حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت
FehrestMozoei
البحث 
جناب رسول خدا اور اصحاب کو شعب ابوطالب سے نجات ملی تو اس بات کی امید تھی کہ مصائب و آلام کے بعد ان کے حالات سازگار ہو جائیں گے اور خوشی کے دن آئیں گے۔ مگر ابھی دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ دو ایسے تلخ اور جانکاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن کے باعث رسول خدا اور اصحاب رسول پر گویا غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس رنج واندوہ کا سبب حضرت ابوطالب کی رحلت تھی، اور اس کے تین دن یا ایک ماہ بعد آپ کی ایثار پسند شریک حیات بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں۔
حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کو ”حجون“ نامی قریش کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔(الصحیح من السیرة النبی ج۲، ص۱۲۸)
حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی رحلت نے رسول خدا کو بہت متاثر اور غمگین کیا، چنانچہ آپ نے اس غم و الم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:
”ان چند دنوں میں اس امت پر دو ایسی مصیبتیں نازل ہوئی ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کس نے مجھے زیادہ ماثر کیا ہے۔“ (یعقوبی)
رسول خدا کو اپنے واجب الاحترام چچا اور وفاشعار شریک حیات کی رحلت کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ بہت کم گھر سے باہر تشریف لاتے، چونکہ یہ دونوں عظیم حادثات بعثت کے دسویں سال میں واقع ہوئے تھے، لہٰذا ان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم و اندوہ کا سال کہا جانے لگا۔
(السیرة الحلبیہ، ج۱، ص ۳۴۷)
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای