مختصر جواب:
مفصل جواب:
تاریخ کے اس زمانہ میں عباسی حکومت کی یہ کوشش رہتی تھی کہ علویوں کی طرف سے لوگوں کے دلوں میں نفرت ایجاد کرکے ان کو ختم کردیا جائے ، جب بھی یہ لوگ علویوں کے کسی انقلاب کو دیکھتے تھے تو بے رحمانہ طور پر اس کو کچلنا شروع کردیتے تھے اور اس عمل پر شدت اختیار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حکومت اپنے تسلط اور کنٹرول کے باوجود اپنے آپ کو متزلزل اور ناپایدار سمجھنے لگتی تھی اور یہ اس طرح کے انقلاب سے بہت زیادہ ڈرتے تھے۔
اس زمانہ میں علویوں کا طور طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی کا نام نہیں لیتے تھے اور لوگوں کو ""آل محمد سے منتخب شخص"" کی طرف دعوت دیتے تھے ، کیونکہ انقلاب برپا کرنے والے بزرگ افراد دیکھتے تھے کہ ان کے معصوم امام ""سامراء"" کی فوجی چھاونی میں نظر بند تھے اور کسی معین شخص کے نام سے اگر دعوت دی جاتی تو وہ اس کی زندگی کوختم کردیتے تھے ۔ یہ قیام اور نقلاب اس وقت معاشرہ پر حکومت کے ظلم و ستم کی وجہ سے ظاہر ہوتے تھے جس کی بہترین دلیل ""منتصر"" کی حکومت ہے ، ""منتصر"" چونکہ خاندان نبوت و امامت سے محبت کرتا تھا لہذا اس کے زمانہ میں کسی ایک نے علویوں اور شیعوں کو کچھ نہیں کہا اور اسی وجہ سے کوئی انقلاب بھی برپا نہیں ہوا ۔ تواریخ نے ٢١٩ ہجری سے ٢٧٠ہجری تک ١٨ قیام تحریر کئے ہیں ۔ ان تمام انقلاب شکست سے روبرو ہوئے اور عباسی حکومت نے ان کو کچل دیا ۔
ان انقلابوں اور قیام کے کامیاب نہ ہونے کی ایک وجہ رہبری کا کمزوری تھی اور دوسری وجہ ان رہبروں کے ماننے والوں اور رہبروں کے پروگرام اورقوانین صحیح اور کامل نہیں تھے ،ان کے کام منظم نہیں تھے ، اس کے علاوہ ان کے انقلاب میں اسلامی حقیقت نہیں پائی جاتی تھی ،اسی وجہ سے ان کے زمانہ کے امام معصوم ان انقلابوں کی تائید نہیں کرتے تھے ۔
البتہ ان انقلابوں کی مدد کرنے والے اور ساتھ دینے والے افراد مخلص اور حقیقی شیعہ تھے جو موت کی حد تک اسلامی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے ، لیکن اس طرح کے افراد کی تعداد بہت کم تھی ،اکثر انقلابی ایسے تھے جن کے اسلامی اہداف واضح نہیں تھے ، بلکہ ان پر جو ظلم و ستم ہو رہا تھا اس سے ناراض اور پریشان تھے اور وہ حالات کو بدلنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔ یہ گروہ شکست کا احساس یا موت کا احتمال دیکھتے ہی اپنے رہبر کو تنہا چھوڑدیتے تھے اور دوسری طرف بھاگ جاتے تھے ۔
جیسا کہ اشارہ ہوا ہے کہ اگر ائمہ معصومین (ع) نے ان انقلابوں کی تائید نہیں کی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انقلاب سو فیصدی اسلامی نہیں تھے ،ان کے اہداف اور ان کے رہبروں کے درمیان انحراف پایا جاتا تھا ، یا ان کے پروگرام اور قوانین ایسے ہوتے تھے جس سے ان کی شکست کی پیشین گوئی کی جاسکتی تھی ، لہذا اگر امام (علیہ السلام) ظاہری طور پر ان کی تائید کرتے تو انقلاب کی شکست کے بعد تشیع اور امامت خطرہ میں پڑجاتی (١) ۔
اس زمانہ میں علویوں کا طور طریقہ یہ تھا کہ وہ کسی کا نام نہیں لیتے تھے اور لوگوں کو ""آل محمد سے منتخب شخص"" کی طرف دعوت دیتے تھے ، کیونکہ انقلاب برپا کرنے والے بزرگ افراد دیکھتے تھے کہ ان کے معصوم امام ""سامراء"" کی فوجی چھاونی میں نظر بند تھے اور کسی معین شخص کے نام سے اگر دعوت دی جاتی تو وہ اس کی زندگی کوختم کردیتے تھے ۔ یہ قیام اور نقلاب اس وقت معاشرہ پر حکومت کے ظلم و ستم کی وجہ سے ظاہر ہوتے تھے جس کی بہترین دلیل ""منتصر"" کی حکومت ہے ، ""منتصر"" چونکہ خاندان نبوت و امامت سے محبت کرتا تھا لہذا اس کے زمانہ میں کسی ایک نے علویوں اور شیعوں کو کچھ نہیں کہا اور اسی وجہ سے کوئی انقلاب بھی برپا نہیں ہوا ۔ تواریخ نے ٢١٩ ہجری سے ٢٧٠ہجری تک ١٨ قیام تحریر کئے ہیں ۔ ان تمام انقلاب شکست سے روبرو ہوئے اور عباسی حکومت نے ان کو کچل دیا ۔
ان انقلابوں اور قیام کے کامیاب نہ ہونے کی ایک وجہ رہبری کا کمزوری تھی اور دوسری وجہ ان رہبروں کے ماننے والوں اور رہبروں کے پروگرام اورقوانین صحیح اور کامل نہیں تھے ،ان کے کام منظم نہیں تھے ، اس کے علاوہ ان کے انقلاب میں اسلامی حقیقت نہیں پائی جاتی تھی ،اسی وجہ سے ان کے زمانہ کے امام معصوم ان انقلابوں کی تائید نہیں کرتے تھے ۔
البتہ ان انقلابوں کی مدد کرنے والے اور ساتھ دینے والے افراد مخلص اور حقیقی شیعہ تھے جو موت کی حد تک اسلامی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے ، لیکن اس طرح کے افراد کی تعداد بہت کم تھی ،اکثر انقلابی ایسے تھے جن کے اسلامی اہداف واضح نہیں تھے ، بلکہ ان پر جو ظلم و ستم ہو رہا تھا اس سے ناراض اور پریشان تھے اور وہ حالات کو بدلنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔ یہ گروہ شکست کا احساس یا موت کا احتمال دیکھتے ہی اپنے رہبر کو تنہا چھوڑدیتے تھے اور دوسری طرف بھاگ جاتے تھے ۔
جیسا کہ اشارہ ہوا ہے کہ اگر ائمہ معصومین (ع) نے ان انقلابوں کی تائید نہیں کی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انقلاب سو فیصدی اسلامی نہیں تھے ،ان کے اہداف اور ان کے رہبروں کے درمیان انحراف پایا جاتا تھا ، یا ان کے پروگرام اور قوانین ایسے ہوتے تھے جس سے ان کی شکست کی پیشین گوئی کی جاسکتی تھی ، لہذا اگر امام (علیہ السلام) ظاہری طور پر ان کی تائید کرتے تو انقلاب کی شکست کے بعد تشیع اور امامت خطرہ میں پڑجاتی (١) ۔
ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے.