دشمنانِ اسلام کو جب یہ علم ہوا کہ آسمانی دین و آئین کی تبلیغ میں پیغمبر اکرم کی کامیابی کا اہم ترین عامل آیات الٰہی کی وہ معنوی کشش ہے جو لوگوں کے قلوب پر اثر کرتی ہے اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔ تو انہیں یہ طفلانہ تدبیر سوجھی کہ لوگوں کو قرآن کی جانب متوجہ ہونے سے روکیں اور اس کتاب مقدس کی مقبولیت اور دلچسپی کو ختم کر دیں۔
نصر بن حارث کا شمار ان دشمنانِ اسلام میں ہوتا ہے جو رسولِ خدا کو بہت زیادہ ایذا و آزار پہنچایا کرتے تھے۔ جب اس نے حیرہ کا سفر کیا تو اس نے وہاں رستم و اسفسند یار کی داستانیں سن لی تھیں، چنانچہ قریش نے اسے اس کام پر مقرر و معین کیا کہ جب مسجد الحرام میں رسول اکرم کا تبلیغی پروگرام ختم ہو جایا کرے تو وہ آنحضرت کی جگہ جا بیٹھے اور لوگوں کو رسم اور اسفند یار کی داستانیں سنائے۔ شاید اس طریقے سے رسول اکرم کے مرتبے کو کم کیا جاسکے اور آپ کے پند و وعظ نیز آیات الٰہی کو بے قدر و قیمت بنایا جاسکے۔ وہ بڑی ہی گستاخی اور دیدہ دلیری سے کہتا:
لوگو! تم میری طرف آؤ میں تمہیں محمد سے کہیں بہتر قصے اور کہانیاں سناؤں گا۔
اس نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ گستاخی اور بے باکی میں اس سے کہیں آگے بڑھ گیا اور اپنے خدا ہونے کا دعویٰ کر دیا وہ لوگوں سے کہتا:
میں بھی جلدی ہی وہ چیز اتاروں گا جو محمد کا خدا اس پر نازل کیا کرتا ہے۔(۱)
اس سلسلے میں قرآن مجید میں چند آیات موجود ہیں بطور نمونہ ہم ایک کا ذکر کر رہے ہیں:
”وقالو اساطیر الاولین اکتبتھا فھی تملی علیہ بکرة واصیلاoقل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض انہ کان غفورا رحیماo
”کہتے ہیں: یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں، جنہیں لکھوا لیا ہے جنہیں صبح و شام ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔ آپ کہہ دیجئے کہ اسے اس نے نازل کیا ہے جو زمین و آسمان کا راز جانتا ہے اور بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔“
قرآن مجید کے خلاف مشرکین نے دوسرا محاذ یہ تیار کیا کہ انہوں نے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ جس وقت رسول خدا قرآن مجید کی تلاوت فرماتے ہیں تو اسے نہ صرف سنا ہی نہ جائے بلکہ ایسا شور و غل بپا کیا جائے کہ دوسرے لوگ بھی اسے سننے سے باز رہیں، چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید کا ارشاد ہے:
وقان الذین کفروا لاتسمعوالھذا القرآن ولغوافیہ لعلکم تغلبونo
”اور کافر ایک دوسرے سے یہ کہتے ہیں: اس قرآن پر کان نہ لگاؤ، اور جب پڑھا جائے تو شور و غل بپا کیا کرو، شاید تم کامیاب ہو جاؤ۔“
اگرچہ رسول خدا اور بنی ہاشم میں چند حضرات حضرت ابوطالب کی زیر حمایت کچھ حد تک دشمنوں کی گزند سے بالخصوص جسمانی آزار و ایذا سے محفوظ تھے مگر بے پناہ اور بے یار و مددگار مسلمان ایذا رسانی اور کشنجہ کشی کی انتہائی سخت تکالیف و مشکلات سے گزر رہے تھے۔
رسول اکرم کے لیے یہ بات سخت شاق و ناگوار تھی کہ آپ کے اصحاب و ہمنوا ایسی سخت مشقت میں مبتلا رہیں اور ہر طرح کے مصائب و آلام سے گزرتے رہیں۔ دوسری طرف اس بات کا بھی امکان تھا کہ اگر یہی کیفیت برقرار رہی تو ہوسکتا ہے کہ نو مسلم اپنے عقیدے میں سست ہو جائیں اس کے علاوہ یہی حالت دوسرے لوگوں کو اسلام کی جانب مائل ہونے سے روک بھی سکتی تھی۔ چنانچہ ان حالات کے پیش نظر یہ لازم سمجھا گیا کہ اس دیوار کو بھی گرا دیا جائے تاکہ قریش یہ جان لیں کہ قوت اسلام ان کی حد تصور اور تسلط و اقتدار سے کہیں زیادہ بالا و برتر ہے۔
اس کھٹن اور دباؤ سے نجات حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو اجازت دی گئی کہ وہ ترک وطن کرکے حبشہ چلے جائیں۔ اس ملک کے انتخاب کئے جانے کی چند وجوہ تھیں:
مہاجرین کا وہ پہلا گروہ جو پندرہ افراد پر مشتمل تھا۔ عثمان ابن مظعون کی زیر سرپرستی ماہ رجب میں بعثت کے پانچویں سال اس عیسائی ملک کی جانب روانہ ہوا، اور دو ماہ بعد واپس مکہ آگیا۔
دوسرے گروہ میں تراسی مرد، اٹھارہ عورتیں اور چند بچے شال تھے۔ یہ گروہ حضرت جعفر ابن ابی طالب کی زیر سرپرستی ہجرت کرکے حبشہ چلا گیا، جس کا وہاں کے فرمان روا نجاشی نے بہت پرتپاک طریقے سے استقبال کیا۔
قریش کو جب اس واقعے کا علم ہوا تو انہوں نے عمر بن عاص اور عبداللہ ابن ابی ربیعہ کو اپنا نمائندہ بنا کر حبشہ روانہ کیا۔ ان کے ہاتھ نجاشی بادشاہ اور اس کے امراء کے لیے بہت سے عمدہ تحفے بھی بھیجے اور اس سے یہ درخواست کی کہ پناہ گزیں مسلمانوں کو واپس کر دیا جائے۔
قریش کے نمائندوں نے نجاشی بادشاہ اور اس کے امراء کو مسلمانوں کی طرف سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور بہت چاہا کہ مہاجرین مسلمانوں کو واپس کر دیا جائے، مگر انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہیں ہوئی اور وہ نجاشی بادشاہ کو ہم خیال نہ بناسکے۔
نجاشی بادشاہ نے جب مہاجرین کے نمائندے حضرت جعف ابن ابی طالب کی دلچسپ اور منطقی باتیں سنیں اور حضرت جعفر نے جب اس کے سامنے آیات کلام اللہ کی قرأت کی تو وہ انہیں سن کر مسلمانوں پر فریفتہ اور ان کے عقائد کا والہ و شیدا ہوگیا، چنانچہ اس نے سرکاری طور پر مسلمانوں کی کھلم کھلا حمایت کا اعلان کر دیا۔ اور قریش کے نمائندوں کو حکم دیا کہ اس کے ملک سے باہر نکل جائیں۔
ملک حبشہ میں مہاجرین انتہائی آرام اور سہولت کی زندگی بسر کرتے رہے، چنانچہ جب رسول خدا ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وہ بھی آہستہ آہستہ وہاں واپس آکر آنحضرت سے مل گئے۔