مختصر جواب:
مفصل جواب:
سوره «توبه» کی آیت ۳۱ میں تھوڑا سا غور و فکر کرنے سے اس سوال کا جواب ممکن ہے اس آیت میں خدا وندہ عالم فرماتا ہے کہ ہم کبھی بھی انسانوں کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ اپنے لئے متعدد خدا بنالو بلکہ انھیں حکم دیا گیا ہے کہ صرف ایک تنہا خدا کی پرستش کرو (وَمَا اٴُمِرُوا إِلاَّ لِیَعْبُدُوا إِلَھًا وَاحِدًا) ۔ وہ معبود کہ جس کے علاوہ کوئی بھی پرستش کے لائق نہیں (لَاإِلَہَ إِلاَّ ھُوَ) ۔ وہ معبود جو منزہ ہے اس سے جسے اس کا شریک قرار دیتے ہیں (سُبْحَانَہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ) ۔
ایک اصلاحی درس
قران مجید مندرجہ بالا آیت میں اپنے پیروکاروں کو ایک بہت ہی قیمتی درس دیتا ہے اور توحید کا ایک اعلیٰ ترین مفہوم اس سلسلے میں دلنشین کرواتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی مسلمان یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی انسان کی بلاشرط اطاعت قبول کرلے کیونکہ یہ کام اس کی پرستش کے مساوی ہے، تمام اطاعتیں اطاعتِ الٰہی میں محدود ہونا چاہئیں اور حکم انسانی کی پیروی اس وقت تک ہی جائز ہے جب تک قوانینِ خداوندی کے مخالفت نہ ہو چاہے حکم دینے والا انسان کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو۔
ایسا اس لئے ہے کہ بلاشرط اطاعت عبادت کے مساوی ہے اور بت پرستی اور عبودیت کی ایک شکل ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے مسلمان اس اہم اسلامی حکم سے دور ہونے اور انسانی بت بنالینے کی وجہ سے تفرقہ بازی، پراگندگی، استعمار اور استثمار کا شکار ہوگئے ہیں، جب تک یہ بت نہیں توڑے جائیں گے اور انھیں دور نہ کیا جائے گا اس وقت تک بے سروسامانیاں اور پریشانیاں برطرف نہیں ہوسکتیں ۔
اصولی طور پر ایسی بت پرستی زمانہ جاہلیت کی بت پرستی کہ جس میں پتھر اور لکڑی کے سامنے سجدہ کیا جاتا تھا سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کیونکہ وہ بے روح بت اپنے پجاریوں کا کبھی استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن انسان جب بتوں کی جگہ لیتے ہیں تو وہ اپنی خود غرضی کی بناء پر اپنے پیروکاروں کو اپنی قید کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں اور انھیں ہر طرح کی پستی اور بدبختی میں مبتلا کرتے ہیں ۔
زیرِ بحث آیات میں سے تیسری میں قرآن نے یہودیوں اور عیسائیوں یا تمام مخالفینِ اسلام یہاں تک کہ مشرکین کی بھی جان توڑ اور بے نتیجہ کوششوں کو ایک جاذب نظر تشبیہ کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا کا ارادہ ہے کہ اس نورِ الٰہی کو اس طرح وسیع اور کامل کردے یہاں تک کہ وہ تمام دنیا پر چھاجائے اور تمام لوگ اس کے سائے سے مستفید ہوں اگرچہ کافروں کو یہ ناپسند ہے۔
ایک اصلاحی درس
قران مجید مندرجہ بالا آیت میں اپنے پیروکاروں کو ایک بہت ہی قیمتی درس دیتا ہے اور توحید کا ایک اعلیٰ ترین مفہوم اس سلسلے میں دلنشین کرواتا ہے اور کہتا ہے کہ کوئی مسلمان یہ حق نہیں رکھتا کہ کسی انسان کی بلاشرط اطاعت قبول کرلے کیونکہ یہ کام اس کی پرستش کے مساوی ہے، تمام اطاعتیں اطاعتِ الٰہی میں محدود ہونا چاہئیں اور حکم انسانی کی پیروی اس وقت تک ہی جائز ہے جب تک قوانینِ خداوندی کے مخالفت نہ ہو چاہے حکم دینے والا انسان کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کتنا ہی بلند مقام کیوں نہ رکھتا ہو۔
ایسا اس لئے ہے کہ بلاشرط اطاعت عبادت کے مساوی ہے اور بت پرستی اور عبودیت کی ایک شکل ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے مسلمان اس اہم اسلامی حکم سے دور ہونے اور انسانی بت بنالینے کی وجہ سے تفرقہ بازی، پراگندگی، استعمار اور استثمار کا شکار ہوگئے ہیں، جب تک یہ بت نہیں توڑے جائیں گے اور انھیں دور نہ کیا جائے گا اس وقت تک بے سروسامانیاں اور پریشانیاں برطرف نہیں ہوسکتیں ۔
اصولی طور پر ایسی بت پرستی زمانہ جاہلیت کی بت پرستی کہ جس میں پتھر اور لکڑی کے سامنے سجدہ کیا جاتا تھا سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کیونکہ وہ بے روح بت اپنے پجاریوں کا کبھی استعمال نہیں کرتے تھے، لیکن انسان جب بتوں کی جگہ لیتے ہیں تو وہ اپنی خود غرضی کی بناء پر اپنے پیروکاروں کو اپنی قید کی زنجیروں میں جکڑ لیتے ہیں اور انھیں ہر طرح کی پستی اور بدبختی میں مبتلا کرتے ہیں ۔
زیرِ بحث آیات میں سے تیسری میں قرآن نے یہودیوں اور عیسائیوں یا تمام مخالفینِ اسلام یہاں تک کہ مشرکین کی بھی جان توڑ اور بے نتیجہ کوششوں کو ایک جاذب نظر تشبیہ کے پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے نورِ خدا کو خاموش کردیں لیکن خدا کا ارادہ ہے کہ اس نورِ الٰہی کو اس طرح وسیع اور کامل کردے یہاں تک کہ وہ تمام دنیا پر چھاجائے اور تمام لوگ اس کے سائے سے مستفید ہوں اگرچہ کافروں کو یہ ناپسند ہے۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.