر لوگ بھاگ گئے اور اس طرح جنگ کا پہلا مرحلہ مشرکین کی شکست اور مجاہدین اسلام کی کامیابی پر تمام ہوا۔
فتح کے بعد شکست
راہ خدا میں جہاد، رضائے خدا کا حصول اور آئین اسلام کی نشر و اشاعت کے علاوہ مجاہدین اسلام کا کوئی اور مقصد نہ تھا وہ آخری وقت تک بہادری کے ساتھ جنگ کرتے رہے اور نتیجہ میں فتح یاب ہوئے۔ لیکن فتح کے بعد بہت سے مسلمان اس مقصد سے ہٹ گئے اور ان کی نیت بدل گئی۔ قریش نے جو مال غنیمت چھوڑا تھا اس نے بہت سے لوگوں کے اخلاص کی بنیادیں ہلا دیں، انہوں نے فرمان رسول خدا اور اپنے جنگ کے مقصد کو بھلا دیا۔ دشمنوں کے تعاقب سے چشم پوشی کرکے مالِ غنیمت کی جمع آوری میں مشغول ہوگئے۔ انہوں نے اپنی جگہ یہ سوچ لیا تھا کہ کام ختم ہوگیا۔
درہ کی پشت پر جو نگہبان موجود تھے انہوں نے جب مجاہدین کو مالِ غنیمت جمع کرتے دیکھا تو جنگی حکمت عملی کے اعتبار سے اس اہم درہ کی حفاظت کی اہم ذمہ داری کو بھلا دیا اور کہا کہ: ہم یہاں کیوں رکے رہیں؟ خدا نے دشمن کو شکست دی اور اب تمہارے بھائی مالِ غنیمت جمع کر ہے ہیں۔ چلو تاکہ ہم بھی ان کے ساتھ شرکت کریں۔ عبداللہ ابن جبیر نے یاد دلایا کہ کیا رسول خدا نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اگر ہم قتل کر دیئے جائیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور اگر ہم کامیاب ہوگئے اور مالق غنیمت جمع کرنے لگے جب بھی ہمارے ساتھ شرکت نہ کرنا اور پس پشت سے ہماری حفاظت کرتے رہنا؟ عبداللہ نے ان کو بہت سمجھایا کہ تم کمانڈر کے حکم سے سرتابی نہ کرو لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے غنیمت کے لالچ میں اپنی جگہ کو چھوڑ دیا اور اس سے دور نکل آئے عبداللہ صرف دس افاد کے ساتھ وہاں باقی رہ گئے۔
خالد بن ولید نے جو کہ دشمن کی فوج کے شہ سواروں کا سردار تھا۔ جب درہ کو خالی دیکھا تو اس نے اپنے ماتحت فوجیوں کو لے کر حملہ کر دیا اور چند بچے ہوئے تیر اندازوں پر ٹوٹ پڑا عکرمہ بن ابی جہل نے اپنی ٹولی کے ساتھ خالد بن ولید کی پشت پناہی کی، جن تیر اندازوں نے درہ نہیں چھوڑا تھا انہوں نے مردانہ وار مقابلہ کیا یہاں تک کہ ان کے ترکش کے تمام تیر خالی ہوگئے، اس کے بعد انہوں نے نیزے پھر شمشیر سے جنگ کی۔ یہاں تک کہ سب شہید ہوگئے۔
جب سپاہیانِ اسلام یہاں اطمینان کے ساتھ مالِ غنیمت جمع کرنے میں مشغول تھے۔ اس وقت خالد بن ولید لشکر اسلام کی پشت پر تھا۔ ایک طرف مشرکین اپنے فرار کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ اس نے جنگی حکمت عملی والے اہم حصہ کو فتح کرلیا تھا وہ چلا چلا کر شکست خوردہ لشکر قریش کو مدد کی دعوت دے رہا تھا۔ اسی ہنگام میں بھاگنے والوں کی عورتوں میں ایک عورت نے کفر کے سرنگوں پرچم کو لہرا دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد قریش کا بھاگا ہوا لشکر واپس آگیا اور شکست خوردہ لشکر پھر سے منظم ہوگیا۔
سپاہ اسلام افراتفری اور بدنظمی کی وجہ سے تھوڑی ہی دیر میں سامنے اور پیچھے سے محاصرہ میں آگئی اور پھر نئے سرے سے دو لشکروں کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔
مسلمان حواس باختہ ہوگئے اور اس طرح وہ دشمن کے ہاتھ سے مارے گئے۔ اور بدحواسی کے عالم میں نہ پہچاننے کی بناء پر ایک دوسرے کو بھی مار دیتے تھے۔
اس غیر مساوی جنگ کے ہلڑ ہنگامہ میں جو دوبارہ شروع ہو چکی تھی ابن قمہ نے اسلام کے لشکر کے افسر مصعب بن عمیر پر حلہ کر دیا جو پیغمبر کا دفاع کر رہے تھے اور وہ خدا سے عہد و پیمان کی راہ میں اپنے خون میں غلطاں ہوگئے۔
مصعب نے لڑائی کے وقت اپنے چہرہ کو چھپا رکھا تھا تاکہ وہ پہچانے نہ جائیں۔ ابن قمہ نے سوچا کہ اس نے پیغمبر کو قتل کر دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ چلایا کہ… اے لوگو! محمد قتل کر ڈالے گئے۔ اس خبر سے قریش اس قدر خوش تھے کہ آپس میں شور و غل مچا کر کہہ رہے تھے۔ محمد قتل ہوگئے، محمد قتل ہوگئے۔
(مغازی ج۱ ص ۲۲۹، ۲۳۲)
اس بے بنیاد خبر کا پھیلنا دشمن کی جرأت کا باعث بنا اور لشکر قریش سیلاب کی طرح امنڈ پڑا اور مشرکین کی عورتوں نے مصعب کے جسم پاک اور شہداء میں سے بہت سے افراد کے جسد اطہر کو مثلہ کر دیا۔
دوسری طرف اس خبر نے جنگ کی حالت میں مجاہدین اسلام کو بہت بڑا روحانی صدمہ پہنچایا وہ اس طرح کہ اکثر لوگوں نے ہاتھ روک لیا اور پہاڑ پر پناہ لینے کے لیے بھاگ گئے۔ بعض ایسے حواس باختہ ہوئے کہ انہوں نے یہ سوچا کہ کسی کو فوراً مدینہ میں عبداللہ بن ابی کے پاس بھیجیں تاکہ وہ واسطہ بن جائے اور قریش سے ان کے لیے امان مانگے۔ پیغمبر مسلمانوں کو اپنی طرف بلا رہے تھے۔ اور فرماتے تھے اے بندگان خدا! میری طرف آؤ۔ اے فلاں فلاں تم میری طرف آؤ۔ لیکن اس دستہ نے اپنی جان بچائی جس کے پاس ایمان نہیں تھا اور جیسے بھاگ رہا تھا ویسے ہی بھاگتا رہا۔ ان میں سے بعض پہاڑ پر بھاگتے وقت اپنے خیال میں وعدہٴ فتح سے بدگمان ہوگئے اور جاہلی افکار نے ان کا پیچھا کرنا شروع کیا بعض نے قرار پر فرار کو ترجیح دی اور مدینہ چلے گئے اور تین دن تک اپنے آپ کو چھپائے رکھا۔
(تاریخ کامل ج۲ ص ۱۰۹)