مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس آیت کا جواب سوره «اعراف»کی آیت ۱۳۸
(اِنَّکُمْ قُومٌ تَجْهَلُونَ)آچھی طرح سے حا صل کیا جاسکتا ہے ۔اس آیت میں اللہ تعالی امت موسیٰ (علیه السلام) کے جاہل افراد یہ منظر دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئے کہ فوراً حضرت موسیٰ (علیه السلام) کے پاس آن کر "وہ کہنے لگے اے موسیٰ ! ہمارے واسطے بھی بالکل ویسا ہے معبود بنا دو جیسا معبود ان لوگوں کا ہے“ ( قَالُوا یَامُوسیٰ اجْعَل لَنَا إِلَھًا َمَا لَھُمْ آلِھَة) ۔
حضرت موسیٰ (علیه السلام)ان کی اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراج ہوئے، آپ نے ان لوگون سے کہا: تم لوگ جاہل اور بے خبر قوم ہو ( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُونَ ) ۔
۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بت پرستی کا اصل سبب بشر کا جہل اور نادانی ہے، اس کا ایک جہل تو اپنے خالق حقیقی سے ہے یعنی اس کی ذات پاک کو نہ جانا اور یہ نہ جاننا کہ اس کی شبیہ ونظیر ہرگز ممکن نہیں ہے ۔
دوسری طرف اس جہان کی اصل علت سے جہل ہے اور اس کے حوادث کی علت سے بے خبر ی ہے اس جہل کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن ہر حادثے کی ایک خیالی علت تراش لیتاہے یہاں تک کہ بتوں کو بھی علت مان لیتا ہے ۔
اس کا تیسرا جہل عالم ماوراء طبیعت سے ہے جس کے نتیجہ میں سوائے حسی اشیاء کہ جن کو وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور حواس پنجگانہ سے محسوس کرتا ہے، اور کسی چیز کو نہیں مانتا، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان تین طرح کے جہلوں کی آمیزش سے بت پرستی کا مادہ پیدا ہوتا ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا انسان جو آگاہ وفہمیدہ ہو، خدا اور اس کی صفات ذاتی سے باخبر ہو، علل حوادث کا بھی اسے علم ہو، جہان طبیعت اور ماواء طبیعت کی بھی اطلاع رکھتا ہو پھر اپنے ہاتھوں سے پہاڑ میں سے پتھر کے ایک ٹکڑے کو جدا کرے، اس کے ایک حصہ کو اپنے مکان کے کسی حصے مثلاً سیڑھی وغیرہ کے لئے استعمال کرے اور اسی پتھر کے دوسرے حصے سے ایک بت تراشے اور اسے اپنا معبود قرار دے کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے اور اسے اپنی تقدیر کا مالک ومختار سمجھ بیٹھے؟!۱
حضرت موسیٰ (علیه السلام)ان کی اس جاہلانہ اور احمقانہ فرمائش سے بہت ناراج ہوئے، آپ نے ان لوگون سے کہا: تم لوگ جاہل اور بے خبر قوم ہو ( قَالَ إِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُونَ ) ۔
۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بت پرستی کا اصل سبب بشر کا جہل اور نادانی ہے، اس کا ایک جہل تو اپنے خالق حقیقی سے ہے یعنی اس کی ذات پاک کو نہ جانا اور یہ نہ جاننا کہ اس کی شبیہ ونظیر ہرگز ممکن نہیں ہے ۔
دوسری طرف اس جہان کی اصل علت سے جہل ہے اور اس کے حوادث کی علت سے بے خبر ی ہے اس جہل کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن ہر حادثے کی ایک خیالی علت تراش لیتاہے یہاں تک کہ بتوں کو بھی علت مان لیتا ہے ۔
اس کا تیسرا جہل عالم ماوراء طبیعت سے ہے جس کے نتیجہ میں سوائے حسی اشیاء کہ جن کو وہ اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور حواس پنجگانہ سے محسوس کرتا ہے، اور کسی چیز کو نہیں مانتا، تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان تین طرح کے جہلوں کی آمیزش سے بت پرستی کا مادہ پیدا ہوتا ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ایسا انسان جو آگاہ وفہمیدہ ہو، خدا اور اس کی صفات ذاتی سے باخبر ہو، علل حوادث کا بھی اسے علم ہو، جہان طبیعت اور ماواء طبیعت کی بھی اطلاع رکھتا ہو پھر اپنے ہاتھوں سے پہاڑ میں سے پتھر کے ایک ٹکڑے کو جدا کرے، اس کے ایک حصہ کو اپنے مکان کے کسی حصے مثلاً سیڑھی وغیرہ کے لئے استعمال کرے اور اسی پتھر کے دوسرے حصے سے ایک بت تراشے اور اسے اپنا معبود قرار دے کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے اور اسے اپنی تقدیر کا مالک ومختار سمجھ بیٹھے؟!۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.