۱۔ پردے کا فلسفہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
2. پردے کے مخالفین کے اعتراضاتبے پردگی اور بے حیائی کے خلاف قیام

اس میں شک نہیں کہ ہمارے زمانے میں کہ جسے عریانی اور جنسی آزادی کا زمانہ کہتے ہیں بعض لوگوں کو ہمارا پردے کی بات کرنا سخت ناگوار گزرتا ہے، یہ وہی بے لگام افراد ہیں کہ جو عورتوں کو زمانے کی آزادی کا حصّہ سمجھتے ہیں، کبھی یہ لوگ پردے کو گزشتہ زمانے کی کہانی قرار دیتے ہیں لیکن ان بے لگام آزادیوں نے بے حساب مشکلات اور قباحتوں کو جنم دیا ہے اور روز افزوں مصائب پیدا کئے یہی وجہ ہے کہ رفتہ رفتہ پردے کی بات سننے والے کان بھی پیدا ہوگئے ہیں ۔
البتہ اسلامی اور مذہبی ماحول میں ، خصوصاً ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد بہت سے مسائل حل ہوگئے ہیں اور اس قسم کے سوالات تسلّی بخش جواب دیئے گئے ہیں، لیکن پھر بھی موضوع کی اہمیت تقاضا کرتی ہے کہ اس مسئلے پر ذرا کھل کر بات کی جائے ۔
انتہائی معذرت کے ساتھ، سوال یہ ہے کہ کیا عورتوں کے بارے میں آزادی ہونی چاہیے کہ سمع، بصر اور لمس کے حوالے سے (سوائے اختلاطِ جنسی کے) سب مرد ان سے فائدہ اٹھائیں اور وہ تمام مردوں کے اختیار میں ہوں یا یہ امور ان کے شوہروں کے ساتھ مخصوص ہوں ۔
بحث یہ ہے کہ کیا عورتیں ایک ختم نہ ہونے والے مقابلے میں اپنا تن بدن دکھاتی رہیں، تحریکاتِ شہوات کے کام آتی رہیں اور ناپاک مردوں کی ہوس پرستی میں گرفتار رہیں یا پھر یہ باتیں معاشرے سے ختم ہوجائیں اور ان کا تعلق بیوی اور شوہر کی گھریلو زندگی سے مخصوص ہوجائے، (اسلام دوسرے طرزِ عمل کا حامی ہے اور اسلام کے اس پروگرام کے لئے پردہ ایک اہم عنصر ہے) جبکہ اہل مغرب اور مغرب زدہ ہوس پہلے طرزِ عمل کے حامی ہیں ۔
اسلام کہتا ہے کہ جنسی لذّت سمعی حوالے سے ہو یا بصری حوالے سے یا پھر لمس کے ذریعے، سب بیوی کے ساتھ مخصوص ہیں اور اس اگر کچھ اس کے علاوہ ہو تو گناہ اور معاشرے کی ناپاکی کا سبب ہے، جیسا کہ زیرِ بحث آیات میں ہے کہ:
”ذٰلِکَ اٴَزْکَی لَھُمْ“۔
یہ تمھارے لئے پاکیزہ ہے ۔
پردے کا فلسفے کوئی راز کی بات نہیں کیونکہ:
۱۔ عورتوں کی بے پردگی، عریانی اور آرائش مردوں کے لئے (بالخصوص جوانوں کے جنسی تحریک کا باعث ہے اور اگر یہ بے حیائی جاری ہے تو یہ تحریک بھی دائمی ہوگی) ایسی تحریک کہ جو مردوں کے اعصاب کو شکستہ کرکے رکھ دے گی، اس سے اعصابی بیماریاں پیدا ہوں گی، یہ کیفیت طبیعت میں ہیجان اور نفسیاتی امراض کا سرچشمہ بن جاتی ہے ۔
لیکن آخر انسان کے اعصاب کس قدر ہیجان کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ کیا تمام ماہرین نفسیات نہیں کہتے ہیں کہ مستقل جنسی ہیجان بیماری کا سبب ہے ۔
خاص طور پر اس مسئلے کی طرف توجہ رہے کہ انسانی جبلت میں جنسی قوت بہت قوی پہلو دار اور گہری ہے، انسانی تاریخ میں اس نے ہولناک حوادث، جرائم اور مظالم کو جنم دیا ہے یہاں تک کہ بعض نے کہا ہے کہ کوئی اہم حادثہ تاریخ بشر میں ایسا نہیں ملے گا کہ جس میں عورت کا دخل نہ ہو کیا ایسی قوت وجبلت کو عریانی وفحّاشی کے ذریعے ابھارنا اور ہوا دینا آگ سے کھیلنے کے مترادف نہیں ہے؟ کیا یہ عاقلانہ کام ہے؟
اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان مردوں اور عورتوں کی روحیں پُرسکون ہوں، آنکھ اور کان پاکیزہ ہوں اور اس کے لئے پردہ ناگزیر ہے ۔
۲۔ یہ اور مستند اعداد وشمار سے یہ بات آئی ہے کہ عریانی میں اضافے کی وجہ سے دنیا میں طلاق اور ازدواجی زندگی میں علیحدگی کا تناسب بڑھتا چلا جارہا ہے چونکہ ”جو کچھ آنکھ دیکھے دل اسے یاد رکھتا ہے“ اور جب ہوا وہوس کی آگ سرکش ہوجائے اور آنکھ ہر روز نئے نظارے دیکھے تو دل ہر روز کسی نئے محبوب کے پیچھے لے جاتا ہے اور پہلے کو الوداع کہہ دہتا ہے ۔
لیکن جس ماحول میں پردہ ہے (اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اسلامی شرائط کی بھی پاسداری ہوتی ہے) وہاں بیوی اور شوہر ہی کو ایک دوسرے سے تعلق ہوتا ہے، ان کے احساسات، جذبات اور محبتیں ایک دوسرے سے مربوط اور مخصوص ہوتی ہیں، جبکہ عریانی کے آزاد وبازار میں کہ جہاں عورت مشترکہ ساز وسامان کی حیثیت رکھتی ہے وہاں ازدواجی عہد وپیمان کا تقدس کوئی مفہوم نہیں رکھتا، وہاں گھرانے تارِعنکبوت کی طرف تیزی سے ٹوٹ کر بکھرجاتے ہیں اور بچے بے سہارا ہوکر سرگرداں ہوجاتے ہیں ۔
۳۔ فحّاشی کا پھیلاوٴ اور ناجائز اولاد کی کثرت بے پردگی کے دردناک ترین نتائج میں سے ہیں اور یہ بات اس قدر آشکار ہے کہ ہمارے خیال میں اعداد وشمار کی محتاج نہیں ہے اور اس کی وجوہ خصوصاً مغربی معاشروں میں پورے طور پر نمایاں ہیں بلکہ اس قدر عیاں ہیں کہ بیان کی ضرور نہیں ۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ فحاشی اور ناجائز بچوں کا اصلی عامل بے پردگی ہے اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس میں بے شرم استعمار اور تباہ کن سیاسی مقاصد کارفرما ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس کا ایک عمال بے پردگی اور عریانی ہے ۔
اگر اس حقیقت کی طرف توجہ کی جائے تو اس مسئلے کے خطرناک پہلو زیادہ واضح ہوجاتے ہیں کہ فحاشی اور اس سے بڑھ کر ناجائز بچے انسانی معاشروں میں جرائم کا سرچشمہ تھے اور ہیں ۔
اعداد وشمار کے مطابق انگلستان میں ہر سال پانچ لاکھ ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں، انگلستان کے محققین ودانشوروں نے اس سلسلے میں ملک کے ارباب بسط وکشاد کو اس مسئلے کے سنگین خطرے سے آگاہ کیا، ان دانشوروں کے مطابق اخلاقی ومذہبی لحاظ سے نہیں بلکہ اس ناجائز اولاد کا وجود معاشرے کے امن وامان کے لئے شدید خطرہ بن چکا ہے یہاں تک کہ جرائم کی بہت سی فائلوں میں انہی کا نام ہوتا ہے ۔
اس بات سے ہم اس مسئلے کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ سکتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ فحاشی وبدکاری کا مسئلہ ان لوگوں کے لئے بھی شدید کرب انگیز ہوچکا ہے کہ جو مذہب واخلاق کی کسی اہمیت کے قائل نہیں، لہٰذا ہر وہ چیز جو انسانی معاشرے میں جنسی بے راہ روی کے پھیلنے کا موجب ہو وہ امن وامان کے لئے خطرہ شمار ہوگی اور ہر لحاظ سے اس کے نتائج معاشرے کے لئے نقصان دہ ہوں گے ۔
تربیتی امور کے محققین کا مطالعہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ جن تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم ہے اور جن مراکز میں عورت اور مرد مل کر کام کرتے ہیں اور ان کا میل جول آزاد ہے وہاں کام کی رفتار اور معیار کم ہے اور حساس ذمہ داری بھی کم ہے ۔
۴۔ بے پردگی اور عریانی عورت کے مقام کے زوال کا بھی باعث ہے، اگر معاشرہ عورت کو عریاں بدن دیکھنا چاہے گا تو فطری بات ہے کہ ہر روز اس سے آرائش کا تقاضا بڑھ جائے گا اور اس کی نمائش میں اضافہ ہوگا، جب عورت جنسی کشش کی بناء پر ساز وسامان کی تشہیر کا ذریعہ بن جائے گی، انتظارگاہوں میں دل بہلاوا ہوجائے گی اور سیاحوں کو متوجہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گی تو معاشرے میں اس کی حیثیت ایک کھلونے یا بے قیمت مال واسباب تک گرجائے گی اور اس کی شایانِ شان انسانی اقدار فراموش ہوجائیں گی اور اس کا اعزاز وافتخار صرف اس کی جوانی، زیبائش اور نمائش تک محدود ہوکر رہ جائے گا، اس طرح سے وہ چند ناپاک فریب کار انسان نما درندوں کی سرکش ہوا وہوس پوری کرنے کے ذریعے میں بدل جائے گی۔
ایسے معاشرے میں ایک عورت اپنی اخلاقی خصوصیات، علم وآگہی اور بصیرت کے مظاہرے کیسے کرسکتی ہے اور کوئی بلند مقام کیسے حاصل کرسکتی ہے؟
واقعاً یہ بات تکلیف دہ ہے کہ مغربی اور مغرب زدہ ممالک میں عورت کا مقام کس قدر گرچکا ہے، خود ہمارے ملک ایران میں انقلاب سے پہلے یہ حالت تھی کہ نام، شہرت، دولت اور حیثیت ان چند ناپاک اور بے لگام عورتوں کے لئے تھی کہ جو ”فنکارہ“ اور آرٹسٹ کے نام سے مشہور تھیں، جہاں وہ قدم رکھتی تھی اس گندے ماحول کے ذمہ دار ان کے لئے آنکھیں بچھاتے اور انھیں خوش آمدید کہتے ۔
الله کا شکر ہے کہ ایران میں وہ بساط لپیٹ دی گئی اور عورت اپنے اس دور سے نکل آئی ہے جس میں اسے رسوا کردیا گیا تھا اور وہ فرنگی کھلونے اور بے مول ساز وسامان بن رہ کر گئی تھی، اب اس نے اپنا مقام ووقار دوبارہ حاصل کرلیا ہے اور اپنے آپ کو پردے سے ڈھانپ لیا ہے لیکن یہ نہیں کہ وہ گوشہ نشین ہوگئی ہے بکہ معاشرے کے تمام مفید اور اصلاحی کاموں میں حتّیٰ کہ میدانِ جنگ میں اسی اسلام پردے کے ساتھ خدمات انجام دی رہی ہے ۔
2. پردے کے مخالفین کے اعتراضاتبے پردگی اور بے حیائی کے خلاف قیام
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma