مختصر جواب:
مفصل جواب:
ہم جانتے ہیں کہ تیرے خلیفہ پر کو اعتراضات کئے گئے ہیں ان میں سے ایک ابوذر کی ظالمانہ جلا وطنی ہے، انہیں بری آب وہوا کے مقام ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں آخرکار یہ عظیم صحابی اور راہ السام کے فداکار مجاہد اس دنیا سے چل بسے، ابوذرۻ،وہ شخص کہ جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا:
آسمان نے کسی ایسے شخص پر سایہ نہیں کیا نی زمین نے اسے اٹھایا کو ابوذرۻ سے بڑھ کر سچا ہو۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان سے ابوذرۻ کا اختلاف مال کی تمنا اور کسی مقام ومنصب کی آرزو کی بنیاد پر نہ تھا کیوں کہ ابوذرۻ پارسا اور آزاد انسان تھے، ان کے اختلاف کا سرچشمہ صرف تیسرے خلیفہ کی بیت المال کے بارے میں فضول خرچی، اپنی قوم اور قبیلہ پر ان کی بے پناہ نوازشات اور اپنے حامیوں پر ان کی بے شمار بخشش تھی ۔
ابوذرۻ مالی مسائل کے بارے میں خصوصا ان کا تعلق بیت الما ل سے ہوتا بہت ہی سخت گیر تھے اور چاہتے تھے کہ تمام اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی روش اپنائے مگر ہم جانتے ہیں کہ خلیفہ سوم کے دور میں صورت حال مختلف تھے ۔
بہرحال اس عظیم صحابی کی صریح اور قطعی باتیں خلیفہ سوم کو ناگوار گزریں ، انہیں نے پہلے تو انہیں شام کی طرف بھیج دیا مگر ابوذرۻ وہاں زیادہ صراحت اور زیادہ قاطعیت سے معاویہ کے کرتوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ،یہاں تک کہ ابن عباس کہتے ہیں:
معاویہ نے عثمان کو لکھا: اگر آپ کو شام کی ضرورت ہے تو ابوذرۻ کو واپس بلالیں کیوں کہ اگر وہ یہاں رہ گئے تو یہ علاقہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
عثمان نے خط لکھا اور ابوذرۻ کے حاضر ہونے کا حکم صادر کیا اور بعض تواریخ کے مطابق معاویہ حکم دیا کہ ابوذرۻ کو مدینہ بھیجنے کے لئے ایسے افراد معمور کئے جائیں جو رات دن انہیں مدینہ کی راہ پر چلاتے رہیںاور انہیں لمحہ بھر آرام نہ کرنے دیں ۔
یہاں تک کہ جب ابوذرۻ مدینہ میں پہنچے تو بیمار ہوگئے اور چونکہ ان کا مدینہ میں رہنا بھی کاروبار خلافت کے لئے گوارا نہ تھا لہٰذا انہیں ربذہ کی طرف بھیج دیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوگئی ۔
جو لوگ اس سلسلے میں خلیفہ سوم کا دفاع کرنا چاہتے تھے وہ بعض اوقات ابوذرۻ پر تہمت لگاتے ہیںکہ وہ اشتراکی نظریہ رکھتے تھے اور تمام مال کو اللہ کا مال سمجھتے تھے اور شخصی ملکیت کا انکار کرتے تھے ۔
یہ اتہام نہاےت عجیب ہے ۔ کیاباوجود یکہ قرآن صراحت سے خاص شرائط کے ساتھ تمام شخصی ملکیتوں کو محترم سمجھتاہے اور باوجودیکہ ابوذرۻ رسول اللہ کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور انہوں نے قرآن کے دامن میں پرورش پائی تھی اور آسمان کے نیچے ان سے زیادہ سچّا کوئی پیدا نہیں ہوا تھا، پھر ان کی طرف ایسی نسبت کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
دور دراز کے بادیہ نشین تو اس اسلامی حکم کو جانتے تھے اور انہیں نے تجارت اور میراث وغیرہ سے مربوط آیات سن رکھی تھیں تو پھر کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم کے نزدیک ترین شاگرد اس حکم سے بے خبر ہوں ۔
کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات ہے کہ ہٹ دھرم متعصبین نے خلیفہ سوم کے برائت کے لئے ان پر اس قسم کی تہمت لگائی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ معاویہ کے طرز عمل کے دفاع میں یہ اتہام باندھا ہے، اب بھی کچھ لوگ آنکھ کان بند کرکے اس بات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔
جی ہاں! ابوذرۻ آیات قرآنی سے راہنمائی لے کر خصوصا ”آیہ کنز“ سے ہدایت حاصل کرتے ہوئے یہ نظریہ رکھتے تھے اور صراحت کے ساتھ اس نظرےے کا اظہار کرتے تھے کہ اسلامی بیت المال بعض لوگوں کی خصوصی ملکیت نہیں بننا چاہئے، ان کا نظریہ تھا کہ وہ اموال جن میں محروموں اور حاجت مندوں کا حق ہے اور جنہیں تقویت اسلام کے لئے اور مفاد مسلمین کے لئے صرف ہونا چاہئے وہ کسی کو اپنے تئیں حاتم طائی ثابت کتنے کے لئے یا تعمیر محلات کے افسانوں کو زندہ کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئیں ۔
علاوہ ازایں ابوذرۻ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جس دور میں مسلمان انتہائی تنگدستی میں مبتلا ہیں ثروت مندوں کو بھی سادہ تریں زندگی پر قناعت کرنا چاہئے اور اپنے مال میں سے انہیں کچھ راہ خدا میں کرچ کرنا چاہئے، اگر ابوذرۻ کا کوئی گناہ تھا تو یہی تھا لیکن رائے مورخین ، بنی امیہ اور چاپلوس اور دین فروش راویوں نے اس مرد مجاہد کا چہری بگاڑنے اور مسخ کرنے کے لئے ایسی ناروا تہمتیں ان پر لگائی ہیں ۔
ابوذرۻ کا دوسرا ”گناہ“ یہ تھا کہ امیرالمومنین کے ساتھ خاص لگاؤ رکھتے تھے یہ”گناہ“ اکیلا ہی اس بات کے لئے کافی تھا کہ بنی امیہ کے جھوٹے پراپیگنڈہ کرنے والے اپنی شیطانی طاقت ابوذرۻ کی حیثیت کو داغدار کرنے کے لئے صرف کریں لیکن ان کا دامن اس طرح سے پاک تھا اور ان کی سچائی اور اسلامی مسائل سے آگاہی اس قدر واضح اور روشن تھی کہ جس نے ان سب جھوٹون کو ذلیل ورسوا کردیا ۔
ان میں سے عجیب ایک عجیب افتراء جو خلیفہ سوم کو بری کرنے کے لئے ابوذرۻ پر باندھا گیا ہے طبقات ابن سعد میں منقول ہے وہ یہ کہ :
جب ابوذرۻ ربذہ میں تھے اہل کوفہ کاگروہ آپ کے پاس آیا، اس نے کہا: اس شخص(یعنی، عثمان)نے آپ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے کیا آپ تیار ہیں کہ پرچم بلند کریں اور ہم اس پرچم تلے اس کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ۔
ابوذرۻ نے کہا: نہیں، اگر عثمان مجھے مشرق سے مغرب کی طرف بھیج دے، تب بھی میں اس کا تابع فرمان رہوں گا ۔(۱)
ان جعل سازوں نے اس طرف توجہ نہ کی کہ اگروہ خلیفہ کے اتنے ہی تابع فرمان تھے تو پھر ان کی اتنی مزاحمت کیوں کرتے کہ ان کا مدینہ میں رہنا خلیفہ پر گراں ہوجاتا کہ جسے وہ کسی طرح برداشت نہ کرپائے ۔
اس سے زیادہ تعجب انگیز وہ بات ہے جس کی طرف المانر کے مولف نے زیر بحث آیت کے ذیل میں ابوذرۻ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے، وہ یہ کہ ابوذرۻ کا واقعہ نشاندہی کرتا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں خصوصا حضرت عثمان کے دور میں اظہار رائے کی قسم قدر آزادی تھی ، علماء کا کتنا احترام ہوتا تھا اور خلفاء ان سے کتنی محبت کرتے تھے یہاںتک کہ معاویہ جو جرات نہ ہوئی کہ وہ ابوذرۻ سے کچھ کہے بلکہ اپنے لئے حاکم بالا یعنی خلیفہ کو لکھا اور ان سے حکم لیا ۔
واقعا تعصب کیاکچھ نہیں کرتا، کیا ربذہ کی گرم، خشک اور جلادینے والی سرزمین جو موت اور آگ کی سرزمین تھی، کی طرف جلا وطن کرنا وعلماء کے لئے آزادی فکر اور احترام محبت کا نمونہ تھا ؟۔ کیا اس عظیم صحابی کو موت کی وادی میں دھکیل دینا حریت عقیدہ کی دلیل ہے؟ اگر معاویہ عوام کے افکار کے سیلاب کے خوف سے اکیلا ابوذرۻ کے بارے میں کوئی منصوبہ نہ بنا سکا تو یہ اس کی طرف سے ان کے احترام کی علامت ہے؟
اس واقعہ کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ خلیفہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ ابوذر کی جلا وطنی ”مفسدی کو دور کرنے کے لئے مصلحت کے مقدم ہونے“کے قانون کے مطابق ہے کیوں کہ اگرچہ ابوذر کے مدینہ میں رہنے کی بڑی مصلحتیں اور فائدے ےجء اور لوگ ان کے علم ودانش سے بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر عثمان کا نظریہ یہ تھا کہ ان کا غیر لچکدار طرز فکر اور اموال کے بارے میں ان کا سخت رویہ مفاسد اور خرابیوں کا سرچشمہ ہے لہٰذا ان کے وجود کے فائدوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں مدینہ سے باہر بھیج دیا اور چونکہ ابوذرۻ اور عثمان دونوں مجتہد تھے لہٰذا یہاں کسی کے عمل پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
واقعا ہمیں معلوم نہیں کہ ابوذرۻ کے مدینہ میں رہنے سے کیا خرابی پیدا ہوتی تھی؟ کیا لوگوں کو سنت پیغمبر کی طرف پلٹانا خرابی کا باعث تھا ؟
حضرت ابوذرۻ نے آخر پہلے اوردوسرے خلیفہ کی مالی منصبوبہ بندی جو عثمان کے طرز عمل سے مختلف تھی پر اعتراض کیوں نہیں کیا ۔
تو کیا لوگوں کو صدر اسلام کے مالی لائحہ عمل کی طرف پلٹانا فساد کا باعث تھا؟
کیا ابوذرۻ کو جلا وطن کرنا اور ان کی حق گو زبان منقطع کرنا اصلاح کا سر چشمہ تھا ۔
کیا حضرت عثمان کے طرز عمل سے خصوصا مالی اموار میں ان کے طریق کار سے اتنا عظیم دھماکہ نہیں ہوا جس کی بھینٹ وہ خود بھی چڑھ گئے؟
کیا یہ مفسدہ تھا اور اسے ترک کرنا مصلحت تھا ؟
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب تعصب ایک دروازے داخل ہوتا ہے عقل دوسرے دروازے سے رخصت ہوجاتی ہ، بہرحال اس عظیم صحابی کا طرز عمل کسی منصف مزاج محقق پر پوشیدہ نہیں ہے اور کوئی ایسا منطقی راستہ نہیں کہ خلیفہ سوم کی اس آزار اور تکلیف کے بارے میں برائت ہو سکے جو ان سے حضرت ابوذر ۻ کو پہنچی ۔۲
آسمان نے کسی ایسے شخص پر سایہ نہیں کیا نی زمین نے اسے اٹھایا کو ابوذرۻ سے بڑھ کر سچا ہو۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان سے ابوذرۻ کا اختلاف مال کی تمنا اور کسی مقام ومنصب کی آرزو کی بنیاد پر نہ تھا کیوں کہ ابوذرۻ پارسا اور آزاد انسان تھے، ان کے اختلاف کا سرچشمہ صرف تیسرے خلیفہ کی بیت المال کے بارے میں فضول خرچی، اپنی قوم اور قبیلہ پر ان کی بے پناہ نوازشات اور اپنے حامیوں پر ان کی بے شمار بخشش تھی ۔
ابوذرۻ مالی مسائل کے بارے میں خصوصا ان کا تعلق بیت الما ل سے ہوتا بہت ہی سخت گیر تھے اور چاہتے تھے کہ تمام اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی روش اپنائے مگر ہم جانتے ہیں کہ خلیفہ سوم کے دور میں صورت حال مختلف تھے ۔
بہرحال اس عظیم صحابی کی صریح اور قطعی باتیں خلیفہ سوم کو ناگوار گزریں ، انہیں نے پہلے تو انہیں شام کی طرف بھیج دیا مگر ابوذرۻ وہاں زیادہ صراحت اور زیادہ قاطعیت سے معاویہ کے کرتوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ،یہاں تک کہ ابن عباس کہتے ہیں:
معاویہ نے عثمان کو لکھا: اگر آپ کو شام کی ضرورت ہے تو ابوذرۻ کو واپس بلالیں کیوں کہ اگر وہ یہاں رہ گئے تو یہ علاقہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
عثمان نے خط لکھا اور ابوذرۻ کے حاضر ہونے کا حکم صادر کیا اور بعض تواریخ کے مطابق معاویہ حکم دیا کہ ابوذرۻ کو مدینہ بھیجنے کے لئے ایسے افراد معمور کئے جائیں جو رات دن انہیں مدینہ کی راہ پر چلاتے رہیںاور انہیں لمحہ بھر آرام نہ کرنے دیں ۔
یہاں تک کہ جب ابوذرۻ مدینہ میں پہنچے تو بیمار ہوگئے اور چونکہ ان کا مدینہ میں رہنا بھی کاروبار خلافت کے لئے گوارا نہ تھا لہٰذا انہیں ربذہ کی طرف بھیج دیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوگئی ۔
جو لوگ اس سلسلے میں خلیفہ سوم کا دفاع کرنا چاہتے تھے وہ بعض اوقات ابوذرۻ پر تہمت لگاتے ہیںکہ وہ اشتراکی نظریہ رکھتے تھے اور تمام مال کو اللہ کا مال سمجھتے تھے اور شخصی ملکیت کا انکار کرتے تھے ۔
یہ اتہام نہاےت عجیب ہے ۔ کیاباوجود یکہ قرآن صراحت سے خاص شرائط کے ساتھ تمام شخصی ملکیتوں کو محترم سمجھتاہے اور باوجودیکہ ابوذرۻ رسول اللہ کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور انہوں نے قرآن کے دامن میں پرورش پائی تھی اور آسمان کے نیچے ان سے زیادہ سچّا کوئی پیدا نہیں ہوا تھا، پھر ان کی طرف ایسی نسبت کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
دور دراز کے بادیہ نشین تو اس اسلامی حکم کو جانتے تھے اور انہیں نے تجارت اور میراث وغیرہ سے مربوط آیات سن رکھی تھیں تو پھر کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم کے نزدیک ترین شاگرد اس حکم سے بے خبر ہوں ۔
کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات ہے کہ ہٹ دھرم متعصبین نے خلیفہ سوم کے برائت کے لئے ان پر اس قسم کی تہمت لگائی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ معاویہ کے طرز عمل کے دفاع میں یہ اتہام باندھا ہے، اب بھی کچھ لوگ آنکھ کان بند کرکے اس بات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔
جی ہاں! ابوذرۻ آیات قرآنی سے راہنمائی لے کر خصوصا ”آیہ کنز“ سے ہدایت حاصل کرتے ہوئے یہ نظریہ رکھتے تھے اور صراحت کے ساتھ اس نظرےے کا اظہار کرتے تھے کہ اسلامی بیت المال بعض لوگوں کی خصوصی ملکیت نہیں بننا چاہئے، ان کا نظریہ تھا کہ وہ اموال جن میں محروموں اور حاجت مندوں کا حق ہے اور جنہیں تقویت اسلام کے لئے اور مفاد مسلمین کے لئے صرف ہونا چاہئے وہ کسی کو اپنے تئیں حاتم طائی ثابت کتنے کے لئے یا تعمیر محلات کے افسانوں کو زندہ کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئیں ۔
علاوہ ازایں ابوذرۻ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جس دور میں مسلمان انتہائی تنگدستی میں مبتلا ہیں ثروت مندوں کو بھی سادہ تریں زندگی پر قناعت کرنا چاہئے اور اپنے مال میں سے انہیں کچھ راہ خدا میں کرچ کرنا چاہئے، اگر ابوذرۻ کا کوئی گناہ تھا تو یہی تھا لیکن رائے مورخین ، بنی امیہ اور چاپلوس اور دین فروش راویوں نے اس مرد مجاہد کا چہری بگاڑنے اور مسخ کرنے کے لئے ایسی ناروا تہمتیں ان پر لگائی ہیں ۔
ابوذرۻ کا دوسرا ”گناہ“ یہ تھا کہ امیرالمومنین کے ساتھ خاص لگاؤ رکھتے تھے یہ”گناہ“ اکیلا ہی اس بات کے لئے کافی تھا کہ بنی امیہ کے جھوٹے پراپیگنڈہ کرنے والے اپنی شیطانی طاقت ابوذرۻ کی حیثیت کو داغدار کرنے کے لئے صرف کریں لیکن ان کا دامن اس طرح سے پاک تھا اور ان کی سچائی اور اسلامی مسائل سے آگاہی اس قدر واضح اور روشن تھی کہ جس نے ان سب جھوٹون کو ذلیل ورسوا کردیا ۔
ان میں سے عجیب ایک عجیب افتراء جو خلیفہ سوم کو بری کرنے کے لئے ابوذرۻ پر باندھا گیا ہے طبقات ابن سعد میں منقول ہے وہ یہ کہ :
جب ابوذرۻ ربذہ میں تھے اہل کوفہ کاگروہ آپ کے پاس آیا، اس نے کہا: اس شخص(یعنی، عثمان)نے آپ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے کیا آپ تیار ہیں کہ پرچم بلند کریں اور ہم اس پرچم تلے اس کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ۔
ابوذرۻ نے کہا: نہیں، اگر عثمان مجھے مشرق سے مغرب کی طرف بھیج دے، تب بھی میں اس کا تابع فرمان رہوں گا ۔(۱)
ان جعل سازوں نے اس طرف توجہ نہ کی کہ اگروہ خلیفہ کے اتنے ہی تابع فرمان تھے تو پھر ان کی اتنی مزاحمت کیوں کرتے کہ ان کا مدینہ میں رہنا خلیفہ پر گراں ہوجاتا کہ جسے وہ کسی طرح برداشت نہ کرپائے ۔
اس سے زیادہ تعجب انگیز وہ بات ہے جس کی طرف المانر کے مولف نے زیر بحث آیت کے ذیل میں ابوذرۻ کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے، وہ یہ کہ ابوذرۻ کا واقعہ نشاندہی کرتا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں خصوصا حضرت عثمان کے دور میں اظہار رائے کی قسم قدر آزادی تھی ، علماء کا کتنا احترام ہوتا تھا اور خلفاء ان سے کتنی محبت کرتے تھے یہاںتک کہ معاویہ جو جرات نہ ہوئی کہ وہ ابوذرۻ سے کچھ کہے بلکہ اپنے لئے حاکم بالا یعنی خلیفہ کو لکھا اور ان سے حکم لیا ۔
واقعا تعصب کیاکچھ نہیں کرتا، کیا ربذہ کی گرم، خشک اور جلادینے والی سرزمین جو موت اور آگ کی سرزمین تھی، کی طرف جلا وطن کرنا وعلماء کے لئے آزادی فکر اور احترام محبت کا نمونہ تھا ؟۔ کیا اس عظیم صحابی کو موت کی وادی میں دھکیل دینا حریت عقیدہ کی دلیل ہے؟ اگر معاویہ عوام کے افکار کے سیلاب کے خوف سے اکیلا ابوذرۻ کے بارے میں کوئی منصوبہ نہ بنا سکا تو یہ اس کی طرف سے ان کے احترام کی علامت ہے؟
اس واقعہ کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ خلیفہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ ابوذر کی جلا وطنی ”مفسدی کو دور کرنے کے لئے مصلحت کے مقدم ہونے“کے قانون کے مطابق ہے کیوں کہ اگرچہ ابوذر کے مدینہ میں رہنے کی بڑی مصلحتیں اور فائدے ےجء اور لوگ ان کے علم ودانش سے بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر عثمان کا نظریہ یہ تھا کہ ان کا غیر لچکدار طرز فکر اور اموال کے بارے میں ان کا سخت رویہ مفاسد اور خرابیوں کا سرچشمہ ہے لہٰذا ان کے وجود کے فائدوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں مدینہ سے باہر بھیج دیا اور چونکہ ابوذرۻ اور عثمان دونوں مجتہد تھے لہٰذا یہاں کسی کے عمل پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
واقعا ہمیں معلوم نہیں کہ ابوذرۻ کے مدینہ میں رہنے سے کیا خرابی پیدا ہوتی تھی؟ کیا لوگوں کو سنت پیغمبر کی طرف پلٹانا خرابی کا باعث تھا ؟
حضرت ابوذرۻ نے آخر پہلے اوردوسرے خلیفہ کی مالی منصبوبہ بندی جو عثمان کے طرز عمل سے مختلف تھی پر اعتراض کیوں نہیں کیا ۔
تو کیا لوگوں کو صدر اسلام کے مالی لائحہ عمل کی طرف پلٹانا فساد کا باعث تھا؟
کیا ابوذرۻ کو جلا وطن کرنا اور ان کی حق گو زبان منقطع کرنا اصلاح کا سر چشمہ تھا ۔
کیا حضرت عثمان کے طرز عمل سے خصوصا مالی اموار میں ان کے طریق کار سے اتنا عظیم دھماکہ نہیں ہوا جس کی بھینٹ وہ خود بھی چڑھ گئے؟
کیا یہ مفسدہ تھا اور اسے ترک کرنا مصلحت تھا ؟
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب تعصب ایک دروازے داخل ہوتا ہے عقل دوسرے دروازے سے رخصت ہوجاتی ہ، بہرحال اس عظیم صحابی کا طرز عمل کسی منصف مزاج محقق پر پوشیدہ نہیں ہے اور کوئی ایسا منطقی راستہ نہیں کہ خلیفہ سوم کی اس آزار اور تکلیف کے بارے میں برائت ہو سکے جو ان سے حضرت ابوذر ۻ کو پہنچی ۔۲
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.