مختصر جواب:
مفصل جواب:
وہ خلافت کے بزرگ درخت کی ایک شاخ اور عترت طاہرہ کے لئے ایک فخر تھے ،یہ ایسے انسان تھے جن کی بزرگی اور عظمت سب کے لئے مشہور تھی ، ان کا حسب و نسب بہت یہ زیادہ پاک و پاکیزہ اور نورانی تھا ،ان کی کرامت احمدی، خصلت ، علوی اور شہامت عباسی تھی ان کے اندر اتنے زیادہ فضائل پائے جاتے تھے جن کو بیان نہیں کیاجاسکتا ۔
مرزبانی نے ”معجم الشعراء “ (۱) میں لکھا ہے :
وہ ایسے شاعر تھے جو اپنے آباؤ اجداد پر بہت زیادہ افتخار کرتے تھے ، آپ متوکل کے زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے اور متوکل کے بعدکچھ دن زندہ رہے ۔
وہ جس وقت مامون کے محل کے دروازہ پر گئے تو نگہبان نے ان کی طرف دیکھا ، پھر دروازہ کھٹکھٹایا اوراس سے کہا : ”لو اذن لنا لدخلنا ، ولو اعتذر الینا لقبلنا ، لو صرفنا لانصرفنا ، فاما اللفتة بعد النظرة لا اعرفھا“ (۲) اگر ہمیں اجازت دیدی گئی تواندر جائیں گے اور اگر کوئی عذر پیش کیا تواس کو قبول کرلیں گے اور اگر واپس پلٹایا تو واپس چلے جائیں گے لیکن پہچاننے کے بعد اگر دروازہ پر معطل کریں اور روگردانی کرے (یعنی آج اور کل کرے ) تو ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے اس کے بعد اس طرح پڑھا :
و ما عن رضی کان الحمار مطیتی
ولکن من یمشی سیرضی بمارکب
ابواسماعیل علوی بہت ہی وزین ،ثابت قدم اورمحکم انسان تھے ،ان کی باتیں حکمت اور ضرب المثل سے بھری ہوئی ہوتی تھیں،انہوں نے ایک شخص کے متعلق کہا : ”انی لاکرہ ان یکون لعلمہ فضل علی عقلہ، کماا کرہ ان یکون للسانہ فضل علی علمہ“۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ کسی کا عمل اس کی عقل سے زیادہ ہو اسی طرح مجھے پسند نہیں کہ کسی کی زبان اس کے عمل سے زیادہ ہو (۳) ۔ (۴) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.