سراب کی طرح اعمال

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 41 - 42سوره نور / آیه 39 - 40
گزشتہ آیات میں نور الٰہی اور نور ایمان وہدایت کے بارے میں گفتگو تھی اب زیرِ نظر آیات میں کفر، جہالت، بے ایمانی، گمراہی اور منافقت کی تاریکی کے بارے میں بات کی گئی ہے، مومنین کی زندگی اور ان کے افکار تو ”نورعلیٰ نور“ تھے جبکہ منافقوں اور کافروں کا وجود ”ظُلُمَاتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ“ ہے، اب ایسے لوگوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خشک، بے آب وآگ برساتے صحراء میں پانی کے بجائے سراب کے پیچھے دوڑتے ہیں اور شدّت پیاس سے جان دیتے ہیں جبکہ مومنین کے سر پر ایمان کا سایہ ہے اور وہ ہدایت کے میٹھے اور شفاف چشمے کے کنارے راحت وآرام سے بیٹھے ہیں ۔
ارشاد ہوتا ہے: وہ لوگ کافر ہوگئے ہیں ان کے اعمال بے آب صحرا میں سراب کی طرح ہیں پیاسا آدمی اس دور سے قریب سمجھتا ہے (وَالَّذِینَ کَفَرُوا اٴَعْمَالُھُمْ کَسَرَابٍ بِقِیعَةٍ یَحْسَبُہُ الظَّمْآنُ مَاءً) ۔ لیکن جب اس کے قریب جاتا ہے تو کچھ نہیں پاتا (حَتَّی إِذَا جَائَہُ لَمْ یَجِدْہُ شَیْئًا) ۔ البتہ الله کو اپنے اعمال کے پاس پاتا ہے اور الله اس کا حساب چکا دیتا ہے (وَوَجَدَ اللهَ عِنْدَہُ فَوَفَّاہُ حِسَابَہُ) ۔ اور الله کو حساب چکاتے دیر نہیں لگتی (وَاللهُ سَرِیعُ الْحِسَابِ) ۔
”سراب“ بنیادی طور پر ”سرب“ (بروزن ”شرف“) کے مادے سے اوپر کی طرف جانے کے معنی میں ہے اور ”سرب“ (بروزن ”حرب“) اوپر جانے والے راستے کے معنی میں ہے، اسی مناسبت سے ”سراب“ بیابانوں میں دور سے نظر آنے والی چمک کو کہتے ہیں کہ جو پانی معلوم ہوتی ہے جبکہ سورج کی روشنی کے انعکاس کے سوا وہاں کچھ نہیں ہوتا(1)۔
”قیعہ“ بعض نظریے کے مطابق ”قاعہ“ کی جمع ہے اور وسیع وعریض بے آب وگیاہ زمین کے معنی میں ہے دوسرے لفظوں میں ایسے چٹیل میدان کو ”قاعہ“کہتے ہیں کہ جس میں عام طور پر سراب نظر آتا ہے ۔
لیکن بعض مفسرین اور اہلِ لغت ”قیعہ“ کو مفرد سمجھتے ہیں کہ جس کی جمع ”قیعان“ یا ”قیعات“ ہے(2).
البتہ معنی کے لحاظ سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن آیت کی مناسبت تقاضا کرتی ہے کہ یہ لفظ مفرد ہو کیونکہ لفظ ”سراب“ مفرد صورت میں آیا ہے اور ظاہر ہے اس قسم کا سراب ایک ہی بیابان میں ہوگا نہ کئی بیابانوں میں (غور کیجئے گا) ۔
اس کے بعد دوسری مثال بیان کی گئی ہے، ارشاد ہوتا ہے: یا ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک وسیع سمندر پر چھائے ہوئے اندھیرے، جیسے سمندر ہے اس پر ایک موج چھائی ہوئی ہے اور اس موج کے اوپر ایک اور موج ہے اور اس کے اوپر ایک تاریک بادل ہے (اٴَوْ کَظُلُمَاتٍ فِی بَحْرٍ لُجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِہِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِہِ سَحَابٌ) ۔ اور اندھیرے سے ایک دوسرے کے اوپر چھائے ہوئے ہیں(ظُلُمَاتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ) ۔ حالت یہ ہے کہ اگر ایسے میں کوئی شخص ہو اور وہ اپنا ہاتھ باہر نکالے تو تاریکی کا یہ عالم ہے کہ اسے ہاتھ سجھائی نہ دے گا (إِذَا اٴَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاھَا) ۔
جی ہاں! انسانوں کی زندگی میں نور حقیقی صرف نورِ ایمان ہے اور اس کے بغیر فضائے حیات تیرہ وتار ہے، لیکن یہ نور ایمان صرف الله کی طرف سے ہے اور جسے الله نور نہ بخشے اس کے لئے کوئی نور نہیں ہے (وَمَنْ لَمْ یَجْعَلْ اللهُ لَہُ نُورًا فَمَا لَہُ مِنْ نُورٍ) ۔

اس مثال کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ لفظ ”لجی“ کے معنی کی طرف توجّہ کی جائے ”لجی“ (بروزن ”کجی“) گہرے اور وسیع سمندر کے معنیٰ میں ہے یہ لفظ بنیادی طور پر ”لجاج“ کے مادہ سے کسی کام کے پیچھے پڑجانے کے معنی میں ہے (اور عام طور پر غلط کاموں کے پیچھے لگ جانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) رفتہ رفتہ لفظ سمندر کی لہروں کے ایک دوسرے کے پیچھے جانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا اور چونکہ سمندر جتنا گہرا اور وسیع ہوگا اس کی موجیں اتنی ہیں زیادہ ہوں گی لہٰذا یہ لفظ ہوتے ہوتے وسیع سمندر کے لئے استعمال ہونے لگا۔
اب آپ عمیق، گہرے اور وسیع ٹھاٹیں مارتے ہوئے سمندر کو ذہن میں رکھیں اور ہم جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی کہ جو قوی ترین روشنی ہے اس کی شعاعیں ایک حد تک پانی کے اندر جاسکتی ہیں اس کی تیز ترین شعاعیں تقریباً سات سو میٹر گہرائی میں جاکر محو ہوجاتی ہیں اور اس کے بعد گہرائیوں میں دائمی تاریکی اور شب جاوداں ہے وہاں روشنی کا بالکل گزر نہیں ۔
یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ اگر پانی بالکل صاف وشفاف ہو اور ٹھہرا ہوا تو تو روشنی کی بہتر منعکس کرسکتا ہے لیکن تلاطم خیز موجیں روشنی کی شعاعوں کو درہم برہم کردیتی ہیں اور روشنی کی بہت ہی کم مقدار پانی کی گہرائیوں میں منتقل ہوپاتی ہے اب اگر ان ٹھاٹھیں مارتی ہوئی موجوں کے اوپر سیاہ بادل بھی چاہئے ہوں تو اس سے پیدا ہونے والی تاریکی کس قدر تہ بہ تہ ہوگی(3)۔

ایک طرف پانی کی گہرائی کی تاریکی، دوسری طرف چیختی چنگھاڑتی ہوئی موجوں کی تاریکی اور تیسری طرف سیاہ بادلوں کے اندھیرے، یہ سب تہ بہ تہ ظلمتیں ہیں، واضح ہے کہ تاریکی کے ایسے عالم میں نزدیک ترین چیز بھی سجھائی نہ دے گی، یہاں تک کہ اگر انسان اپنا ہاتھ بھی اپنی آنکھوں کے پاس لے جائے تو نظر نہیں آئے گا۔
وہ کافر کہ جو نورِ ایمان سے بے بہرے ہیں ایسے شخص کی مانند ہیں کہ جو اس سے کئی گنا تاریکی میں گرفتار ہو، جبکہ ان کے برعکس روشن ضمیر ”مومنین“ ”نور علیٰ نور“ کے مصداق ہیں ۔
بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہ تین قسم کی تاریکی کہ جن میں یہ بے ایمان غوطہ زن ہیں یہ ہیں:
۱۔ غلط اعتقاد کی ظلمت
۲۔ غلط گفتار کی ظلمت اور
۳۔ غلط کردار کی ظلمت
بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ تین قسم کی ظلمتیں ان کی جہالت کے تین مرحلے ہیں:
۱۔ یہ کہ وہ نہیں جانتے
۲۔ یہ کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ نہیں جانتے
۳۔ یہ کہ اس کے باوجود سمجھتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں ۔
اور اسی کو جہل مرکب کئی گنا جہالت کہتے ہیں ۔
بعض دوسروں نے کہا کہ معرفت کے بنیادی عامل دل، آنکھ اور کان ہیں (دل سے یہاں مراد عقل ہے) جیسا کہ سورہٴ نحل کی آیہ۷۸ میں ہے:
<وَاللهُ اٴَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ اٴُمَّھَاتِکُمْ لَاتَعْلَمُونَ شَیْئًا وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَالْاٴَفْئِدَةَ
الله نے تمھیں ماوٴں کے پیٹوں سے ایسی حالت میں پیدا کیا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور پھر تمھیں کان، آنکھیں اور دل دیئے ۔
لیکن کافر دل کا نور بھی گنوا بیٹھے اور سماعت وبصارت کی روشنی بھی اور تاریکیوں میں غوطہ زن ہیں(4) ۔
واضح ہے کہ یہ تینوں تفسیریں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اور ہوسکتا ہے آیت کے مقصود میں سب ہی شامل ہوں، بہرحال زیر بحث دو آیات کے مضمون سے آخرکار ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پہلے بے ایمان افراد کے اعمال کو جھوٹی روشنی سے دی گئی ہے کہ جو خشک اور آگ برساتے بیابان میں ایک سراب کی حیثیت رکھتی ہے، سراب کہ جو نہ صرف تشنہ لبوں کی پیاس نہیں بجھا سکتا بلکہ اس کے پیچھے زیادہ دوڑنے کے باعث شدّت پیاس میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے ۔
یہ جھوتی روشنی اور بے ایمان منافقین کے نظر فریب اعمال کی باطنی حیثیت کو بیان کیا گیا ہے ان کا باطن ایسا ہولناک ہے کہ وہاں تمام انسانی ہواس معطل ہوکر رہ جاتے ہیں ۔
اور گرد وپیش کے قریب ترین چیزیں بھی اس میں پنہاں ہوجاتی ہیں یہاں تک کہ آدمی اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ سکتا چہ جائیکہ دوسروں کو دیکھے، واضح ہے کہ ایسی ہول انگیز تاریکی میں آدمی بالکل تنہا ہوکر رہ جاتا ہے اور مکمل جہالت وبے خبری میں ڈوب جاتا ہے نہ راستہ سجھائی دیتا ہے اور نہ کوئی ہم سفر دکھائی دیتا ہے نہ اسے اپنی جگہ نظر آتی ہے اور نہ یہاں سے نکلنے کا کوئی وسیلہ اس کے پاس ہوتا ہے کیونکہ اس نے منبع نور یعنی الله سے روشنی حاصل نہیں کی اور خود پرستی وجہالت کے پردوں میں جاپڑا ہے ۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ نور تمام زیبائیوں، رنگوں، زندگی اور حرکت کا سرچشمہ ہے جبکہ اس کے برعکس برائیوں موت اور خاموشی کا منبع ہے، وحشت ونفرت کا مرکز تاریکی ہے سرد مہری اور افسردگی ظلمت کے ساتھ ہیں جو لوگ نور ایمان کھوکر کفر کی ظلمت میں ڈوب جاتے ان کی یہی حالت ہوتی ہے ۔
1۔ آج کے ماہرین طبیعات کہتے ہیں کہ جب ہوا گرم ہوجاتی ہے تو زمین سے ملحق ہوا کا طبقہ شدّت گرمی کی وجہ سے بہت پھیل جاتا ہے اور اپنے ملحق حصّے سے جدا ہوجاتا ہے، روشنی کی لہریں بھی اس میں ٹوٹ جاتی ہیں اور سراب روشنی کی لہروں کے اسی ٹوٹ جانے کا نام ہے ۔
2 ۔ تفسیر مجمع البیان، تفسیر روح المعانی، تفسیر قرطبی، تفسیر فخر رازی اور مفردات راغب کی طرف رجوع کریں ۔
3۔ جیسا کہ ’ لسان العرب“ میں آیا ہے ”سحاب“ بارش والے بادل کے معنی میں ہے اور برسنے والے بادل عام طور پر تہ بہ تہ ہوتے ہیں لہٰذا زیادہ سیاہ ہوتے ہیں ۔
4۔ تفسیر فخر الدین رازی، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔
سوره نور / آیه 41 - 42سوره نور / آیه 39 - 40
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma