پیغمبر کا دفاع کرنے والوں کی شجاعت

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
مرتب سازی بر اساس
 
تاریخ اسلام
عام حملہشہیدوں کے پاکیزہ جسم کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟
درہ میں چند افراد بای رہ گئے تھے اور ایسی شجاعت کے ساتھ دشمن کے پے درپے حملہ کو دفع اور پیغمبر سے دفاع کر رہے تھے جس کی تعریف نہیں کی جاسکتی۔ علی نے ایک لحظہ کے لیے بھی میدان کو نہیں چھوڑا۔ آپ اپنی تلوار سے پے درپے دشمن کے سر پر موت کا مینہ برسا رہے تے اور ایک دستہ کو قتل کرکے دوسرے دستہ کو فرار پر مجبور کر رہے تھے۔
حضرت علی نے بہت زخم کھائے تھے لیکن پھر بھی نہایت تیزی کے ساتھ شیر کی طرح غرا کر شکار پر حملہ کرتے تے اور پروانہ وار پیغمبر کے گرد چکر لگا رہے تے مبادا کوئی ان کی شمع وجود کو جو نور خدا ہے۔ خاموش نہ کر دے ایسا منظر بار بار آتا رہا خدا اس بہادری کا شاہد ہے۔ جبرئیل نے آسمان سے آواز بلند کی۔
لافتی الاعلی لاسیف الاذوالفقار
اور تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ اہلسنّت کے مورخ ابن ہشام لکھت ہیں کہ احد کے جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قریش کے زیادہ تر افراد قتل وئے۔(سیرة ابن ہشام ج۲ ص ۱۰۰)
احد کے معرکہ میں بہادری کا جوہر دیکھانے والوں میں سے جناب حمزہ بن عبدالمطلب سردار لشکر اسلام بھی تھے جنہوں نے رسول خدا کا دفاع کرتے ہوئے بہت سے مشرکین کو واصل جہنم کیا ابوسفیان کی بیوی ہند نے وحشی سے جو جبیر ابن مطلعم کا غلام تھا یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر تم محمد، حمزہ، یا علی کو قتل کر دو ت آزاد ہو جاؤ گے۔ وہ رسول خدا تک ت نہ پہنچ سکا اور علی علیہ السلام بھی میدان جنگ میں ہر طرف سے چوکنہ تھے۔ اس نے جب جناب حمہ کو دیکھا کہ وہ شدت غیظ و غضب میں اپنی طرف سے بے خبر ہیں تو وہ ان کا تعاقب کرنے لگا جناب حمزہ شیر کی طرح قلب لشکر پر حملہ کر رہے تے اور جس شخص تک پہنچتے اس کو خاک و خون میں غلطاں کر دیتے تھے۔
وحشی ایک پتھر کی آڑ میں چھپ گیا اور جب حمزہ مصروف جنگ تھے اس وقت اس نے اپنے نیزہ کا نشانہ ان کی طرف لگا کر ان کو شہید کر دیا۔ اور ابوسفیان کی بیوی نے جناب حمزہ کے جسم پاک کو مثلہ کیا۔
لشکر توحید کا دفاع کرنے والوں میں سے ایک ابودجانہ بھی تھے مسلمانوں کے میدان جنگ میں واپس آجانے کے بعد جب آتش جنگ دوبارہ بھڑکی تو رسول خدا نے ایک تلوار لی اور فرمایا کہ: کون ہے جو اس تلوار کو لے اور اس کا حق ادا کرے؟ چند افراد اٹھے، لیکن ان میں سے کسی کو آپ نے تلوار نہیں دی اور پھر اپنی بات دہرائی۔ اس دفع ابودجانہ اٹھے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں آمادہ ہوں۔
پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ اس شمشیر کا حق یہ ہے کہ اسے دشمن کے سر پر اتنا مارو کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے اور سا بات سے مکمل طور پر ہوشیار رہو کہ کہیں دھوکہ میں تم کسی مسلمان کو قتل نہ کر دینا۔ یہ کہہ کر آپ نے وہ تلوار ان کو عطا فرمائی۔
(سیرة ابن ہشام ج۲ ص ۶۸)
ابودجانہ نے ایک سرخ رنگ کا کپڑا اپنے سر پر باندھا اور دشمن کی طرف مغرور حملہ آور ہوئے۔ رسول خدا نے فرمایا کہ اس طرح کی چال کو خدا دشمن رکھتا ہے مگر یہ کہ جنگ کہ ہنگام ہو، ابودجانہ نے راہ خدا میں قلب دشمن پر حملہ کیا اور ان کے سروں پر اتنی تلوار ماری کہ تلوار خم ہوگئی۔
ام عمارہ شیر دل خاتون
ام عمارہ وہ خاتن ہیں جو مدینہ سے سپاہ اسلام کے ساتھ آئی تھیں تاکہ محاذ کے پیچھے خواتین کے ساتھ رہ کر لشکر اسلام کی مدد کرنے والوں کے عنوان سے نصرت کریں۔ ان کے زخموں کی مرم پٹی کا انتظام کریں۔ زخمیوں کے زخموں پر پٹی باندھیں اور مجاہدین کو پانی پہنچائیں۔
اگرچہ جہاد عورتوں کے لیے واجب نہ تھا مگر جب ام عمارہ نے دیکھا کہ لوگ رسول خدا کے پاس سے پراگندہ ہوگئے اور آنحضرت کو آگ و خون کے درمیان تنہا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا ان کی جان خطرہ میں ہے۔ وجود اسلام خطرہ میں گھرا ہوا ہے تو ایک بھاگنے والے کی تلوار اچک لی اور مردانہ انداز میں دشمن کے لشکر کی طرف بڑھیں اور ہر طرف اس طرح لڑ رہی تھیں کہ رسول خدا کی جان محفوظ رہے۔ پیغمبر اس شیر دل عورت کی شجاعت سے بہت خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ: نسیبہ (ام عمارہ) دختر کعب کی منزلت آج کے دن میرے نزدیک فلاں فلاں سے زیادہ بلند ہے۔ (مغازی)
چند ان افراد کی فداکاری کے باوجود جو کہ رسول خدا کے لیے سپر بنے ہوئے تھے۔ آپ شدید زخمی ہوئے۔
عتبہ نے چار پتھر پھینک کر آپ کے چند دانتں کو شکستہ کر دیا۔ ابن قمہ نے آپ کے چہرہ پر شدید زخم لگایا اور وہ زخھ ایسا لگا کہ خود کی زنجیروں کی کڑیاں آپ کے گالوں میں پیوست ہوگئیں۔ پیغمبر زخموں کی بنا پر کافی کمزور ہوگئے اور آپ نے ظہر کی نماز بیٹھ کر ادا کی۔
میدان چھوڑ دینے والوں میں سب سے پہلے شخص جنہوں نے رسول خدا کو پہچانا وہ کعب بن مالک تھے انہوں نے چلا کر کہا کہ: پیغمبر زندہ ہیں۔ لیکن رسول خدا نے ان کو حکم دیا کہ چپ رہو۔ آنحضرت کو درہ کے دہانہ تک لے جایا گیا جب آپ وہاں پہنچے تو جو مسلمان وہاں سے بھاگ گئے تھے۔ بہت شرمندہ ہوئے۔ ابوعبیدہ جراح نے رسول خدا کے چہرہ میں در آنے والی زنجیر کی کڑیوں کو باہر نکالا علی علیہ السلام اپنی سپر میں پانی بھر کر لائے اور رسول خدا نے اپنا سر اور چہرہ دھویا۔
لشکر کی جمع آوری
جب رسول خدا درہ کے دہانے پر پہنچ گئے تو آپ نے مسلمانوں کو بلایا جب لشکر اسلام نے رسول خدا کو زندہ دیکھا تو گروہ، گروہ اور فرد فرد ان کے گرد آنے لگے رسو لخدا نے ان کو جہاد راہ خدا میں جنگ اور پہلی جگہوں پر واپسی کی دعوت دی۔
شکست کے بعد پھر سے اسلامی فوجیں منظم ہوگئیں اور افراد نیز سامانِ جنگ کی کمی کے باوجود، دوبارہ حملہ شروع کر دیا۔ جنگ کی آگ نے جنگ بھڑکانے والوں کو پھر سے اپنی لپیٹ میں لے یا۔
اسلامی لشکر کی شجات و بہادری نے دوبارہ دشمن کے سپاہ قلب کو خوف و وحشت میں مبتلا کر دیا۔ مشرکین کے لشکر کے سردار ابوسفیان نے اس خطرہ کے باعث کہ کہیں مجاہدین اسلام آغازِ جنگ کی طرح پھر نہ ان پر جھپٹ پڑیں۔ جنگ بندی کے حکم کے سات جنگ کے خاتمہ کا اعلان کر دیا۔
عام حملہشہیدوں کے پاکیزہ جسم کے ساتھ کیا سلوک ہوا؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma