مختصر جواب:
مفصل جواب:
ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں :
اولا : ابن حجر نے ان تینوں کی خلافت پرکس طرح اجماع کا دعوی کیا ہے جب کہ ایسے اجماع کا کوئی وجود نہیں ہے ۔
ثانیا : اگر فرض کرلیں کے اجماع ثابت ہے لیکن چونکہ اس کی وجہ معلوم ہے اور تہدید و لالچ کے ساتھ یہ اجماع پایا جاتا ہے لہذااس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
ثالثا : احادیث ولایت کس طرح خبر واحدہے جب کہ علماء اہل سنت میں سے بہت زیادہ افراد نے اس کو نقل کیا ہے ۔
رابعا : احادیث ولایت کو اصحاب میں سے چودہ افراد نے نقل کیا ہے اور ابن حجر نے""الصواعق المحرقہ "" میں اس حدیث (مروا ابابکر فلیصل بالناس) کے متواتر ہونے کاادعا کیا ہے ، اس اعتراف کے ساتھ کہ اصحاب میں سے آٹھ افراد نے اس کو نقل کیا ہے اور عایشہ و حفصہ نے بھی اس کو نقل کیا ہے ، لیکن احادیث ولایت کو چودہ اصحاب نے نقل کیا ہے پھر اس کو حدیث واحد جانتے ہیں !! بلکہ ابن حزم نے پانی بیچنے کے مسئلہ میں صرف چار اصحاب کے نقل کرنے پر تواتر کا ادعی کیا ہے ۔
خامسا : احادیث ولایت جس سے شیعہ حضرات استدلال کرتے ہیں ، قطعی ہے خصوصا اس وقت جب دوسری دلیلیں اس کی تائید کردیتی ہیں (٢) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.