مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ خدا وند متعال نے کبھی بھی اکثریت کو حق وحقیقت کا ملاک اور معیار قرار نہیں دیا ہے، بلکہ اس کے برعکس اکثر لوگوں کی مذمت کی ہے اس دلیل کی بنیاد پر کہ وہ طول تاریخ میں ہمیشہ حق کے خلاف رہے ہیں۔ یہاں پر ہم اس سے متعلق کچھ آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن(۱)۔
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے یہ لوگ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
۲۔ و ان کثیرالیضلون باھوائھم بغیر علم (۲)۔
اوربے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ ہوتے ہیں
۳۔ وما یتبع اکثرھم الا ظنا(۳)۔ان میں سے اکثر محض گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
۴۔ بل جاء ھم بالحق و اکثرھم للحق کارھون، ولو اتبع الحق اھوائھم لفسدت السماوات والارض و من فیھن بل اتیناھم بذکرھم فھم عن ذکرھم معرضون(۴)۔
بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔
۵۔ وماکان اکثرھم مومنین(۵)۔اور ان میں سے اکثر لوگ خدا پرایمان نہیں لائیں گے۔
۶۔ و قلیل من عبادی الشکور(۶)۔اور میرے بہت کم بندے شکر گزارہیں۔
۷۔ و ما اکثر الناس و لو حرصت بمومنین(۷)۔اور آپ کتنی ہی کوشش کیونہ کریں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اور دوسری وہ آیات جو دلالت کرتی ہیں کہ کبھی بھی اکثریت کو حقانیت کا معیار و ملاک قرار نہیں دیا گیا اور نہ دیا جائے گا، بلکہ اس کے برعکس ہمیشہ اکثر لوگ باطل پر رہے ہیں اور ان میں سے بہت کم لوگوں کے پاس ایمان اور عمل صالح ہے اور بہت کم لوگ خدا کا شکر کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات سے نتیجہ نکلتا ہے : آج کے معاشرہ میں اگر چہ معاشرہ کو ادارہ کرنے کیلئے اکثریت کی رائے پر تکیہ کیا جاتا ہے لیکن بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ ایک قسمکی مجبوری اور بے بسی ہے کیونکہ مادی معاشرہ میںقوانین کو مقررہ کرنے اورکسی مسئلہ میں فیصلہ دینے کیلئے کوئی بھی قانون اشکال و اعتراض سے خالی نہیں ہے ۔
اس وجہ سے بہت سے دانشور اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود کہ بیشتر امور میں اکثریت کی رائے غلطی کا شکار ہوجاتی ہے پھر بھی اکثریت کی رائے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ، پس خلاصہ کے طور پر کہا جائے : ”اکثریت کسی مسئلہ کو حل کرنے کا راستہ ہے حق کا راستہ نہیں“پھر بھی یہ راہ حل امام کو معین کرنے کے سلسلہ میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم اس کیلئے خدا وند عالم کی جانب سے نص کے قائل ہیں۔
بہ ہرحال ایک ایسے معاشرہ میں جہاں انسان انبیاء کی رسالت کا اعتقاد رکھتا ہو وہاں بہرحال قوانین کو منظور کرنے میں اکثریت کی رائے پر مجبور ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انبیاء کے قوانین اور نظام خدا وند عالم کی طرف سے بندوں کے لئے نازل ہوئے ہیں اور ان قوانین میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے اور جو کچھ اکثریت”جائز الخطا“ منظورکرتی ہے وہ خدا کے قوانین سے قابل مقایسہ نہیں ہے جیسا کہ خدا وند متعال فرماتا ہے:(و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ“(۸)۔ اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیںگے۔
حقیقت میںقرآن کریم اس مذمت اور سرزنش کے ذریعہ ایک خطرناک طرز تفکر سے جنگ کرتا ہے اور تمام بشریت کو انبیاء الہی کے قوانین کی طرف راہنمائی کرتا ہے تاکہ اس صحیح قافلہ سے مل جانے کے بعد اپنے آپ اور آج کے معاشرہ کو ہلاک ہونے سے نجات دے۔(۹)۔
۱۔ وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن(۱)۔
اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے یہ لوگ تو صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
۲۔ و ان کثیرالیضلون باھوائھم بغیر علم (۲)۔
اوربے شک اکثر لوگ اپنی خواہشات کی بنا پر نادانی میں گمراہ ہوتے ہیں
۳۔ وما یتبع اکثرھم الا ظنا(۳)۔ان میں سے اکثر محض گمان کی پیروی کرتے ہیں۔
۴۔ بل جاء ھم بالحق و اکثرھم للحق کارھون، ولو اتبع الحق اھوائھم لفسدت السماوات والارض و من فیھن بل اتیناھم بذکرھم فھم عن ذکرھم معرضون(۴)۔
بلکہ وہ ان لوگوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر لوگ حق کو ناپسند کرتے ہیں۔
۵۔ وماکان اکثرھم مومنین(۵)۔اور ان میں سے اکثر لوگ خدا پرایمان نہیں لائیں گے۔
۶۔ و قلیل من عبادی الشکور(۶)۔اور میرے بہت کم بندے شکر گزارہیں۔
۷۔ و ما اکثر الناس و لو حرصت بمومنین(۷)۔اور آپ کتنی ہی کوشش کیونہ کریں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اور دوسری وہ آیات جو دلالت کرتی ہیں کہ کبھی بھی اکثریت کو حقانیت کا معیار و ملاک قرار نہیں دیا گیا اور نہ دیا جائے گا، بلکہ اس کے برعکس ہمیشہ اکثر لوگ باطل پر رہے ہیں اور ان میں سے بہت کم لوگوں کے پاس ایمان اور عمل صالح ہے اور بہت کم لوگ خدا کا شکر کرتے ہیں۔
مندرجہ بالا آیات سے نتیجہ نکلتا ہے : آج کے معاشرہ میں اگر چہ معاشرہ کو ادارہ کرنے کیلئے اکثریت کی رائے پر تکیہ کیا جاتا ہے لیکن بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ ایک قسمکی مجبوری اور بے بسی ہے کیونکہ مادی معاشرہ میںقوانین کو مقررہ کرنے اورکسی مسئلہ میں فیصلہ دینے کیلئے کوئی بھی قانون اشکال و اعتراض سے خالی نہیں ہے ۔
اس وجہ سے بہت سے دانشور اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے باوجود کہ بیشتر امور میں اکثریت کی رائے غلطی کا شکار ہوجاتی ہے پھر بھی اکثریت کی رائے کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ، پس خلاصہ کے طور پر کہا جائے : ”اکثریت کسی مسئلہ کو حل کرنے کا راستہ ہے حق کا راستہ نہیں“پھر بھی یہ راہ حل امام کو معین کرنے کے سلسلہ میں قابل قبول نہیں ہے کیونکہ ہم اس کیلئے خدا وند عالم کی جانب سے نص کے قائل ہیں۔
بہ ہرحال ایک ایسے معاشرہ میں جہاں انسان انبیاء کی رسالت کا اعتقاد رکھتا ہو وہاں بہرحال قوانین کو منظور کرنے میں اکثریت کی رائے پر مجبور ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انبیاء کے قوانین اور نظام خدا وند عالم کی طرف سے بندوں کے لئے نازل ہوئے ہیں اور ان قوانین میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے اور جو کچھ اکثریت”جائز الخطا“ منظورکرتی ہے وہ خدا کے قوانین سے قابل مقایسہ نہیں ہے جیسا کہ خدا وند متعال فرماتا ہے:(و ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ“(۸)۔ اور اگر آپ زمین پر بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں گے تو وہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیںگے۔
حقیقت میںقرآن کریم اس مذمت اور سرزنش کے ذریعہ ایک خطرناک طرز تفکر سے جنگ کرتا ہے اور تمام بشریت کو انبیاء الہی کے قوانین کی طرف راہنمائی کرتا ہے تاکہ اس صحیح قافلہ سے مل جانے کے بعد اپنے آپ اور آج کے معاشرہ کو ہلاک ہونے سے نجات دے۔(۹)۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.