غزوہ بنی قینقاع
بدر کی زبردست لڑائی نے اس علاقہ کے جنگی توازن کو مسلمانوں کے نفع میں بدل دیا۔ اس جنگ کے بعد منافقین اور یہودی مسلمانوں کی اس فتح مبین پر رشک کرنے لگے اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی ترقی سے سخت خائف تھے۔ انہوں نے جو معاہدے رسول خدا سے کر رکھے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں اور اسلام کو بدگوئی اور دشنام طرازی کا نشانہ بنایا اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے قریش کو مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے بھڑکانے لگے۔ ان کے شعراء نے اپنے ہجویہ قصیدے میں مسلمان عورتوں کے وصف کو کفار کے لیے بیان کرکے مسلمانوں کے ناموس کی زبردست اہانت کی۔
رسول خدا نے ”مفسدین فی الارض“ (زمین پر فساد پھیلانے والوں) کے لیے قتل کا حکم صادر فرمایا اور وہ لوگ قتل کر دیئے گئے۔
(طبقات ابن سعد ج۲ ص ۲۷،۲۸)
پیغمبر اکرم بخوبی جانتے تھے کہ یہودی، آئندہ انتقامی جنگ میں مدینہ سے باہر کے دشمنوں کے لیے راستہ ہموار کریں گے اور اسلام پر پس پشت سے خنجر کا وار کریں گے۔ اس لیے آپ اس مشکل سے بچنے کے لیے راستہ ڈھونڈتے رہے اور سیاسی و دفاعی طاقت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش فرماتے رہے۔
مدینہ کے یہودیوں میں بنی قینقاع کے یہودیوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر پیغمبر کے خلاف پروپیگنڈہ کی سرد جنگ چھیڑ رکھی تھی اور انہوں نے توہین آمیز اور ضرر رساں نعرے بلند کرکے عملی طور پر اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا تھا۔
رسول خدا نے ان پر حجت تمام کرنے کی غرض سے بازار بنی قینقاع کے بڑے مجمع میں اپنی تقریر میں ان کو نصیحت کی اور اس عمومی معاہدے پر کاربند رہنے کی تاکید فرمائی جو طرفین کے درمیان ہوا تھا اور فرمایا کہ ”قریش کی سرگذشت سے عبرت حاصل کرو اس لیے کہ مجھ کو یہ خوف ہے کہ جس سیلاب بلانے قریش کو اپنی لپیٹ میں لے یا تھا اس سے تم بھی محفوظ نہیں رہ سکو گے۔ لیکن پیغمبر کی نصیحتیں یہودیوں کیل یے بے اثر تھیں انہوں نے گستاخانہ انداز میں کہا کہ ”اے محمد آپ نے ہمیں قریش سمجھ رکھا ہے؟ ناتجربہ کاروں سے جنگ میں کامیابی کے بعد آپ مغرور ہو گئے ہیں (معاذ اللہ) خدا کی قسم! اگر ہم جنگ کے لیے اٹھے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم مرد میدان ہیں یا کوئی اور؟
رسول خدا ان تمام گستاخیوں اور جسارتوں کے باوجود اپنے غصہ کو پی گئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا مسلمانوں نے بھی بردباری سے کام لیا تاکہ وہ دیکھیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟
ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایک مسلمان عورت بنی قینقاع کے بازار میں گئی، کچھ زیورات خریدنے کی غرض سے ایک سنار کی دکان کے سامنے بیٹھ گئی، یہودیوں نے چاہا کہ اس کا چہرہ کھول دیں، لیکن عورت نے انکار کیا، ایک یہودی نے اس عورت کی لاعلمی میں اس کے کپڑے کے کنارہ کو ”آہستہ سے “ اس کی پشت پر باندھ دیا، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کا جسم عریاں ہوگیا تمام یہودی ہنسنے لگے، عورت نے فریاد شروع کی اور مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ایک مسلمان نے اس یہودی کو جس نے یہ حرکت کی تھی قتل کر ڈالا، یہودیوں نے بھی حملہ کرکے اس مسلمان کو قتل کر ڈالا۔
مسلمان خون کا انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بات بڑھ گئی بنی قینقاع کے یہودیوں نے دکانیں بند کردیں اور اپنے قلعوں میں چھپ گئے۔
رسول خدا نے ”ابولبابہ“ کو اپنی جگہ معین فرمایا، اور انہوں نے لشکر اسلام کے ہمراہ ۱۵ شوال بروز شنبہ سنہ ۲ ہجری (بدر کے ۸ دن بعد) بنی قینقاع کے قلعہ کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے تنگ آکر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالہ کر دیا۔ رسول خدا نے منافقین کے لیڈر ”عبداللہ بن ابی“ کے بڑے اصرار اور سماجت کی وجہ سے ان کے قتل سے درگذر کیا اور ان کو شام کے مقام ”اذراعات“ میں شہر بدر کر دیا، ان کے اموال کو مسلمانوں کے لیے مالِ غنیمت قرار دیا اور خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔
(حوالہ سابق ج۲ ص ۲۷)
حضرت فاطمہ زہرا کا حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ عقد
اسلام کی واحد عظیم خاتون حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا عقد ہجرت کے دوسرے سال بدر کی لڑائی کے دو ماہ بعد حضرت علی علیہ السلام سے ہوا۔
شادی کے مراسم نہایت سادہ مگر معنوی شان و شوکت کے ساتھ منعقد ہوئے، حضرت فاطمہ زہراء کا مہر ۵۰۰ درہم تھا۔ حضرت علی نے اپنی زرہ چار سو درہم میں فروخت کی اور مہر کے ایک حصہ کے عنوان سے رسول کی خدمت میں درہم پیش کیے۔
حضرت نے اس میں سے کچھ پیسے اپنے اصحاب کو دیئے تاکہ وہ بازار سے حضرت زہراء کے جہیز کا سامان خرید لائیں۔
انہوں نے بازار سے مندرجہ ذیل چیزیں جہیز کے لیے خریدیں:
سات درہم کا ایک پیراہن
ایک اوڑھنی ”روسری“
ایک کالی چادر ”قطیفہ“
ایک عربی چارپائی جو لکڑی اور لیف خرمہ کی بنی ہوئی تھی۔
دو تشک جس کا اوپری حصہ کتان مصری کا بنا ہوا تھا اور اس میں سے ہر ایک توشک میں لیف خرما اور اون بھرا ہوا تھا۔
چار تکئے جس میں دو پشمی اور دوسرے دو تکئے خرمے کی چھال سے بھرے گئے تھے۔
پردہ
چٹائی
چکی (ہاتھ سے چلانے والی)
ایک بڑا طشت
کھال کی ایک مشک
ایک لکڑی کا پیالہ (دودھ کے لیے)
ایک مشک
لوٹا
چند بڑے برتن
چند مٹی کے کوزے
چاندی کا دست بند
رسول کے اصحاب جب بازار سے لوٹے تو انہوں نے سامان حضور کے سامنے رکھا آپ نے جب اپنی بیٹی کا جہیز دیکھا تو فرمایا ”خدایا ان لوگوں کی زندگی کو مبارک قرار دے جن کے زیادہ تر ظروف مٹی کے ہیں۔ (کشف الغمہ ج۱ ص ۳۵۹)
اس بابرکت شادی کا پہلا ثمرہ حرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام ہیں آپ ۱۵ رمضان المبارک تیسری ہجری کو جنگ احد سے پہلے متولد ہوئے۔
(کشف الغمہ ج۱ ص ۳۷۴)
غزوہٴ سویق
پانچ ذی الحجہ سنہ ۳ ہجری ق، مطابق ۱۵ خرداد سنہ ۳ ہجری ش، بدر کی لڑائی کی ذلت آمیز شکست کے بعد ابوسفیان نے یہ نذر کی کہ جب تک میں محمد سے جنگ نہیں کرلیتا اور بدر کا انتقام نہیں لے لیتا اس وقت تک عورتوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ لہٰذا اس نے قبیلہ، قریش کے دو سو، سواروں کو جمع کرکے مدینہ کی جانب کوچ کیا۔
چونکہ دو سو، سواروں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں تھی اس لیے شہر سے دور اس نے لشکر روکا اور تاریکی شب سے فائدہ اٹھا کر ”سلام بن مشکم“ کے پاس پہنچا جو کہ بنی نضیر کا ایک بڑا آدمی تھا۔ اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے دفاعی مقامات کی کمزوری سے آگاہ کیا۔
ابو سفیان اپنے لشکر گاہ کی طرف پلٹ آیا اور وہ اپنے کچھ سپاہیوں کے ساتھ حملہ کرتے ہوئے مدینہ کی طرف بڑھا اور ”عریض“ نامی جگہ کو لوٹ لیا، دو گھروں، چار درختوں اور کھیتوں میں آگ لگا دی اور نخلستان میں کام کرنے والے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔
جب دشمنوں کے تجاوز کی خبر پیغمبر کو پہنچی تو آپ نے بغیر تاخیر کے ”ابولبابہ“ کو اپنی جانشینی میں مدینہ میں چھوڑا اور مہاجرین و انصارف میں سے دو سو آدمیوں کا لشکر لے کر دشمن کے تعاقب میں نکل پڑے رسول خدا نے ”قرقرة الکدر“ تک دشمن کا پیچھا کیا لیکن دشمن فرار ہو چکا تھا اور بھاگتے ہوئے ”سویق“ کے تھیلے کو گراں باری سے بچنے کے لیے راستہ ہی میں پھینک گیا تھا۔ اس وجہ سے یہ غزوہ، غزوہ سویق کے نام سے مشہور ہوا۔(مغازی ج۱ ص ۱۸۱)
غزوہٴ بنی سلیم
۱۵ محرم سنہ ۳ ہجری مطابق ۲۴ تیر ماہ سنہ ۳ ہجری شمسی، رسول خدا کی خدمت میں یہ خبر پہنچی کہ غطفان و بنی سلیم مکہ اور شام کے درمیان بخاری کے راستہ میں ”اطراف قرقرة الکدر‘و میں مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
رسول خدا دو سو افراد کے ساتھ ان کی طرف بڑھے دشمن نے جب لشکر اسلام کو اپنے وزدیک ہوتے ہوئے حسوس کیا تو تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا۔
لشکر اسلام نے دشمنوں کے پانچ سو اونٹ غنیمت میں حاصل کئے اور مدینہ کی طرف لوٹ گیا۔
قردة میں سریہ زید بن حارثہ
یکم جمادی الثانی ۳ ھ ق، مطابق یکم آذر سنہ ۳ھ، ش، جنگ بدر اور یثرب میں تحریک اسلامی کے نفوذ کے پھیلاؤ کے بعد، قریش کا مغربی تجارتی راستہ جو مکہ سے شام کی جانب جاتا تھا غیر محفوظ ہوگیا۔ قریش نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے اور اپنے قافلہ کے تحفظ کے لیے وہ اس راسطہ کو چھوڑ دیں گے اور طولانی، مشرقی راستہ طے کر یں گے۔ یہ راستہ نجد کی آبادیوں سے ہو کر، عراق سے شام جاتا تھا۔ انہوں نے اس راستہ سے گزرنے کے لیے ایک ”رہنما“ کا انتظام کیا۔
پہلا قافلہ جو اس راستہ سے شام گیا وہ صفوان بن امیہ اور دوسرے رہبران قریش کی رہبری میں گیا تھا۔
رسول خدا اس قافلہ کی روانگی سے آگاہ ہو گئے اور انہوں نے بلاتاخیر سو سواروں پر مشتمل ایک مضبوط لشکر تشکیل دیا اور زید بن حارثہ کو اس کا کمانڈر مقرر فرمایا تاکہ اس نئے راستے پر پہلے سے پہنچ کر قریش کے قافلہ کا راستہ بند کر دیں۔ جناب زید نجد کی طرف گئے اونٹوں کے نشان قدم کے ذریعے قافلہ کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ مقام قردة تک پہنچے اور کارواں کو جا لیا۔
قافلہ کے نگراں اور سربراہ افراد بھاگ کھڑے ہوئے اور پورا قافلہ بلا مقابلہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا اور قافلہ کے دو نگہبان اسیر ہوئے۔
خمس نکالنے کے بعد بقیہ مال جو کہ اسی ہزار درہم تھے اس جنگی گروہ کے سپاہیوں کے درمیان تقسیم ہوا۔ (مغازی ج۱ ص ۱۹۷)
غزوہ غطفان
نجد میں ذی امر کے مقام پر ریاض سے ۱۱ کلومیٹر شمال مغرب میں ۱۲ ربیع الاول سنہ ۳ھ، ق مطابق ۱۴ شہر یور سنہ ۳، ھ کو یہ غزوہ ہوا۔
رسول خدا کو خبر ملی کہ ”بنی ثعلبہ“ اور ”بنی محارب“ کی ایک بڑی جمعیت نے مقام ذی امر میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور ”عشور“ نامی شخص کی قیادت میں مدینہ پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں رسول خدا چار سو پچاس جنگجو افراد کو جمع کرکے دشمن کی طرف بڑھے۔ دشمن یہ اطلاع ملتے ہی پہاڑیوں میں بھاگ گئے اور کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔
جنگ احد کے مقامات
شنبہ ۷ شوال سنہ ۳ھ، ق، مطابق ۶ فروردین سنہ ۴ھ ش، میں جنگ شروع ہونے کے اسباب۔ یہاں مرکز اسلام ”مدینہ“ پر لشکر قریش کے جنگی حملہ کے اسباب کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا جا رہا ہے۔
جنگ بدر میں مسلمانوں کی شاندار فتح قریش اور یہود و منافقین کے لیے باعث ننگ اور ناگوار خاطر تھی۔ قریش نے نہص رف یہ کہ اپنے ان سربرآوردہ افراد کو بلکہ اپنی سرداری ہیبت اور اس نفوذ کو جو عرب کے درمیان تھا اپنے ہاتھوں گنوا دیا تھا جاہل عرب کے لیے جو اپنی سرداری کو اپنا ”جھوٹا“ قومی افتخار سمجھتے تھے بڑے رنج کا باعث تھا۔
قریش اور ان کے کشتوں کے وارثوں کے دلوں میں کینہ اور انتقام کی آگ شعلہ ور تھی اور قریش کے سرداروں نے کشتگان بدر پر رونے کو حرام رقار دیا تھا تاکہ مناسب موقع سے ان کے جذبات کے آتش فشانوں کے پھٹنے سے منظم طریقہ سے اسلام کے خلاف مسلمانوں سے انتقام لیا جاسکے۔
یہودیوں کے لیے اسلام کا پھیلنا خوش آئند نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے مشرکین قریش کو بھڑکانے میں بڑا زبردست رول ادا کیا۔ بطور نمونہ ملاحظہ ہو۔ کعب بن اشرف بدر کے بعد مکہ سے مدینہ کی طرف دوڑا اور وہاں اس نے قریش کے مقتولین کے لیے شعر پڑھا اور مگر مچھ کے آنسو بہا کر ان کے مقتولوں کا داغ تازہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے اس نے پاک باز مسلمان عورتوں کے ساتھ جنگ کرنے اور ان کی عورتوں اور لڑکیوں کو اسیر بنانے پر آمادہ کرے۔
اقتصادی محاصرہ کی لائن کا توڑنا ۔ قریش کا اقتصادی نظام تجارت کے پایہ پر استوار تھا، تجارتی راستوں کے غیر محفوظ ہونے اور مسلمانوں کے حملہ کے ڈر سے ان کی تجارت خطرے میں پڑ گئی تھی اور ان کے لیے اقتصادی نظام کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس لیے اس محاصرہ کو توڑنا اور خود کو اس تنگی سے باہر نکالنا بہت ضروری تھا۔
آئندہ کے لیے پیش بندی و قریش اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر مسلمانوں کو قدرت حاصل ہوگئی تو وہ ان کو نہ چھوڑیں گے اور قریش کی اذیتوں اور عداوتوں کا چند برسوں میں ضرور جواب دیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ان کو معلوم تھی کہ بت پرستوں کے ہاتھوں سے مسجد الحرام کو آزاد کرانے کے لیے وہ کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کریں گے۔
یہ ساری باتیں سبب بنیں کہ قریش حملہ میں پیش قدمی کریں تاکہ اپنے خیال سے وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کا کام تمام کر دیں۔
پہلا قدم، جنگی بجٹ کی فراہمی
اس وسیع جنگی منصوبہ میں پہلا عملی قدم حملوں کی تیاری کے لیے زیادہ سے زیادہ بجٹ فراہم کرنا تھا، قریش، دارالندوہ ”قریش کے مشورہ کرنے کی جگہ“ میں جمع ہوئے اور بحث و مباحثہ کے بعد یہ طے پایا کہ پچاس ہزار طلائی دینار اس حملہ کے لیے جمع کئے جائیں۔ یہ بجٹ اس تجارتی کارواں کے منافع سے مہیا کیا جائے جس کو بدر سے پہلے ابوسفیان مکہ میں صحیح و سالم لے آیا تھا۔ (مغازی)
قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے کہ بیشک کافرین اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں تاکہ ’ہلوگوں کو“ خدا کے راستہ سے باز رکھیں وہ لوگ ان اموال کو خرچ کر رہے ہیں لیکن یہ ان کی حسرت کا باعث ہوگا۔
اس کے بعد ان کو شکست ہوگی اور اس دنیا میں کافر جہنم میں جائیں گے۔
(انفال آیت:۳۶)
قوتوں کی جمع آوری
کفار قریش، جنھوں نے نزدیک سے اسلامی سپاہیوں کی شجاعت اور جذبہٴ شہادت کو دیکھا تھا، انہوں نے یہ تہہ کیا کہ پوری توانائی کے ساتھ جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور قریش کے علاوہ مکہ کے اطراف و جوانب کے دوسرے قبائل عرب کے بہادروں کو بھی اس جنگ میں شریک کریں۔ چار آدمیوں کو انہوں نے بادیہ نشین عرب قبائل کے درمیان بھیجا تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر لڑنے اور مدد کرنے کی دعوت دیں، یہ چار آدمی، عمرو بن عاص ہبیرہ بن ابووہب، ابن الزبعری“ اور ابوعزہ“ تھے۔
ابوعزہ شروع میں اس ذمہ داری کو قبول نہیں کر رہا تھا وہ کہتا تا کہ ”جنگ بدر“ کے بعد محمد نے تنہا مجھ پر احسان کیا اور مجھ کو بغیر تاوان کے آزاد کر دیا میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مقابل میں آنے والے کسی بھی دشمن کی میں مدد نہیں کروں گا۔ میں اپنے پیمان کا وفادار ہوں۔
لیکن لوگوں نے اس کو قانع کر دیا اور وہ بادیہ نشین قبائل کے درمیان چلا گیا۔ وہاں اس نے شعر پڑھ پڑھ کر لوگوں کو رسول خدا کے ساتھ لڑنے کے لیے آمادہ اور جمع کیا۔ دوسرے تین آدمیوں نے بھی قبائل کو لڑائی پر ابھار کر انہیں جمع کیا، انجام کار قبائل ”کنانہ“ اور ”تہامہ“ کے لوگ رسول خدا سے قریش کے ساتھ مل کر جنگ کرنے پر تیار ہوگئے۔(مغازی ج۱ ص ۲۰۱)
سیاسی پناہ گزین
رسول خدا کی مدینہ ہجرت کے بعد ابو عامر فاسق جو اپنے قبیلہ اوس کے ۵۰ افراد کے ساتھ مشرکین کے سربرآوردہ افراد کی پناہ میں تھا وہ ان افراد کو رسول خدا سے جنگ کرنے پر ابھارتا رہا۔ وہ اپنے قبیلہ کے افراد کے ساتھ مشرکین کی تیاریوں میں شریک تھا اس نے کہا کہ یہ ۵۰ افراد میرے قبیلہ کے ہیں اور جس وقت ہم سرزمین مدینہ پر پہنچیں گے اس وقت قبیلہ اوس کے تمام افراد ہماری طرفداری کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
مدینہ کا قصد
قریش نے مکمل تیاری کے بعد اپنے سپاہیوں کو روانہ کیا یہ لشکر تین ہزار افراد پر مشتمل تھا جس میں سات سو زرہ پوش، دو سو گھڑ سوار اور تین ہزار شتر سوار بے پناہ اسلحہ، اس جنگی قافلہ میں ۱۵ عورتیں شریک تھیں تاکہ گابجا کر ان کے جذبات کو برانگیختہ کریں۔
مشرکین کے لشکر کا سپہ سالار ابوسفیان تھا اور خالد بن ولید نے سواروں کی افسری کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی، عکرمہ بن ابی جھل خالد کے معاون کی حیثیت سے اس بار لشکر مشرکین ہر طرح کے ایسے اختلاف سے اجتناب کر رہا تھا جو ان کو دو گرہوں میں بانٹ دیتا ہے۔
عباس کی رپورٹ
جس وقت سپاہیوں نے کوچ کا ارادہ کیا اس وقت عباس بن عبدالمطلب رسول کے چچا جنہوں نے اپنا اسلام چھپا رکھا تھا اور بہت قریب سے ان کے کوچ کے نگراں اور ان کی تیاریوں کے شاہد تھے۔ ایک خط رسول کو لکھا اور مشرکین سے سپاہیوں کی جنگی حالت کی اطلاع دی۔
عباس نے قبیلہ بنی غفار کے ایک معتمد شخص کے ذریعے وہ خط بھیجا۔ اس فرستادہ نے اتنی تیزی سے راستہ طے کیا کہ مکہ اور مدینہ کے درمیانی فاصلہ کو صرف تین دن میں طے کرلیا۔
جب یہ سوار مدینہ پہنچا تو اس وقت پیغمبر اسلام مقام ”قبا“ میں تھے۔ وہ حضرت کے پاس پہنچا اور اس نے خط دیا۔ رسول خدا نے وہ خط ایک شخص کو دیا تاکہ وہ اسے حضرت کو سنائے پھر آپ نے اس سے فرمایا کہ اس کا مضمون کسی کو بتایا نہ جائے۔
مدینہ کے یہودی اور منافقین اس نامہ بر کے آنے سے آگاہ ہوگئے۔ اور یہ مشہور کر دیا کہ محمد کے پاس بری خبر پہنچی ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں لوگ قریش کی لشکر کشی سے باخبر ہوگئے۔
سپاہ قریش راستہ میں
سپاہ قریش کے ساتھ جو عورتیں تھیں وہ جس منزل پر قیام کرتیں گانا، بجانا شروع کر دیتیں، مقتولین قریش کی یاد دلا کر سپاہیوں کو بھڑکاتی رہتی تھیں، قریش کے سپاہی جہاں کہیں بھی پانی کے کنارے رکتے اونٹوں کو کاٹ کر ان کا گوشت کھاتے۔
(مغازی ج۱ ص ۲۰۵، ۲۰۶)
عمرو بن سالم خزاعی نے مکہ اور مدینہ کے راستہ کے درمیان مقام ”ذی طویٰ“ میں قریش کو خیمہ زن دیکھا، وہ مدینہ آئے اور انہوں نے جو کچھ دیکھا اس کی خبر پیغمبر کو دی۔ (مغازی ج۱ ص ۲۰۵)
اطلاعات کی فراہمی
شب پنجشنبہ ۵ شوال سنہ ۳ھ،ق، کو دو گشتی سراغ رساں ”انس اور مونس‘و فضالہ کے بیٹوں کو دشمنوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کے لیے بھیجا۔ ان دونوں نے قریش کو مقام ”عمیق “ میں دیکھا اور ان کے پیچھے ہو لیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مقام ”وطاء“ میں لشکر کا پڑاؤ ڈالا۔ یہ لوگ وہاں سے پیغمبر کی خدمت میں رپورٹ پیش کرنے کے لیے واپس آگئے۔(مغازی ج۱ ص ۲۰۶)
دشمن کے لشکر کے ٹھہرنے کی جگہ
سپاہ مشرکین نے مقام وطاء میں احد کے نزدیک پڑاؤ ڈالا دشمنوں کے صرف ٹھہر جانے کی بناء پر رسول نے حباب بن منذر کو پوشیدہ طور پر اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ دشمن کی قوت کا اندازہ کریں۔ اور ضروری اطلاعات جمع کرکے اس کی رپورٹ دیں۔ رسول خدا نے اس بات کی تاکید کی کہ اپنی رپورٹ دوسروں کے سامنے بیان نہ کرنا مگر یہ کہ دشمن کی تعداد کم ہو تو اس وقت کوئی حرج نہیں ہے۔
حباب دشمن کے سپاہیوں کے قریب پہنچے اور نہایت دقیق نظر سے ان کا جائزہ لیا، پھر واپس آئے اور پیغمبر سے تنہائی میں ملاقات کی اور کہا کہ حضور میں نے ایک بڑا لشکر دیکھا ہے میرا اندازہ ہے کہ کم و بیش تین ہزار افراد ہیں، دو سو گھوڑے ہیں اور زرہ پوش سپاہیوں کے بارے میں میرا تخمینہ ہے کہ سات سو کے قریب ہوں گے، رسول خدا نے پوچھا کہ ت نے عورتوں کو بھی دیکھا؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسی عورتیں دیکھی ہیں جن کے پاس گانے بجانے کے سامان بھی ہیں، پیغمبر نے فرمایا کہ ”یہ عورتیں مردوں کو لڑائی پر اکسانا اور مقتولین بدر کو انہیں یاد دلانا چاہتی ہیں اس سلسلے میں تم کسی سے کوئی بات نہ کرنا خدا ہماری مدد کے لیے کافی ہے۔ وہ بہترین حفاظت کرنے والا ہے خدایا ہماری روانگی اور ہمارا حملہ تیری مدد سے ہوگا۔(مغازی ج۱ ص ۲۰۷،۲۰۸)
مدینہ میں تیاریاں
شب جمعہ ۶ شوال سنہ ۳ہجری اوس و خزرج کے سربرآوردہ افراد سعد بن معاذ اسید بن حضیر اور سعد بن عبادة چند افراد کے ساتھ مسلح ہو کر مسجد میں اور پیغمبر خدا کے گھر کے دروازے پر نگہبانی کے لیے کھڑے ہوگئے۔
مشرکین کے شب خون مارنے کے خوف سے صبح تک شہر مدینہ کی نگرانی کی جاتی رہی۔
فوجی کمیٹی کی تشکیل
رسول خدا اس فکر میں تھے کہ اگر مسلمان مدینہ میں رہ جائیں اور شہر میں رہ کر دفاع کریں تو مسلمانوں کی قدر و قیمت گر جائے گی اور دشمن گستاخ ہو جائیں گے اور کیا تعجب ہے کہ جب دشمن شہر کے نزدیک ہوں تو ایسی صورت میں ایک داخلی سازش کے ذریعہ منافقین اور یہود دشمن کی فتح یابی کے لیے زمین ہموار کر دیں۔ دوسری طرف شہر میں رہنے کا فائدہ یہ ہے کہ قریش اس بات پر مجبور ہوں گے کہ شہر پر حملہ کر دیں اور اس صورت میں شہر میں جنگی ٹیکنیک کو بروئے کار لانے سے دشمن پر میدان تنگ ہو جائے گا اور وہ شکست کھا جائیں گے اور شہر میں رہنا سپاہیوں میں دفاع کے لیے زیادہ سے زیادہ جوش پیدا کرے گا۔
قریش بھی اسی فکر میں تھے کہ اگر مسلمان مدینہ میں رہ گئے تو درختں کو کاٹ کر نخلستان میں آگ لگا کر ان کو ناقابل تلافی اقتصادی نقضان پہنچایا جائے گا۔
رسول خدا نے دفاعی حکمت عملی کی تعیین کے لیے اپنے اصحاب سے مشورہ کے لیے ایک میٹنگ طلب کی۔ اس میں حضور نے اعلان کیا کہ اگر آپ لوگ مصلحت سمجھیں تو ہم مدینہ میں رہیں اور دشمنوں کو اسی جگہ چھوڑ دیا جائے جہاں وہ اترے ہیں۔ تاکہ اگر وہ وہیں رہیں تو زحمت میں مبتلا رہیں اور اگر مدینہ پر حملہ کریں تو ہم ان کے ساتھ جنگ کریں۔
عبداللہ بن ابی نے اٹھ کر کہا کہ: یا رسول اللہ! ابھی تک دشمن اس شہر پر فتح یاب نہیں ہوئے ہیں اور کوئی دشمن اس پر کامیابی نہیں حاصل کرسکا ہے۔ ماضی میں ہم نے دشمن کے ساتھ جب بھی میدان میں لڑائی کی ہے شکست سے دوچار ہوئے ہیں۔ اور جب بھی دشمن نے یہ چاہا ہے کہ وہ ہمارے شہر میں آئے تو ہم نے ان کو شکست دی ہے۔ لہٰذا آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ اس لیے کہ اگر وہ وہیں رہے تو بدترین قید میں ہیں اور اگر انہوں نے ہم پر حملہ کر دیا تو ہمارے بہادر، ان سے لڑیں گے اور ہماری عورتیں اور بچے کوٹھوں سے ان پر پتھراؤ کریں گے اور اگر وہ پلٹیں گے تو شکست خوردہ، ناامید اور بغیرکسی فائدے کے واپس جائیں گے، مہاجر و انصار کے بزرگ افراد حسن نیت کے ساتھ اسی خیال سے متفق تھے۔ لیکن نوجوان جن کی تعداد زیادہ تھی شہادت کے مشتاق تھے خاص کر وہ لوگ جو بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ دشمن سے روبرو لڑنے کے لیے بے قرار تھے اور رسول خدا سے یہ خواہش ظاہر کر رہے تھے کہ ہمیں دشمن سے مقابلہ کے لیے میدان کارزار میں لے چلیں۔
اس اکثریت میں لشکر اسلام کے دلیر سردار حضرت حمزہ تے انہوں نے فرمایا اس خدا کی قسم جس نے قرآن کو نازل فرمایا ہم اس وقت تک کھانا نہیں کھائیں گے جب تک شہر سے باہر دشمنوں سے نبرد آزمائی نہ کرلیں۔
جوان سال افراد کچھ اس طرح کا استدلال پیش کر رہے تھے کہ اے خدا کے پیغمبر ہم اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کہیں دشمن یہ نہ خیال کر بیٹھیں کہ ہم ان کے سامنے آنے سے ڈر گئے اور ہم شہر سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ہم کو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ قریش اپنے وابستگان کی طرف واپس جائیں اور کہیں کہ ہم نے محمد کو یثرب میں مقید کر دیا اور اس طرح اعراب کو ہمارے سلسلے میں دلیر بنا دیں۔
(مغازی ج۱ ص ۲۱۹)
فیصلہ کن ارادہ
جوانوں کے اصرار کی بنا پر رسول خدا نے اکثریت کی رائے کو قبول فرمایا۔ پیغمبر نے مسلمانوں کو نماز جمعہ پڑھائی اور اپنے خطبہ میں ان کو جہاد کی دعوت دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ دشمن سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر آپ نے نماز عصر جماعت کے ساتھ پڑھائی اس کے بعد فوراً گھر کے اندر تشریف لے گئے۔ جنگی لباس زیب تن فرمایا اپنی ٹوپی خود سر پر رکھی تلوار کو کمر سے حمائل کیا جب اس صورت سے آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو وہ لوگ جو باہر نکلنے کے سلسلے میں اصرار کر رہے تھے، شرمندہ ہوئے اور اپنے دل میں کہنے لگے کہ جس بات کی طرف پیغمبر کا میلان نہیں تھا ہمیں اس کے خلاف اصرار کرنے کا حق نہیں تھا“ اس وجہ سے وہ رسول خدا کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ: اب اگر آپ چاہیں تو مدینہ میں رہیں رسول خدا نے فرمایا: یہ مناسب نہیں ہے کہ پیغمبر لباس جنگ پہن لے اور قبل اس کے کہ خدا دشمنوں کے ساتھ جنگ کی سرنوشت کو روشن کرے وہ لباس جنگ کو اتار پھینکے اب ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کرتے جاؤ خدا کا نام لے کر جادہ پیما ہو جاؤ اگر صابر رہو گے تو کامیاب رہو گے۔(۱)
……
لشکر اسلام کی روانگی
روانگی کے وقت رسول خدا نے تین نیزے طلب فرمائے اور ان میں تین پرچم باندھے مجاہدین کا عمومی پرچم تھا جو کہ علی ابن ابی طالب کو دیا۔ قبیلہ ”اوس“ کا پرچم ”اسید بن حضیر“ اور قبیلہ خزرج کا پرچم ”سعد بن عبادة“ کے سپرد کیا۔ رسول خدا جمعہ کے دن عصر کے وقت ایک ہزار افراد کے ساتھ اس حالت میں مدینہ سے باہر نکلے کہ آپ خود گھوڑے پر سوار تھے اور نیزہ ہاتھ میں تھا۔ مسلمانوں کے درمیان صرف سو افراد کے جسم پر زرہ تھی۔
جب لشکر اسلام مقام شیخان پر پہنچا تو ناگہاں ایک گروہ ہمہمہ کرتا ہوا پیچھے سے آن پہنچا، رسول خدا نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول یہ ”عبیداللہ بن ابی“ کے ہم پیمان یہودی ہیں آپ نے فرمایا کہ ان تک یہ بات پہنچا دو کہ ہم نصرت سے بے نیاز ہیں اس کے بعد فرمایا کہ ”مشرکین سے جنگ کرنے کے لیے مشرکین سے مدد نہ لی جائے۔“
لشکر توحید کے کیمپ میں
رسو لخدا نے شیخان کے پاس پڑاؤ ڈالا اور محمد بن مسلمہ کو ۵۰ افراد کے ساتھ لشکر اسلام کے خیموں کی مخالفت کے لیے مامور فرمایا۔
اس مقام پر خود اپنی مرضی سے جنگ میں شرکت کرنے والے نوجوان آپ کے پاس آئے اور جنگ میں شرکت کی اجازت چاہی، رسول خدا نے جنگ میں ان کی شرکت کی موافقت نہیں فرمائی۔ حضرت سے ان لوگوں نے کہا کہ رافع بن خدیج ایک ماہر تیر انداز ہے اور رافع نے بھی اونچے جوتے پہن کر اپنے قد کی بلندی کا مظاہرہ کیا رسو لخدا نے رافع کو شرکت کی اجازت دے دی۔ سمرہ بن جندب نے اعتراض کیا اور کہا کہ میں رافع سے زیادہ قوی ہوں، میں ان سے کشتی لڑنے کے لیے تیار ہوں رسول خدا نے فرمایا ٹھیک ہے۔ کشتی لڑو، سمرہ نے رافع کو پٹک دیا تو رسول خدا نے ان کو بھی شرکت کی اجازت دے دی۔ (مغازی ج۱ ص ۲۱۶)
عبداللہ بن حجش نے پیغمبر سے عرض کیا کہ اے رسول خدا دشمنوں نے وہاں ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ میں نے پہلے ہی خدا کی بارگاہ میں یہ دعا کی تھی کہ دشمنوں سے مقابلہ ہو اور وہ مجھ کو قتل کر دیں۔ میرا پیٹ پھاڑ ڈالیں میرے جسم کو مثلہ کر دیں تاکہ میں ایسی حالت میں خدا کا دیدار کروں اور جس وقت وہ مجھ سے پوچھے کہ کس راہ میں تیری یہ حالت کی گئی ہے؟ تو میں کہوں کہ اے خدا تیری راہ میں۔ (مغازی ج۲ ص ۲۱۹)
عمرو بن جموں ایک لنگڑے انسان تھے ان کے چار بیٹے تھے جو پیغمبر کے ساتھ جنگوں میں شر کی طرح لڑتے تھے، جب جنگ احد پیش آئی تو ان کے عزیز و اقارب نے ان کو شرکت سے منع کیا اور ان سے کہا کہ تمہارے پیر میں لنگ ہے فریضہ جنگ کا بار تمہارے دوش پر نہیں ہے۔ اس کے علاوہ تمہارے بیٹے تو پیغمبر کے ساتھ جا ہی رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ ”وہ لوگ تو جنت میں چلے جائیں اور میں یہاں تمہارے پاس رہ جاؤں؟ ان کی بیوی نے دیکھا کہ ہتھیار سچ رہے ہیں اور زیر لب یہ دعا کر رہے ہیں کہ ”خدایا مجھ کو میرے گھر واپس نہ پلٹا“ ان کے بیٹوں نے ان سے اصرار کیا کہ وہ جنگ میں شرکت سے اجتناب کریں وہ پیغمبر کی خدمت میں پہنچے اور کہا ”اے رسول خدا میرے لڑکے نہیں چاہتے کہ میں آپ کے ساتھ اس جنگ میں شرکت کروں۔ بخدا میری خواہش ہے کہ اس لنگ زدہ پیر کو بہشت کی زمین پر گھسٹوں۔
پیغمبر نے فرمایا کہ:
”خدا نے تجھ کو معذور رکھا ہے اور جہاد کے فریضہ کا بار تیرے کاندھوں سے اٹھ گیا ہے۔“
انہوں نے قبول نہیں کیا نتیجتاً رسول خدا نے ان کے بیٹوں سے فرمایا کہ اگر تم ان کو نہ روکو تو تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں ہے۔ شاید خدا ان کو شہادت نصیب کرے۔ آفتاب غروب ہوا جناب بلال نے اذان دی، رسول خدا نے مجاہدین اسلام کے ساتھ نماز جماعت ادا کی۔ اس طرف دشمن کی لشکر گاہ میں عکرمہ بن ابی جہل کو چند سواروں کے ساتھ خیموں کی حفاظت پر مامور کر دیا گیا۔
منافقین کی خیانت
رسول خدا صبح سویرے شیخان سے احد کی طرف (۶ کلومیٹر مدینہ سے) روانہ ہوئے۔ مقام شوط پر عبداللہ بن ابی بن سلول منافقین کا سرغنہ اپنے چاہنے والے تین سو افراد کے ساتھ مدینہ لوٹ گیا۔ اس نے اپنے بہانہ کی توجیہ کے لیے کہا کہ… محمد نے جوانوں کی بات سنی ہماری بات نہیں سنی اے لوگو! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کس لیے اپنے آپ کو قتل کئے جانے کے لیے پیش کر دیں۔ عبداللہ بن عمرو بن حرام ان کے پیچھے پڑ گئے اور کہا کہ: اے قوم والو! خدا سے ڈرو۔ ایسے موقع پر جب دشمن نزدیک ہیں اپنے قبیلہ اور پیغمبر خدا کو تنہا نہ چھوڑو۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اگر یہ جانتے کہ لڑائی ہونے والی ہے تو ہم تم کو نہ چھوڑتے۔ لیکن ہم کو معلوم ہے کہ کسی طرح کی جنگ نہیں ہوگی۔
عبداللہ بن عمرو نے جو کہ ان سے ناامید ہوچکے تھے کہا کہ تم خدا کے دشمن ہو، خدا تم کو اپنی رحمت سے دور کرے اور اپنے پیغمبر کو تم سے بے نیاز کر دے۔
ان تین سو افراد کے چلے جانے کے بعد قبیلہ بنی حارثہ اور قبیلہ بنی سلمہ کے افراد بھی سست پڑ گئے ان کا خیال بھی واپس جانے کا تھا کہ خدا نے ان کو استوار رکھا۔
صف آرائی
روز شنبہ ۷ شوال سنہ ۳ہجری کو رسول خدا نے احد میں نماز صبح ادا کرنے کے بعد لشکر کی صف آرائی شروع کر دی۔ کوہ احد کو پیچھے اور مدینہ کو اپنے سامنے قرار دیا۔ سپاہیوں کو مکمل طور پر ترتیب دینے کے بعد آپ نے تقریر فرمائی اور کہا کہ تعریف اور جزاء اس شخص کے لیے ہے جو اپنے فریضہ کو صبر و سکون اور واقفیت و یقین کے ساتھ انجام دیتا ہے اس لیے کہ جہاد ایک سخت اور دشوار کام ہے اس میں بڑی مشکلات و پریشانیاں ہیں۔ ایسے لوگ بہت کم ہیں جو اس میں صابر رہیں۔ مگر وہ لوگ جن کو خدا ہدایت و تقویت دے۔ خدا اس کا دوست ہے جو اس کافر مانبردار ہے اور شیطان اس کا دوست ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے۔
ہر چیز سے پہلے جہاں میں استقامت رکھو اور اس وسیلہ سے ان سعادتوں کو اپنے لیے فراہم کرو جن کا خدا نے وعدہ کیا ہے۔ اختلاف، کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور بنانے کا ارادہ ترک کردو کیونکہ یہ باتیں حقارت و ناتوانی کا سبب ہیں۔
پیغمبر نے ”عبداللہ بن جبیر“ کو ۵۰ تیر اندازوں کے سات درہ کوہ عینین کی پاسبانی پر معین فرمایا اور اس تنگ راستہ کی حفاظت کے لیے جنگی حکمت عملی بتاتے ہوئے فرمایا کہ چاہے ہم فتح یاب ہوں اور چاہے شکست کھا جائیں تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اور دشمن کے سواروں کو تیر اندازی کے ذریعہ ہم سے دور کرتے رہونا۔ تاکہ وہ پیچھے سے ہم پر حملہ نہ کریں۔ اگر ہم قتل کر دیئے جائیں تو ہماری مدد نہ کرنا اور اگر ہم فتح یاب ہو جائیں اور ہم مالِ غنیمت حاصل کرنے لگیں تم ہمارے پاس نہ آنا تم اپنی جگہ مضبوطی سے ڈٹے رہنا۔ یہاں تک کہ ہمارا کوئی حکم آجائے۔
(مغازی ج۱ ص ۲۲۰، ۲۲۴)
دشمن اپنی صفوں کو منظم کرتے ہیں
ابوسفیان نے بھی اپنی صفوں کو منظم کرلیا پیادہ زرہ پوش دستہ خالد بن ولید کی کمان میں لشکر کے درمیان میں کچھ سواروں کا لشکر داہنی جانب اور ایک گروہ کو عکرمہ بن ابی جہل کی سرکردگی میں بائیں جانب قرار دیا۔ اور سپاہ پرچم اس نے قبیلہ بنی عبدالدار کے افراد کے سپرد کیا اور شرک و الحاد کے وجود کی حفاظت کے لیے حکم دیتے ہوئے کہا کہ: لشکر کی کامیابی پرچم داروں کی استقامت میں پوشیدہ ہے ہم نے بدر کے دن اسی وجہ سے شکست کھائی تھی اب اگر اپنے آپ کو تم اس کے لائق ثابت نہیں کرو گے تو پرچم داری کا یہ فخر کسی اور قبیلہ کو نصیب ہوگا ان باتوں سے اس نے بنی عبداللہ کے جاہلی احساسات کو مہمیز کیا یہاں تک کہ وہ آخری دم تک جان کی بازی لگانے کے لیے آمادہ ہوگئے۔(۱)
اب خوں چکاں جنگ کے دہانہ پر دونوں لشکر توحید و شرک ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان دونوں لشکروں کی توانائیوں کی نسبت آپس میں مندرجہ ذیل ہے۔
(مغازی ج۱ ص ۲۲۳)
لشکر اسلام لشکر مشرکین نسب
سپاہ ۷۰۰ ۳۰۰۰ مسلمانوں کے مقابل کفار کی نسبت
جنگ کیسے شروع ہوئی؟
دونوں لشکروں کے درمیان ابوعامر کی وجہ سے پہلا معرکہ ہوا وہ احد کے دن آگے بڑھتا ہوا لشکر کے مقابل گیا اور آواز دی کہ اے اوس میں ابوعامر ہوں لوگوں نے کہا کہ: اے فاسق تیری آنکھیں اندھی ہو جائیں ۔ ابو عامر اس غیر متوقع جواب کے سننے سے اہل مکہ کے درمیان ذلیل ہوگیا۔ اس نے کہا کہ: میرے ذریعہ میرے قبیلہ کو گزند پہنچی ہے۔ اس کے بعد اس نے مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کر دیا لشکر اسلام نے اس پر اور اس کے ساتھیوں پر سنگ باری کی اس کے بیٹے حنظلہ جو لشکر اسلام میں تھے۔ انہوں نے رسول خدا سے اجازت ماگی تاکہ اپنے باپ کو قتل کر دیں لیکن رسول خدا نے اجازت نہیں دی۔ (حوالہ سابق)
ابوعامر کے بیٹھ رہنے کے بعد ”طلحہ بن ابی طلحہ“ مشرکوں کا پرچمدار، جسے سپاہ مینڈھا کہا جاتا تھا، غرور کرتے ہوئے آگے بڑھا اور اس نے چلا کر کہا کہ تم کہتے ہو کہ ”تمہارے مقتولین دوزخ میں اور ہمارے مقتولین بہشت میں جائیں گے۔ اس صورت میں کیا کوئی ہے جس میں بہشت میں بھیج دوں۔ یا وہ مجھ کو دوزخ میں پہنچا دے؟“ علی علیہ السلام اس کے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
جنگ شروع ہوئی اور تھوڑی ہی دیر میں سپاہ مشرک کا پرچم دار شمشیر علی علیہ السلام کی بدولت کیفر کردار کو پہنچا۔ رسول خدا خوش ہوگئے اور مجاہدین اسلام نے صدائے تکبیر بلند کی۔
طلحہ کے بھائی نے پرچم اٹھالیا اور آگے بڑھا درآں حالیکہ دوسرے چند افراد پرچم اٹھانے اور سرنگوں ہو جانے کی صورت میں وجود شرک کا دفاع کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔(مغازی ج۱ ص ۲۲۳)
دشمن کے حرکت میں آنے کا سبب موسیقی
اسلام کے مجاہد اپنے مقدس دین کے دفاع کے لیے لڑ ہے تھے اور اپنے دل و دماغ میں شہادت کی آرزو کو پروان چڑھا رہے تھے لیکن مشرکین کے سپاہیوں کا مقصد پست مادی آرزوؤں کا حصول اور انتقام کے سوا کچھ نہ تھا۔ مشرکین کے نامور افراد اپنے سپاہیوں کے ان ہی جذبات کی جنگ کے وت تقویت کر رہے تے اور یہ ذمہ داری ان آورہ عورتں کی تھی جو آلات موسیقی بجاتیں اور مخصوص آواز میں ترانے گاتی تھیں تاکہ غریزہ جنسی کی آڑ لے کر ان کو بھڑکائیں اور دوسری طرف ان کے کنبہ کی انتقامی آگ کو شعلہ ور کر دیں اور وہ لوگ نفسیاتی طور پر متاثر ہو کر جنگ کو جاری رکھیں۔
جو شعر یہ بدقماش عورتیں پڑھ رہی تھیں اس کا مطلب کچھ اس طرح تھا:
ہم طارق کی بیٹیاں (ستارہ سحری) ہیں ہم بہترین فرش پر قدم رکھتے ہیں اگر دشمن کی طرف بڑھو گے تو ہم تمہارے گلے لگ جائیں گے، اگر دشمن کو پیٹھ دکھاؤ گے اور فرار کرو گے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گے۔(۱)