والدین کے کمرے میں آنے کے آداب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 14
۱۔ اجازت لینے کا فلسفہسوره نور / آیه 58 - 60
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ اس سورہ میں سب سے زیادہ روز عفت وپاکدامنی پر دیا گیا ہے اور ہر قسم کی بدکاری اور بے حیائی سے روکا گیا ہے، اس موضوع پر مختلف حوالوں اور پہلووٴں سے بات کی گئی ہے، زیرِ بحث آیات کا بھی عنوان گفتگو یہی ہے، ان آیات میں میاں بیوی کے خصوصی کمرے یا خلوت گاہ میں بالغ اور نابالغ بچوں کے داخلے کے آداب بیان کئے گئے ہیں ۔
پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو! جو تمھارے مملوک (اور غلام) ہیں اور اسی طرح تمھارے وہ بچے جو ابھی حدّ بلوغ کو نہیں پہنچے انھیں چاہیے کہ تین اوقات میں تم سے اجازت لیا کریں (یَااٴَیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا لِیَسْتَاٴْذِنْکُمْ الَّذِینَ مَلَکَتْ اٴَیْمَانُکُمْ وَالَّذِینَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ) ۔
نماز فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جبکہ تم اپنا لباس اتار دیتے ہو اور نماز عشاء کے بعد (مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِینَ تَضَعُونَ ثِیَابَکُمْ مِنَ الظَّھِیرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ) ۔
”ظھیرة“ جیسا کہ راغب مفردات میں اور فیروز آبادی نے قاموس میں کہا ہے، دوپہر اور حدودِ ظہر کے معنیٰ میں ہے جس وقت عموماً لوگ اپنے اوپر والے لباس اتار دیتے ہیں اور بعض اوقات میا ں بیوی آپس میں خلوت کرتے ہیں ۔
یہ تین اوقات تمھارے لئے پردے کے اور خصوصیت کے اوقات ہیں (ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَکُمْ) ۔
”عورة“ بعض اوقات دیوار یا لباس وغیرہ کے سوراخ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور کبھی مطلق عیب کے معنیٰ ہیں ۔
بہرحال ان تین اوقات پر اس لفظ کا اطلاق اس لئے ہوا کہ لوگ ان اوقات میں اپنے آپ کو چھپانے کا باقی اوقات کی طرح اہتمام نہیں کرتے اور ایک خاص حالت میں ہوتے ہیں ۔
واضح ہے یہ حکم بچوں کے سرپرستوں کے لئے ہے کہ وہ انھیں ایسا کرنے کے لئے کہیں کیونکہ وہ ابھی بالغ ہی نہیں ہوئے لہٰذا ان پر شرعی اور الٰہی ذمہ داریاں ابھی عائد نہیں ہوتیں لہٰذا یہاں ان کے والدین اور سرپرستوں سے خطاب ہے ۔
ضمناً واضح رہے کہ آیت کا اطلاق لڑکوں اور لڑکیوں دونوں پر ہوتا ہے، آیت میں جمع مذکّر کا صیغہ ”الذین“ آیت کے مفہوم کی عمومیت میں مانع نہیں ہے کیونکہ بہت سے مواقع پر تغلیب کی وجہ سے یہ لفظ سب کے لئے یکساں بولا جاتا ہے جیسا کہ وجوبِ روزہ والی آیت میں ”الذین“ استعمال ہوا ہے جس سے سب مسلمان مراد ہیں(سورہٴ بقرہ/۸۳) ۔
اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آیت ان بچوں کے بارے میں بات کررہی ہے جو حدّتمیز کو پہنچ گئے ہوں اور جنسی امور اور شرمگاہ کے بارے میں کچھ سوجھ بوجھ رکھتے ہوں کیونکہ اجازت لینے کا حکم خود اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس قدر سمجھتے ہیں کہ اجازت لینے کے کیا معنی ہیں اور ”ثلاث عورات“ کی تعبیر بھی اس مفہوم کے لئے ایک شاہد ہے ۔
اب ہم مملوک اور غلاموں کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ کیا یہ حکم ان میں سے مردوں کے لئے مخصوص ہے یا کنیزوں کے لئے بھی ہے؟ اس سلسلے میں مختلف روایات وارد ہوئی ہیں، آیت کا ظاہری مفہوم تو عام ہے اور اس میں دونوں شامل ہیں لہٰذا ہم ان روایات کو ترجیح دے سکتے ہیں کہ جو ظاہر آیت سے مطابقت رکھتی ہیں ۔
آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: تم پر اور ان پر کوئی گناہ نہیں کہ ان اوقات کے بعد اجازت لئے بغیر آئیں، ایک دوسرے کی خدمت کریں اور (خلوص ومحبّت کے ساتھ) ایک دوسرے کے پاس جمع ہوں (لَیْسَ عَلَیْکُمْ وَلَاعَلَیْھِمْ جُنَاحٌ بَعْدَھُنَّ طَوَّافُونَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلیٰ بَعْضٍ) ۔
جی ہاں! الله اسی طرح اپنی آیتیں تمھارے لئے بیان کرتا ہے اور خدا علیم وحکیم ہے (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ الْآیَاتِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ) ۔
لفظ ”طوافون“ اصل میں ”طواف“ کے مادے سے ہے جس کا معنیٰ ہے کسی چیز کا گردش کرنا، یہاں لفظ چونکہ مبالغے کے صیغے میں آیا ہے اس لئے اس میں کثرت سے گردش کرنا مفہوم پایا جاتا ہے، اس کے بعد ”بَعْضُکُمْ عَلیٰ بَعْضٍ“ آیا ہے اس کی طرف توجہ کرتے ہوئے عبارت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان تین اوقات کے علاوہ تمھیں اجازت ہے کہ ایک دوسرے کے گرد پھرو، آوٴ، جاوٴ اور ایک دوسرے کی خدمت بجالاوٴ۔
”کنزالعمال“ میں فاضل مقداد کے بقول یہ تعبیر در حقیقت باقی اوقات میں اجازت لینے کی دلیل بیان کررہی ہے کیونکہ اگر ہر وقت آنا جانا ہو اور ہر وقت اجازت لینے کا مسئلہ درپیش ہو تو معاملہ بہت مشکل ہوجائے(1)۔
اگلی آیت میں بالغوں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جب تمھارے بچے بالغ ہوجائیں تو ہر وقت اجازت لیا کریں جیسے کہ ان سے بڑے لوگ اجازت لیا کرتے تھے (وَإِذَا بَلَغَ الْاٴَطْفَالُ مِنْکُمْ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاٴْذِنُوا کَمَا اسْتَاٴْذَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ) ۔
لفظ ”حلم“ بروزن ”کُتُب“) عقل کے معنیٰ میں آیا ہے اور بلوغ کے لئے کنایہ ہے کیونکہ بلوغت کے ساتھ عموماً انسان کو عقلی اور فکری تحرّک بھی ملتا ہے، بعض نے کہا ہے کہ ”حلم“ خواب دیکھنے کے معنیٰ میں ہے اور چونکہ نوجوان بالغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے خواب دیکھتے ہیں کہ جوان کے احتلام کا سبب بنتے ہیں لہٰذا یہ لفظ کنائے کے طور پر بلوغ کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ۔
بہرحال اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بالغوں کا حکم نابالغوں سے مختلف ہے کیونکہ گزشتہ آیت کے مطابق نابالغ بچوں کے ذمہ صرف تین اوقات میں اجازت لینا ہے کیونکہ ان کی زندگی اور بودو باش ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان کا ماں باپ کے پاس بہت آنا جانا ہوتا ہے اگر ہر وقت وہ اجازت لیں تو مشکل ہوجائے، علاوہ ازیں ان کے جنسی احساسات ابھی پوری طرح بیدار بھی نہیں ہوئے ہوتے لیکن اس سے بعد والی آیت میں بالغ بچوں کے لئے مطلق طور پر اجازت لینا قرار گیا ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ ہر حالت میں ماں باپ کے پاس جاتے وقت اجازت لیں ۔
یہ حکم اس جگہ اور کمرے کے لئے مخصوص نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ آرام کررہے ہوں ورنہ عمومی کمرے میں جہاں دوسرے لوگ بھی ہوں اور کوئی رکاوٹ یا ممانعت بھی نہ ہو، اجازت لینا ضروری نہیں ۔
اس نکتے کا بھی ذکر ضروری ہے کہ ”کَمَا اسْتَاٴْذَنَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ“ کا جملہ ان بڑے افراد کی طرف اشارہ ہے کہ جو ہر وقت ماں باپ کے پاس ان کے کمرے میں جاتے ہوئے اجازت لینے کے ذمہ دار ہیں، اس آیت میں جو ابھی نئے سن بلوغ میں داخل ہوئے انھیں ان بڑوں کی طرح اجازت لینے کا حکم دیا جارہا ہے ۔
آیت کے آخر میں بطور تاکید اور میزد توجہ دلانے کے لئے فرمایا گیا ہے: اس طرح الله تمھارے لئے اپنی آیتیں واضح کرتا ہے اور الله علیم وحکیم ہے ( کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ آیَاتِہِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ) ۔

یہ تقریباً وہی جملہ ہے جو گزشتہ آیت کے آخر میں بھی آیا ہے فرق یہ ہے کہ وہاں ”الآیات“ تھا اور اس میں ”آیاتہ“ آیا ہے کہ معنیٰ کے لحاظ سے جس میں کوئی خاص فرق نہیں ۔
اس حکم کی خصوصیات اور اس کے فلسفے کے بارے میں ہم ”چند اہم نکات“ کے ذیل میں بات کریں گے ۔
زیرِ بحث آخری آیت میں عورتوں کے لئے پردے کے حکم میں ایک استثناء بیان کیا گیا ہے عمر رسیدہ بوڑھی عورتوں کو اس حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جو عورتیں جوانی گزار بیٹھی ہیں اور شادی کی امیدوار نہیں ان کے لئے کوئی گناہ نہیں اگر چادر اتار رکھیں جبکہ لوگوں کے سامنے خود آرائی نہ کریں (وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللاَّتِی لَایَرْجُونَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اٴَنْ یَضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِینَةٍ) ۔
اس استثناء کے لئے درحقیقت دوشرطیں ہیں:
پہلی یہ کہ وہ اس عمر کو پہنچ جائیں گے اب شادی بیان کی امید اور آرزو نہ رکھتی ہوں، دوسرے لفظوں میں ان کے جنسی جذبات بالکل ختم ہوچکے ہوں ۔
دوسرا یہ کہ پردہ اٹھا رکھنے کے بعد بناوٴ سنگھار نہ کریں ۔
واضح رہے کہ ان دوشرطوں کی موجودگی میں اگر پردہ نہ ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں اسی لئے اسلام نے ایسی خواتین کے لئے یہ گنجائش رکھی ہے ۔
یہ نکتہ بھی واضح ہے کہ یہاں مراد یہ نہیں کہ انھیں عریاں ہونے کی اجازت مل گئی ہے اور وہ سارا لباس اتار سکتی ہیں بلکہ صرف اوپر کا لباس مراد ہے جسے بعض روایات میں برقعے، چادر اور دوپٹّے سے تعبیر کیا گیا ہے، روایت کے الفاظ میں:
”الجلباب والخمار“
”یعنی چادر اور دوپٹّہ“۔
ایک حدیث میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے اما صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
”الخمار والجلباب، قلت بین یدی من کان؟ قال: بین یدی من کان غیر متبرجة بزینة“.
”راوی کہتا ہے: میں نے پوچھا جس شخص کے سامنے بھی ہو؟ فرمایا: جس کسی کے سامنے بھی ہو البتہ خودنمائی اور یناوٴسنگھار نہ کرے“(2) .
اس مضمون کی اور اس سے ملتی جلتی متعدد روایات ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے مروی ہیں (3) ۔
آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: اس سب کے باوجود اگر پاکدامنی اختیار کریں اور پردہ سے کیسے رہیں تو ان کے لئے زیادہ بہتر ہے (وَاٴَنْ یَسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَھُنَّ) ۔ کیونکہ عورت جس قدر بھی عفّت وحجاب کو ملحوظ رکھے اسلام کی نظر میں اسی قدر پسندیدہ ہے اور تقویٰ سے اسی قدر قریب ہے ۔
ممکن ہے بعض سن رسیدہ عورتیں اس سوچی سمجھی اور جائز آزادی سے غلط فائدہ اٹھائیں اور بعض اوقات مردوں سے غیر مناسب باتوں میں مشغول ہوجائیں یا طرفین کے دل میں گندے خیالات پیدا ہوں لہٰذا آیت کے آخر میں خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اور الله سننے والا اور جاننے والا ہے (وَاللهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ) ۔ جو کچھ تم کہتے ہو وہ سنتا ہے اور جو کچھ تمھارے دل میں یا دماغ میں ہے اسے جانتا ہے ۔
1۔ کنز العمال، ج۲، ص۲۲۵.
2۔ وسائل الشیعہ، ج۱۴،کتاب النکاح، ص۱۴۷، باب۱۱۰.
3۔ روایات کے تفصیلی مطالعے کے لئے وسائل الشیعہ کے محررہ بالا باب کی طرف رجوع کریں ۔
۱۔ اجازت لینے کا فلسفہسوره نور / آیه 58 - 60
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma