منافقین کی حرکتیں

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
مرتب سازی بر اساس
 
تاریخ اسلام
طائف کی جنگبے نظیر لشکر
اس زمانہ کے منافقین نے لشکر کی جمع آواری کے آغاز میں حکومت اسلامی کی دی ہوئی آزادی سے سود استفادہ کرتے ہوئے، حساس ترین اوقات میں مایوس کن پروپیگنڈہ اور نفسیاتی جنگ کے ذریعہ مسلمانوں کو راہ خدا میں جہاد سے باز رکھنے کی کوشش کی یہ لوگ درحقیقت اسکتباری طاقتوں کے نفع کے لیے قدم اٹھا رہے تھے۔
اسلام کے خلاف منافقین کی خیانت آمیز تحریک تاریخ اسلام میں حادثہ مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
منافقین میں سے ایک سرکردہ ”ابوعامر“ نامی فاسق رسول خدا کی مدینہ ہجرت کے بعد اپنی خیانتوں کی بدولت بھاگ کر مکہ اور طائف پہنچا اور ان کے فتح ہونے کے بعد وہاں سے بھاگ کر روم چلا گیا وہ وہیں سے مدینہ کے منافقین سے اس کا رابط تھا اور فکری امداد بھی کرتا رہتا تا۔ اس نے اپنے ہوا خواہوں کو خط میں لکھا کہ ”میں قیصر روم کے پاس جا رہا ہوں اور اس سے فوجی مداخلت کی درخواست کروں گا کہ اس کی مدد سے ہم مدینہ پر حملہ کریں اب تم ”قبا“ کے دیہات میں مسلمانوں کی مسجد کے مقابلہ میں ایک مسجد بنا لو اور نماز کے موقع پر وہاں جمع ہو جایا کرو اور فریضہ کی ادائیگی کے بہانے اسلام اور مسلمانوں کے موضوع اور اپنے نصوبوں کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے اس موضوع پر گفتگو کیا کرو۔
یہ مسجد،لشکر اسلام کے تبوک روانہ ہونے سے پہلے بن کر تیار ہوگئی۔ منافقین اس مسجد کی آڑ میں اپنی کارکردگی کو منظم شکل دے سکتے تھے، لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے ان لوگوں نے رسول خدا سے درخواست کی کہ آپ ان کی مسجد میں نماز ادا کریں اور اس مسجد کا افتتاح کر دیں۔
رسول خدا نے جواب میں فرمایا:
”ابھی میں سفر کا ارادہ رکھتا ہوں اور سفر کی تیاری میں مصروف ہوں اگر خدا نے چاہا تو واپسی پر آؤں گا۔“
(سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۵۹)
بہانے
منافقین جنگ میں شرکت نہ کرنے کے لیے بڑے لچر بہانے تراشتے رہتے تھے۔ رسول خدا نے ”جدابن قیس“ نامی ایک منافق سے کہا:
”کیا تم رومیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اپنے کو آمادہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے؟“
جد ابن قیس نے جواب دیا:
”اے اللہ کے رسول! مجھے آپ اس بات کی اجازت دیں کہ میں شہر ہی میں رہوں، مجھے آپ فتنہ میں نہ ڈالیں۔ اس لیے کہ میرے قبیلہ کے لوگ جانتے ہیں کہ کوئی بھی مرد میری طرح عورت سے محبت نہیں رکھتا۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ اگر یں روم کی عورتوں کو دیکھوں گا تو فتنہ (و گناہ) میں پڑ جاؤں گا۔“
رسول خدا نے اس کی طرف سے نہ پھیرلیا اور فرمایا:
”تم جہاں جانا چاہتے ہو جاؤ۔“
قرآن اس منافق کی بہانہ بازی کے بارے میں اعلان کرتا ہے کہ:
”ان میں سے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو جہاد میں شرکت کرنے سے معاف رکھیں اور فتنہ میں نہ ڈالیں، آگاہ ہو جاؤ کہ یہ لوگ خود فتنہ میں پڑے ہوئے ہیں اور بے شک دوزخ ن کافرین کو گھیرے ہوئے ہے۔“(توبہ:۴۹)
منافقین کام میں رخنہ ڈالنے اور جنگ کے بارے میں لوگوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے کہتے تھے اس گرمی کے موسم میں جنگ کے لیے نہ جاؤ یہ موسم جنگ کے لیے مناسب نہیں ہے، خدا نے ان لوگں کے بارے میں فرمایا:
”جن لوگوں نے رسول خدا کے رکاب میں حکم جہاد سے روگردانی کی وہ خوش ہیں اور راہ خدا میں جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے کو ناگوار جانتے ہیں (اور مومنین کو بھی جہاد سے منہ کرتے ہیں) وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس گرمی میں کوچ نہ کرو۔ ان سے کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ زیادہ جلانے والی ہے اگر لوگ سمجھ لیں۔“
(توبہ:۱۱)
منافقین آرام طلب ثروت مند اور کچھ ناواقف عرب نے مختلف بہانوں سے اس جنگ میں شرکت کرنے سے گریز کیا۔
خداوند عالم اعراب کے بارے میں فرماتا ہے:
”بادیہ نشینوں (اعراب) میں سے کچھ لوگ آپ کے پاس عذر کرتے ہوئے آئے اور جہاد سے معافی چاہ رہے تھے اور کچھ لوگ جو رسول خدا کی تکذیب کرتے تھے۔ جہاد سے بیٹھ رہے کافر جلد ہی دردناک عذاب میں پہنچیں گے۔ (توبہ:۹۰)
منافقین کی ٹیم کے اڈہ کا انکشاف
رسول خدال کو خبر ہوئی کہ منافین کا ایک گروہ ”سویلم“ یہودی کے گھر ایک انجمن بنا کر سازشوں اور لوگوں کو جہاد میں شرکت کرنے سے روکنے کی پلاننگ میں مصروف ہے۔ رسول خدا نے سمجھ لیا کہ اگر ان کے ساتھ کوئی قطعی سلوک نہ کیا گیا جس سے عبرت حاصل کریں تو وہ اپنی مکارانہ سازشوں سے اسلام کو چوٹ پہنچائیں گے۔ انہوں نے حکم دے دیا کہ اس ٹیم کے اڈہ کو گھیر کر اس میں آگ لگا دی جائے۔ آنحضرت کے حکم سے اسلام کے چند محافظین نے اس گھر کو آگ لگا دی اور منافقین کے فرار کے بعد ان کی انجمن بکھر گئی فرار کے وقت پشت بام سے زین پر گرنے کی وجہ سے ایک منافق کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ (سیرت ابن ہشام ج۴ ص ۱۶۰)
جنگی اخراجات کی فراہمی
مضبوط لشکر مرتب کرنے کے اخراجات کے لیے نیکوکار اور ثروت مند مسلمانوں نے جاں بازانِ اسلام کی مالی امداد کی اور مسلمانوں نے اخراجات جنگ مہیا کرنے میں بے مثال دلچسپی کے ساتھ کوشش کی۔ مسلمان عورتوں نے اپنے زیورات رسول خدا کے پاس بھجی دیئے تاکہ وہ جنگ کے مصرف میں کام آئیں۔ ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق محاذ جنگ کی کمک کرنے میں کوشاں تھا۔ مثال کے طور پر ایک غریب مزدور ایک صاع (تین کلو) خرما پیغمبر کی خدمت میں لایا اور عرض کرنے لگا:
”اے اللہ کے رسول میں نے نخلستان میں کام کیا تو دو صاع خرما مزدوری ملی ایک صاع تو میں نے اپنے گھر کے لیے رکھ لیا اور ایک صاع جنگ کے اخراجات جمع کرنے کے لیے لایا ہوں۔“
منافقین نے یہاں بھی اپنے غلط پروپیگنڈے کو جاری رکھا۔ اگر کوئی دولت مند مالی امداد کرتا تو کہتے تھے کہ ”ریاکاری کر رہا ہے“ اور اگر کوئی غریب خلوص کی بنا پر تھوڑی سی مدد کرتا تو کہتے کہ ”خدا کو اس کمک کی ضرورت نہیں۔“
(مجمع البیان ج۵ ص ۲۵۷)
منافقین کی ان باتوں کے بارے میں قرآن میں خدا فرماتا ہے:
”وہ لوگ جو خود سے مدد کرنے والے مومنین اور ان لوگوں کے صدقہ میں عیب نکالتے اور مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس جو ہے دے رہے ہیں۔ تنگ دستی میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے خدا ان کا تمسخر کرتا ہے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“ (توبہ:۷۹)
اشک حسرت
منافقین کی سازشوں اور پروپیگنڈوں اور افواہوں کے مقابل پاکیزہ دل مومنین کا ایک گروہ جنگ میں شرکت کے شوق میں رسول خدا کی طرف دوڑ پڑا چونکہ یہ لوگ غریب تھے ان کے پاس سواری کا انتظام نہ تھا لہٰذا انہوں نے رسول خدا سے خواہش کی کہ ان کو مرکب عطا کیا جائے تاکہ حضور کی رکاب میں دراز صحراؤں کا سفر کرکے اس جہاد مقدس میں شرکت کریں۔
رسول خدا نے فرمایا: ”میرے پاس کوئی ایسی سواری نہیں ہے جس پر تم کو سوار کروں، یہ لوگ اس وجہ سے افسوس اور گریہ کرتے ہوئے رسول خدا کے پاس سے نکلے کہ ان کو جہاد میں شرکت کی توفیق حاصل نہ ہوسکی، یہ جماعت تاریخ میں گروہ ”بکاؤون“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ (یعنی بہت رونے والے) خدا قرآن مجید میں ان کو اس طرح یاد کرتا ہے:
”اے پیغمبر مومنین، جہاد کے لیے تیار ہو کر آپ کے پاس آئے تاکہ آپ ان کو کسی مرکب پر سوار کر دیں (اور میدان جہاد لے جائیں) اور آپ نے جواب میں فرمایا کہ میرے پاس مرکب نہیں ہے جس پر میں تم کو سوار کروں اور وہ لوگ اس حالت میں واپس چلے گئے کہ غم کی شدت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے کہ وہ اخراجات سفر کیوں نہ فراہم کرسکے۔ ایسے لوگوں پر جہاد ترک کر دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔“(۱)
(توبہ:۹۲)
طائف کی جنگبے نظیر لشکر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma