مختصر جواب:
مفصل جواب:
وَ إِنْ کانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلالَة۔۔۔
اس آیت میں ہمیں ایک نیا لفظ ملا ہے جو قرآن میں صرف دو مقام پر آیا ہے ۔ ایک زیر بحث آیت میں اور دوسرے سورہٴ نساء ہی کی آخری آیت میں اور وہ ہے لفظ ”کلالہ “ لغات کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ” کلالہ “ اصل میں مصدری معنی رکھتا ہے اور ” کلال “ کے معنی میں ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے ” قوت و توانائی کا ختم ہونا “ ۔ ۱
۱ ۔ صحا ح الغة میں ہے ۔ ” الکلالة فی الاصل مصدر بمعنی الکلال و ھو ذھاب القوة ۔
لیکن یہ لفظ بعد میں ان بہن بھائیوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو متوفی کی میراث لیتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ اور مناسبت یہ ہے کہ بھائی اور بہنیں میراث کے دوسرے طبقہ کا جزء ہیں اور صرف ماں باپ اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث ہوتے ہیں اور ایسا شخص جس کے ماں باپ ، اور اولاد نہ ہو یقینا رنج و مصیبت میں ہوتا ہے اور اپنی بیوی طاقت اور توانائی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ اس لئے انہیں ” کلالہ “ کہا جاتا ہے ۔ راغب مفردات میں لکھتا ہے کہ ” کلالہ “ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو متوفی کی میراث اس صورت میں لے جبکہ اس کے ماں باپ ، اولاد اور اولاد در اولاد نہ ہو ۔ لیکن ایک اور روایت جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے ، سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” کلالہ“ عنوان اور نشان ہے ایسے شخص کے لئے جو دنیا سے اس حال میں چل بسا ہو کہ اس کے نہ ماں باپ ہوں نہ اولاد ہو۔
نیز اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ کلالہ کا لفظ متوفی کے لئے بولا جائے اور اس قسم کے رشتہ داروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہو ۔ جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں اس موضوع کی وضاحت کی ہے ۔
باقی رہا یہ کہ قرآن مجید نے بہن بھائیوں کے الفاظ کے بجائے لفظ کلالہ کیوں چنا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایسے اشخاص جن کے ماں باپ ہوں نہ اولاد ، وہ یہ بات مد نظر رکھیں کہ ان کا مال ایسے لوگوں کے ہاتھ آئے گا جو اس کی کمزوری اور نا توانی کی نشانی ہیں ۔ اس لئے قبل از ایں کہ غیر لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں وہ خود اس مال کو کمزور مواقع ( ضرورت مند لوگوں کی مدد اور اجتماعی فلاح و بہبود ) میں خرچ کرے ۔
اس آیت میں ہمیں ایک نیا لفظ ملا ہے جو قرآن میں صرف دو مقام پر آیا ہے ۔ ایک زیر بحث آیت میں اور دوسرے سورہٴ نساء ہی کی آخری آیت میں اور وہ ہے لفظ ”کلالہ “ لغات کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ” کلالہ “ اصل میں مصدری معنی رکھتا ہے اور ” کلال “ کے معنی میں ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے ” قوت و توانائی کا ختم ہونا “ ۔ ۱
۱ ۔ صحا ح الغة میں ہے ۔ ” الکلالة فی الاصل مصدر بمعنی الکلال و ھو ذھاب القوة ۔
لیکن یہ لفظ بعد میں ان بہن بھائیوں کے لئے استعمال ہوا ہے جو متوفی کی میراث لیتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ اور مناسبت یہ ہے کہ بھائی اور بہنیں میراث کے دوسرے طبقہ کا جزء ہیں اور صرف ماں باپ اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں وارث ہوتے ہیں اور ایسا شخص جس کے ماں باپ ، اور اولاد نہ ہو یقینا رنج و مصیبت میں ہوتا ہے اور اپنی بیوی طاقت اور توانائی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ اس لئے انہیں ” کلالہ “ کہا جاتا ہے ۔ راغب مفردات میں لکھتا ہے کہ ” کلالہ “ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو متوفی کی میراث اس صورت میں لے جبکہ اس کے ماں باپ ، اولاد اور اولاد در اولاد نہ ہو ۔ لیکن ایک اور روایت جو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے ، سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ” کلالہ“ عنوان اور نشان ہے ایسے شخص کے لئے جو دنیا سے اس حال میں چل بسا ہو کہ اس کے نہ ماں باپ ہوں نہ اولاد ہو۔
نیز اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ کلالہ کا لفظ متوفی کے لئے بولا جائے اور اس قسم کے رشتہ داروں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہو ۔ جیسا کہ اس نے اپنی کتاب میں اس موضوع کی وضاحت کی ہے ۔
باقی رہا یہ کہ قرآن مجید نے بہن بھائیوں کے الفاظ کے بجائے لفظ کلالہ کیوں چنا ہے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ایسے اشخاص جن کے ماں باپ ہوں نہ اولاد ، وہ یہ بات مد نظر رکھیں کہ ان کا مال ایسے لوگوں کے ہاتھ آئے گا جو اس کی کمزوری اور نا توانی کی نشانی ہیں ۔ اس لئے قبل از ایں کہ غیر لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں وہ خود اس مال کو کمزور مواقع ( ضرورت مند لوگوں کی مدد اور اجتماعی فلاح و بہبود ) میں خرچ کرے ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.