مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سوال کا جواب ممکن ہے اگر ہم سوره «آل عمران» کی آیت ۵۵ کا دقتّ ک ساتھ مطالعہ کر یں جس میں اللہ تعالی جناب عیسى(علیه السلام) کو مخاطب کراتے ارشاد فرماتا ہے: (وجََاعِلُ الَّذِینَ اتَّبَعُوکَ فَوْقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ )"
تیرے پیروکاروں کو قیامت تک کے لئے کافروں پر بر تری دوں گا ۔ یہ ایک بشارت ہے جوخدا نے حضرت مسیح (علیه السلام) اور ان کے پیرو کاروں کو دی تاکہ جو راہ انہوں منتخب کی تھی اس پر چلتے رہنے کے لئے ان میں ولولہ پیدا ہو ۔ در حقیقت یہ آیت قرآن کی معجزنمائیوں اور غیبی پیشین گو ئیوں میں سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح کے پیروکارہمیشہ یہویوں پر جوکہ مسیح (علیه السلام) کے مخالف تھے ۔برتر رہیں گے ۔
آج کی دنیا میں ہم یہ حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہودی اور صہیونی عیسائیوں سے وابستگی اس پر بھروسہ کئے بغیر ایک دن بھی سیاسی اور سماجی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ واضح ہے کہ ” الذین کفروا“۔ سے مراد وہی یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کا انکار کیا ۔ کیا اہل یہود اور مسیح (علیه السلام) کا دین باقی رہے گا
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے وہ یہ کہ اس آیت کے مطابق یہود و نصاریٰ قیامت تک اس دنیا میں رہیں گے اور ان مذاہب کے پیروکار ہمیشہ موجود رہیں گے جب کہ ظہور حضرت ” مہدی علیہ السلام “سے مربوط اخبار اور روایات ہم پڑھتے ہیں کہ آپ تمام ادیان پر غالب آئیں گے اور آپ پوی دنیا پر حکومت کریں گے ۔
اس سوال کا جواب مذکورہ رویات پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ حضرت ” مہدی علیہ السلام “کے بارے میں مروی روایات میں ہے کہ کوئی گھر ۔ہر اور بیابان ایسا نہیں رہے گا جس میں توحیداداخل نہ ہو ۔ یعنی اسلام ایک با قاعدہ اور عمومی دین کی حیثیت سے دنیا کو اپنے اندرسمو لے گا اور اس وقت کی حکومت ایک اسلامی حکومت کے طور پر ابھرے گی اور اسلامی قوانین کے علاوہ دنیا پر کسی چیز کی حکمرانی نہیں ہوگی ۔ لیکن اس سے کوئی مانع نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی ایک اقلیت حضرت ” مہدی علیہ السلام “ کی حکومت کے زیر سایہ ” اہل ذمہ “ کی حیثیت سے موجود ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ” مہدی علیہ السلام “ لوگوں کو جبری طورپر اسلام کی طرف نہیں کھینچیں گے بلکہ منطق دلیل کے بل بوتے پر آگے بڑھیں گے اور آپ کی طاقت تو نظام عدل کے قیام ، ظالم حکومتوں کو سر نگوں کرنے اور دنیا کو زیر پر چم اسلام لانے کے لئے استعمال ہوگی ، نہ کہ آپ لوگوں کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور کریں گے ورنہ تو آزادی اور اختیار کا کوئی مفہو م نہیں رہے گا ۔
تیرے پیروکاروں کو قیامت تک کے لئے کافروں پر بر تری دوں گا ۔ یہ ایک بشارت ہے جوخدا نے حضرت مسیح (علیه السلام) اور ان کے پیرو کاروں کو دی تاکہ جو راہ انہوں منتخب کی تھی اس پر چلتے رہنے کے لئے ان میں ولولہ پیدا ہو ۔ در حقیقت یہ آیت قرآن کی معجزنمائیوں اور غیبی پیشین گو ئیوں میں سے ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح کے پیروکارہمیشہ یہویوں پر جوکہ مسیح (علیه السلام) کے مخالف تھے ۔برتر رہیں گے ۔
آج کی دنیا میں ہم یہ حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ یہودی اور صہیونی عیسائیوں سے وابستگی اس پر بھروسہ کئے بغیر ایک دن بھی سیاسی اور سماجی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے ۔ واضح ہے کہ ” الذین کفروا“۔ سے مراد وہی یہودی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کا انکار کیا ۔ کیا اہل یہود اور مسیح (علیه السلام) کا دین باقی رہے گا
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے وہ یہ کہ اس آیت کے مطابق یہود و نصاریٰ قیامت تک اس دنیا میں رہیں گے اور ان مذاہب کے پیروکار ہمیشہ موجود رہیں گے جب کہ ظہور حضرت ” مہدی علیہ السلام “سے مربوط اخبار اور روایات ہم پڑھتے ہیں کہ آپ تمام ادیان پر غالب آئیں گے اور آپ پوی دنیا پر حکومت کریں گے ۔
اس سوال کا جواب مذکورہ رویات پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کیونکہ حضرت ” مہدی علیہ السلام “کے بارے میں مروی روایات میں ہے کہ کوئی گھر ۔ہر اور بیابان ایسا نہیں رہے گا جس میں توحیداداخل نہ ہو ۔ یعنی اسلام ایک با قاعدہ اور عمومی دین کی حیثیت سے دنیا کو اپنے اندرسمو لے گا اور اس وقت کی حکومت ایک اسلامی حکومت کے طور پر ابھرے گی اور اسلامی قوانین کے علاوہ دنیا پر کسی چیز کی حکمرانی نہیں ہوگی ۔ لیکن اس سے کوئی مانع نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی ایک اقلیت حضرت ” مہدی علیہ السلام “ کی حکومت کے زیر سایہ ” اہل ذمہ “ کی حیثیت سے موجود ہو کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حضرت ” مہدی علیہ السلام “ لوگوں کو جبری طورپر اسلام کی طرف نہیں کھینچیں گے بلکہ منطق دلیل کے بل بوتے پر آگے بڑھیں گے اور آپ کی طاقت تو نظام عدل کے قیام ، ظالم حکومتوں کو سر نگوں کرنے اور دنیا کو زیر پر چم اسلام لانے کے لئے استعمال ہوگی ، نہ کہ آپ لوگوں کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور کریں گے ورنہ تو آزادی اور اختیار کا کوئی مفہو م نہیں رہے گا ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.