مختصر جواب:
مفصل جواب:
تاریخ طبری میں ( عبد اللہ بن عیاش نے ابو ربیعہ سے نقل کیا ہے ) ذکر ہوا ہے کہ میں عثمان کے پاس گیااور ایک گھنٹہ تک ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی تو انھوں نے کہا : اے ابن عیاش ! آو اور اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے ان لوگوں کی باتیں سننے کو کہا جو اس کے گھر کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے ،میں نے سنا کہ ان میں سے بعض کہہ رہے تھے : کس کے انتظار میں ہو ؟ اور بعض کہہ رہے تھے کہ ابھی صبر کرو ؛ اُمید ہے کہ یہ پلٹ جائے ،اسی وقت جب میں اور عثمان کھڑے ہوئے تھے توطلحہ بن عبید اللہ وہاں سے گذر رہا تھا، وہ رک گیا اور کہنے لگا : ابن عد یس کہاںہے ؟ کسی نے کہا : وہ یہیں ہے ، ابن عدیس، طلحہ کے نزدیک آیا تو طلحہ نے اس کے کان میں کچھ کہا ۔ پھر ابن عدیس واپس چلا گیا اور اس نے اپنے دوستوں سے کہا : کسی بھی آدمی کو اس شخص(عثمان ) کے پاس جانے نہ دیا جائے اور کسی کو بھی ان کے پاس سے باہر نہ نکلنے دیا جائے ۔
عثمان نے مجھ سے کہا : یہ وہ بات ہے جس کا طلحہ بن عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔
اس کے بعد عثمان نے کہا : پرور دگار ! تو طلحہ بن عبیداللہ کو مجھ سے دور فرما کیونکہ اسی نے ان لوگوں کو میرے خلا ف بھڑکایا ہے اور میرا محاصرہ کیا ہے، خدا کی قسم مجھے اُمید ہے کہ اس کے ہاتھ( اس خلافت میں سے) کچھ نہیں آئے گا اور اس کا خون بھی بہا یا جائے گا کیونکہ اس نے بلا وجہ میری بے حرمتی کی ہے ( ١) ۔
کتاب «الفتوح « میں ذکر ہوا ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ نے قبیلہ تیم کے چند افراد کے ساتھ عثمان کا محاصرہ کرنے والے لوگوں کی سرداری اختیار کررکھی تھی اور جب یہ خبر عثمان کو پہونچی تو اس نے یہ شعرامام علی (علیہ السلام )کی خدمت میں لکھکر بھیجا : جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا
اگر یہ طے ہوگیا ہے کہ مجھے کھایا جائے تو مجھے کھانے والے تم ہو
ورنہ میرے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے پہلے مجھے بچا لو ۔
کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ تمہارا چچا زاد اور پھوپھی زادبھائی قتل کیا جائے اور اس کی تمام نعمت اس کے ہاتھ سے چلی جائے ؟
علی ( علیہ السلام ) نے فرمایا : خدا کی قسم عثمان نے صحیح کہا ہے ! ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ حضرمیہ کا بیٹا (طلحہ ) اس( خلافت) کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔
پھر آپ ان لوگوں کی طرف آئے اور نماز ظہر و عصر ان کے ساتھ پڑھی ۔
لوگ طلحہ کے پاس سے الگ ہو کرحضرت علی (علیہ السلام) کی طرف مائل ہوگئے ، جیسے ہی طلحہ نے یہ دیکھا تو فوراً عثمان کے گھر کا رخ کیا اور ان کے گھر میں داخل ہوکراپنے کئے کی عثمان سے معافی مانگی ۔
عثمان نے کہا : ائے حَضرمَیہ کے بیٹے ! لوگوں کے امور اپنے ہاتھ میں لیتے ہو اور ان کو میرے قتل پر اُبھارتے ہو اورجیسے ہی تم نے اپنی آرزوں اور تمناوں کو برباد ہوتے پایا اور دیکھا کہ علی علیہ السلام اس پورے ماحول پر مسلط ہیں تو مجھ سے معافی مانگنے آگئے ؟ خداوند عالم اس کے عذر کو قبول نہ کرے جو تمہارے عذر کو قبول کرلے ! ( ٢) ( ٣) ۔
عثمان نے مجھ سے کہا : یہ وہ بات ہے جس کا طلحہ بن عبید اللہ نے حکم دیا ہے ۔
اس کے بعد عثمان نے کہا : پرور دگار ! تو طلحہ بن عبیداللہ کو مجھ سے دور فرما کیونکہ اسی نے ان لوگوں کو میرے خلا ف بھڑکایا ہے اور میرا محاصرہ کیا ہے، خدا کی قسم مجھے اُمید ہے کہ اس کے ہاتھ( اس خلافت میں سے) کچھ نہیں آئے گا اور اس کا خون بھی بہا یا جائے گا کیونکہ اس نے بلا وجہ میری بے حرمتی کی ہے ( ١) ۔
کتاب «الفتوح « میں ذکر ہوا ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ نے قبیلہ تیم کے چند افراد کے ساتھ عثمان کا محاصرہ کرنے والے لوگوں کی سرداری اختیار کررکھی تھی اور جب یہ خبر عثمان کو پہونچی تو اس نے یہ شعرامام علی (علیہ السلام )کی خدمت میں لکھکر بھیجا : جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھا
اگر یہ طے ہوگیا ہے کہ مجھے کھایا جائے تو مجھے کھانے والے تم ہو
ورنہ میرے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے پہلے مجھے بچا لو ۔
کیا تم اس بات سے راضی ہو کہ تمہارا چچا زاد اور پھوپھی زادبھائی قتل کیا جائے اور اس کی تمام نعمت اس کے ہاتھ سے چلی جائے ؟
علی ( علیہ السلام ) نے فرمایا : خدا کی قسم عثمان نے صحیح کہا ہے ! ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ حضرمیہ کا بیٹا (طلحہ ) اس( خلافت) کو اپنے ہاتھ میں لے لے ۔
پھر آپ ان لوگوں کی طرف آئے اور نماز ظہر و عصر ان کے ساتھ پڑھی ۔
لوگ طلحہ کے پاس سے الگ ہو کرحضرت علی (علیہ السلام) کی طرف مائل ہوگئے ، جیسے ہی طلحہ نے یہ دیکھا تو فوراً عثمان کے گھر کا رخ کیا اور ان کے گھر میں داخل ہوکراپنے کئے کی عثمان سے معافی مانگی ۔
عثمان نے کہا : ائے حَضرمَیہ کے بیٹے ! لوگوں کے امور اپنے ہاتھ میں لیتے ہو اور ان کو میرے قتل پر اُبھارتے ہو اورجیسے ہی تم نے اپنی آرزوں اور تمناوں کو برباد ہوتے پایا اور دیکھا کہ علی علیہ السلام اس پورے ماحول پر مسلط ہیں تو مجھ سے معافی مانگنے آگئے ؟ خداوند عالم اس کے عذر کو قبول نہ کرے جو تمہارے عذر کو قبول کرلے ! ( ٢) ( ٣) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.