بیوی پرتہمت لگانے کی سزا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ حکم قذف صرف بیوی اور شوہر کے لئے مخصوص ہے؟شان نزول
جیسا کہ شان نزول سے ظاہرہے زیرِ نظر آیات حد قذف پر تبصرے کے طور پر استثنائی حکم بیان کررہی ہیں کہ اگر شوہر اپنی بیوی پر منافیِٴ عفت عمل کا الزام عائد کرے اور کہے کہ میں نے اسے غیر مرد کے ساتھ بدکاری کی حالت میں دیکھا ہے تو اس پر اسّی کوڑے کی حدّقذف جاری نہیں ہوگی لیکن اس کا دعویٰ بغیر دلیل وشاہد کے قبول بھی نہیں کیا جائے گاکیوں اس میں سچ اور جھوٹ دونوں کا احتمال ہے ۔
پہلے قرآن نے اس مسئلے کا حل ایسا پیش کیا ہے کہ جو بہترین بھی اور عادلانہ بھی اور وہ یہ کہ شوہر اپنے دعوے میں سچاہونے کے لئے چار مرتبہ گواہی دے، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں اور اپنے علاوہ ان کے پاس گواہ نہیں تو دعویٰ کرنے والوں میں سے ہر شخص چار مرتبہ الله کے نام کی شہادت دے کہ وہ سچوں میں سے ہے (وَالَّذِینَ یَرْمُونَ اٴَزْوَاجَھُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَھُمْ شُھَدَاءُ إِلاَّ اٴَنفُسُھُمْ فَشَھَادَةُ اٴَحَدِھِمْ اٴَرْبَعُ شَھَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقِینَ) ۔
اور پانچویں دفعہ کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہو تو اس پر الله کی لعنت ہو (وَالْخَامِسَةُ اٴَنَّ لَعْنَةَ اللهِ عَلَیْہِ إِنْ کَانَ مِنَ الْکَاذِبِینَ) ۔
یعنی شوہر اپنے دعویٰ کے اثبات کے لئے اور حدّقذف سے بچنے کے لئے چار مرتبہ یہ جملہ کہے:
”اٴشھد بالله انّی لمن الصادقین فیما رمیتھا بہ من الزنا“.
میں خدا کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ میں نے اس عورت پر الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں ۔
”لعنة الله علیّ ان کنتُ من الکاذبین“.
اگر میں جھوتا ہوں تو مجھ پر الله کی لعنت۔
ہاں عورت کے لئے دو راستے ہیں: ایک یہ کہ وہ مرد کے الزام کی نفی نہ کرے اور اس کی بات کی تصدیق کردے تو جیسا کہ بعد کی آیت میں آئے گا اس کے لئے حدّزنا ثابت ہوجائے گی۔
دوسرا راستہ زنا کی سزا سے بچنے کا ہے اور وہ یہ کہ چار مرتبہ الله کو گواہ قرار دے کہ اس مرد نے غلط الزام لگایا ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہے (وَیَدْرَاٴُ عَنْھَا الْعَذَابَ اٴَنْ تَشْھَدَ اٴَرْبَعَ شَھَادَاتٍ بِاللهِ إِنَّہُ لَمِنَ الْکَاذِبِینَ) ۔
اور پانچویں مرتبہ کہے: اس پر خدا کا غضب ہو اگر مرد اس الزام میں سچّا ہے (وَالْخَامِسَةَ اٴَنَّ غَضَبَ اللهِ عَلَیْھَا إِنْ کَانَ مِنَ الصَّادِقِینَ) ۔
یعنی مرد نے جو پانچ مرتبہ اس عورت کے خلاف گواہی دی ہے وہ عورت بھی پانچ مرتبہ اس کی نفی کرے، پہلے چار مرتبہ یوں کہے:
”اٴشھد بالله انّہ لمن الکاذبین فیما رمانی بہ من الزنا“.
میں خدا کو گواہ بناتی ہوں کہ اس نے میری طرف جو نسبت دی ہے اس میں وہ جھوتا ہے ۔
اور پانچویں دفعہ یہ کہے:
”ان غضب الله علیّ ان کان من الصادقین“.
اگر وہ سچ کہتا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب ہو ۔
مندرجہ بالا آیت میں جو لفظ ”لعن“ آیا ہے اس کی مناسبت سے اس سارے عمل کو ”لعان“ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس عمل سے چار نتیجے مرتب ہوں گے:
۱۔ صیغہٴ طلاق کی ضرورت کے بغیر ہی فوراً میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے ۔
۲۔ یہ عورت اور مرد ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے، یعنی نئے سرے سے ان کی شادی کا امکان ختم ہوجائے گا۔
۳۔ قذف کی حد مرد سے اور زنا کی حد عورت سے اٹھ جائے گی (لیکن اگر ان میں سے مرد یہ کام نہ کرے تو اس پر قذف کی حد جاری ہوگی اور عورت یہ کلمات نہ کہے تو اس پر زنا کی حد جاری ہوگی) ۔
۴۔ اس واقع کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوگا وہ اس مرد کا نہیں سمجھا جائے گا یعنی اس سے منسوب نہیں ہوگا البتہ عورت سے منسوب رہے گا۔
البتہ ان احکام کی تفصیلات زیرِ بحث آیات میں نہیں آئیں ، فقط آیت کے آخر میں قرآن کہتا ہے: اگر الله کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی اور وہ توبہ قبول کرنے والا اور حکیم نہ ہوتا تو بہت سے لوگ تباہ ہوجاتے یا سخت سزاوٴں میں مبتلا ہوجاتے (وَلَوْلَافَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہُ وَاٴَنَّ اللهَ تَوَّابٌ حَکِیمٌ) ۔
یہ آیت در حقیقت مندرجہ احکام پر تاکید کے طور پر اجمالی اشارہ ہے کیونکہ یہ نشاندہی کرتی ہے کہ ”لعان“ کا عمل ایک فضل وکرم ہے اور وہ اس سلسلے میں میاں بیوی کے ایک مشکل معاملے کو صحیح طریقے سے حل کردیتا ہے ۔
ایک طرف تو وہ شوہر کو مجبور نہیں کرتا کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو بدکاری کے عالم میں دیکھا ہے تو وہ خاموش رہے اور فریادرسی کے لئے حاکم شرع کے پاس نہ آئے اور دوسری طرف عورت کو صرف الزام پر زنائے محصنہ کی حد جاری نہیں کردیتا بلکہ اسے صفائی کا حق دیتا ہے جبکہ تیسری طرف شوہر کے ضروری قرار نہیں دیتا کہ اگر اس نے کوئی ایسا کام دیکھا ہے تو لازماً چار گواہ ڈھونڈے اور اس المناک راز کو عریاں کرے اور چوتھی طرف اس عورت اور مرد کو ایک دوسرے سے الگ کردیتا ہے کیونکہ اب وہ مل جل کر زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہے یہاں تک کہ انھیں آئندہ بھی ایک دوسرے سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اگر الزام سچا ہو تو وہ نفسیاتی طور پر اس ازدواجی زندگی کو جاری نہیں رکھ سکتے اور اگر جھوٹا الزام ہو تو عورت کے جذبات اس طرح سے مجروح ہوچکے ہوںگے کہ اب اس کے لئے مشکل ہوگا کہ وہ یہ زندگی جاری رکھ سکے کیونکہ اس عمل سے نہ صرف سرد مہری پیدا ہوجائے گی بلکہ عداوت شروع ہوجائے گی اور پانچویں رُخ سے اس معاملے میں بچے کے بارے میں ذمہ داری واضح کردی گئی ہے ۔
یہ ہے بندوں پر الله کا فضل ورحمت اور اس کا توّاب وحکیم ہونا، وہ الله کہ جس نے اس مسئلے کے نہایت باریک اور عادلانہ حل کی راہ کھول دی ہے اور اگر ہم صحیح طرح سے غور کریں تو چار گواہوں کے لزوم کا اصل حکم بھی کاملاً ختم نہیں ہوا بلکہ مرد اور عورت جو چار چار مرتبہ شہادت دیتے ہیں ان میں سے ہر شہادت ایک گواہ کا قائم مقام ہے ۔
۱۔ حکم قذف صرف بیوی اور شوہر کے لئے مخصوص ہے؟شان نزول
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma