مستشرقین کی افتراء پردازی
FehrestMozoei
البحث 
راہب کی اس روایت کو اگر صحیح تسلیم کرلیا جائے تو یہ تاریخ کا بہت معمولی واقعہ ہے لیکن بعض بدنیت مستشرقین نے اپنے ذاتی مفاد کے تحت اسے دستاویز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اس پر اصرار ہے کہ پیغمبر اکرم نے اپنی اس غیر معمولی ذہانت کی بنا پر جو آپ کی ذات گرامی میں موجود تھی اس سفر کے دوران بحیرا عیسائی سے بہت سی باتیں سیکھیں اور اپنے قوی حافظہ میں محفوظ کرلیں اور اٹھائیس سال گزرنے کے بعد انہی باتوں کو اپنے کیش و آئین کی بنیاد قرار دیا اور یہ کہہ کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کہ یہ باتیں وحی کے ذریعے آپ پر نازل ہوئیں ہیں لیکن پیغمبر اکرم کی سوانح حیات آپ کے دین و آئین کی الہامی خصوصیات نیز عملی و عقلی دلائل و براہین سے اس گمان کی نفی ہوتی ہے، ذیل میں ہم اس موضوع سے متعلق چند نکات بیان کرتے ہیں:
عقل کی رو سے یہ بات بعید ہے کہ ایک بارہ سال کا نوجوان کہ جس نے کبھی مدرسہ کی شکل تک نہ دیکھی ہو وہ چند گھنٹوں کی ملاقات میں تورات و انجیل جیسی کتابوں کے حقائق سیکھ لے اور اٹھائیس سال بعد انہیں شریعت آسمانی کے نام سے پیش کرے۔
اگر پیغمبر نے بحیرا سے کچھ باتیں سیکھ لی ہوتیں تو وہ یقینا قریش کے درمیان پھیل گئی ہوتیں اور وہ لوگ جو کارواں کے ساتھ گئے تھے ضرور واپس آکر انہیں بیان کرتے۔ اس کے علاوہ اس واقعے کے بعد رسول اکرم اپنی قوم کے افراد سے یہ نہیں فرماسکتے تھے کہ میں امی ہوں۔
اگر تورات اور انجیل کا قرآن مجید سے موازنہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ قرآن کے مندرجات وہ نہیں جو ان کتابوں کے ہیں۔
اگر عیسائی راہب کو اتنی زیادہ مذہبی و علمی معلومات حاصل تھیں تو وہ کیوں نہ اپنے زمانے میں مشہور ہوا اور پیغمبر اکرم کے علاوہ کسی دوسرے کو اپنا علم کیوں نہ سکھایا؟
ملک شام کا دوسرا سفر
رسول اکرم کی راست گوئی و نجابت، شرافت، امانت داری اور اخلاق و کردار کی بلندی کا ہر شخص قائل تھا۔
حضرت خویلد کی دختر حضرت خدیجہ بہت نیک سیرت اور شریف خاتون تھیں۔ انہیں اپنے والد سے بہت سا مال ورثے میں ملا تھا۔ وہ بھی مکہ کے بہت سے مردوں اور عورتوں کی طرح اپنے مال سے تجارت کرتی تھیں۔ جس وقت انہوں نے امین قریش کے اوصاف سنے تو انہوں نے رسول خدا کے سامنے یہ تجویز رکھی، اگر آپ میرے سرمائے سے تجارت کرنے کے لیے ملک شام تشریف لے جائیں تو میں جتنا حصہ دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ حصہ آپ کو دوں گی۔
رسول خدا نے اپنے چچا ابو طالب سے مشورہ کرنے کے بعد حضرت خدیجہ کی تجویز کو قبول کرلیا اور ان کے ”میسرہ“ نامی غلام کے ہمراہ پچیس سال کی عمر میں مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔
کاروانِ تجارت میں رسولِ اکرم کا بابرکت و باسعادت وجود قریش کے تاجروں کے لیے نہایت ہی سود مند و منفعت بخش ثابت ہوا، اور انہیں توقع سے زیادہ منافع ملا۔ نیز رسول خدا کو سب سے زیادہ نفع حاصل ہوا۔ سفر کے خاتمے پر ”میسرہ“ نے سفر کی پوری کیفیت حضرت خدیجہ کو بتائی اور آپ کے فضائل و اخلاقی اوصاف و مکارم نیز کرامات کو تفصیل سے بیان کیا۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma
آبی
سبز تیره
سبز روشن
قهوه ای