مختصر جواب:
مفصل جواب:
بنی امیہ کا بنی ہاشم سے فقط ظاہری مسائل میں اختلاف نہیں تھابلکہ چونکہ خاندان بنی ہاشم آشکارا معنویت سے برخوردار تھے جس کی وجہ سے بنی امیہ ہمیشہ ان سے بغض و حسد رکھتے تھے اور یہی نہیں بلکہ آخر کار خاندان بنی ہاشم ایسی جگہ پہنچ گیا کہ نبوت اور امامت کا درخت بھی اسی خاندان میں پروان چڑھا اور ان کا گھر فرشتوں کے آنے جانے کی جگہ بن گیا اور علوم و معارف کا چشمہ ان کے گھر سے جاری ہونے لگا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے جامع بیان میں فرمایا ہے :
""این الذین زعموا انھم الرسخون فی العلم دوننا کذبا و بغیا علینا، ان رفعنا اللہ ووضعھم و اعطانا وحرمھم و ادخلنا و اخرجھم، بنا یستعطی الھدی و یستجلی العمی، ان الائمة من قریش غرسوا فی ھذا البطن من ھاشم، لا تصلح علی سواھم و لا تصلح الولاة من غیرھم"" ۔
کہاں ہیں وہ لوگ جو راسخون فی العلم ہونے کا دعوی کرتے تھے اور اس دعوی کو ہم پر جھوٹ اور ظلم کرکے بیان کرتے تھے(کہاں ہیں وہ لوگ تاکہ آکر دیکھیں)خدا وند عالم نے ہمیں سب پر برتری دی ہے اور ان کو پست قرار دیا ہے ، خدا نے ہمیں نعمتیں عطا کی ہیں اور انہیں محروم کیا ہے ، ہمیں (اپنی نعمتوں کے مرکزمیں) داخل کیا اور ان کو وہاں سے باہر نکالا ۔ لوگ ہمارے ذریعہ ہدایت حاصل کرتے ہیں اور ہمارے نور سے نابینا لوگ روشنی حاصل کرتے ہیں ،یقینا تمام ائمہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اوراس نسل میں ان کے وجود کا درخت ، ہاشم کی نسل سے پروان چڑھا ہے ، یہ مقام دوسروں کے احسان سے حاصل نہیں ہوا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے افراد میں امامت اور ولایت کی لیاقت نہیں پائی جاتی (١) ۔
جس خاندان کی اصالت اور حسب و نسب کوبیان کرنے کے لئے آیة تطہیر نازل ہوئی ہو اس خاندان کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کے مقابلے میں بنی امیہ کے مرد و عورتوں کی رنگین زندگی اس قدر زبان زد عام وخاص تھی کہ دسیوں سال مسلمین کے امور کی زمام اپنے ہاتھ میں رکھنے کے بعد بھی اس رسوائی کو اپنے خاندان سے دور نہ کرسکے ۔ بنی امیہ کی ایسی عورتیںجن کے گھروں پر جھنڈا لگار ہتا تھا اور ان کے گھر غیر مردوں کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے، ایسے انسان جن کے باپ کو معین کرنے کے لئے کئی لوگ آپس میں جھگڑتے ہوں اورہر کوئی کہتاہو کہ میں اس کاباپ ہوں(٢) ۔
امیر المومنین اپنے ایک جملہ میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معاویہ کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں:
""و اما قولک : انا بنو عبد مناف فکذلک نحن ولکن لیس امیة کھاشم و لا حرب کعبد المطلب ولا ابوسفیان کابی طالب و لا المھاجر کالطلیق ولا الصریح کاللصیق"" (٣) ۔
اور تمہارا یہ کہنا کہ ہم سب عبدمناف کی اولاد ہیں تو یہ بات صحیح ہے لیکن نہ امیہ ، ہاشم جیسا ہوسکتا ہے اور نہ حرب، عبدالمطلب جیسا ۔ نہ ابوسفیان ،ابوطالب کا ہمسر ہوسکتا ہے اور نہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا ، نہ واضح نسب والے کا قیاس باپ سے منسوب کئے جانے والے فرزند پر ہوسکتا ہے! (٤) ۔
ابن ابی الحدید ""ولا الصریح کاللصیق"" جملہ کی وضاحت میں پردہ پوشی کرتے ہوئے لکھتا ہے : امام علیہ السلام کی اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ اعتقاد و اخلاص کے ساتھ اسلام لائے وہ لوگ ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو خوف یا دنیا اور غنایم جنگی حاصل کرنے کے لئے اسلام لائے تھے(٥) ۔
لیکن علامہ مجلسی اس بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کلمہ ""لصیق"" ظاہرا بنی امیہ کے نسب کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ابن ابی الحدید نے معاویہ کی آبرو بچانے کیلئے نادانی کا اظہار کیا ہے، یہاں تک کہ کچھ دانشوروں نے وضاحت کی ہے کہ امیہ، عبد شمس کی نسل سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک رومی کا غلام تھا جس کو عبد شمس نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور زمان جاھلیت میں جوبھی غلام کو اپنے آپ سے نسبت دینا چاہتا تھا وہ اس کو آزاد کرکے عرب کی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردیتے تھے اور اس طرح اس غلام کو اپنے خاندان سے ملحق کرلیتے تھے ۔
علامہ مجلسی اس بات سے نتیجہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں:
اس بناء پر بنی امیہ اصلا قریش سے نہیں ہیں بلکہ قریش سے منسوب ہیں(٦) ۔
بنی ہاشم اپنے معنوی اور اخلاقی فضائل کے علاوہ جوکہ آپ کی رفتار و کردار سے ظاہر تھی، جوانمردی، سخاوت، ایثار، زہد، تقوی، ظاہری آراستگی جیسے خوبصوت، فصاحت اور بہترین بلاغت سے بھی برخوردار تھے اور بنی امیہ کی سخت اور غلط زندگی کے مقابلہ میں یہ جمال وکمال ، بنی امیہ کو بہت زیادہ ناراض کرتا تھا اور حسد کی آگ کو ان کے اندر شعلہ ور کرتا تھا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے ہر ایک طوایف کی خصوصیت سے متعلق اور عبدشمس کی اولاد(کہ بنی امیہ ان کے خاندان سے ہیں)اور بنی ہاشم کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
""و اما نحن فابذل لما فی ایدینا و اسمع عند الموت بنفوسنا وھم اکثر و امکر و انکر ونحن افصح و انصح واصبح"" ۔
لیکن ہم بنی ہاشم، قریش کے تمام خاندانوں سے زیادہ بخشنے والے ہیں اور جان کی بازی لگانے کے وقت سب سے زیادہ سخی ہیں، وہ لوگ(بنی امیہ)عدد میں زیادہ، مکار اورفریب میں سب سے آگے اور بد صورت ہیں اورہم لوگ فصیح و بلیغ، مخلص اور خوبصورت ہیں(7) ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے جامع بیان میں فرمایا ہے :
""این الذین زعموا انھم الرسخون فی العلم دوننا کذبا و بغیا علینا، ان رفعنا اللہ ووضعھم و اعطانا وحرمھم و ادخلنا و اخرجھم، بنا یستعطی الھدی و یستجلی العمی، ان الائمة من قریش غرسوا فی ھذا البطن من ھاشم، لا تصلح علی سواھم و لا تصلح الولاة من غیرھم"" ۔
کہاں ہیں وہ لوگ جو راسخون فی العلم ہونے کا دعوی کرتے تھے اور اس دعوی کو ہم پر جھوٹ اور ظلم کرکے بیان کرتے تھے(کہاں ہیں وہ لوگ تاکہ آکر دیکھیں)خدا وند عالم نے ہمیں سب پر برتری دی ہے اور ان کو پست قرار دیا ہے ، خدا نے ہمیں نعمتیں عطا کی ہیں اور انہیں محروم کیا ہے ، ہمیں (اپنی نعمتوں کے مرکزمیں) داخل کیا اور ان کو وہاں سے باہر نکالا ۔ لوگ ہمارے ذریعہ ہدایت حاصل کرتے ہیں اور ہمارے نور سے نابینا لوگ روشنی حاصل کرتے ہیں ،یقینا تمام ائمہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں اوراس نسل میں ان کے وجود کا درخت ، ہاشم کی نسل سے پروان چڑھا ہے ، یہ مقام دوسروں کے احسان سے حاصل نہیں ہوا ہے اور ان کے علاوہ دوسرے افراد میں امامت اور ولایت کی لیاقت نہیں پائی جاتی (١) ۔
جس خاندان کی اصالت اور حسب و نسب کوبیان کرنے کے لئے آیة تطہیر نازل ہوئی ہو اس خاندان کے بارے میں وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کے مقابلے میں بنی امیہ کے مرد و عورتوں کی رنگین زندگی اس قدر زبان زد عام وخاص تھی کہ دسیوں سال مسلمین کے امور کی زمام اپنے ہاتھ میں رکھنے کے بعد بھی اس رسوائی کو اپنے خاندان سے دور نہ کرسکے ۔ بنی امیہ کی ایسی عورتیںجن کے گھروں پر جھنڈا لگار ہتا تھا اور ان کے گھر غیر مردوں کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے، ایسے انسان جن کے باپ کو معین کرنے کے لئے کئی لوگ آپس میں جھگڑتے ہوں اورہر کوئی کہتاہو کہ میں اس کاباپ ہوں(٢) ۔
امیر المومنین اپنے ایک جملہ میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے معاویہ کے خط کے جواب میں لکھتے ہیں:
""و اما قولک : انا بنو عبد مناف فکذلک نحن ولکن لیس امیة کھاشم و لا حرب کعبد المطلب ولا ابوسفیان کابی طالب و لا المھاجر کالطلیق ولا الصریح کاللصیق"" (٣) ۔
اور تمہارا یہ کہنا کہ ہم سب عبدمناف کی اولاد ہیں تو یہ بات صحیح ہے لیکن نہ امیہ ، ہاشم جیسا ہوسکتا ہے اور نہ حرب، عبدالمطلب جیسا ۔ نہ ابوسفیان ،ابوطالب کا ہمسر ہوسکتا ہے اور نہ راہ خدا میں ہجرت کرنے والا آزاد کردہ افراد جیسا ، نہ واضح نسب والے کا قیاس باپ سے منسوب کئے جانے والے فرزند پر ہوسکتا ہے! (٤) ۔
ابن ابی الحدید ""ولا الصریح کاللصیق"" جملہ کی وضاحت میں پردہ پوشی کرتے ہوئے لکھتا ہے : امام علیہ السلام کی اس جملہ سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ اعتقاد و اخلاص کے ساتھ اسلام لائے وہ لوگ ان کے برابر نہیں ہوسکتے جو خوف یا دنیا اور غنایم جنگی حاصل کرنے کے لئے اسلام لائے تھے(٥) ۔
لیکن علامہ مجلسی اس بات کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کلمہ ""لصیق"" ظاہرا بنی امیہ کے نسب کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ابن ابی الحدید نے معاویہ کی آبرو بچانے کیلئے نادانی کا اظہار کیا ہے، یہاں تک کہ کچھ دانشوروں نے وضاحت کی ہے کہ امیہ، عبد شمس کی نسل سے نہیں تھا بلکہ وہ ایک رومی کا غلام تھا جس کو عبد شمس نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا تھا اور زمان جاھلیت میں جوبھی غلام کو اپنے آپ سے نسبت دینا چاہتا تھا وہ اس کو آزاد کرکے عرب کی کسی لڑکی سے اس کی شادی کردیتے تھے اور اس طرح اس غلام کو اپنے خاندان سے ملحق کرلیتے تھے ۔
علامہ مجلسی اس بات سے نتیجہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں:
اس بناء پر بنی امیہ اصلا قریش سے نہیں ہیں بلکہ قریش سے منسوب ہیں(٦) ۔
بنی ہاشم اپنے معنوی اور اخلاقی فضائل کے علاوہ جوکہ آپ کی رفتار و کردار سے ظاہر تھی، جوانمردی، سخاوت، ایثار، زہد، تقوی، ظاہری آراستگی جیسے خوبصوت، فصاحت اور بہترین بلاغت سے بھی برخوردار تھے اور بنی امیہ کی سخت اور غلط زندگی کے مقابلہ میں یہ جمال وکمال ، بنی امیہ کو بہت زیادہ ناراض کرتا تھا اور حسد کی آگ کو ان کے اندر شعلہ ور کرتا تھا ۔
حضرت علی علیہ السلام نے قریش کے ہر ایک طوایف کی خصوصیت سے متعلق اور عبدشمس کی اولاد(کہ بنی امیہ ان کے خاندان سے ہیں)اور بنی ہاشم کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
""و اما نحن فابذل لما فی ایدینا و اسمع عند الموت بنفوسنا وھم اکثر و امکر و انکر ونحن افصح و انصح واصبح"" ۔
لیکن ہم بنی ہاشم، قریش کے تمام خاندانوں سے زیادہ بخشنے والے ہیں اور جان کی بازی لگانے کے وقت سب سے زیادہ سخی ہیں، وہ لوگ(بنی امیہ)عدد میں زیادہ، مکار اورفریب میں سب سے آگے اور بد صورت ہیں اورہم لوگ فصیح و بلیغ، مخلص اور خوبصورت ہیں(7) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.