دوسری فصل

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
مرتب سازی بر اساس
 
عبدالله بن سبا (جلد سوم)
پہلی فصل تیسری فصل
عبدا للہ بن سبا ، ملل اور فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں میں
عبداللہ بن سبا اور ابن سودا ملل و فرق کی کتابوں میں ۔
ملل و فرق کی کتابوں میں سبائیوں کے گروہ۔
ابن سبا، ابن سودا اور سبیہ کے بارے میں بغدادی کا بیان۔
ابن سبا و سبیئہ کے بارے میں شہرستانی اور اسکے تابعین کا بیان ۔
عبدا للہ بن سبا کے بارے میں ادیان و عقاید کے علماء کا نظریہ ۔
عبداللہ بن سبا کے بارے میں ہمارا نظریہ۔
نسناس کا افسانہ۔
نسناس کی پیدائش اور اس کے معنی کے بارے میں نظریات ۔
مباحث کا خلاصہ و نظریہ ۔
اس حصہ کے مآخذ۔
عبد اللہ بن سبا و ابن سودا ملل اور فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں میں
یرسلون الکلام علی عواھنہ
ادیان کی بیوگرافی پر مشتمل کتابیں لکھنے والے سخن کی لگام قلم کے حوالے کرتے ہیں اور کسی قید و شرط کے پابند نہیں ہیں۔
مؤلف
ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد کے حصہ ٴ ” پیدائش عبدا للہ بن سبا “ میں مؤرخین کے نظر میں عبداللہ بن سبا کے افسانہ کا ایک خلاصہ پیش کیا گزشتہ حصہ میں بھی ان اخبار و روایتوں کو بیان کرکے بحث و تحقیق کی جن میں عبدا للہ بن سباکا نام آیا ہے ۔
ہم نے اس فصل میں جو کچھ ملل و فرق کی نشاندہی کرنے والی کتابوں میں عبدا للہ بن سبا ، ابن سوداء اور سبیہ کے بارے میں بیان کرنے کے بعد ان مطالب کو گزشتہ چودہ صدیوں کے دوران اسلامی کتابوں اورمآخذ میں نقل ہوئے ان کے مشابہ افسانوں سے تطبیق و موازنہ کیا ہے اس کے بعد گزشتہ کئی صدیوں کے دوران ان تین الفاظ کے معنی و مفہوم میں ایجاد شدہ تغیر و تبدیلیوں کے بارے میں بھی ایک بحث و تحقیق کرکے اس فصل کو اختتام تک پہنچایا ہے۔
علمائے ادیان کا بیان
سعد بن عبد اللہ اشعری قمی ( وفات ۳۰۱ ھء) اپنی کتاب ” المقالات و الفرق “ میں عبد اللہ بن سبا کے بارے میںکہتا ہے :
” وہ پہلا شخص ہے جس نے کھلم کھلا ابوبکر ، عمر ، عثمان ، اور اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر تنقید کی اور ان کے خلاف زبان کھولی اور ان سے بیزاری کا اظہار کیا اس نے دعوی کیا کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے اسے یہ طریقہ کار اپنانے کا حکم دیا اور کہا کہ اس راہ میں کسی قسم کی سہل انگاری اور تقیہ سے کام نہ لے اور سستی نہ دکھائے جب یہ خبر علی ابن ابیطالب علیہ السلام کو پہنچی تو انہوں نے حکم دیا کہ اسے پکڑ کر ان کے پاس حاضر کیا جائے جب اسے ان کے پاس لایا گیا تو روداد کے بارے میں اس سے سوال کیا اور اس کے اپنائے گئے طریقہ کار اور دعوی کے بارے میںا س سے وضاحت طلب کی ،جب ابن سبا نے اپنے کئے ہوئے اعمال کا اعتراف کیا تو امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ اس وقت ہر طرف سے حضرت علی علیہ السلام پراعتراض کی صدائیں بلند ہوئیں کہ اے امیر المؤمنین! کیا اس شخص کو قتل کر رہے ہیں جو لوگوںکو آپ اور آپ کے خاندان کے ساتھ محبت اور آپ کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کی دعوت دیتا ہے ؟ جس کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام نے اس کے قتل سے چشم پوشی کی اور اسے مدائن میں جلا وطن کر دیا“
اس کے بعد اشعری کہتا ہے :
” اور بعض مؤرخیں نے نقل کیا ہے کہ عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا اس کے بعد اس نے اسلام قبول کیا اور علی علیہ السلام کے دوستداروںمیں شامل ہو گیا وہ اپنے یہودی ہونے کے دوران حضرت موسی کے وصی ” یوشع بن نون “ کے بارے میں شدید اور سخت عقیدہ رکھتا تھا ۱
ا شعری اپنی بات کو یوں جاری رکھتا ہے : ” جب علی علیہ السلام کی وفات کی خبر مدائن میں عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے سنی تو انہوں نے مخبر سے مخاطب ہوکر کہا؛ اے دشمن خدا ! تم جھوٹ بولتے ہو کہ علی علیہ السلام وفات کر گئے۔ خدا کی قسم اگر ان کی کھوپڑی کو ایک تھیلی میں رکھ کر ہمارے پاس لے آؤا ور ستر (۷۰) آدمی عادل ان کی موت کی شہادت دیں تب بھی ہم تیری بات کی تصدیق نہیںکریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ علی علیہ السلام نہیں مریں گے نہ ہی مارے جائیں گے۔ جی ہاں! وہ اس وقت تک نہیں مریں گے جب تک کہ تمام عرب اور پوری دنیا پر حکومت نہ کریں“۔
--------------------------
۱۔ اشعری سے وہی اشعری مقصود ہے کہ مؤرخین نے سیف بن عمر ( وفات ۱۷۰ ھ ) سے لیا ہے اور ہم نے اس مطلب کو اسی کتاب کی جلد اول کے اوائل میں تحقیق کی ہے ۔
عبدا للہ بن سبا اور اس کے ماننے والے فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے اور اپنے مرکبوں کو علی کے گھر کے باہر کھڑا کر دیا اس کے بعد حضرت کے گھر کے دروازے پر ایسے کھڑے رہے جیسےان کے زندہ ہونے پر اطمینان رکھتے ہوںاور ان کے حضور حاضر ہونے والے ہوں اور اس کے بعد داخل ہونے کی اجازت طلب کی ۔ علی علیہ السلام کے اصحاب اور اولاد میںسے جو اس گھر میں موجود تھے ، نے ان افرادکے جواب میں کہا؛ سبحان اللہ ! کیا تم لوگ نہیں جانتے ہو کہ امیرالمؤمنین مارے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ ہم یقین رکھتے ہیںکہ وہ مارے نہیں جائےں گے اور طبیعی موت بھی نہیںمریں گے یہاں تک وہ اپنی منطق و دلیل سے تمام عربوں کو متاثر کر کے اپنی تلوار اور تازیانوں سے ان پر مسلط ہوں گے وہ اس وقت ہماری گفتگو کو سن رہے ہیں اور ہمارے دلوں کے راز اور گھروں کے اسرار سے واقف ہیں اور تاریکی میں صیقل کی گئی تلوار کے مانند چمکتے ہیں “
اسکے بعد اشعری کہتا ہے : ” یہ ہے ” سبیئہ “ کا عقیدہ اور مذہب اور یہ ہے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ”حرثیہ “ کا عقیدہ ” حرثیہ “ عبد اللہ بن حرث کندی کے پیرو ہیں ۔ وہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میںمعتقد تھے کہ وہ کائنات کے خدا ہیں اپنی مخلوق سے ناراض ہو کر ان سے غائب ہو گئے ہیں اور مستقبل میں ظہور کریں گے ․․․ “
ابن ابی الحدید بھی شرح نہج البلاغہ ( ۱/ ۴۲۵ ) میں اشعری کی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :
” اصحاب مقالات نے نقل کیا ہے کہ․․․“
اشعری نے اپنی کتاب میں ” سبیئہ “ کے بارے میںا س طرح داستان سرائی کی ہے ، قبل اس کے کہ اپنی بات کے حق میںکوئی دلیل پیش کرے اور اپنے افسانہ کیلئے کسی منبع و مآخذ کا ذکر کرے۔
نجاشی ، اشعری کے حالات کی تشریح میںکہتا ہے :
” اس نے اہل سنت سے کثرت سے منقولات اور روایتیں اخذ کی ہیں اور روایات اور احادیث کو حاصل کرنے کی غرص سے اس نے سفر کئے ہیں اور اہل سنت کے بزرگوں سے ملاقاتیں کی ہیں ․․․“
بہر حال اشعری نے اپنی کتاب مقالات میںا بن سبا کے بارے میں جو کچھ درج کیا ہے اسکے بارے میںکوئی مآخذ و دلیل پیش نہیں کیا ہے۔
اسی طرح مختلف اقوام و ملل کے - ملل ونحل کے عقائد و ادیان کے بارے میں کتاب لکھنے والوں کی عادت و روش یہ رہی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کی باگ ڈور کو آزاد چھوڑ کر قلم کے حوالے کر دیتے ہیں اور اپنی بات کے سلسلہ میں سند و مآخذ کے بارے میں کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس نہیںکرتے ہیں مآخذ اور دلیل کے لحاظ سے اپنے آپ کو کسی قید و شرط کا پابند نہیں سمجھتے ہیں اپنے آپ کو کسی بھی منطق و قواعد کا پابند نہیں جانتے ہیں چنانچہ ملاحظہ فرمایا : اشعری نے ایک اور گروہ کو ” حربیہ “ یا ” حرثیہ “ کے نام سے عبدا للہ بن حرث کندی سے منسوب کرکے گروہ سبئیہ میں اضافہ کیا ہے ۔
ابن حزم عبداللہ بن حرث کے بارے میں کہتا ہے :
حارثیہ جو رافضیوں کا ایک گروہ ہے اس کے افراد اس سے منسوب ہیں وہ ایک غالی و کافر شخص تھا اس نے اپنے ماننے والوں کے لیے دن را ت کے دوران پندرہ رکعت کی سترہ نمازیں واجب قرار دی تھیں اس کے بعد توبہ کرکے اس نے خوارج کے عقیدہ ” صفریہ “ کو اختیار کیا “۔
نوبختی ( وفات ۳۱۰ ھء) نے بھی اپنی کتاب ” فرق الشیعہ “ میں اشعری کی اسی بات کو درج کیا ہے کہ جسے ہم نے پہلے نقل کیا ۔ البتہ اشعری کے بیان کے آخری دو حصے ذکر نہیں کئے ہیں جس میں وہ کہتا ہے: امام کی رحلت کی خبر کی تحقیق کیلئے سبائی ان کے گھر کے دروازے پر گئے “ اس کے علاوہ اپنی بات کا مآخذ جو کہ ” مقالات اشعری “ ہے ، کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔
علی ابن اسماعیل ( وفات ۳۳۰ ھء) اپنی کتاب ” مقالات اسلامیین “ میں کہتا ہے :
” سبائیوں کا گروہ ، عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ہیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق علی ابن ابیطالب علیہ السلام فوت نہیں ہوئے ہیں ، اور وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں واپس آئیں گے اور ظلم و بے انصافی سے پُر، کرہ ارض کو اس طرح ، عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے لبریز ہو گی اور نقل کیا گیا ہے کہ ابن سبا نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے کہا: تم وہی ہو (انت انت )“
علی بن اسماعیل اضافہ کرتا ہے کہ سبائیوں کا گروہ ، رجعت کا معتقد ہے اور ” سید حمیری “ سے نقل ہوا ہے کہ اس نے اپنا معروف شعر اسی عقیدہ کے مطابق کہاہے ، جہاں پر کہتا ہے :
الی یوم یؤوب الناس فیہ
الی دنیاھم قبل الحساب
میں اس دن کے انتظار میں ہوں کہ لوگ اس دن پھر سے ان دنیا میں واپس آئیں گے ، اس سے قبل کہ حساب اور قیامت کا دن آئے
اس کے بعد کہتا ہے :
” یہ لوگ جب رعد و برق کی آواز سنتے ہیں تو کہتے ہیں :
”السلام علیک یا امیر المؤمنین !“


ملل و نحل کی کتابوں میں سبائیوں کے فرقے
وھولاء کلھم احزاب الکفر
سبائی، سب اہل کفر کے گروہوںمیں سے ہیں ۔
علمائے ادیان
ابو الحسن ملطی ( وفات ۳۷۷ھء) اپنی کتاب ” التنبہ و الرد “ کی فصل ” رافضی اور ان کے عقاید “ میں کہتا ہے :
” سبائیوں اور رافضیوں کا پہلا گروہ ، غلو کرنے والا اور انتہا پسند گروہ ہے ،بعض اوقات انتہا پسند رافضی سبائیوں کے علاوہ بھی ہوتے ہیں انتہا پسند اور غلو کرنے والے سبائی ، عبدا للہ بن سباکے پیرو ہیں کہ انہوں نے علی علیہ السلام سے کہا: تم وہی ہو ! علی علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا: میں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا: وہی خدا اور پروردگار ! علی علیہ السلام نے ان سے توبہ کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے توبہ قبول کرنے سے انکار کیا ۔ اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک بڑی آگ آمادہ کی اور انھیں اس میں ڈال کر جلا دیا ، اور ان کو جلاتے ہوئے یہ رجز پڑھتے تھے:
لما رایت الامر امراً منکراً
اججت ناری و دعوت قنبراً
جب میں کسی برے کام کا مشاہدہ کرتا تو آگ کو جلا کر قنبر کو بلاتا تھا ․․․ تا آخر ابیات
ابو الحسن ملطی اس کے بعدکہتا ہے :
اس گروہ کے آج تک کچھ لوگ باقی بچے ہیں کہ یہ لوگ زیادہ تر قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں :
<اِنَّ علَینَا جَمْعَہُ وَ قُرْاٰنَہُ فَاِذَا قَرَاٴْنَاہُ فَاتَّبِع قُرْاٰنَہُ >۱
۱۔ سورہ ٴ قیامت : آیت ۱۷ و ۱۸ ۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اور پڑھوائیں، پھر جب ہم پڑھادیں تو آپ اس کی تلاوت کو دھرائیں ۔
اور یہ گروہ معتقد ہے کہ علی ان ابیطالب علیہ السلام نہیں مرے ہیں اور انھیں موت نہیں آسکتی ہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہیں اور کہتے ہیں : جب علی علیہ السلام کی رحلت کی خبر ان کو ملی تو انہوں نے کہا: علی علیہ السلام نہیں مریں گے، اگر اس کے مغز کو ستر تھیلوں میں بھی ہمارے پاس لاؤ گے ، تب بھی ہم ان کی موت کی تصدیق نہیں کریں گے ! جب ان کی بات کو حسن ابن علی علیہ السلام کے پاس نقل کیا گیا تو انہوں نے کہا: اگر ہمارے والد نہیںمرے ہیں تو ہم نے کیوں ان کی وراثت تقسیم کی اور ان کی بیویوں نے کیوںشادی کی ؟
ابو الحسن ملطی مزید کہتا ہے :
” سبائیوں کا دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام نہیں مرے ہیں بلکہ وہ بادلوں کے ایک ٹکڑے میں قرار پائے ہیں لہذا جب وہ بادلوں کے ایک صاف و سفید اور نورانی ٹکڑے کو رعد و برق ۱ کی حالت میں دیکھتے ہیں، تو اپنی جگہ سے اٹھ کر اس ابر کے ٹکڑے کے مقابلہ میں کھڑے ہو کردعا و تضرع میں مشغول ہوتے ہیں اورکہتے ہیں : اس وقت علی ابن ابیطالب علیہ السلام بادلوں میں ہمارے سامنے سے گزرے !“
ابو الحسن ملطی اضافہ کرتا ہے :
” سبائیوں کا تیسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں : علی علیہ السلام مر گئے ہیں لیکن قیامت کے دن سے پہلے مبعوث اور زندہ ہوں گے ، اور تمام اہل قبور ان کے ساتھ زندہ ہوں گے تا کہ وہ دجال کے ساتھ جنگ کریں گے اس کے بعد شہر و گاؤں میں لوگوں کے درمیان عدل و انصاف بر پا کریں گے اور اس گروہ کے لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ علی علیہ السلام خدا ہےں اور رجعت پر بھی عقیدہ رکھتے ہیں “
ابو الحسن ملطی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :
---------------
۱۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ بنیادی طور پر سفید ، صاف اور روشن بادل رعد و برق ایجاد نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ سیاہ بادل ہے جو رعد و برق پیدا کرتا ہے
” سبائیوں کے چوتھے گروہ کے لوگ محمد بن علی ( محمد حنفیہ ) کی امامت کے معتقد ہیں اور کہتے ہیں : وہ رضوی نامی پہاڑ میں ایک غار میں زندگی گذار رہے ہیں ایک اژدھا اور ایک شیر ان کی حفاظت کررہا ہے ، وہ وہی ” صاحب الزمان“ ہےں جو ایک دن ظہور کرےں گے اور دجال کو قتل موت کے گھاٹ اتاریں گے ! اور لوگوں کو ضلالت اور گمراہی سے ہدایت کی طرف لے جائےں گے اور روئے زمین کو مفاسد سے پاک کریں گے “
ابو الحسن ملطی اپنی بات کے اس حصہ کے اختتام پر کہتا ہے :
” سبائیوں کے یہ چاروں گروہ ”بداء “ کے معتقد ہیں ! اور کہتے ہیں : خدا کیلئے کاموں میں بداء حاصل ہوتا ہے یہ گروہ توحید اور خدا شناسی کے بارے میں اور بھی باطل بیانات اور عقائد رکھتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو یہ اجازت نہیں دے سکتا ہوںکہ خدا کے بارے میں ان کے ان ناشائستہ عقائد کو اس کتاب میں وضاحت کروں اور نہ یہ طاقت رکھتا ہوں کہ خدا کے بارے میںا یسی باتوں کو زبان پر لاؤں مختصر یہ کہ یہ سب گروہ اور پارٹیاں کفر کے فرقے ہیں ․․․“
ابو الحسن ملطی اسی کتاب کے باب ” ذکر الروافض و اجناسھم و مذاھبہم “ میں سبائیوں کے بارے میں دوبارہ بحث و گفتگو کرتا ہے اور اس دفعہ ” ابو عاصم “ سے یوں نقل کرتا ہے کہ :
” عقیدہ کے لحاظ سے رافضی پندرہ گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور یہ پندرہ گروہ خداکی طرف سے اختلاف اور پراگندگی کے عذاب میں مبتلا ہو کر اور مزید بہت سے گروہوں اور پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے ہیں :
اول) ان میں سے ایک گروہ خدا کے مقابلے میں علی ابن ابیطالب کی الوہیت اور خدا ئی کے قائل ہے “۔ یہاں تک کہتا ہے ” ان ہی میں سے عبد اللہ بن سبا تھا جو یمن کے شہر صنعا کا رہنے والا تھا اور علی علیہ السلام نے اسے ساباط جلا وطن کیا ․․․․“
دوم ) ان میں سے دوسرا گروہ جسے ” سبیئہ “ کہتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ : علی علیہ السلام نبوت میں پیغمبر کے شریک و سہیم ہےں ، پیغمبر اپنی زندگی میں مقدم تھے اور جب وہ دنیا سے رحلت کر گئے تو علی ان کی نبوت کے وارث بن گئے اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی جبرئیل ان کیلئے پیغام لے کر آتے تھے۔ اس کے بعد کہتا ہے : یہ دشمن خدا ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خاتم الانبیاء تھے اور ان کے بعد نبوت رسالت وجود نہیں رکھتی ہے ۔
سوم ) ان کے ایک دوسرے گروہ کو ”منصوریہ “ کہتے ہیں وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ علی نہیں مرے ہیں بلکہ بادلوں میںزندگی گذار رہے ہیں ․․․ “
اس طرح رافضیوں کے پندرہ گروہوں کو اپنے خیال و زعم میں معین کرکے ان کے عقائد کی وضاحت کرتا ہے ۔
ابن سبا ، ابن سودا اور سبائیوں کے بارے میں
عبدا لقاہر بغدادی کا بیان
و ھذہ الطائفة تزعم ان المھدی المنتظر ھو علیّ
گروہ سبئیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ مہدی منتظر وہی علی ہے ۔
بغدادی
عبدا لقاہر بغدادی ( وفات ۴۲۹ ھء ) اپنی کتاب ” الفرق بین الفرق “ کے فصل ” عقیدہ سبئیہ اور ا س گروہ کے خارج از اسلام ہونے کی شرح کے باب “ میں کہتا ہے :
” گروہ سبیئہ اسی عبدا للہ بن سبا کے پیرو ہیں کہ جنہوں نے علی ابن ابیطالب علیہ کے بارے میں غلو کیا ہے اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے ۔ اس کے بعد اس کی الوہیت و خدائی کے معتقد ہوئے اور کوفہ کے بعض لوگوں کو اپنے عقیدہ کی طرف دعوت دی ۔ جب اس گروہ کی خبر علی علیہ السلام کو پہنچی ، تو انکے حکم سے ان میں سے بعض لوگوں کو دو گڑھوں میں ڈال کر جلادیا گیا ، حتی بعض شعراء نے اس رودادکے بارے میںدرج ذیل اشعار بھی کہے ہیں :
لترم بی الحوادث حیت شاءَ ت
اذا لم ترم بی فی الحفرتین
”حوادث اور واقعات ہمیں جہاںبھی چاہیں ڈال دیں صرف ان دو گڑھوں میں نہ ڈالیں“
چونکہ علی علیہ السلام اس گروہ کے باقی افراد کو جلانے کے سلسلے میںاپنے ماننے والوں کی مخالفت اور بغاوت سے ڈر گئے ، اس لئے ابن سبا کو مدائن کے ساباط میں جلا وطن کیا ۔ جب علی علیہ السلام مارے گئے تو ابن سبا نے یوں اپنے عقیدہ کا اظہار کیا : جو مارا گیا ہے وہ علی علیہ السلام نہیں بلکہ شیطان تھا جو علی کے روپ میں ظاہر ہوا تھا اور خود کو لوگوں کے سامنے مقتول جیسا ظاہر کیا ، اس لئے کہ علی علیہ السلام حضرت عیسی کی طرح آسمان کی طرف بلا لئے گئے ہیں۔
اس کے بعد عبد القاہر کہتا ہے :
اس گرو کا عقیدہ ، جس طرح یہود و نصاریٰ قتل حضرت عیسیٰ کے موضوع کے بارے میں ایک جھوٹااور خلاف واقع دعوی کرتے ہیں ، ناصبی اور خوارج نے بھی علی علیہ السلام کے قتل کے موضوع پر ایک جھوٹے اور بے بنیاد دعوی کا اظہار کیا ہے ۔ جس طرح یہود و نصاریٰ نے ایک مصلوب شخص کو دیکھا اور اسے غلطی سے عیسیٰ تصورکرگئے اسی طرح علی کے طرفداروں نے بھی ایک مقتول کو علی کی صورت میں دیکھا اور خیال کیا کہ وہ خود علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں ، جب کہ علی آسمان پر بلا لئے گئے ہیں اور مستقبل میں پھر سے زمین پر اتریں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لیں گے “
عبدا لقاہر کہتا ہے :
” گروہ سبئیہ میں سے بعض لوگ خیال کرتے ہیںکہ علی بادلوں میںہیں ۔رعد کی آواز وہی علی کی آواز ہے ۔ آسمانی بجلی کا کڑکنا ان کا نورانی تازیانہ ہے جب کبھی بھی یہ لوگ رعد کی آواز سنتے ہیں توکہتے ہیں : علیک السلام یا امیر المؤمنین!
عامر بن شراحیل شعبی ۱سے نقل کیا گیا ہے کہ ابن سبا سے کہا گیا :
----------------
۱۔ عامر بن شراحیل کی کنیت ابو عمر تھی و وہ قبیلہٴ ہمدان سے تعلق رکھتا ہے اور شعبی کے نام سے معروف ہے ( اور حمیری و کوفی ) وہ عمر کی خلافت کے دوسرے حصہ کے وسط میں پیدا ہوا ہے اور دوسری صدی ہجری کے اوائل میں فوت ہو چکا ہے اس نے بعض اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، جیسے امیر المؤمنین علیہ السلام سے احادیث نقل کی ہیں ، جبکہ علمائے رجال واضح طورپر کہتے ہیں کہ اس نے جن اصحاب سے احادیث نقل کی ہیں ، انھیں بچپن میں دیکھا ہے اور ان سے کوئی حدیث ہی نہیں سنی ہے ( تہذیب التہذیب ۵/ ۶۵ ۔ ۶۹) علمائے رجال کی یہ بات شعبی کے احادیث کے ضعیف ہونے کی ایک محکم اور واضح دلیل ہے خاص طور پر شعبی کے احادیث کے ضعیف ہونے کے بارے میں دوسرے قرائن یہ ہیں کہ وہ ۱۰۹ ھء میں فوت ہوا ہے اور بغدادی ۴۲۹ھء میں فوت ہوا ہے اس طرح ان دو افراد کے درمیان آپس میںتیں سو سال کا فاصلہ ہے زمانے کے اتنے فاصلہ کے باوجود بغدادی کس طرح شعبی سے روایت نقل کرتا ہے اگر اس کی نقل بالواسطہ تھی تو یہ واسطے کون ہیں ؟ کیوں ان کا نام نہیں لیا گیا ہے ؟)
علی علیہ السلام مارے گئے ، اس نے جواب میں کہا:
اگر ان کے مغز کو ایک تھیلی میں ہمارے لئے لاؤ گے پھر بھی ہم تمہاری بات کی تصدیق نہیں کریں گے کیونکہ وہ نہیں مریں گے یہاں تک آسمان سے اتر کر پوی روئے زمین پر سلطنت کریں گے“
عبدا لقاہر کہتا ہے :
” یہ گروہ تصور کرتا ہے کہ ”مھدی منتظر “ وہی علی ابن ابیطالب ہیں کوئی دوسرا شخص نہیں ہے اسحاق بن سوید عدوی ۱ نے اس گروہ کے عقائد کے بارے میں درج ذیل اشعار کہے ہیں :
میں گروہ خواج سے بیزاری چاہتا ہوں اور ان میںسے نہیں ہوں ، نہ گروہ غزال سے ہوں اور نہ ابن باب کے طرفداروں میں سے، اور نہ ہی اس گروہ سے تعلق رکھتا ہوں کہ جب وہ علی کو یاد کرتے ہیں تو سلام کا جواب بادل کو دیتے ہیں لیکن میں دل و جان سے برحق پیغمبر اور ابوبکر کو دوست رکھتا ہوں اور جانتا ہوں کہ یہی راستہ درست اور حق ہے۔
اس الفت و دوستی کی بنا پر قیامت کے دن بہترین اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں ۲ ۔
--------------------------
۱۔ اسحاق بن سوید عدوی تمیمی بصری کی موت ۱۳۱ ئھ میں طاعون کی بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے ۔وہ حضرت علی علیہ السلام کی مذمت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میں ان سے الفت نہیں رکھتا ہوں۔
۲۔ برئت من الخوارج لست منھم
من الغزال منھم و ابن باب
ومن قوم اذا ذکروا علیا

یردون السلام علی السحاب
و لکنی احب بکل قلبی
واعلم ان ذاک من الصواب
رسول اللہ و الصدیق حقا
بہ ارجو غداً حسن الثواب
یہاں پر عبدا للہبن سبا اور گروہ سبئیہ کے بارے میں بغدادی کی گفتگو اختتام کو پہنچی ، اب وہ عبد اللہ بن سودا کے بارے میںا پنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور اس کے بارے میں یوں کہتا ہے :
عبدا للہ بن سودا نے سبئیہ گروہ کی ان کے عقیدہ میں مدد کی ہے اور ان کا ہم خیال رہا۔ وہ بنیادی طور پر حیر ہ کے یہودیوں میں سے تھا لیکن کوفہ کے لوگوں میں مقام و ریاست حاصل کرنے کیلئے ظاہراً اسلام لایا تھا اور کہتا تھا : میں نے توریت میں پڑھا ہے کہ ہر پیغمبر کا ایک خلیفہ اور وصی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصی علی علیہ السلام ہیں․․․“
بغدادی کہتا ہے :
جب علی علیہ السلام کے شیعوں نے ابن سودا کی یہ بات سنی تو انہوں نے علی سے کہا کہ وہ آپ کے دوستداروں اور محبت کرنے والوں میںہے لہذا علی کے پاس ابن سوداد کا مقام بڑھ گیا اور وہ ہمیشہ اسے اپنے منبر کے نیچے اور صدر مجلس میں جگہ دیتے تھے، لیکن جب علی نے بعد میں اس کے غلو آمیز مطالب سنے تو اس کے قتل کا فیصلہ کیا ، لیکن ابن عباس نے علی کے اس فیصلہ سے اختلاف کیا اور انھیں آگاہ کیا کہ کیا شام کے لوگوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں آپ کو اس نازک موقع پر لوگوں کی حمایت کی ضرورت ہے اور مزید سپاہ و افراددر کار ہیں اگر ایسے سخت موقع پر ابن سودا کو قتل کر ڈالیںگے ، تو آپ کے اصحاب و طرفدار مخالفت کریں گے اور آپ ان کی حمایت سے محروم ہوجائیں گے علی نے ا بن عباس کی یہ تجویز قبول کی اور اپنے دوستداروں کی مخالفت کے ڈر سے ابن سوداء کے قتل سے صرف نظر کیا،اور اسے مدائن میں جلا وطن کر دیا لیکن علی کے قتل کئے جانے کے بعد بعض لوگ ابن سودا کی باتوں کے فریب میںآگئے کیونکہ وہ لوگوں کو اس قسم کے مطالب سے منحرف کرتااور کہتا تھا خداکی قسم مسجد کوفہ کے وسط میں علی کیلئے دو چشمے جاری ہوں گے ان میں سے ایک سے شہد اور دوسرے سے تیل جاری ہوگا اور شیعیان علی اس سے استفادہ کریں گے
اس کے بعد بغدادی کہتا ہے :
” اہل سنت کے دانشور اور محققین معتقد ہیں کہ اگر چہ ابن سودا ظاہراً اسلام قبول کرچکا تھا لیکن علی علیہ السلام اور ان کی اولاد کے بارے میںا پنی تاٴویل و تفسیروں سے مسلمانوں کے عقیدہ کو فاش کرکے ان میںا ختلاف پیدا کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ مسلمان علی علیہ السلام کے بارے میں اسی اعتقاد کے قائل ہوجائیں جس کے عیسائی حضرت عیسیٰ کے بارے میں قائل تھے ۱
--------------------------
۱۔ یہ مطالب سیف کی عبد اللہ بن سبا کے بارے میں روایت کا مفہوم ہے کہ بغدادی نے انھیں مشوش اور درہم برہم صورت میں نقل کیا ہے اور خیال کیا ہے کہ ابن سودا علاوہ بر ابن سبا کوئی دوسرا شخص ہے اور یہ دو شخص جدا ہیں اور ابن سودا حیرہ کے یہودیوںمیںسے تھا جبکہ سیف نے ابن سبا کو یمن کے صنعا علاقہ کا دکھایا ہے اور اسے ابن سوداء کے طور پر نشاندہی کی ہے۔کتاب مختصر الفرق کے ناشر فلیب حتی عیسائی نے بغدادی کی اس بات کا مذاق اڑادیا ہے اور اسے اس کے فاسد مقصد کے نزدیک دیکھتا ہے اس کتاب کے حاشیہ میں لکھتا ہے : یہ روداد اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ گوناگون اسلامی فرقے وجود میں لانے میں یہودی مؤثر تھے اس کے بعد کہتا ہے :بغدادی کی سبئیہ کے بارے میں کی گئی بحث مکمل ترین و دقیق ترین بحث ہے جو اس بارے میں عربی کتابوں میں آئی ہے ۔
اس کے بعد بغدادی کہتا ہے :
مرموز ابن سودا نے مسلمانوں میں بغاوت ، اختلاف وفساد اور ان کے عقائد و افکار میں انحراف پیدا کرنے کیلئے مختلف اسلامی ممالک کا سفر کیا جب اس نے دیگر گروہوں کی نسبت رافضیوں کو کفر و گمراہی اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے میں زیادہ مائل پایا تو انھیں عقیدہٴ سبئیہ کی تعلیم و تربیت دی اس طریقے سے اس عقیدہ کی ترویج کی اور اسے مسلمانوں میں پھیلایا “
مختار کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے بغدادی کہتا ہے :
” سبیئہ جو غالیوں اور رافضیوں کا ایک گروہ ہے اس نے مختار کو فریب دیا اور ان سے کہا تم زمانے کی حجت ہو ،اس فریبکارانہ بات سے اسے مجبور کیا تا کہ نبوت کا دعوی کرےں ا نھوں نے بھی اپنے خاص اصحاب کے درمیان خود کو پیغمبر متعارف کیا “
بغدادی لفظ ” ناووسیہ “ کی تشریح میں کہتا ہے :
” اور سبیئہ کا ایک گروہ ” ناووسیہ “ سے ملحق ہوا وہ سب یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جعفر (ان کا مقصود امام صادق علیہ السلام ہیں) جمیع دینی علوم و فنون اعم از شرعیات و عقلیات کے عالم ہیں ․․․․“
یہ تھے بغدادی کے گروہ ” سبیئہ “ کے بارے میںا پنی کتاب ’ ’ الفرق “ میں درج کئے گئے تار پود اس گروہ کے عقائد و افکار کے بارے میں دیکھے گئے اس کے خواب اور اس کیلئے جعل کئے گئے اس کے عقائد اس کے بعد اس خیالی اور جعلی گروہ کی گردن پر یہ باطل اور بے بنیاد عقائد و افکار ڈالنے کیلئے اس نے داد سخن دیا ہے اور ان خرافات پر مشتمل عقائد کو مسترد کرنے کیلئے ایک افسانہ پیش کرکے اس کی مفصل تشریح کی ہے ۔
حقیقت میں اس سلسلہ میںبغدادی کی حالت اس شخص کی سی ہے جو تاریکی میں ایک سایہ کا تخیل اپنے ذہن میںا یجاد کرنےکے بعد تلوار کھینچ کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے ۔
عبد القاہر بغدادی کے بعد ، ابو المظفر اسفرائینی ( وفات ۴۷۱ئھ) آیا اور جو کچھ بغدادی نے گروہ سبیئہ کے بارے میں نقل کیا تھا ، اس نے اسے خلاصہ کے طور پر اپنی کتاب ” التبصیر “ میں نقل کیا ہے ۔
پھر بغدادی کے اسی بیان کو سید شریف جرجانی(وفات۸۱۶ھء)نے اپنی کتاب ”التعریفات“ میں خلاصہ کے طور پر نقل کیا ہے ۔
فرید وجدی ( وفات ۱۳۷۳ ئھ ) نے بھی اپنے ” دائرة المعارف“ میںلغت ” عبدا للہ بن سبا“ کے سلسلے میں بغدادی کی باتوںکو من و عن اورانھیں الفاظ میں کسی قسم کی کمی بیشی کے بغیر نقل کیا ہے ۔
ابن حزم (وفات ۴۵۴ ئھ) اپنی کتاب ” الفصل فی الملل و الاھواء و النحل“ میں کہتا ہے :
” غالیوں کا پہلا فرقہ جو غیر خد اکی الوہیت اور خدائی کا قائل ہوا ہے عبدا للہ ابن سبا حمیری (خدا کی لعنت اس پر ہو--)کے ماننے والے ہیں اس گروہ کے افراد علی ابن ابیطالب کے پاس آئے اور آپ کی خدمت میں عرض کیا: تم وہی ہو ۔
انھوں نے پوچھا : ” وہی “سے تمہارا مقصود کون ہے ؟ انہوں نے کہا: تم خدا ہو-“ یہ بات علی کیلئے سخت گراں گزری اور حکم دیا کہ آگ روشن کی جائے اور ان سب کو اس میں جلادیا جائے اس گروہ کے افراد جب آگ میںڈال دئے جاتے تھے تو وہ علی کے بارے میں کہتے تھے ، اب ہمارے لئے مسلم ہوگیا کہ وہ وہی خدا ہے کیونکہ خدا کے علاوہ کوئی لوگوں کو آگ سے معذب نہیںکرتا ہے اسی وقت علی ابن ابیطالب نے یہ اشعار پڑھے :
لما رایت الامر امراً منکراً
اٴججت ناری ودعوت قنبراً
” جب میں لوگوں میںکسی برے کام کو دیکھتا ہوں تو ایک آگ روشن کرتا ہوں اور قنبر کو اپنی مدد کیلئے بلاتا ہوں “
ابن حزم فرقہ ٴ کیسانیہ کے عقائد کے بارے میںکہتا ہے :
” بعض امامیہ رافضی جو ”ممطورہ “ کے نام سے معروف ہیں موسی بن جعفر کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ نہیں مرے بلکہ زندہ ہیں اور وہ نہیں مریں گے یہاں تک کہ ظلم و ناانصافی سے پر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔
اس کے بعد کہتا ہے :
” گروہ “ ناووسیہ کے بعض افراد امام موسیٰ کاظم کے والد یعنی ”جعفر ابن محمد “ کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض دوسرے افراد امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بھائی اسماعیل بن جعفر کے بارے میں اسی عقیدہ کے قائل ہیں “
اس کے بعد کہتا ہے:
” سبیئہ جو عبدا للہ بن سبا حمیری یہودی کے پیرو ہیں علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں بھی اسی قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ وہ بادلوں میں ہے ،یہاں تک کہتا ہے :
جب علی کے قتل ہونے کی خبر عبد اللہ بن سبا کو پہنچی تو اس نے کہا: اگر ان کے سر کے مغز کو بھی میرے سامنے لاؤ گے پھر بھی ان کی موت کے بارے میں یقین نہیں کروں گا․․․
ابو سعید نشوان حمیری ( وفات ۵۷۴ئھ ) اپنی کتاب ” الحور العین “ میں کہتا ہے :
” سبیئہ وہی عبدا للہ بن سبا اور اس کے عقائد کے پیرو ہیں “
اس کے بعد ان کے عقائد کو بیان کرنے کے ضمن میںا میر المؤمنین کی موت سے انکار کرنے کی روداد کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
” جب ابن سبا کا عقیدہ ابن عباس کے پاس بیان کیا گیا تو انہوں نے کہا: اگر علی نہیں مرے ہوتے تو ہم ان کی بیویوں کی شادی نہ کرتے اوران کی میراث کو وارثوںمیں تقسیم نہیں کرتے “ ۱






----------
۱۔ الحور العین : ص ۱۵۶
ابن سبا اور سبئیہ کے بارے میں شہرستانی اور
اس کے ماننے والوں کا بیان
و اما السبئیة فھم یزعمون ان علیاً لم یمت و انہ فی السحاب
سبائی معتقد ہیں کہ علی نہیں مرے ہیں اور وہ بادلوں میں ہیں
صاحب البدء و التاریخ
شہرستانی ( وفات ۵۴۸ ھء) اپنی ” ملل و نحل “ میں ابن سبا اور سبائیوں کے بارے میں محدثین اور مؤرخین کے بیانات کو خلاصہ کے طور پر درج کرنے کے بعد یوںکہتا ہے :
” عبد اللہ بن سبا پہلا شخص ہے جس نے علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی امامت کو واجب جانا ، اور یہی غالیوں کے دیگر گروہوں کیلئے اس عقیدہ کا سرچشمہ بنا کہ علی نہیں مریں گے اور وہ زندہ ہیں ۔ وہ کہتے ہیں : خداوند عالم کے ایک حصہ نے اس کے وجود میں حلول کیا ہے اور کوئی ان پر برتری حاصل نہیں کرسکتا وہ بادلوں میں ہےں اور ایک دن زمین پر آئےں گے۔
یہاں تک کہتا ہے :
”ابن سبا یہی عقیدہ خود علی کی زندگی میںبھی رکھتا تھا ، لیکن اس نے اس وقت اظہار کیا جب علی کو قتل کر دیا گیا، اس وقت بعض افراد بھی اس کے گرد جمع ہوکر اس کے ہم عقیدہ ہو گئے، یہ وہ پہلا گروہ ہے جو علی اور ان کی اولاد میں امامت کے محدود و منحصر ہونے کا قائل ہے اور غیبت اور رجعت کا معتقد ہوا ہے اس کے علاوہ اس بات کا بھی معتقد ہوا کہ خداوند عالم کا ایک حصہ تناسخ کے ذریعہ علی کے بعد والے ائمہ میں حلول کرچکا ہے اصحاب اور یاران پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بخوبی جانتے تھے اس لئے وہ ابن سبا کے عقیدہ کے مخالف تھے ، لیکن وہ علی علیہ السلام کے بارے میں اس مطلب کو اس لئے کہتے تھے کہ جب علی علیہ السلام نے خانہٴ خدا کی بے حرمتی کرنے کے جرم میں حرم میںایک شخص کی آنکھ نکالی تھی یہ واقعہ جب خلیفہ دوم عمر کے پاس نقل کیا گیا تو عمر نے جواب میں یہ جملہ کہا: ” میں اس خدا کے ہاتھ کے بارے میںکیا کہہ سکتا ہوں جس نے حرم خدا میں کسی کو اندھا کیا ہو؟
دیکھا آپ نے کہ عمر نے اپنے اس کلام میں خدا کے ایک حصہ کے علی علیہ السلام کے پیکر میں حلول کرنے کا اعتراف کیا ہے اور ان کے بارے میں خداکا نام لیا ہے ۱
یہ تھا ان افرا د کے نظریات و بیانات کا خلاصہ جنہوں نے ” ملل و نحل “ کے بارے میں کتابیں لکھی ہیں دوسری کتابوں کے مؤلفین بھی ان کے طریقہ کا رپر چل کر بیہودہ اور بے بنیاد مطالب کو گڑھ کر اس باطل امور میں ان کے قدم بقدم رہے ہیں ، مثلاً البدء و التاریخ کا مؤلف کہتا ہے :
لیکن ” سبئیہ “ جسے کبھی’ ’ طیارہ “ بھی کہتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ ہرگز موت ان کی طرف آنے والی نہیں ہے اور وہ نہیںمریں گے حقیقت میں ان کی موت اندھیری رات کے آخری حصہ میں پرواز کرنا ہے اس کے علاوہ یہ لوگ معتقد ہیں کہ علی ابن ابیطالب نہیں مرے ہیں بلکہ بادلوں میں موجود ہیں لہذا جب رعد کی آواز سنتے ہیں تو کہتے ہیں علی غضبناک ہو گئے ہیں“۔
اس کے علاوہ کہتا ہے :
” گروہ طیارہ کے بعض افراد معتقد ہیں کہ روح القدس جس طرح عیسیٰ میں موجود تھا اسی طرح
پیغمبر اسلام میںبھی موجود تھا اور ان کے بعدعلی ابن ابیطالب علیہ السلام میں منتقل ہوگیاعلی سے ان کے
۱۔ اس نقل کی بنا پر عمراولین شخص ہے جس نے علی کے بارے میں غلو کیا ہے اور اس عقیدہ کی بنیاد ڈالی ہے اسی طرح وہ پہلے شخص تھے جس نے عقیدہٴ رجعت کو اس وقت اظہار کیا جب رسول خدا نے رحلت فرمائی تھی جب اس نے کہا: خدا کی قسم پیغمبر نہیں مرے ہیں اور واپس لوٹیں گے ․․․ اسی کتاب کی جلد اول حصہ سقیفہ ملاحظہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہرستانی بھی اپنی نقلیات میں تمام علمائے ادیان اور ملل و نحل کے مولفین کے مانند بعض مطالب کو لوگوں سے سنتا ہے اورانھیں بنیادی مطالب اور سو فیصد واقعی صورت میں اپنی کتاب میں درج کرتا ہے بغیر اس کے کہ اپنی نقلیات کی سند کے بارے میں کسی قسم کی تحقیق و بحث کرے ہم ان مطالب کے بارے میں اگلے صفحات میںبیشتر وضاحت پیش کریں گے ۔
فرزند حسن اور اس کے بعد یکے بعد دیگرے باقی اماموں میں منتقل ہوتا رہا سبیئہ کے مختلف گروہ ارواح کے تناسخ اور رجعت کے قائل ہیں اور سبیئہ کے ایک گروہ کے افراد اعتقاد رکھتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام خدا سے منشعب شدہ نور ہیں اور وہ خدا کے اجزاء میںسے ایک جزو ہیں اس عقیدہ کے رکھنے والوں کو ”حلاجیہ “۱ کہتے ہیں ابو طالب صوفی بھی یہی اعتقاد رکھتا تھا اور اس نے انھیں باطل عقائد کے مطابق درج ذیل اشعار کہے ہیں :
قریب ہے کہ وہ ․․․ہوگا
اگر کوئی ربوبیت نہ ہوتی تو وہ بھی نہ ہوتا
کیا نیک آنکھیں غیبت کیلئے فکرمند ہیں (چشم براہ ہیں )یہ آنکھیں پلک و مژگان والی آنکھیں جیسی نہیں ہیں ۔
خدا سے متصل آنکھیں نور قدسی رکھتی ہیں ، جو خدا چاہے گا وہی ہوگا نہ ہی خیال کی گنجائش ہے اور نہ چالاکی کا کوئی محل۔
وہ سایوں کے مانند ہیں جس دن مبعوث ہوں گے لیکن نہ سورج کے سایہ کے مانند اور نہ گھر کے سایہ کے مانند ۲
---------------
۱۔ حلاجیہ حسین بن منصور حلاج سے منسوب ہیں حسین بن حلاج ایک جادو گر اور شعبدہ باز تھا شہروں میں پھرتا تھا ہرشہر میں ایک قسم کے عمل اور مسلک کو رائج کرتا تھاا ور خود کو اس کا طرفدار بتاتا تھا ۔مثلاً معتزلیوں میں معتزلی ، شیعوں میں شیعہ اور اہل سنت میں خود کو سنی بتاتا تھا ۔
۲۔
کادوا یکونون ․․․
لو لا ربوبیة لم تکن
فیالھا اٴعینا بالغیب ناظرة
لیست کاعین ذات الماق و الجفن
انوار قدس لھا بالله متصل
کما شاء بلا وھم و لا فظن
وھم الاظلة والاشباح ان بعثوا
لا ظل کالظل من فیئی و لا سکن
ابن عساکر ( وفات ۵۷۱ ھء ) نے اپنی تاریخ میںعبدا للہ بن سبا کے حالات کی تشریح میں سیف کی نقل کی گئی روایت (اور ان روایتوں کے علاوہ کہ جن کے بعض مضامین ہم نے اس کتاب کی پہلی جلد ۱ اور بعض کو گزشتہ صفحات میں درج کیا ہے)مزید چھ روایتں حسب ذیل نقل کی ہیں :
۱۔ ابو طفیل سے نقل ہوا ہے :
’ میں نے مسیب بن نجبہ کو دیکھا کہ ابن سودا کے لباس کو پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے علی ابن ابیطالب کے پاس --- جب وہ منبر پر تھے ---لے آیا ،علی نے پوچھا : کیا بات ہے ؟ مسیب نے کہا: یہ شخص ابن سودا خدا او رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت لگاتا ہے “
۲۔ ایک دوسری روایت میں آیاہے کہ علی ان ابیطالب علیہ السلام نے فرمایا:
مجھے اس خبیت سیاہ چہرہ سے کیا کام ہے ؟ آپ کی مراد ابن سبا تھا جو
ابوبکر او عمر کے بارے میں برا بھلا کہتا تھا۔
۳۔ اور ایک روایت میں آیا ہے :
مسیب نے کہا: میں نے علی ابن ابیطالب کو منبر پر دیکھا کہ ابن سودا کے بارے میں فرما رہے ہیں:
---------------------
۱۔ ج /۱ فصل پیدائش افسانہ عبدا للہ بن سبا
”کون ہے جو اس سیاہ فام (جو خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ کی نسبت دیتا ہے)خدا اس کو مجھ سے دور کرے۔ اگر مجھے یہ ڈرنہ ہوتا کہ بعض لوگ اس کی خوانخواہی میں شورش برپا کریں گے جس طرح نہروان کے لوگوں کی خونخواہی میں بغاوت کی گئی تھی تو میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے رکھ دیتا“
۴۔ ایک دوسری روایت میں مسیب کہتا ہے :
میںنے علی ابن ابیطالب سے سنا کہ ” عبد اللہ بن سبا“ کی طرف مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے افسوس ہو تم پر! خداکی قسم پیغمبر خدا نے مجھ سے کوئی ایسا مطلب نہیں بیان کیا ہے جو میں نے لوگوں سے مخفی رکھا ہو“
۵۔ ایک دوسری روایت میں مسیب کہتا ہے :
” علی ابن ابیطالب کو خبر ملی کہ ابن سودا ابوبکراور عمر کی بدگوئی کرتا ہے ۔ علی علیہ السلام نے اسے اپنے پاس بلایا اور تلوار طلب کی تا کہ اسے قتل کر ڈالےں ۔ یا یہ کہ جب یہ خبر انھیں پہنچی انھوں نے فیصلہ کیا کہ اسے قتل کر ڈالےں۔ لیکن اس کے بارے میں کچھ گفتگو ہوئی اور یہ گفتگو حضرت کو اس فیصلہ سے منصرف ہونے کا سبب بنی ،لیکن فرمایا کہ جس شہر میں ، میں رہتا ہوں اس میں ابن سبا کو نہیں رہنا چاہئے اس لئے اسے مدائن جلاوطن کر دیا ۔
۶۔ ابن عساکر کہتا ہے :
” ایک روایت میںا مام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد سے اور انہوں نے جابر سے نقل کیا ہے کہ : جب لوگوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی، حضرت نے ایک تقریر کی، اس وقت عبدا لله بن سبا اٹھا اور حضرت سے عرض کی : تم ” دابة الارض“ ہو ۔ علی علیہ السلام نے فرمایا ؛ خدا سے ڈرو! ابن سبانے کہا: تم پروردگا ہو اور لوگوں کو رزق دینے والے ہو، تم ہی نے ان لوگوں کو خلق کیا ہے اور انھیں رزق دیتے ہو ۔ علی (علیہ السلام )نے حکم دیا کہ اسے قتل کر دیا جائے ، لیکن رافضیوں نے اجتماع کیا اور کہا؛ یا علی! اسے قتل نہ کریں بلکہ اسے ساباط مدائن جلاوطن کردیں کیونکہ اگر اسے مدینہ میں قتل کر ڈالیں گے تو اس کے دوست اور پیرو ہمارے خلاف بغاوت کریں گے یہی سبب بنا کہ علی علیہ السلام اس کو قتل کرنے سے منصرف ہوگئے اور اسے ساباط جلاوطن کردیا، کہ وہاں پر ”قرامطہ “ اور رافضیوں کے چندگروہ زندگی گذار رہے تھے، جابر کہتا ہے: اس کے بعد گیارہ افراد پر مشتمل سبائیوں کا ایک گروہ اٹھا اور علی علیہ السلام کی الوہیت اور خدائی کے بارے میںا بن سبا کی باتوں کو دھرایا، علی علیہ السلام نے ان کے جواب میں فرمایا :
اپنے عقیدہ سے دست بردار ہوجاؤ اور توبہ کرو کہ میں پروردگا و خالق نہیں ہوں بلکہ میں علی ابن ابیطالب ہوں تم میرے ماں باپ کو جانتے ہو اور میں محمد کا چچیرا بھائی ہوں ۔ انہوں نے کہا: ہم اس عقیدہ سے دست بردار نہیں ہوں گے تم جو چاہتے ہو ، ہمارے بارے میںانجام دو اور ہمارے حق میں جو بھی فیصلہ کرنا چاہتے ہو کرو لہذا علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جلا دیا اور ان کی گیارہ قبریں صحرا میں مشہور و معروف ہیں۔
اس کے بعد جابر کہتا ہے : اس گروہ کے بعض دوسرے افراد نے اپنے عقائد کاہمارے سامنے اظہار نہیں کیا تھا ، اس روداد کے بعد انہوں نے کہا: کہ علی ہی خدا ہےں اور اپنے عقیدہ اور گفتار پر ابن عباس کی باتوں سے استناد کرتے تھے کہ انھوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیاتھا: خدا کے علاوہ کوئی آگ کے ذریعہ عذاب نہیں کرے گا۔
جابر کہتا ہے : جب ابن عباس نے ان کے اس استدلال کو سنا ، تو کہا: اس لحاظ سے تمہیں ابوبکر کی بھی پرستش کرنا چاہئے اور ان کی الوہیت کے بھی قائل ہونا چاہئے ، کیونکہ انھوں نے بھی چند افراد کو آگ کے ذریعہسزا دیہے ۔
عبدالله بن سبا کے بارے میں
ادیان و عقائد کے علماء کا نظریہ
عبدالله بن سبا من غلاة الزنادقة ضال و مضل
عبدا للہ بن سبا انتہا پسند زندیقیوں میں سے ہے اور وہ گمراہ کنندہ ہے
ذہبی
متقدمین کانظریہ:
ہم نے عبد الله بن سبا ، سبئیہ اور ابن سودا کے بارے میں ادیان اور عقائد کی کتابوں کے بعض متقدم مؤلفین کے بیانات اور نظریات کو گزشتہ فصول میں ذکر کیا اب ہم ان میںسے بعض دوسروں کے نظریات اس فصل میں ذکر کریں گے اس کے بعد اس سلسلہ میں متاخرین کے نظریات بیان کریں گے ۔
ذہبی (وفات ۷۴۸ ھء) اپنی کتاب ” میزان الاعتدال “ میں عبداللہ بن سبا کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتا ہے :
”وہ زندیقی اور ملحد غالیوں میںسے تھا ۔ وہ ایک گمراہ اور گمراہ کنندہ شخص تھا ۔
میرے خیال میں علی علیہ السلام نے اسے جلا دیا ہے “ اس کے بعد کہتا ہے: جو زجانی نے عبد اللہ کے بارے میںکہا ہے کہ وہ خیال کرتا تھا موجودہ قرآن اصلی قرآن کا نواں حصہ ہے اور پورے قرآن کو صرف علی علیہ السلام جانتے ہیں اور انھیں کے پاس ہے عبد اللہ بن سبا اس طرح علی ابن ابیطالب کی نسبت اظہار دلچسپی کرتا تھالیکن علی علیہ السلام اسے اپنے سے دور کرتے تھے “ ۱
ابن حجر ( وفات ۸۵۲ ھء) بھی اپنی کتاب ” لسان المیزان “میں عبد اللہ بن سبا کے بارے میں ذہبی کے اسی بیان اور ابن عساکر کے پہلے والے بعض نقلیات کو نقل کرنے کے بعدکہتا ہے :
” اما م نے ابن سبا کو کہا: خدا کی قسم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے کوئی ایسا مطلب نہیں بتایا ہے کہ میںنے
-------------------------
۱۔ جوزجانی وہی ابراہیم بن یعقوب بن اسحق سعدی ہے اس کی کنیت ابو اسحاق تھی نواحی بلخ میںجوزجان میں پیدا ہوا ہے بہت سے شہروں اور ممالک کا سفر کیا ہے دمشق میں رہائش پذیر تھا حدیث نقل کرتا تھا” الجرح و التعدیل “ ، ”الضعفاء “ اور” المترجم “ اس کی تالیفات ہیں۔
ذہبی اپنی کتاب ’ ’ تذکرة الحفاظ“ میںا س کے حالات کی تشریح میں کہتا ہے : جوزجانی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں انحرافی عقیدہ رکھتا تھا مزید کہتا ہے : وہ علی علیہ السلام کے خلاف بد گوئی کرتا تھا ۔
”معجم البلدان“ میںلفط جوزجان میںآیا ہے کہ جوزجانی نے کسی سے چاہا کہ اس کےلئے ایک مرغ ذبح کرے اس شخص نے نہیں مانا جوزجانی نے کہا: میںتعجب کرتا ہوں کہ لوگ ایک مرغ کو ذبح کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتے ہیں جبکہ علی ابن ابیطالب نے تنہا ایک جنگ میںستر ہزار افرد کو قتل کیا جوزجانی ۲۵۹ ھء میں فوت ہوا ہے )( تذکرة الحفاظ ترجمہٴ ۵۶۹ ، تاریخ ابن عساکر و تاریخ ابن کثیر ۱۱/ ۳۱ ملاحظہ ہو )
اسے لوگوں سے مخفی رکھا ہو میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے : قیامت سے پہلے، تیس افرا دکذاب اور جھوٹے پیدا ہوں گے اس کے بعد فرمایا :
ابن سبا تم ان تیس افراد میں سے ایک ہوگے۔
ابن حجر مزید کہتا ہے :
” سوید بن غفلہ ، علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی خلافت کے دوران ، ان کی خدمت میں حاضر ہوا ور عرض کی : میںنے بعض لوگوں کو دیکھا جن میں عبد اللہ بن سبا بھی موجود تھا ، وہ ابوبکر اور عمر پر سخت تنقید کرتے تھے اور انھیں برا بھلا کہتے تھے اور وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ آپ بھی ان دو خلیفہ کے بارے میںباطن میں بدگمان ہیں “
ابن حجر اضافہ کرتا ہے:
” عبد اللہ بن سبا پہلا شخص تھاجس نے خلیفہ اول و دوم کے خلاف تنقید اور بدگوئی کا آغاز کیا اور اظہار کرتا تھا کہ علی بن ابی طالب ان دو خلیفہ کے بارے میںبدگمان تھے اور اپنے دل میںان کے بارے میںعداوت رکھتا ہے ۔ جب علی نے اس سلسلہ میں عبدا للہ بن سبا کے اظہارات کو سنا ، کہا: مجھے اس خبیث سیاہ چہرے سے کیا کام ہے ؟ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں اگر ان دو افرادکے بارے میں میرے دل میں کسی قسم کی عداوت ہو، اس کے بعد ابن سبا کو اپنے پاس بلایا اور اسے مدائن جلا وطن کردیا اور فرمایا: اسے قطعاً میرے ساتھ ایک شہر میںز ندگی نہیں کرنی چاہئے اس کے بعدلوگوں کے حضور میں منبر پر گئے اورابن سباکی روداد اور خلیفہ اول و دوم کی ثنا بیان کی ۔ اپنے بیانات کے اختتام پر فرمایا: اگر میں نے کسی سے سنا کہ وہ مجھے ان دو خلیفہ پر ترجیح دیتا ہے اور ان سے مجھے برتر جانتا ہے تو میںا س پر افترا گوئی کی حد جاری کروں گا اس کے بعد کہتا ہے :
” عبد اللہ بن سبا کے بارے میںر وایتیں اور روداد تاریخ کی کتابوںمیں مشہور ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس سے کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے اس کے ماننے والے ”سبائیوں “ کے نام سے مشہور تھے جو علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی الوہیت کے معتقد تھے علی علیہ السلام نے انھیں آگ میں ڈال کر جلا دیا اور انھیں نابود کردیا ۔۱
-----------------------
۱۔ مؤلف کہتا ہے : اس داستان کو جعل کرنے والا ، شاید امام کے ان خطبوں کو فراموش کرگیا ہے جو امام نے ان دو افراد کے اعتراض اور شکایت کے موقع پر جاری کیا تھا۔ جیسے حضرت کا خطبہٴ شقشقیہ جو نہج البلاغہ کا تیسرا خطبہ ہے۔
” خدا کی قسم فرزند ابو قحافہ نے پیراہن خلافت پہن لیا حالانکہ وہ میرے بارے میںا چھی طرح جانتا تھاکہ میر اخلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیل کا ہوتا ہے میں وہ کوہ بلند ہوںجس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گرتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مارسکتا میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکادیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کرلوں کہ جس میںسن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہوجاتاہے اور مومن اس میں جد و جہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے مجھے اسی اندھیرے پر صبر ہی قرین عقل نظر آیا لہذا میں نے صبر کیا حالانکہ میری آنکھوں میںخس و خاشاک اور گلے میں ہڈی پھنسی ہوئی تھی۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابن خطاب کودے گیا تعجب ہے کہ و ہ زندگی میںتو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتاتھا لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کیلئے استوا رکرتا گیا بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوںکو آپس میں بانٹ لیا اس نے خلافت کو ایک سخت اور ناہموار جگہ پر رکھ دیا اس کی جراحتیںکاری تھیں اور اس کا چھونا خشن تھا جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اورپھر عذر کرنا تھا جس کااس سے سابقہ پڑے وہ ایساہے۔
مقریزی ( وفات ۸۴۸ھء ) اپنی کتاب ” خطط“ کی فصل ”ذکر الحال فی عقائد اھل الاسلام “ میںعبدا للہ بن سباکے بارے میںکہتا ہے: ” اس نے علی ابن ابیطالب کے زمانے میں بغاوت کی اور یہ عقیدہ ایجاد کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مسلمانوں کی امامت اور پیشوائی کیلئے معین فرمایا اورپیغمبر کے واضح فرمان کے مطابق آپ کے بعد علی آپ کے وصی، جانشین اور امت کے پیشوا ہیں اس کے علاوہ یہ قید بھی ایجاد کیا کہ علی ابن ابیطالب علیہ السلام ور رسول خدا اپنی وفات کے بعد رجعت فرمائیں گے یعنی دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے ان کے عقیدہ کے مطابق علی ابن ابیطالب نہیں مرے ہیں بلکہ وہ زندہ اور بادلوں میں ہیں اور خداوند عالم کا ایک جز ان میںحلول کرچکا ہے ۱
مقریزی اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے یہاں تک کہتا ہے :
” اس ابن سبا سے غالیوں اور رافصیوں کے کئی گروہ وجود میں آئے ہیں کہ وہ سب جیسے کہ کوئی سرکش اونٹ پر سوار کہ مہار کھینچتا ہے تو اس کی ناک کا درمیانی حصہ شگافتہ ہوجاتا ہے جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہوجائے گا اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑدیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ہلاکتوں میں پڑ جائے گا۔ خدا کی قسم ! ْلوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میںمبتلا ہوگئے، میںنے اس طویل مدت اورشدید مصیبت پر صبر کیا ․․․
دوسری جگہ بھی ان فرمائشات کے مانند بیان فرمایا ہے ۔
۱۔ تعجب کا مقام ہے کہ مقریزی اپنی بات میں تناقض کا شکار ہوا ہے اپنے گذشتہ بیان پر توجہ کئے بغیر مقریزی کہتا ہے: ابن سبا کے عقیدہ کے مطابق علی علیہ السلام اپنی وفات کے بعد رجعت کریں گے اس کے بعد بلافاصلہ کہتا ہے ابن سبا معتقد ہے کہ علی - نہیں مرے ہیں اور ابھی زندہ ہیں۔
امر امامت میں” توقف “ کے قائل ہیں کہتے ہیں : مقام امامت معین افراد کیلئے مخصوص اور منحصر ہے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس مقام پر فائز نہیں ہوسکتا ہے ۔
رافضیوں نے رجعت کے عقیدہ کو اسی ابن سبا سے حاصل کیا ہے اور کہا ہے: امام مرنے کے بعد رجعت یعنی دوبارہ دنیا میں آئیں گے یہ عقیدہ وہی عقیدہ ہے کہ امامیہ ابھی بھی ” صاحب سرداب“ کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حقیقت میں یہ تناسخ ارواح کے علاوہ کوئی اور عقیدہ نہیںہے ۔
اس کے علاوہ رافضیوں نے حلول کا عقیدہ بھی اسی عبدا للہ بن سبا سے حاصل کیا ہے اور کہا ہے: خدا کا ایک جزو علی علیہ السلام کے بعد آنے والے ائمہ میں حلول کر گیا ہے اور یہ لوگ اسی وجہ سے مقام امامت کے حقدار ہیں، جس طرح حضرت آدم ملائکہ کے سجدہ کے حقدار تھے۔
مصر میں خلفائے فاطمیین کے بیانات اور دعوی بھی اسی اعتقاد کی بنیاد پر تھے جس کا خاکہ اسی عبدا للہ بن سبا نے کھینچا تھا ۔
مقریزی اپنی بات کو یوں جاری رکھتاہے: ”ابن سبا یہودی ہے جس نے عثمان کے تاریخی فتنہ وبغاوت کو برپا کرکے عثمان کے قتل کا سبب بنا “
مقریزی ابن سبا اور اس کے عالم اسلام اور مسلمانوں کے عقائد میں ایجاد کردہ مفاسد کی نشاندہی کے بعد گروہ ” سبیئہ “ کا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے :
” پانچواں گروہ بھی ” سبئیہ“ہی سے ہے اور وہ عبدا للہ بن سبا کے ماننے والے ہیں کہ اس نے علی ا بن ابیطالب کے سامنے واضح اور کھلم کھلا کہا تھا کہ ” تم خدا ہو ․․․․“
متاخرین کا نظریہ
یہاں تک ہم نے ابن سبا اور گروہ سبیئہ کے بارے میںعقائد و ادیان کے دانشوروں ، مؤرخین اورادیان کی کتابیں لکھنے والے مؤلفین کے نظریات بیان کئے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ ان علماء کی یہ کوشش رہی ہے کہ ان اقوال اور نظریات کو دورہ اول کے راویوںسے متصل و مربوط کریں اور ان سے نقل قول کریں اور من وعن انہیںمطالب کو بعد والے مؤلفین اور متاخرین نے آ کر تکرار کی ہے اور بحث و تحقیق کے بغیر اپنے پیشرؤں کی باتوں کو اپنی کتابوں میںثبت کر دیا ہے ، جیسے:
۱۔ ابن ابی الحدید ( وفات ۶۵۵ھء) شرح خطبہ ۲۷ از شرح نہج البلا غہ ۔
۲۔ ابن کثیر ( وفا ۷۷۴ھء ) نے اپنی تاریخ میں ۔
۳۔ بستانی ( وفات ۱۳۰۰ ھء) نے بھی جو کچھ عبد اللہ بن سبا کے بارے میں اسی لفظ کے ضمن میں اپنے دائرة المعارف میں درج کیا ہے اسے مقریزی اور ابن کثیر سے نقل کیا ہے ۔
۴۔ دوسروں ، جیسے ابن خلدون نے بھی اس روش پر عمل کیا ہے اور مطالب کو تحقیق کئے بغیر اپنے پیشواؤں سے نقل کیا ہے بہر حال اس قسم کے مولفین نے بعص اوقات سیف کے بیانات کو بالواسطہ نقل کرکے اس کی پیروی کی ہے اور کبھی اس قسم کے مطالب نقل کرنے والوں کی پیروی کی ہے اور ان مطالب کو ان سے نقل کرکے دوسروں تک پہنچایا ہے اس قسم کے افراد بہت ہیں مانند مقریزی کہ وہ اپنے مطالب کو سیف کی روایتوں اور ” ملل ونحل“ کی کتابیں لکھنے والے مؤلفین سے نقل کرتا ہے اور بستانی ” ملل و نحل “ کے مؤلفین کے بیانات کو اسی مقریزی اور سیف کی روایتوں کو ابن کثیر سے نقل کرتا ہے اور تمام مؤلفین نے بھی اس روش کی پیروی کی ہے ۔
عبدا للہ بن سبا کے بارے میں ہمار ا نظریہ
انھم تنافسوا فی تکثیر عدد الفرق فی الاسلام
ادیان کی کتابیںلکھنے والے مؤلفین نے اسلامی فرقوں کی تعداد بڑھانے میںمقابلہ کیا ہے ۔
انھم یدونون کل ما یدور علی السنة اھل عصرھم
ادیان کی کتابیںلکھنے والوں نے اپنے وقت کے کوچہ و بازار کے لوگوں کے عامیانہ مطالب کو اپنی کتابوںمیںدرج کیا ہے
مؤلف
یہ تھا عبداللہ بن سبا، سبیئہ اور اس سے مربوط روایتوں کے بارے میں قدیم و جدید علمائے ادیان ، عقائد اور مؤرخین کا نظریہ جو گزشتہ پنجگانہ فصلوں میںبیان کیا گیا ہے اور اس سلسلہ میںہمارا نظریہ یہ ہے کہ ان بیانات اور نظریات میں سے کوئی ایک بھی مضبوط اور پائیدار نہیں ہے کیونکہ ان کی بنیاد بحث و تحقیق پر نہیں رکھی گئی ہے کیوںکہ اصل میںعبدا للہ بن سباسے مربوط روایتیں سیف بن عمر سے نقل کی گئی ہیں ہم نے اس کتاب کی ابتداء میں اور کتاب ” اےک سو پچاس جعلی اصحاب “ میں سیف کی روایتوں اور نقلیات کی حیثیت کو واضح کردیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ ایک خےالی اور جھوٹا افسانہ ساز شخص تھا کہ اس کی روایتیں اور نقلیات افسانوی بنےادوں پر استوار ہیں ۔
ملل و مذہبی فرقوں سے متعلق کتابوں کے مؤلف
انہوں نے بھی مذاہب اور اسلامی فرقوں کی کثرت اور تعداد کو بڑھانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیا ہے اور مختلف گروہوں کی تعداد زیادہ دکھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کی ہے اسلام میں گوناگوں فرقے اور گروہ وجو دمیں لائے ہیں اور ان کی نامگذاری بھی کرتے ہیں تاکہ وہ اس راہ سے جدت کا مظاہر کریں اور جدید مذاہب کے انکشاف میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کریں اس محرک کے سبب مجہول اور گمنام تو کبھی خےالی ا فسانوی اور ایسے فرقے اپنی کتابوں میں درج کردےاہے ہیں جس کا حقیقت میں کہیں وجو دہی نہیں ہے جیسے : ناووسیہ ، طیارہ ، ممطورہ ، سبئیہ ، غرابیہ ، معلومیہ و مجہولیہ ۱ وغیرہ۔
اسکے بعد ان مؤلفین نے ان ناشناختہ یا جعلی فرقوں اور گروہوں کے نظریا ت اور عقائد کے
۱۔مقرےزی نے ”خطط“ مےں ان دو نوں کا نام لےاہے۔
بارے میںمفصل طور پر روشنی ڈالی ہے ہر مؤلف نے اس بارے میں دوسرے مؤلف پر سبقت لینے کی سرتوڑ کوشش کی ہے اور ہر ایک نے تلاش کی ہے کہ اس سلسلہ میں جالب تر مطالب اور عجےب و غرےب عقائد ان مصروف گروھوں سے منسوب کرےں ۔
یہ مؤلفین اور مصنفین اس خود نمائی، فضل فروشی اور غیرو اقعی مطالب لکھنے اور مسلمانوں کی طرف گوناگوں باطل عقائد کی تہمت لگانے میں ---جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے --- ایک بڑے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں ۔
اگر یہ طے پاجائے کہ ہم کسی دن اسلام کے مختلف فرقوں کے بارے میں کوئی کتا ب لکھیں تو ہم مذکورہ گروہوں میں ’ موجدین “ کے نام سے ایک اور گروہ کا اضافہ کریں گے ۔ اس کے بعد اس فرقہ کی یوں نشاندہی کریں گے ” موجدیہ “ اسلام میں صاحبان ملل و نحل اور عقائد و نظریات پر کتابیں لکھنے والے مؤلفین کا وہ گروہ ہے جن کاکام مسلمانوں میں نئے نئے فرقے ایجاد کرنا ہے ان کو ” موجدیہ “ اسلئے کہا جاتاہے کہ وہ اسلام میں فرقے ایجاد کرنے کا کمال رکھتے ہیں اور جن فرقوں کو وہ جعل کرتے ہیں ان کی عجیب و غریب نامگذاری بھی کرتے ہیں ۔
اس کے بعد جعل کئے گئے فرقوں کے لئے افسانوں اور خرافات پرمشتمل عقائدبھی جعل کرتے ہیں ۔
ہمارے اس دعوی کی بہترین دلیل اور گویا ترین شاہد وہی مطالب ہیںجو شہرستانی کی ” ملل و نحل “ بغدادی کی الفرق بین الفرق “ اور ابن حزم کی ” الفصل “ کے مختلف ابواب اور فصلوں میں درج ہوئے ہیں اگر ہم ان کی اچھی طرح تحقیق کریں تو مجبوراً اس نتیجہ پرپہنچیں گے کہ ان کتابوں کی بنیاد علم ، تحقیق اور حقیقت گوئی پر نہیں رکھی گئی ہے اور مختلف فرقوں اور گروہوں کو نقل کرنے اور ان کے عقائد و نظریات بیان کرنے میں ان کتابوں کے اکثر مطالب حقیقت نہیں رکھتے اور ان کے بیشتر نقلیات بے بنیاد اور خود ساختہ ہیں۔
محرکا ت
ہماری نظر میں ان مؤلفین کی اس تباہ کن اور علم و تحقیق کی مخالف روش انتخاب کرنے میں درج ذیل دو عامل مےں سے کوئی ایک ہوسکتا ہے:
اول :جیسا کہ ہم نےپہلے اشارہ کیا ہے ادیان و مذاہب کی کتابیں لکھنے والے مذکورہ مؤلفین نے ان بے بنیاد مطالب ، بیہودہ عقائد اور ان افسانوی اور نامعلوم فرقوں کو فضیلت اور سبقت حاصل کرنے کیلئے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے تا کہ اس کے ذریعہ اپنی جدت پسندی اور ندرت بےانی کرسکیں اور اس کے ساتھ ہی اپنے علم و فضیلت کے مقام کو دوسروں سے برتر ، معلومات کو زیادہ وسیع تر اپنی تالیف کردہ کتابوں کو دوسرو ں کی کتابوں سے تازہ تر اور ہماری اصطلاح میںتحقیقی تر اور جدید تر اور عجیب تر مطالب والی کتابیں دکھائیں اور اس طرح اسلامی گروہوں کے انکشاف میں دوسروں سے سبقت حاصل کرلیں ۔
دوم : اگر ہم ان مؤلفین کے بارے میں حسن ظن رکھیں اورےہ نہ کہیں کہ وہ اپنی تالیفات میںبد نیتی ندرت جوئی ، برتری طلبی اور جدت پسندی رکھتے تھے کم از کم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ان مؤلفین نے اپنی کتابوںکے مطالب کو اپنے زمانے کے لوگوں کی افواہوں اور گلی کوچوں کے عامیانہ مطالب سے لے کر تالیف کیا ہے ۔
اور خرافات پر مشتمل تمام وہ افسانے ان کے زمانے کے لوگوں کے درمیان رائج اور دست بہ دست نقل ہوئے تھے کو جمع کرکے اپنی تالیفات میں بھر دیا ہے اس لحاظ سے ان کتابوں کو ان مؤلفین کے زمانے کے عامیانہ افکار کی عکاسی کرنے والا آئینہ کہا جاسکتا ہے اور ان کتابوں سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ان مؤلفین کے زمانے میں عام لوگ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے بارے میں بے بنیاد تصورات رکھتے تھے ، جیساکہ ہم اپنے زمانے میں ان چیزوں کا کثرت سے مشاہدہ کرتے ہیں ۔ مثلاً بعض شیعہ عوام سنی بھائیوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ایک دم ہوتی ہے اور وہ اس دم کو اپنے لباس کے نیچے چھپا کے رکھتے ہیں اور اہل سنت کے عوام بھی شیعوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ایک دم رکھتے ہیں ۔
اس لحاظ سے اگر کسی دن ہم بھی ملل و نحل ،عقائد اور نظریات پر کوئی کتاب لکھنا چاہیں تو اسمیں مذکورہ مؤلفین کے طریقہ کار کی پیروی کرناچاہیں تو ہمیں ان مؤلفین کی کتابوں میںدرج کئے گئے گوناگون فرقوںمیں ایک اور فرقے کا اضافہ کرنا چاہئیے ، اور کہنا چاہئے کہ: ایک اور فرقہ جو مسلمانوں میں موجود ہے اس کا نام فرقہ ” دُنبیہ “ ہے اور اس فرقہ کے افراد بعض حیوانات کے مانند صاحب دم ہیں اور اس دم کو اپنے لباس کے نیچے مخفی رکھتے ہیں !!
افسانہ ٴ نسناس ۱
ھیھات لن یخطی القدر من القضاء این المفرّ ؟
تقدیر کا تیر خطا کرکے کتنا دور چلا گیا قضا سے بچنے کی کوئی راہ فرار نہیں ہے
نسناس
جیسا کہ ہم نے گزشتہ فصل میں اشارہ کیا کہ ملل و نحل اور ادیان و عقائد کی کتابیں لکھنے والے مؤلفین کسی دلیل ، سند اور ماخذکے ذکر کرنے کی ضرورت کا احساس کئے بغیر ہر جھوٹے مطلب اور افسانے کو اپنی کتابوں میں نقل کرتے ہیں اور اگر بعضوں نے سند و ماخذکا ذکرکیا بھی ہے تو وہ سند و مآخذ صحیح نہیںہیں کیونکہ افسانوں کیلئے سند جعل کرنا بذات خود ایک دلچسپ کارنامہ ہے جو اس افسانہ کے صحیح یا غلط ہونے پر کسی طرح دلالت نہیں کرتا ہے اگر گزشتہ روایتوں کا آپس میں موجود
۱۔ انسان صورت بندر ۔
تناقض اور ان کے مضمون و متون کا من گڑھت اور ناقابل قبول ہونا ---جیسا کہ گزشتہ صفحات میںا ن کی نشاندہی کی گئی ---ان کے جعلی اور جھوٹ ہونے کو ثابت کرنے میں کافی نہ ہوں اور انھیں بے اعتبار نہ کرسکیں تو ہم آنے والی فصل میں گزشتہ روایتوں کے مانند چند دوسری جھوٹی روایتوں کو نقل کریں گے
جو مسلسل اور متصل سندکے ساتھ صاحب خبر تک پہنچتی ہیں تا کہ اسی قسم کی افسانوی روایتوں کی سندوں کی قدر و قیمت بیشتر واضح ہو سکے ، اور معلوم ہوجائے کہ ان روایتوں کا ظاہر طور پر مستند ہونا ان کے صحیح اور حقیقی ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی ہے ، کیونکہ بہت سی جعلی اور افسانوی روایتےں مسلسل سند کے ساتھ اصلی ناقل تک پہنچتی ہیں لیکن ہرگز صحیح اور واقعی نہیں ہوتیں ۔
افسانہٴ نسناس کی با سند روایتیں
اب ہم ان روایتوں کا ایک حصہ اس فصل میں ذکر کرتے ہیں جو سند کے ساتھ نقل ہوئی ہیں لیکن پھر بھی صحیح اور واقعی نہیں ہیں اس کے بعد والی فصلوں میں ان پر بحث و تحقیق کریں گے نتیجہ کے طور پر اس حقیقت تک پہنچ جائیں گے کہ صرف سند نقل کرنا روایت کے صحیح اور اصلح ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
۱۔ مسعودی ، عبد اللہ بن سعد بن کثیر بن عفیر مصری سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ یعقوب بن حارث بن نجم سے اور وہ شبیب بن شیبہٴ تمیمی سے نقل کرتا ہے کہ : میں” شحر “ ۱ میں اس علاقہ کے
------------
۱۔شحر، بحرالہند کے ساحل پرےمن کی طرف اےک علاقہ ہے (معجم البلدان)
رئیس و سرپرست کا مہمان تھا ، گفتگو کے ضمن میں ” نسناس“ کی بات چھڑگئی میزبان نے اپنے خدمت گذاروں کو حکم دیا کہ اس کیلئے ایک ” نسناس “ شکار کریں ۔ جب میں دوبارہ اس کے گھر لوٹ کرآیا تو میں نے دیکھا کہ خدمت گذار ایک نسناس کو پکڑلائے ہیں نسناس نے میری طرف مخاطب ہوکر کہا : تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں میرے حال پر رحم کرنا میرے دل میں بھی اس کیلئے ہمدردی پیدا ہوئی ،میں نے اپنے میزبان کے نوکروں سے کہا کہ اس نسناس کو آزاد کردوتا کہ چلا جائے انہوں نے میر ی درخواست پر نسناس کو آزاد کردےا ۔ جب کھانے کیلئے دستر خوان بچھا ، میزبان نے سوال کیا کیا نسناس کو شکار نہیںکیا ہے ؟ انہوں نے جواب میںکہا: کیوں نہیں ؟
لیکن تیرے مہمان نے اسے آزاد کر دیا ، اس نے کہا: لہذا تیار رہنا کل نسناس کو شکار کرنے کیلئے جائےں گے دوسرے دن صبح سویرے ہم شکار گاہ کی طرف روانہ ہوئے اچانک ایک نسناس پیدا ہوا اور اچھل کود کر رہا تھا ، اسکا چہرہ اور پیر انسان کے چہرہ اور پیر جیسا تھا ، اس کی ٹھڈی پر چند بال تھے اور سینہ پر پستان کے مانند کوئی چیز نمودار تھی دو کتے اس کا پیچھا کررہے تھے او وہ کتوں سے مخاطب ہوکر درج ذیل اشعار پڑھ رہا تھا :
افسوس ہے مجھ پر ! روزگار نے مجھ پر غم و اندوہ ڈال دیا ہے۔
اے کتوں ! ذرا میرا پیچھا کرنے سے رک جاؤ اور میری بات کو سن کرےقےن کرو۔
اگر مجھ پر نیند طاری نہ ہوتی توتم مجھے ہر گز پکڑنہیں سکتے تھے ، یا مرجاتے یا مجھ سے دور ہوجاتے ۔
میں کمزور اور ڈرپوک نہیںہوں اور ایسا نہیں ہوں جوخوف و ہراس کی وجہ سے دشمن سے پیچھے ہٹتا ہے ۔
لیکن یہ تقدیر الٰہی ہے کہ طاقتور اور سلطان کو بھی ذلیل و خوار کردیتا ہے ۱ شبےب کہتا ہے کہ آخر کار ان دو کتوں نے نسناس کے پاس پہنچ کر اسے پکڑ لیا ۔
۲۔ حموی معجم البلدان میں اس داستان کو شبیب سے نقل کرکے بیشتر تفصیل سے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ شبیب نے کہا:
” میں شحر “ میں خاندان ” مہر“ کے ایک شخص کے گھر میں داخل ہوا یہ اس علاقہ کا رئیس اور محترم شخص تھا میں کئی روز اس کا مہمان تھا اور ہر موضوع پر بات کرتا تھا اس اثناء میںمیں نے اس سے نسناس اور اس کی کیفیت کے بارے میںسوال کیا اور اس نے کہا: جی ہاں نسناس اس علاقہ میں ہے اور ہم اسکا شکار کرتے ہیںاور اس کا گوشت
------------
۱․ الویل لی مما بہ دھانی
دھری من الھموم و الاخزان
قفا قلیلاً ایھا الکلبان
استمعا قولی و صدقانی
انکما حین تحاربانی

الفیتما حضرا عنانی
لو لا سباتی ما ملکتمانی
حتٰی تموتا او تفارقانی
لست بخوار و لا جبان
و لابنکس رعش الجنان
لکن قضاء الملک الرحمان
یذل ذا القوة و السلطان
کھاتے ہیں مزید کہا : نسناس ایک ایسا حیوان ہے جس کے ایک ہاتھ اور ایک پیر ہےں اور اس کے تمام اعضا یعنی کان ، آنکھ ایک سے زیادہ نہیں ہیں اور اس کا نصف چہرہ ہوتا ہے ۔
شبیب کہتا ہے : خدا کی قسم دل چاہتا ہے کہ اس حیوان کو نزدیک سے دیکھ لوں،
اس نے اپنے نوکروں کو حکم دیاکہ ایک نسناس کا شکار کریں ۔ میں نے دوسرے دن دیکھا کہ اس کے نوکروں نے اس حیوان کو پکڑ لےا جس کا چہرہ انسان کے جیسا تھا ، لیکن نہ پورا چہرہ بلکہ نصف چہرہ اس کے ایک ہاتھ تھا وہ بھی اس کے سینہ پر لٹکا ہوا تھا اسی طرح اس کا پیر بھی ایک ہی تھاجب نسناس نے مجھے دیکھا تو کہا؛ میںخدا کی اور تیری پناہ چاہتا ہوں میں نے نوکروں سے کہا کہ اسے آزاد کردو انہوں نے میرے جواب میں کہا: اے مرد! یہ نسناس تجھے فریب نہ دے کیونکہ یہ ہماری غذا ہے لیکن میرے اصرار اور تاکید کے نتیجہ میں انہوں نے اسے آزاد کردیا ۔ اور نسناس بھاگ گیا اور طوفان کی طرح چلا گیا اور ہماری آنکھوں سے غائب ہوگیا جب دوپہر کے کھانے کا وقت آیا اور دسترخوان بچھایاگیاتو میزبان نے اپنے نوکروں سے سوال کیا : کیا میں نے کل تمہیں نہیں کہا تھا کہ ایک نسناس کا شکار کرنا ؟ انہوں نے کہا: ہم نے ایک کو شکار کیا تھا لیکن تیرے مہمان نے اسے آزاد کردیا میزبان نے ہنس کر کہا: لگتا ہے کہ نسناس نے تجھے فریب دیا ہے کہ تم نے اسے آزاد کیا ہے اس کے بعد نوکروں کو حکم دیا کہ کل کیلئے ایک نسناس کا شکار کریں شبیب کہتا ہے : میں نے کہا اجازت دو گے کہ میں بھی تیرے غلاموں کے ہمراہ شکار گاہ جاؤں اور نسناس کو شکار کرنے میں ان کی مدد کروں ؟ اس نے کہا : کوئی مشکل نہیں ہے ،ہم شکاری کتوں کے ہمراہ شکار گاہ کی طرف روانہ ہوئے اور رات کے آخری حصہ میں ایک بڑے جنگل میں پہنچے ، اچانک ایک آواز سنی جیسا کہ کوئی فریاد بلند کررہا تھا: اے ابو مجمر ! صبح ہوچکی ہے ، رات نے اپنا دامن سمیٹ لےاہے ، شکاری سر پر پہونچ چکا ہے لہذا جلدی سے اپنے آپ کو کسی پنا گاہ میں پہنچا دو ! ۱
دوسرے نے جواب میںکہا: کلی و لا تراعی ” کھاوٴ اور ناراض مت ہو“
راوی کہتا ہے : میں نے دیکھا کہ ” ابو مجمر “ کو دو کتوں نے محاصرہ کیا ہے اور وہ یہ اشعار پڑھ رہا ہے : الویل لی مما دھانی ․․ تا آخر اشعار ( کہ گزشتہ روایت میںملاحظہ فرمایا)
شبیب کہتا ہے : آخر کار وہ دو کتے ” ابو مجمر “ کے نزدیک پہنچے اور اسے پکڑ لیا ۔ جب دوپہر کا وقت آیا نوکروں نے اسی ابو مجمر کا کباب بنا کر میزبان کے دستر خوان پر رکھا۔
۳۔ پھر یہی حموی ، حسام بن قدامہ اور وہ اپنے باپ سے اور وہ بھی اپنے باپ سے نقل کرتا ہے : میرا ایک بھائی تھا ، اس کا سرمایہ ختم ہوا تو وہ تنگ دست ہوگےا۔ سرزمین ’ ’ شحر “میں ہمارے چند چچیرے بھائی تھے ۔ میرا بھائی اس امید سے کہ چچیرے بھائی اس کی کوئی مالی مدد کریں گے ” شحر “ کی طرف روانہ ہوا ۔ چچیرے بھائیوں نے اس کی آمد کو غنیمت سمجھ کر اس کا استقبا ل کیا اور اس کی مہمان
---------------
۱۔ یا ابا مجمر! ان الصبح قد اسفر ، و اللیل قد ادبر و القنیص قد حضر فعلیک بالوزر ۔
نوازی اور خاطر تواضع کرنے میںکوئی کسر باقی نہ رکھی ۔ ایک دن اسے کہا کہ اگر ہمارے ساتھ شکار گاہ آجاؤ گے توتیرے لئے یہ سےر و سیاحت نشاط و شادمانی کا سبب ہوگی ۔ مہمان نے کہا اگر مصلحت سمجھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے اور ان کے ساتھ شکار گاہ کی طرف روانہ ہوا یہاں تک ایک بڑے جنگل میں پہنچے اسے ایک جگہ پرٹھہرا کر خود شکار کرنے کیلئے جنگل میں داخل ہوئے ۔ وہ مہمان کہتا ہے : میں ایک کنارے پر بیٹھا تھا کہ اچانک دیکھا کہ ایک عجیب الخلقہ مخلوق جنگل سے باہر آئی ظاہری طور پر یہ مخلوق انسان سے شباہت رکھتی تھی اس کے ایک ہاتھ اور ایک پیر تھا اور ایک آنکھ اور نصف ریش یہ جانور فریاد بلند کررہا تھا : الغوث ! الغوث! الطریق الطریق عافاک اللہ ( مدد ! مدد! راستہ چھوڑو ! راستہ چھوڑو ! خدا تجھے سلامت رکھے )
داستان کا راوی کہتا ہے : میں اسکے قیافہ اور ہیکل کو دیکھ کر ڈر گیا اور بھاگ کھڑا ہوا اور متوجہ نہیں ہوا کہ یہ عجیب مخلوق وہی شکار جس کے بارے میں میرے میزبان نے گفتگو کی تھی ، وہ جانور جب اچھلتے کودتے ہوئے میرے نزدیک سے گزرا تھا تو درج ذیل مضمون کے اشعار پڑھ رہا تھا ۔
صیاد کی صبح ہوئی شکاری کتوں کے ہمراہ شکار پر نکل پڑے ہےں آگاہ ہوجاؤ تمہارےلئے نجات کا راستہ ہے۔
لیکن موت سے کہاں فرار کیا جاسکتا ہے ؟ مجھے خوف دلایا جاتا اگر اس خوف دلانے میںکوئی فائدہ ہوتا !
مقدر کے تیر کا خطا ہونا بعید ہے تقدیر سے بھاگنا ممکن نہیں ۱
جب وہ مجھ سے دور چلا گیا، تو فوراً میرے رفقاء جنگل سے باہر آگئے اور مجھ سے کہا : ہمارا شکار کہاں گیا جسے ہم نے تیری طرف کوچ کیا تھا ؟ میں نے جواب میںکہا: میں نے کوئی شکار نہیں دیکھا ، لیکن ایک عجیب الخلقة اور حیرت انگیز انسان کو دیکھا کہ جنگل سے باہر آےا اور تیزی کے ساتھ بھاگ گیا ۔ میں نے اس کے قیافہ کے بارے میں تفصیلات بتاتی تو ا نہوں نے ہنس کر کہا: ہمارے شکار کو تم نے کھودیا ہے میں نے کہا؛ سبحان الله کیا تم لوگ آدم خور ہو ؟ جس کو تم اپنا شکار بتاتے ہو وہ تو آدم زاد تھا باتیں کرتا تھا اور شعر پڑھتا تھا ۔ انہوں نے جواب میںکہا: بھائی ! جس دن سے تم ہمارے گھر میں داخل ہوئے ہو صرف اسی کا گوشت کھاتے ہو ، کبھی کباب کی صورت میںتو کبھی شوربے دار گوشت کی صورت میں ۔ میں نے کہا: افسوس ہو تم پر ! کیا ان کا گوشت کھایا جاسکتاہے اور حلال ہے ؟ انہوں نے کہا؛ جی ہاں چونکہ یہ پیٹ والے ہیں اور جگالی بھی کرتے ہیں لہذا ن کا گوشت حلال ہے ۔
۴۔ پھر سے حموی -- ” ذ غفل “ نسابہ۲ سے اور وہ ایک عرب شخص سے نقل کرتا ہے کہ میں چند
--------------۱۔
غدا القنیص فابتکر
باکلب وقت السحر
لک النجا وقت الذکر

ووزر و لا وزر
این من الموت المفر ؟
حذّرت لو یغنی الحزر
ھیھات لن یخطی القدر
من القضاء این المفر؟!
۲۔ ذغفل ، حنطلہ بن زید کا بیٹاہے ابن ندیم کہتا ہے؛ ذغفل کا اصل نام حجر ہے اورذغفل اس کا لقب ہے اس نے عصر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے لیکن اس کا صحابی ہونا علماء تراجم کے یہاں اختلافی مسئلہ ہے قول صحیح یہ ہے کہ اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابی ہونے کا افتخار ملا ہے معاویہ کی خلافت کے دوران اس کے پاس گیا معاویہ نے اس سے ادبیات ، انساب عرب اورعلم نجوم کے
لوگو کے ہمراہ ” عالج “ کے صحرا میں چل رہے تھے کہ ا تفاق سے ہم راستہ بھول گئے یہاںتک سمندر کے ایک ساحل پر واقع جنگل میں پہنچ گئے اچانک دیکھا کہ اس جنگل سے ایک بلند قامت بوڑھا باہر آیا ۔ اس کے سروصورت انسان کے مانند تھےلیکن بوڑھا تھا ایک ہی آنکھ رکھتا تھا اور تمام اعضاء ایک سے زیادہ نہ تھے جب اس نے ہمیںدیکھا تو بڑی تیزی سے تیز رفتار گھوڑے سے بھی تیز تر رفتار میں بھاگ گیا ، اسی حالت میں اس مضمون چند اشعار بھی پڑھتا جارہاتھا :
خارجی مذہب والوں کے ظلم سے تیزی کے ساتھ فرار کررہا ہوں چونکہ بھاگنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔
میں جوانی میں بڑا طاقت ور اور چالاک تھا لیکن آج کمزور اور ضعیف ہوگےا ہوں ۱
۵۔ پھر حموی کہتا ہے : یمن کے لوگوں کی روایتوں میں آیا ہے کہ کچھ لوگ نسناس کے شکار کیلئے گئے لشکر گاہ میں انہوں نے تین نسناسوں کودیکھا ان میں سے ایک کو شکار کیا ۔ باقی دونسناس درختوں کی پیچھے چھپ گئے اور شکاری انھیںڈھونڈ نہسکے ۔ ایک شکار ---جس نے نسناس کا شکار کیا تھا ---نےبارے میں چندسوال کئے اس کی معلومات کی وسعت اسے بہت پسند آئی حکم دیا تا کہ اس کے بیٹے کو علم انساب ، نجوم ، اورادبیات سکھائے ، دغفل جنگ ازارقہ میں ۶۰ھء سے پہلے دولاب فارس میں ڈوب گیا ۔ فہرست ابن ندیم ۱۳۱ ، و المحجر ۴۷۸ ، اسدا لغابہ ۲/ ۱۳۲ اصابہ ۱/ ۴۶۴ نمبر ۲۳۹۹ اور تقریب التہذیب ۱/ ۲۳۶ رجوع کیا جائے ۔
۱۔ فررت من جود الشراة شدا اذ لم اجد من القرار بدا
قد کنت دھراً فی شبابی جلدا فھا انا الیوم ضعیف جدا
کہا: خداکی قسم جسے ہم نے شکار کیا ہے بہت ہی چاق اور سرخ خون والا ہے جب اسکی آواز کو درختوںمیں چھپے نسناسیوں نے سنی تو انمیں سے ایک نے بلند آواز میں کہا: چونکہ اس نے ” صرو “ ۱
کے دانے زیادہ کھائے تھے لہذا چاق ہوا ہے جب شکاریوں نے اس کی آواز سنی اس کی طرف دوڑے اور اسے بھی پکڑ لیا ۔ ایک شکاری نے ۔ جس نے اس نسان کا سر کاٹا تھا۔ کہا:
خاموشی اور سکوت کتنی اچھی چیز ہے ؟ اگر یہ نسناس زبان نہ کھولتا ہم اس کی مخفی گاہ کو پیدا نہیں کرسکتے اور اسے پکڑ نہیں سکتے تھے اسی اثناء میں درختوں کے بیچ میں تیسرے نسناس کی آواز بھی بلند ہوئی اور اس نے کہا: دیکھئے میں خاموش بیٹھا ہوں اور زبان نہیں کھولتا ہوں ۔ جب اس کی آواز کو شکاریوں نے سنا تو اسے بھی پکڑ لیا اس طرح تینوں نسناسوں کو پکڑ کر ذبح کیا اور ان کا گوشت کھا لیا۔
یہ تھا ان روایتوں کا ایک حصہ جنہیں سند کے ساتھ نسناس کے بارے میں نقل کیا گیا ہے اگلی فصل میں اور بھی کئی روایتیں نسناس کے وجود کے بارے میں نقل کرکے ان پر بحث و تحقیق کریں گے۔

۱۔صرو ایک گھاس ہے جس میں سبز اور چھوٹے دانے ہوتے ہیں ۔
نسناس کے پائے جانے اور اسکے معنی کے بارے میں نظریات
انّ حیّاً من قوم عاد عصوا رسولھم فمسخھم اللہ نسناساً
قوم عاد کے ایک گروہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کی تو
خدا نے انھیں نسناس کی صورت مےں مسخ کردےا ۔ ( بعض لغات کی کتابیں)
ہم نے گزشتہ فصل میں نسناس کے بارے میں کئی روایتیں نقل کیں ۔ اب ہم اس فصل میں نسناس کے وجود اورتعارف کے بارے میں کئی دوسری روایتیں نقل کریں گے اور اس کے بعد ان روایتوں پر بحث و تحقیق کریں گے ۔
۱۔ حموی نے احمد بن محمد ہمدانی ۱ کی کتاب سے نسناس کے وجود کے بارے میںیوں نقل کیا ہے:
” آدم “ کی بیٹی ” وبار “ ہر سال صنعا میں ”شحر “ اور ’ تخوم “ کے درمیان واقع ایک وسیع اورسرسبز
---------------------
۱۔ احمد بن محمد بن اسحاق ، معروف بہ ابن الفقیہ ہمدانی صاحب ایک کتاب ہے جو ملکوں اور شہروں کی شناسائی پر ہے اوریہ کتاب دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے اس کی وفات ۳۴۰ ھ ء میں واقع ہوئی ہے فہرست ابن ندیم ۲۱۹ اور ھدیة العارفین ۔
شاداب محل میں کچھ مدت گزاری تھی چونکہ یہ علاقہ روئے زمین پر پر برکت ترین ،سر سبز و شاداب ترین علاقہ تھا اور دنیا کے دوسرےحصوں کی نسبت یہاں پر بیشتر درخت ، باغات ، میوہ اور پانی جیسی نعمتیں تھیں ، اس لئے تمام علاقوں سے مختلف قبائل وہاں جاکر جمع ہوتے تھے بہت سی زمینیں آباد کی گئیں تھی اور ان کی ثروت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی ، اس لئے ان لوگوں نے تدریجاً عیاشی اور خوش گزارانی کے لئے اپنا ٹھکانابنالیا تھا اور کفر و الحاد کی طرف مائل ہوگئے تھے اور طغیانی و بغاوت پر اتر آئے تھے خداوند عالم نے بھی ان کی اس نافرمانی اور بغاوت کے نتیجہ میں ان کی تخلےق و قیافہ کو مسخ کرکے انھیں نسناس کی صورت میں تبدیل کردیاتا کہ ان کے زن و مرد نصف سر و صورت اور ایک آنکھ ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ والے ہوجائےں ، وہ اس قیافہ و ہیکل کی حالت میں سمندر کے کنارے نیزاروں(جھاڑیوں) میں پھرتے تھے اومویشیوں کی طرح چرا کرتے تھے ۔
۲۔ طبری نسناس کے نسب کو ابن اسحاق سے یوں نقل کرتا ہے :
’ امیم بن لاوذ بن سام بن نوح کی اولاد صحرائے ” عالج “ میں ” وبار“ کے مقام پر رہائش پذیر تھے ۔ نسل کی افزائش کی وجہ سے ان کی آبادی کافی حد تک بڑھ گئی اور وہ ثروت مند ہوگئے اس کے بعد ایک گناہ کبیرہ کے مرتکب ہونے کی وجہ سے خدا کی طرف سے ان پر بلا نازل ہوئی کہ اس بلا کے نتیجے میں وہ سب ہلاک ہوگئے صرف ان میںسے معدود چندافراد باقی بچے لیکن وہ دوسری صورت میںمسخ ہوئے کہ اس وقت نسناس کے نام سے مشہور ہیں ۔
۳۔ پھر سے طبری ابن کلبی ۱سے نقل کرتا ہے : ”ابرھة بن رائش بن قیس صفی بن سبا بن یشجب کے بیٹے یمن کے پادشاہ نے ملک مغرب کی انتہا پر ایک جنگ لڑی اور اس جنگ میںاس نے فتح پائی ایک بڑی ثروت کو غنیمت کے طورپر حاصل کیا ان غنائم کو نسناسوں کے ساتھ لے آیا ۔ وہ وحشتناک قیافہ رکھتے تھے لوگوں نے وحشت میںپڑ کر پادشاہ کو ” ذو الاذاعر“‘ نام رکھا یعنی رعب ووحشت والے
۴۔ کراع ۲کہتا ہے :
نسنا س نون پر زبر یا زیر سے --- نقل ہوا ہے کہ ---- وحشی حیوانوں میں سے ایک حیوان ہے کہ اسے شکار کرتے ہیں اور اس کا گوشت کھاتے ہیں ۔ ان کا قیافہ انسانوں کا سا ہے اور انسانوں کی طرح گفتگو کرتے ہیں البتہ ایک آنکھ ، ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ رکھتے ہیں ۔
۵۔ ازھری ۳ نسناس کی یوں نشان دہیکرتا ہے:
------------------
۱۔ ابن کلبی : ہشام بن محمد کلبی نسابہ کے نام سے معروف ہے ۲۰۴ ھف یا ۲۰۶ ھ میں وفات پائی ہے ۔
۲۔ کراع النمل : وہی ابو الحسن علی بن حسن ہنائی عضدی مصری ہے کہ چھوٹے قد کی وجہ سے ” کراع النمل “سے معروف تھا ۔ لغت عرب میں وسیع معلومات رکھتا تھا اور صاحب تالیفات بھی تھا اس نے ۳۰۹ ئھ کے بعد وفات پائی ہے اس کی زندگی کے حالات کے بارے میںا رشاد الاریب حموی ( ۵ ۱۱۲ ) اور انباء الرواہ القفطی ( ۲/ ۲۴۰ کی طرف رجوع کیا جائے ۔
۳۔ ازہری : ابو منصور محمد بن احمد بن ازہر علمائے لغت میں سے ہے کہتے ہیں لغت عربی کو جمع کرنے کیلئے اس نے تمام عرب نشین علاقوں کا سفر کیا ہے ۔ ۳۷۰ میں وفات پائی ہے اس کی زندگی کے حالات اللباب ۱/ ۳۸ میں آئے ہیں ۔
” نسناس ایک مخلوق ہے جو قیافہ اور ہیکل کے لحاظ سے انسان جیسے ہیں لیکن جنس بشر سے نہیں ہیں بعض خصوصیات میں انسان سے مشابہ ہیں اور بعض دوسرے خصوصیات میں انسان سے مشابہ نہیں ہیں ۔
۶۔ جوہری ۱ صحاح اللغة میں یوں کہتا ہے : نسناس ایک قسم کی مخلوق ہے جو ایک ٹانگ پر چلتے اور اچھل کود کرتے ہےں۔
۷۔ زبیدی نے ’ ’ ابی الدقیش “ ۲ سے ” التاریخ “ میں یوں نقل کیا ہے کہ نسناس سام بن سام کی اولاد تھے جو قوم عاد و ثمود تھے لیکن نسناس عقل نہیں رکھتے ہیں اور ساحل ھند کے نیزاروں (جھاڑیوں)میں زندگی گذارتے ہیں عرب اور صحرا نشین انھیں شکار کرتے ہیںا ور ان کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں نسناس عربی زبان میں بات کرتے ہیں نسل کی نسل بڑھاتے ہیں اور شعر بھی کہتے ہیں ، اپنے بچوں کے نام عربی میں رکھتے ہیں ۔
-----------------------------
۱۔ جوہری : ابو نصر اسماعیل بن حماد ہے ان کی نسب بلا د ترک کے فاراب سے ہے اس نے عراق اور حجاز کے سفر کئے ہیں تمام علاقوں کا دورہ کیا ہے اس کے بعد نیشابور آیا ہے اور اسی شہر میں سکونت کی ہے لکڑی سے دو تختوں کو پروں کے مانند بنا کر انھیں آپس میں ایک رسی سے باندھا اور چھت پر جاکر آواز بلند کی لوگو! میں نے ایک ایس چیز بنائی ہے جو بے مثال ہے ابھی میں ان دو پروں کے ذریعہ پر وار کروں گا نیشابور کے لوگ تماشا دیکھنے کیلئے جمع ہوئے اس نے اپنے دونوں پروں کو ہلا کر فضا میں چھلانگ لگادی لیکن ان مصنوعی دو پروں نے اس کی کوئی یاری نہیں کی بلکہ وہ چھت سے زمین پر گر کر مرگیا ۔ یہ روئداد ۳۴۳ ھء میں واقع ہوئی ۔ معجم الادباء ۰ ۲/ ۲۶۹ ) لسان المیزان ۱۰/۴۰۰ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔)
۲۔ ابو الدقیش : قناتی غنوی ہے کہ اس کے حالا ت کی شرح میں فہرست ابن ندیم طبع مصر ص ۷۰ میں آیا ہے ۔
۸۔ مسعودی کہتا ہے : نسناس ایک سے زیادہ آنکھ نہیں رکھتے۔ کبھی پانی سے باہر آتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں اور اگر کسی انسان کو پاتے ہیں تو اسے قتل کر ڈالتے ہیں ۔
۹۔ نہایة اللغة “ ، ’ ’ لسان المیزان “ ، ” قاموس “ اور ’ التاج“ نامی لغت کی معتبر و قابل اعتماد چار کتابوں کے مؤلفیں نے لغت ”نسناس“ کے ضمن میں اس روایت کو نقل کیا ہے کہ :قوم عاد کے ایک قبیلہ نے اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی تو خداوند عالم نے انھیں مسخ کرکے نسناس کی صورت میں تبدیل کر دیاکہ وہ ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ رکھتے ہیں اوروہ ا نسان کا نصف بدن رکھتے ہیں راستہ چلتے وقت پرندوں کی طرح اچھل کود کرتے ہیں اور کھانا کھاتے وقت بھی حیوانوں کی طرح چرتے ہیں ۔
۱۰۔ قاموس اور شرح قاموس التاج میں آیا ہے : کبھی کہتے ہیں کہ نسناس کی وہ نسل نابود ہوچکی ہے جو قوم عاد سے مسخ ہوئی تھی ۔
کیونکہ دانشوروں نے تحقیق کی ہے کہ مسخ شدہ انسان تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا ہے لیکن اس قسم کے نسناس --- جنہیں بعض جگہوں پر عجیب قیافہ اور خلق میں دیکھا گیا ہے --- کوئی اور مخلوق ہے اور شاےد نسناس تین مختلف نسل ہیں : ناس ، نسناسی ، اور نسانس نوع آخر کی مؤنث اور جنس مادہ ہے !
۱۱۔پھر سے ” التاریخ “ میں ” عباب “ سے نقل کرتا ہے کہ نسل نسناس نسل نسناس سے عزیز تر و شریف تر ہے پھر ابو ہریرہ سے نسناس کے بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ اس عجیب نسل سے گروہ ” ناس “ نابود ہوگئے ہیں لیکن گروہ ” نسناس “ باقی ہےں اور اس وقت بھی موجود ہےں ۔
۱۲۔ سیوطی سے نقل ہوا ہے کہ اس نے نسناس کے بارے میں یوں نظریہ پیش کیا ہے :
” لےکن وہ معروف حیوان جسے لوگ نسناس کہتے ہیں ان میں سے ایک نوع بندر کی نسل ہے اور وہ پانی میں زندگی نہیں کرسکتے یہ حرام گوشت ہیں لیکن ان حیوانوں کی دوسری نوع جو دریائی ہیں اور پانی میں زندگی بسر کرتے ہیں ، ان کا گوشت حلال ہونے میں دو احتمال ہے ” رویانی “ ۱ اور بعض دوسرے دانشور کہتے ہیں : ان کاگوشت حلال اور خوردنی ہے ۔
۱۳۔ شیخ ابو حامد غزالی ۲ سے نقل ہوا ہے کہ نسناس کا گوشت حلال نہیں ہے کیونکہ وہ خلقت انسان کی ایک مخلوق ہے ۔
۱۴ ۔ مسعودی ’ مروج الذہب “ میں نقل کرتا ہے :
” متوکل نے اپنی خلافت کے آغاز میںحنین بن اسحاق۳سے کہا کہ چند افرادکو” نسناس “اور
-----------------
۱۔ رویانی رویان سے منسوب ہے اور رویان طبرستان کے پہاڑوں کے درمیان ایک بڑا شہر ہے حموی نے رویان کی تشریح میں کہا ہے رویان ایک شہر ہے علماء اور دانشوروں کا ایک گروہ اسی شہر سے منسوب ہے جیسے : ابو لمحاسن عبدالواحد بن اسماعیل بن محمد رویانی طبری جو قاضی اور مذہب شافعی کے پیشواؤں میںسے ایک ہے اور اس شخص نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں علم فقہ میں بھی ایک بڑی کتا ب” البحر “ تصنےف کی ہے سخت تعصب کی وجہ سے ۵۰۰ ھء یا ۵۰۱ ھء میں مسجد جامع آمل میں اسے قتل کیا گیا ۔
۲۔ ابو حامد : محمد بن محمد بن محمدغزالی ہے ایک گاؤں سے منسوب ہے جس کا نام غزالہ ہے یا یہ کہ منسوب بہ غزل ہے وہ ایک فلاسفر اور صوفی مسلک شخص ہے اس نے حجة الاسلام کا لقب پایا ہے دو سو سے زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور مختلف شہروں جیسے : نیشابور ، بغداد ، حجاز ، شام اور مصر کے سفر کئے ہیں اور وہاں سے اپنے شہر طابران واپس آیا ہے اور وہیں پر۵۰۵ ئھ میں وفات پائی ہے ۔
۳۔ حنین بن اسحاق کا باب اہل حیرہ عراق تھا بغداد کے علماء کا رئیس تھا اس کی کنیت ابو زید اور لقب عبادی تھا ۲۶۰ ھء میں اس نے وفات پائی (وفیات الاعیان) ۔
”عربد“۱ لانے کیلئے یتار کرے ۔ کئی لوگ گئے ، لیکن انہوںنے جتنی بھی کوشش اور کاروائی کی صرف دونسناس کو متوکل کی حکومت کے مرکز ” سرمن رای“ تک صحیح و سالم پہنچا سکے ۔
اس کے بعد مسعودی کہتا ہے :
” ہم نے اس روداد کی تفصیل اور تشریح اپنی کتاب ” اخبار الزمان “ میں درج کی ہے ، اور وہاں پر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ان لوگوں کو ” عربد“ لانے کیلئے ” یمامہ اور نسناس “ لا نے کیلئے ” شحر “ بھیجا گیا تھا ۔
یہ تھیں افسانہٴ نسناس اور اس کے پائے جانے کے بارے میں روایتیں جو نام نہاد معتبر اسلامی کتابوں میں درج کی گئی ہیں اور یہ روایتیں سند اور راویوں کے سلسلہ کے ساتھ اصلی ناقل تک پہنچی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ تمام روایتیں جھوٹ اور افسانہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں ۔ ان کی اسناد اور راویوں کا سلسلہ بھی جھوٹ کو مضبوط اور مستحکم کرنے کیلئے جعل کیا گیا ہے اگلی فصل میں یہ حقیقت اور بھی واضح ہوگی ۔
۱۔ ” عربد“ سانپ جیسا ایک حیوان ہے لیکن نہ ڈنک مارتا ہے اور نہ کسی قسم کی تکلیف پہنچاتا ہے ۔
بحث کا خلاصہ اور نتیجہ
افسانہ نسناس کے اسناد
ہم نے گزشتہ دو فصلوں میں نسناس کے وجود اور پیدائش کے بارے میں نقل کی گئی روایتوں کو انکے اسناد اور راویوںکے سلسلہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور دیکھا کہ یہ روایتیں ایسے افراد سے نقل کی گئی ہیں کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نسناس کو دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے ان کی گفتگو و اشعار اور ان کا قسم کھانا سنا ہے اسے دیکھا ہے کہ ایک ہاتھ اور ایک ٹانگ اورایک آنکھ اور نصف صورت کے باوجود بظاہر شبیہ انسان طوفان کے مانند تیز رفتار گھوڑے سے بھی تیز تر دوڑتے تھے ۔
ان دو روایتوں کو ایسے افراد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے نسناس کا شکار کرنے اور اس کا گوشت کباب اور شوربہ دار گوشت کی صورت میں کھانے میں شرکت کی ہے ۔
ایسے افرادسے بھی روایت کی ہے کہ اس کے گوشت کے حلال ہونے میں اشکال کیا ہے اور کہا ہے کہ چونکہ نسناس انسان کی ایک قسم ہے اور گفتگو و شعر کہتا ہے اس لئے حرام ہے اس کے مقابلہ میں بعض دوسرے افراد نے کہا ہے کہ نسناس کا گوشت حلال ہے کیونکہ وہ پیٹ رکھتا ہے اور حیوانوں کے مانند جگالی کرتا ہے ۔
ان روایتوں کو ایسے افراد نے نقل کیا ہے کہ خود انہوں نے خلیفہ عباسی متوکل کو دیکھا ہے کہ اس نے اپنے زمانے کے بعض حکماء کو بھیجا کہ اس کیلئے ” عربد“ اور ” نسناس “ شکار کرکے لائیں اور ان کے توسط سے دو عدد نسناس سامراء پہنچے ہیں ۔
ایسے افراد سے ان روایتوں کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ خود نسناس شناس ہیںا ور انہوں نے نسناس کے شجرہ نسب کے بارے میںتحقیق کی ہے اور اپنا نظریہ پیش کیا ے اور ان کا شجرہٴ نسب بھی مرتب کیا ہے اور اس طرح نسناس کی نسل حضرت نوح تک پہنچتی ہے وہ امیم بن لاوذبن سام بن نوح کی اولاد ہیں جب بغاوت کرکے معصیت و گناہ میں حد سے زیادہ مبتلا ہوئے تو خداوند عالم نے انھیں مسخ کیا ہے ۔
ان تمام مسلسل اور باسند روایتوں کو علم تاریخ کے بزرگوں ،علم رجال کے دانشوروں اور علم انسان کے اساتذہ نے نقل کیا ہے ، جیسے :
۱۔ عظیم ترین اور قدیمی ترین عرب نسب شناس ابن اسحاق ( وفات ۶۸ھء)
۲۔ مغازی اور تاریخ کے دانشوروں کا پیشوا ابن اسحاق ( وفات ۱۵۱ھء)
۳۔ نسب شناسوں کا امام و پیشوا : ابن کلبی ( وفات ۲۰۴ھء)
۴۔ مؤرخیں کے امام و پیشوا: طبری ( وفات ۳۱۰ ئھ)
۴۔ جغرافیہ دانوں کے پیش قدم : ابن فقیہ ھمدانی ( وفات ۳۴۰ ھء)
۶۔ تاریخ نویسوں کے علامہ : مسعودی ( وفات ۳۴۶ ھء)
۷۔ علم بلدان کے عظیم دانشور : حموی ( وفات ۶۲۶ ئھ)
۸۔ مختلف علم کے علامہ و استاد : ابن اثیر ( وفات ۶۳۰ ئھ)
جی ہاں ہم نے گزشتہ صفحات میں جتنے بھی مطالب نسناس کے بارے میں بیان کئے ہیں ان کو مذکورہ ، تاریخ ،لغت ، اور دیگر علوم میں مہارت اور تخصص رکھنے والے علماء نے اپنی کتابوں اور تالیفات میں نقل کیا ہے ۔
تعجب کی حد یہ ہے کہ کبھی اس افسانہ کو حدیث کی صور ت میں نقل کیا گیا ہے اور اس کی سند کو معصوم تک پہنچادیا ہے : نسناس قوم عاد سے تھے اپنے پیغمبر کی نافرمانی کی تو خدا نے انھیں مسخ کردےا کہ ان میں سے ہر ایک کا ایک ہاتھ ، ایک ٹانگ اور نصف بدن ہے اور پرندوں کی طرح اچھل کود کرتے ہیںا ور مویشیوں کی طرح چرتے ہیں ۔
پھر روایت کی ہے کہ نسناس قوم عاد سے ہیں ۔ بحر ہند کے ساحل پر نیزاروں میں زندگی کرتے ہیں اوران کی گفتگو عربی زبان میں ہے ۔
اپنی نسل بھی بڑھاتے ہی شعر بھی کہتے ہیں اپنی اولاد کیلئے عربی ناموں سے استفادہ کرتے ہیں۔
اس کے بعد ان علماء نے نسناس کے گوشت کے حلال ہونے میں اختلاف کیا ہے بعض نے اس کے حلال ہونے کاحکم دیاہے ا ور بعض دوسروں نے اسے حرام قرار دیا ہے لیکن جلال الدین سیوطی تفصیل کے قائل ہوئے ہیں اور صحرا کے نسناسوں کو حرام گوشت لیکن سمندری نسناسوں کو حلال گوشت جانا ہے ۔
یہ عقائد و نظریات اور یہ روایتیں اور نقلیات بزرگ علماء اور دانشوروں کی ہیں کہ ان مےں سے بعض کے نام ہم نے یبان کئے ہیں اور بعض دوسروں کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :
۱۔ کراع ، ” التاج “ کی نقل کے مطابق : وفات ۳۰۹ ھء
۲۔ ازہری : تھذےب کے مطابق : وفات ۳۷۰ھء
۳۔ جوہری : صحاح کے مطابق :وفات ۳۹۳ ھء
۴۔ رویانی : ”التاج“ کے مطابق:وفات ۵۰۲ھء
۵۔ غزالی :” التاج“ کے مطابق:وفات ۵۰۵ئھ
۶۔ ابن اثیر : نہایة اللغة کے مطابق :وفات ۶۰۶ ھء
۷۔ ابن منظور : لسان العرب کے مطابق :وفات ۷۱۱ھء
۸۔ فیروز آبادی : قاموس کے مطابق :وفات ۸۱۸ھء
۹۔سیوطی : التاج کے مطابق :وفات ۹۱۱ھء
۱۰۔ زبیدی : تاج العروس کے مطابق:وفات ۱۲۰۵ ھء
۱۱۔ فرید وجدی دائرة المعار ف کے مطابق:وفات ۱۳۷۳ئھ
افسانہٴ سبیئہ اور نسناس کا موازنہ
کیا مختلف علوم کے علماء ودانشوروں کے نسناس کے بارے میں ان سب مسلسل اور با سند روایتوں کا اپنی کتابوں اور تالیفات میں درج کرنے اور محققین کی اس قدر دلچسپ تحقیقات اور زےادہ سے زےادہ تاکےد کے بعد بھی کوئی شخص نسناس کی موجودگی حتی ان کے نر ومادہ اور ان کی شکل و قیافہ کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ کرسکتا ہے ؟!
کیا کوئی ” نسناس“ ، ” عنقاء“ ، ” سعلات البر “ اور ” دریائی انسان “ ۱ جیسی مخلوقات کے بارے
---------
۱۔ عنقاء : کہا گیا ہے کہ عنقاء مغرب مےں ایک پرندہ ہے جس کے ہر طرف چار پر ہیں اور اس کی صورت انسان جیسی ہے اس کا ہرعضو کسی نہ کسی پرندہ کے مانند ہے اور اس کے علاوہ مختلف حیوانوں سے بھی شباہت رکھتا ہے کبھی انسانوںکو شکار کرتا ہے ابن کثیر ۱۳/ ۸۵ ، مسعودی مروج الذہب ۲/ ۲۱۲ نے عنقاء کے بارے میںمفصل و مشروح روایت کی سند کے سلسلہ کے ساتھ نقل کیا ہے ’ سعلات“ عرب دیو کی مادہ کو”سعلات “کہتے ہیں (- تاج العروس ۸/ ۱۵ )صحرانشین عرب خیالی کرتے تھے کہ سعلات اور غول ( دیو ) دو زندہ مخلوق ہیں کہ بیابانوں میں زندگی گزارتے ہیںا ور ان دونوں کے بارے میں بہت سے اشعار اور حکایتں بھی نقل کی گئی ہیں مروج الذہب ( ۲/ ۱۳۴ ۔ ۱۳۷ /باب ذکر اقاویل العرب فی الغیلان) یہیں پر مسعودی عمر ابن خطاب سے نقل کرتا ہے کہ اس نے شام کی طرف اپنے ایک سفر میں ایک بیابان میں ایک جن کو دیکھا تواس نے چاہا اس طرح اس کو بھی فریب دے جس طرح وہ لوگوں کو فریب دیتا ہے لیکن عمر نے اسے فرصت نہیں دی اور تلوار سے اسے قتل کیا۔
انسانی دریائی : عربوں اور غیر عربوںمیں انسان دریائی کے بارے میں داستانیں اور افسانے نقل ہوئے ہیں زبان زد عام وخاص ہیں ۔
میں شک کرسکتا ہے جبکہ ان کے نام ان کی داستانیں اور ان کے واقعات باسند اورمرسل طور پر علماء کی کتابوں میں وافر تعداد میں درج ہوچکی ہیں ؟
علماء اور دانشوروں کی طرف سے ” ناووسیہ “ ، ” غرابیہ “ ، ” ممطورہ “ ” طیارہ “ اور سبئےہ “ کے بارے میںا س قدر مطالب نقل کرنے کے بعد کیا کوئی شخص مسلمانوں میں ان گروہوں اور فرقوں کی موجودگی کے بارے میں شک و شبہ کرسکتا ہے ؟ جی ہاں ، ہم دیکھتے ہیں کہ گروہ سبیئہ اور نسناس کے بارے میں جو افسانے نقل ہوئے ہیں با وجود اس کے کہ علماء اوردانشوروںنے انھیں صدیوں تک سنااور سلسلہ راویوں کے ساتھ نقل کیا ہے آپس میں کافی حد تک شباہت رکھتے ہیں ہماری نظر میں صرف مطالعہ اور ان دو افسانوںکے طرز و طریقہ پر دقت کرنے سے ان کا باطل اور خرافات پر مشتمل ہونے کو ہر فرد عاقل اور روشن فکر کیلئے ثابت کیا جاسکتا ہے اس فرق کے ساتھ کہ افسانہ سبیئہ میں موجود اختلافات و تناقض کوجو افسانہ نسناس میں موجود نہیں ہیں اضافہ کیا جائے کہ خود یہ تناقص و اختلاف سبب بنے گا کہ یہ روایتیں ایک دوسرے کے اعتبار کو گرادیں گی اور اس طرح ان روایتوں پر کسی قسم کا اعتبار باقی نہیں رہے گااورا ن کی تحقیق و بحث کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔
اگرطے ہو کہ گروہ سئبیہ ، ابن سوداء اور ابن سبا کے بارے میں بیشتر وضاحت پیش کریں اور طول تاریخ میں ان کے تحولات پر بحث و تحقیق کریں تو کتاب کی مستقل حصہ کی ضرورت ہے ۔
یہاں پر اس کتاب کے اس حصہ کو اختتام تک پہنچاتے ہیں اور دوسرے ضروری مطالب کو اگلے حصہ پر چھوڑ تے ہیں ہم اس دینی اور علمی فریضہ کو انجام دینے میں خداوند عالم سے مدد چاہتے ہیں۔
دوسرے حصے کے مآخذ
۱۔ اشعری : سعد بن عبداللہ کتاب ”المقالات و الفرق “ ۲۰ ۔ ۲۱ میں
۲۔ نوبختی : کتاب ” فرق الشیعہ “ ۲۲۔۲۳ میں
۳۔ اشعری : علی ابن اسماعیل ، کتاب ” مقالات اسلامیین “ ۱/ ۸۵
۴۔ ملطی : کتاب ” التنبیہ وا لرد “ ۲۵ ۔ ۲۶ و ۱۴۸
۵۔ بغدادی : کتاب ” الفرق “ ۱۴۳
۶۔ بغدادی : کتاب الفرق ۱۲۳ ، ۱۳۸ ، ۱۸ و ۳۹ اور کتاب ” اختصار الفرق “ تالیف عبدالرزاق ۱۲۳ ،۱۴۲ ، ۲۲ ، ۲۵ ، ۵۷
۷۔ ابن حزم : کتاب ” الفصل “ طبع محمد علی صبیح ۴/ ۱۴۲ اور طبع التمدن ۴/ ۱۸۶ اور ۴/ ۱۳۸
۸۔ البداء و التاریخ ۵/ ۱۲۹ ۔ ۱۳۰
۹۔ ذہبی : کتاب ” میزان الاعتدال “ شرح حال عبداللہ بن سبا ، نمبر ۴۳۴۲
۱۰۔ ابن حجر کتاب ” لسان المیزان “ ۳/ ۲۸۹ شرح حال نمبر ۱۲۲۵ ۔
۱۱۔ مقریزی : کتاب ” الخطط “ روافض کے نو گروہوں مےں سے پانچویں گروہ میں ۴/ ۱۸۲ و ۴/ ۱۸۵ ۔
۱۲۔ ابن خلدون : مقدمہ میں ۱۹۸ طبع بیروت میں کہتا ہے : فرقہ امامیہ میں بھی جو گروہ وجود میں آئے ہیں جو غالی اور انتہا پسندہیں انہوں نے ائمہ کے بارے میں غلو کیا ہے اور دین اور عقل کے حدود سے تجاوز کرگئے ہیں اور ان کی الوہیت اور ربوبیت کے قائل ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود اس سلسلے میں مبہم اور پیچیدہ بات کرتے ہیں جس سے معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس گروہ کے عقیدہ کے مطابق ائمہ بشر ہیں اور خدا کی صفات کے حامل ہیں یایہ کہ خداخود ہی ان کے وجود میں حلول کرگیا ہے دوسرے احتمال کے بناء پر وہ حلول کے قائل ہیں جس طرح عیسائی حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں قائل تھے جبگہ علی ابن ابیطالب نے ان کے بارے میںا س قسم کا اعتقاد رکھنے والوں کو جلادیا ہے ۔
۱۳۔ مسعودی : ۲/ ۲۰۸ ۔ ۲۱۰
۱۴۔ معجم البلدان : لفظ ” شحر “ کی تشریح میں ۔
۱۵۔ معجم البلدان : لفظ ” وبار“ کی تشریح میں : ۱۴/ ۸۹۹ ۔ ۹۰۰
۱۶۔ معجم البلدان : لفظ ” وبار “ کی تشریح میں
۱۷۔ معجم البلدان : لفظ ” وبار “ کی تشریح میں ، مسعودی نے بھی اسی مطلب کو مختصر تفاوت کے ساتھ ’ مروج الذہب “ ۲/ ۲۰۸ ۔ ۲۱۰ درج کیا ہے ۔
۱۸۔ معجم البلدان : لفظ ” شحر “ کی تشریح میں اس کا خلاصہ ” مختصر البلدان “ ابن فقیہ ۳۸ میں آیا ہے ۔
۱۹۔ ” طبری “ ۱/ ۲۱۴ ، ’ ’ ابن اثیر “ ۱/ ۵۸
۲۰ ۔ طبری ۱/ ۴۴۱ ۔ ۴۴۲
۲۱۔ لسان العرب ابن منظور و تاج العروس زبیدی لفط نسناس کی تشریح میں ۔
۲۲۔ لسان لعرب ابن منظور و قاموس فیروز آباد ی، لفط نسناس کی تشریح مےں
۲۳۔ نہایة اللغة : ابن اثیر
۲۴۔ مروج الذہب ، ۱/۲۲۲
۲۵۔ مروج الذہب ، ۲/ ۲۱۱ اس نے اسی جگہ پر نسناس سے مربوط روایتوں کو نقل کیا ہے پھر اس مخلوق کے وجود کے بارے میں شک و شبہہ کیا ہے ۔
پہلی فصل تیسری فصل
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma