مختصر جواب:
مفصل جواب:
قرآن میں ”مشرکین“ کا لفظ زیادہ تر بت پرستوں کے لیے استعمال کیاگیاہے۔ لہذا جہاں کہیں یہ لفظ آئے، یہ تو مسلم ہے کہ اس کے مفہوم میں بت پرست ضرور شامل ہیں، یہی وجہ سے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرکیں کا لفظ اہل کتاب (یہود ، نصاری اور مجوس) کے مقابلے میں آیاہے۔
بعض مفسرین کا اعتماد ہے کہ مشرک کے مفہوم میں یہود، نصاری اور مجوس سمیت سب کفار شامل ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر فریق خدا کے شریک کا قائل ہے۔ نصاری تثلیث کے قائل ہیں ، مجوس تنویت یا دوگانہ پرستی پر اعتماد رکھتے ہیں، اور یہودی عزیر کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔
یہ عقائد اگرچہ شرک آور ہیں لیکن اس طرف دیکھتے ہوئے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرک، اہل کتاب کے مقابلے میں آیا ہے، قرآنی اصطلاح میں اس کا مفہوم بت پرست ہی نکلتاہے۔
پیغمبر اسلام سے منقول ایک مشہور حدیث ہے۔ اس میں آپ نے اپنی وصیتوں میں فرمایاہے کہ مشرکین کو حتمی طورپر جزیرة العرب سے نکال دو۔ اس میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ اہل کتاب جزیرة العرب سے نہیں نکالے گئے اور وہ جزیہ ادا کرکے ایک مذہبی اقلیت کے طور پر اسلام کی پناہ میں زندگی بسر کرتے رہے۔۱
بعض مفسرین کا اعتماد ہے کہ مشرک کے مفہوم میں یہود، نصاری اور مجوس سمیت سب کفار شامل ہیں۔ کیونکہ ان میں سے ہر فریق خدا کے شریک کا قائل ہے۔ نصاری تثلیث کے قائل ہیں ، مجوس تنویت یا دوگانہ پرستی پر اعتماد رکھتے ہیں، اور یہودی عزیر کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں۔
یہ عقائد اگرچہ شرک آور ہیں لیکن اس طرف دیکھتے ہوئے کہ قرآن کی بہت سی آیات میں مشرک، اہل کتاب کے مقابلے میں آیا ہے، قرآنی اصطلاح میں اس کا مفہوم بت پرست ہی نکلتاہے۔
پیغمبر اسلام سے منقول ایک مشہور حدیث ہے۔ اس میں آپ نے اپنی وصیتوں میں فرمایاہے کہ مشرکین کو حتمی طورپر جزیرة العرب سے نکال دو۔ اس میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ مسلم ہے کہ اہل کتاب جزیرة العرب سے نہیں نکالے گئے اور وہ جزیہ ادا کرکے ایک مذہبی اقلیت کے طور پر اسلام کی پناہ میں زندگی بسر کرتے رہے۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.