نکاح متعہ

پایگاه اطلاع رسانی دفتر مرجع عالیقدر حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
مرتب سازی بر اساس
 
قرآن اور عورت
کنیزوں سے نکاحایک سے زیاہ ز وجہ
نکاح کی دو قسمیں ہیں نکاح دائمی و موقت ۔ مذہب جعفریہ کے علماء کا اجماع ہے کہ نکاح متعہ جائز ہے۔ نکاح دائمی ومتعہ میں چند چیز مشترک ہیں ۔ ۱) عورت عاقلہ بالغہ راشدہ اور تمام موانع سے خالی ہو ۔ ۲) آپس کی رضا کافی نہیں بلکہ صیغہ شرعی پڑھنا ضروری ہے ۔ ۳) نکاح سے جو چیزیں عورت پر حرام ہو جاتی ہیں ان میں دونوں شریک ہیں ۴) اولاد کے سلسلہ میں دونوں برابر دائمی کی طرح متعہ میں بھی اولاد شوہر کی ہوتی ہے ۵) مہر دونوں میں ضروری ہے متعہ میں مہر کا ذکر نہ ہو تو نکا ح نہیں ہو گا ۔ ۷) نکاح میں طلاق کے بعد اورمتعہ میں مقررہ مدت کے اختتام کے بعد عدت ضروری ہے ۔ عقدِ متعہ اور عقدِنکاح میں فرق ۱) نکاح متعہ میں مدت کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ ۲) مہر۔ نکاح متعہ کا رکن ہے اس کے ذکر کے بغیر نکاح نہیں ہو گا ۳) نکاح دائمی میں نفقہ دینا واجب ہے اور نکاح متعہ میں اگر شرط کر لی جائے تو واجب ہے ۔ ۴) نکاح دائمی ۔ طلاق کے بغیر ختم نہیں ہو تا متعہ ۔مدت کے اختتام پر ختم ہوجاتاہے۔ بہرَ حال دونوں ہی نکاح ہیں دونوں ہی شرعی ہیں دونوں کی حقیقت ایک ہے صرف چند امور میں فرق ہے ۔ فقہاء اسلام سنی و شیعہ سب کا اتفاق ہے کہ نکاح متعہ اسلام میں مشروع ۔ اور جائز قرار دیا گیاہے ۔ ارشاد رب العزت ہے: فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْہُنَّ فَآتُوْہُنَّ أُجُوْرَہُنَّ فَرِیْضَةً وَلَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرَاضَیْتُمْ بِہ مِنْم بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ إِنَّ اللہ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا پھر جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہے ا نکا طے شدہ مہر بطور فرض ادا کرو البتہ طے کرنے کے بعد آپس میں رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے یقینا اللہ بڑا جاننے والا حکمت والاہے ۔ ( سورہ نساء :۲۴) متعہ کے جواز :مشروعیت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں لذا مفسر کبیر فخرالدین رازی کاقول ہے ۔یہ واضح ہے اور ہم اس کے منکر نہیں کہ متعہ مباح تھا لیکن داعی ہیں کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے نسخ مشکوک ۔جوازو اباحت یقینی۔ لہٰذا مباح ہی ہو گا۔ متعہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ابن خطاب کے زمانہ تک جائز تھا، حضرت عمرنے منع کیا ۔ ابو نَضرہ کہتے ہیں عہد کہتا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ،ابن زبیر متعہ ممنوع قرار دیتے ہیں ۔ ابن عباس کے نزدیک جا ئز ہے جابر نے بتایا کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر حضرت عمر کے زما نہ میں متعہ کیا لیکن حضرت عمرنے کہا منع کیا۔ رسول اللہ وہی رسول ہیں۔ قرآن وہی قرآن ہے لیکن حضرت عمر نے کہا : متعتان کانتا فی عہد رسول اللہ انا انہی عنہما واعاقب علیہا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے زمانہ میں دومتعہ جائز تھے میں ان کو ممنوع قرار دیتاہوں اور جو ان کا مرتکب ہو گااسے سزادوں گا ۔ (سنن بیہقی جلد ۷، ۲۰۶) رازی، بخاری، عسقلانی ، اور ابن حجر وغیرہ ذکر کرتے ہیں روایت عمران ابن حصین متعہ کے متعلق آیت نازل ہوئی کسی آیت میں نسخ کیا ،رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے فرمایا ، پھر منع نہیں فرمایا پھر ایک صاحب (عمر ابن خطاب)نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ ممنوع ہے ۔ حضرت امیر کا فرمان ہے : لولاان عمر رضی اللہ عنہ نھی عن المتعة ما زنی الا شقی (تفسیر کبیر جلد۵ ص۱۳) ابو سعید الخدری جابر ابن عبداللہ انصاری حضرت عمر کے نصف زمانہ تک متعہ ہو تا رہا پھر حضرت عمر نے منع کیا۔(عمدة القاری للعینی جلد۸ ص۳۱۰) خلاصہٴ کلام متعہ کا جواز متفق علیہ مشروعیت اجماعی ہے نسخ ہوا یا نہیں، شدیداختلاف ہے۔ کیوں اب نہیں ہورہا چونکہ حضرت عمر نے منع فرمایا ۔ حضرت عمر کا فرمان سیاسی تھا کسی کی مرضی اس فرمان کو لے یا قرآن کے فرمان کو لے ۔ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہِ مِنْہُنَّ فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَةً ۔ پھر جن عورتوں سے تم نے عقد متعہ کیا ہے ان کا طے شدہ مہر، بطور فرض ادا کرو۔( نساء ۲۴)
کنیزوں سے نکاحایک سے زیاہ ز وجہ
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma