2۔ عادلانہ فیصلہ صرف خدا کا ہوتا ہے ۔

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
سوره نور / آیه 51 - 54۱۔ نفاق کی بیماری
اس میں شک نہیں کہ انسان کو اپنے آپ کو محبّت ونفرت، خود خواہی اور ذاتی اغراض سے الگ کرنا چاہیے جو لاشعوری طور پر ان امور کے زیرِ اثر آجاتا ہے، سوائے اس کے وہ معصوم ہو اور پروردگار کی طرف سے محفوظ ہو، اسی بناء پر ہم کہتے ہیں کہ حقیقی قانون گزار صرف خدا ہی ہے، کیونکہ وہ اپنے بے پایاں علم کی وجہ سے انسان کی تمام ضروریات کو بھی جانتا ہے اور ان ضروریات کو پوار کرنے کاراستہ بھی جانتا ہے، خود اس کی اپنی کوئی احتیاجات بھی نہیں اور محبت ونفرت کی بناء پر وہ کبھی انحراف اور کجی کا شکار نہیں ہوتا، لہٰذا عادلانہ ترین فیصلہ خدا، نبی اور امام معصوم ہی کا ہوسکتا ہے اور ان کے بعد ایسے افراد کا کہ جو ان کی راہ پر چلتے ہیں اور ان سے شباہت رکھتے ہیں، لیکن یہ خود غرض انسان ایسے عادلانہ فیصلے کا متمنی ہوتا ہے کہ جو اس کی خواہش اور حرص کو زیادہ سے پورا کرے، ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ:
”اٴُوْلٰئِکَ ھُمْ الظَّالِمُونَ“
”حقیقی ظالم یہی لوگ ہیں“۔
نیز حقیقی عادلانہ فیصلے ہر انسان کے معیار ایمان کی بھی کسوٹی ہوتی ہیں ۔
یہ بات جاذبِ نظر ہے کہ قرآن ایک مقام پر کہتا ہے کہ اے رسول! حقیقی مومنین نہ صرف تیرے فیصلے پر سرتسلیم خم کرتے ہیں، بلکہ دل میں تیرے فیصلوں پر بوجھ اور ناراحتی محسوس نہیں کرتے، اگرچہ ظاہراً ان کے نقصان میں ہوں، ارشاد الٰہی ہے:
<فَلَاوَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُونَ حَتَّی یُحَکِّمُوکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوا فِی اٴَنفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیمًا
”تیرے رب کی قسم! کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے جھگڑوں میں تجھے قاضی اور فیصل قرار نہ دے، نیز تیرے فیصلے کے ضروری ہے کہ اپنے دل میں کوئی بوجھ اور ناراحتی محسوس نہ کرے اور ظاہر وبطان میں حق کے سامنے تسلیم خم کرے“۔
لیکن وہ لوگ کہ جو الله اور رسول کا حکم اس صورت میں مانتے ہیں کہ جب ان کا فائدہ ہو، حقیقت میں وہ مشرک ہیں کہ جو اپنے مفادات کے بندے ہیں، اگرچہ وہ ایمان کا دم بھرتے ہوں اور مومنین کی صفوں میں اٹھتے بیٹھتے ہوں ۔
سوره نور / آیه 51 - 54۱۔ نفاق کی بیماری
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma