مختصر جواب:
مفصل جواب:
اس سؤال کا جواب سوره «اعراف»کی آیت ۵۰ سے مل سکتا ہے جس میں خدا وند عالم فرماتا ہے :«دوزخ والے جنت والوں سے پکارکر کہیں گے کہ تھوڑا پانی، یا خدا نے تمھیں جو روزی بخشی ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو، تو وہ (جنّت والے اس کے جواب میں) کہیں گے کہ خدا نے اس کو کافروں پر حرام قرار دیا ہے ۔
۱۔ قرآن نے پر لفظ ”نادیٰ“ استعمال کیا ہے دُور سے پکارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ کے درمیان کافی فاصلہ ہوگا، ساتھ ہی یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ یہ فاصلہ لاکھوں میل دُوری کا ہولیکن بقدرتِ الٰہی دونوں گروہ ایک دوسرے کی بات سن سکیںگے بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے کو اتنے فاصلہ کے باوجود دیکھ سکیں، اگرچہ یہ بات گذشتہ زمانے میں بعض لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی تھیں لیکن اب وہ زمانہ آگیا ہے جس میں دُور کی صدا یا دور سے کسی کو دیکھنا ممکن ہوگیا ہے لہٰذا اس زمانہ میں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
۲۔ اہلِ دوزخ کی سب سے پہلی تمنّا یہ بیان کی گئی ہے کہ انھیں نے پانی طلب کیا، یہ ایک فطری امر ہے کہ جو شخص بھی آگ میں جلتا ہے اسے سب سے پہلے پانی کی طلب ہوتی ہے تاکہ اپنی سوزش کو تسکین پہنچاسکے ۔
۳۔ ”مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ“ (جو کچھ الله نے تم کو روزی دی ہے اس میں سے) یہ جملہ ایک سربستہ جملہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخیوں کو یہ تک پتہ نہ چلے گا کہ اہلِ جنت کو کیا کیا نعمتیں ملی ہیں اور ان کی ماہیت کیا ہے، یہ مطلب بعض احادیث کے بالکل مطابق وارد ہوا ہے کہ جنّت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا، بلکہ کسی کے ذہن میں بھی ایسی نعمتیں نہ آئی ہوں گی ۔
ضمنی طور سے ایک مطلب اور بھی لفظ ”اٴو“ میں مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ جنت کی دیگر نعمتیں خاص طور پر جنت کے میوے پانی کا بدل ہوسکتے ہیں اور ان سے انسان کی بھڑکتی ہوئی پیاس بجھ سکتی ہے ۔
۴۔ ”إِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ“ (خدا نے انھیں کافروں کے لئے حرام قرار دیا ہے) یہ جملہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اہل بہشت کو یہ چیزیں دینے میں تو کوئی کمی واقع ہوگی اور نہ ہی ان کے دلوں میں کسی کی طرف سے کینہ ہوگا یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی وہ کوئی بغض وحسد نہ رکھتے ہوں گے لیکن دوزخیوں کی وضعیت کچھ ایسی ہے کہ وہ ان نعماتِ الٰہی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے یہ تحریم فی الحقیقت ایک طرح کی ”تحریم تکوینی“ ہے جیسے بہت سے بیمار لذیذ اور رنگاررنگ کھانوں سے محروم ہوجاتے ہیں ۔۱
۱۔ قرآن نے پر لفظ ”نادیٰ“ استعمال کیا ہے دُور سے پکارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ کے درمیان کافی فاصلہ ہوگا، ساتھ ہی یہ بات بھی بعید نہیں ہے کہ یہ فاصلہ لاکھوں میل دُوری کا ہولیکن بقدرتِ الٰہی دونوں گروہ ایک دوسرے کی بات سن سکیںگے بلکہ بعض اوقات ایک دوسرے کو اتنے فاصلہ کے باوجود دیکھ سکیں، اگرچہ یہ بات گذشتہ زمانے میں بعض لوگوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی تھیں لیکن اب وہ زمانہ آگیا ہے جس میں دُور کی صدا یا دور سے کسی کو دیکھنا ممکن ہوگیا ہے لہٰذا اس زمانہ میں اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے ۔
۲۔ اہلِ دوزخ کی سب سے پہلی تمنّا یہ بیان کی گئی ہے کہ انھیں نے پانی طلب کیا، یہ ایک فطری امر ہے کہ جو شخص بھی آگ میں جلتا ہے اسے سب سے پہلے پانی کی طلب ہوتی ہے تاکہ اپنی سوزش کو تسکین پہنچاسکے ۔
۳۔ ”مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ“ (جو کچھ الله نے تم کو روزی دی ہے اس میں سے) یہ جملہ ایک سربستہ جملہ ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخیوں کو یہ تک پتہ نہ چلے گا کہ اہلِ جنت کو کیا کیا نعمتیں ملی ہیں اور ان کی ماہیت کیا ہے، یہ مطلب بعض احادیث کے بالکل مطابق وارد ہوا ہے کہ جنّت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا اور نہ کسی کان نے سنا ہوگا، بلکہ کسی کے ذہن میں بھی ایسی نعمتیں نہ آئی ہوں گی ۔
ضمنی طور سے ایک مطلب اور بھی لفظ ”اٴو“ میں مضمر ہے اور وہ یہ ہے کہ جنت کی دیگر نعمتیں خاص طور پر جنت کے میوے پانی کا بدل ہوسکتے ہیں اور ان سے انسان کی بھڑکتی ہوئی پیاس بجھ سکتی ہے ۔
۴۔ ”إِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ“ (خدا نے انھیں کافروں کے لئے حرام قرار دیا ہے) یہ جملہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اہل بہشت کو یہ چیزیں دینے میں تو کوئی کمی واقع ہوگی اور نہ ہی ان کے دلوں میں کسی کی طرف سے کینہ ہوگا یہاں تک کہ اپنے دشمنوں سے بھی وہ کوئی بغض وحسد نہ رکھتے ہوں گے لیکن دوزخیوں کی وضعیت کچھ ایسی ہے کہ وہ ان نعماتِ الٰہی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے یہ تحریم فی الحقیقت ایک طرح کی ”تحریم تکوینی“ ہے جیسے بہت سے بیمار لذیذ اور رنگاررنگ کھانوں سے محروم ہوجاتے ہیں ۔۱
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.