۲۔ لقمان کی حکمت کا ایک نمونہ

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
سوره لقمان / آیه 16 - 19۱۔ لقمان کون تھے ؟
بعض مفسیرین نے یہان لقمان کے پندو نصائح کے سلسلہ میں جو سورہ کی آیتوں میں بیان کی گئی میں اس مرد خدا کی حکمت آمیز باتوں کا ایک حصہ بیان کی گئی ہے کہ ہم اس کا خلاصہ یہاں پر پیش کرتے ہیں ۔
الف۔لقان اپنے بیٹے سے اس طرح کہتے ہیں ۔
”یا بنیّ ! ان الدنیا بحر عمیق، وقد ھلک فیھا عالم کثیر، فاجعل سفینتک فیھا الایمان بالله، واجعل شراعھا التوکل علی الله، واجعل زاودک تقوی الله، فان نجوت قبرحمة الله وان ھلکت فبذنوبک!“
بیٹا! دنیا ایک گھر اور عمیق سمندر ہے جس میں بہت سی مخلوقات غرق ہوچکی ہیں لہٰذا اس سمندر میں تمھارا سفینہ خدا پر ایمان ہونا چاہیے جس دن کا بادبان خدا پر توکل، جس کا زادراہ خدا کا تقویٰ اور پرہیزگاری ہو اگر تم نے اس سمندر سے نجات پالی تو سمجھ لو کہ رحمت خدا کی برکتوں سے ہے اور اگر ہلاک ہوگئے تو جانو کہ اپنے گناہوں کی بدولت ہے۔(۱)
یہی مطلب کتاب کافی میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے ارشادات کے ضمن ہشام بن حکم سے زیاہ مکمل صورت میں لقمان حکیم سے نقل ہوا ہے فرمایا :
(یا بنی ان الدنیا نحر عمیق، قدغرق فیھا عالم کثیر، فلتکن سفینتک فیھا تقوی اللّٰہ، وحشوھا الایمان وشراعھا التوکل، وقیمھا العقل، ودلیلھا العلم وسکانھا الصبر) بیٹا! دنیا ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے جس میں بہت بڑی دنیا غرق ہو چکی ہے اس سمندر میں تمھاری کشتی خدا کا تقویٰ ہونا اور زادوتوشہ ، ایمان ، اس کا بادبان توکل، نا خدا عقل اور راہنما علم اور اس کے ساکن صبر و شکیبائی ہیں ۔(۲)
ب) ایک اور گفتگو میں اپنے بیٹے سے مسافرت کے آداب میں کہتے ہیں :
بیٹا !جب تم سفر کرو اپنے ساتھ اسلحہ، لباس ، خیمہ اور پانی اور سینے پرونے کے مسائل اور ضروری دورائیاں کہ جس سے تم خود اور تمھارے ساتھی استفادہ کر سکیں لے لیا کرو ۔اور اپنے ہم سفر لو گو ں کے ساتھ خدا کی نا فرمانی کے سوا باقی تمام امور میں ہاتھ ٹبایا کردو۔
بیٹا ! کسی گروہ کے ساتھ سفر کرو تو اپنے کاموں میں ان سے مشہورہ کرلیا کرو ، اور ان سے خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آیا کرو ۔

جوز اد ر اہ تمھارے پاس ہے، اس میں سے سخاوت کیا کرو۔
تمھارے ساتھی جب بھی تمھیں بلائیں تو فورا ان کو جواب دیا کرو۔
اگر تمھاری امداد کے طالب ہوں تو ان کی مدد بھی کیا کرو۔
جتنا ہوسکے سکوت اختیار کرو۔
نماز زیادہ سے زیادہ پڑھا کرو ۔
سواری اور آب و غذا کہ جو تمھارے پاس ہو، اس میں سخاوت سے کام لیا کرو ۔
اگر تم سے حق کی گواہی طلب کریں تو گواہی دے دیا کرو۔
اگر مشورہ چاہیں تو صحیح اورصائب نظر یہ کو حاصل کرنے کی کوشش کوو۔
اچھّی طرح غوروفکر اور سوچ بچارکے بغیر جواب نہ دیا کرو۔ اور اپنی ساری فکری قوتوں کو مشورے کے جواب کے لیے استعمال کیا کرو۔ کیونکہ جو شخص مشورہ طلب کرنے والوں کو اپنے خالص ترین نظریہ سے نہ نواز ے تو خدا تشخیص اور سوچ بچار کی نعمت اس سے چھین لیتا ہے۔
جب دیکھو کہ تمھارے ساتھی ایک راستے پر چل رہے ہیں اور سعی وکوشش میں مصروف ہیں تو تم بھی کوشش میں لگ جاؤ۔ اپنے سے بڑوں کا کہنا مانو۔
اگر تم سے کوئی شخص جائز اور شرعی تقاضا کرتا ہے تو ہمیشہ اس کا مثبت جواب دیا کرو اور کبھی بھی ”نہ“ مت کہو، کیونکہ نہ کہنا عجزوتوانائی کی نشانی اور ملامت کا سبب ہے....
کبھی بھی نماز کو اول وقت سے تاخیر کے ساتھ نہ پڑھا کرو، اور اپنے اس قرضے کو فوراً ادا کیا کرو ۔
جماعت کے ساتھ نماز پڑھا کرو خواہ تم سخت ترین حالات میں ہو۔
جس غذا کو کھانا چاہتے ہو کھانے سے پہلے امکانی صورت میں اس سے کچھ مقدار راہ خدا میں دیا کرو ۔
کتاب خدا کی تلاوت کیا کرو یا خدا سے غافل نہ ہوجاؤ ۔(۳)
ج۔یہ داستان بھی لقمان کے بارے میں مشہورہے۔ جس زمانے میں وہ غلام تھے اور آقا کے لیے کام کررہے تھے ایک دن آقا نے ان سے کہا کہ ایک گو سفند کو میرے لیے ذبح کرو اس کے اعضاء میں سے دوبہترین عضومیرے لیے لے آؤ چنانچہ انھوں نے گوسفند کو ذبح کیا اور اس کی زبان اور دل اس کے لیے لے آئے چنددن کے بعد ایک اور گوسفند کے ذبح کرنے کا حکم دیا لیکن کہا اس کے برترین عضو میرے لیے لے آؤ تو لقمان نے پھر گوسفند کو ذبح کیا اور وہی زبان اور دل اس کے لیے لے گئے اس نے تعجب کیا اور اس ماجرے کے بارے میں سوال کیا تو لقمان نے جواب میں کہا دل اور زبان اگر پاک رہیں تو وہ ہر چیز سے بہتر ہیں اور اگر ناپاک ہوجائیں تو ہر چیز سے خبیث تر ہیں ۔(۴)
آخرمیں ہم اس گفتگو کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث پر ختم کرتے ہیں آپ(علیهم السلام) نے فرمایا:
خداکی قسم وہ حکمت جو لقمان کو خدا کی طرف سے عنایت ہوئی تھی ان کے نسب ، مال وجمال اور جسم کی بناپر نہ بھی ۔ بلکہ ایسے مرد تھے جو حکم خدا کی انجام دہی میں قوی اور طاقتورتھے ، گناہ اور شبہات سے اجتناب کیا کرتے تھے ، ساکت اور خاموش رہتے تھے ، خوب غوروخوض کے ساتھ دیکھا کر تے تھے ، بہت زیادہ سوچاکرتے تھے ۔ تیزبین اور دن (کے اول حصےّ) میں کبھی نہیں سوتے تھے اور مجالس میں (مستکبرین کی طرح) تکیہ نہیں لگاتے تھے ۔ اور آداب کو پورے طور پر مدنظر رکھتے تھے۔ لعاب دہن نہیں پھینکتے تھے۔ کسی چیز سے نہیں کھیلتے تھے ۔ اور کبھی بھی غیر مناسب حالت میں انھیں نہیں دیکھا گیا ....... جب بھی دوآدمیوں کو لڑتا جھگڑتا دیکھتے ان کے درمیان صلح کردایتے اگر کسی سے کوئی اچھی بات سنتے تو ضروراس کا حوالہ ، ماخذاور تفسیروتشریح اس سے پوچھتے ۔ فقہاء اور علماء کے ساتھ زیادہ تر نشست وبرخاست رکھتے....... ایسے علوم کی طرف جاتے جن کے ذیعہ ہوا ئے نفس پر غالب آسکیں ، اپنے نفس کا علاج قوت فکر ونظر، سوچ بچار اور عبرت سے کرتے اور صرف ایسے کام کی طرف جاتے جو اس کے (دین یا دنیا کے) لیے سود مند ہوتا ۔ جو اموران سے متعلق نہیں ہوتے تھے ان میں ہر گز دخل اندازی نہ کرتے ۔ اس بنا پر خدا نے انھیں حکمت ودانائی عطا فرمائی ۔(۵)
۱۔مجتمع البیان اسی آیت کے ضمن میں
۲۔ اصول کافی جلد اول ص۱۳ (کتاب العقل والجہل) .
۳۔ گزشتہ حوالہ
۴۔ تفسیر ”بیضاوی“ و ”ثعلبی“ لیکن تفسیر مجمع البیان نے لقمان کی گفتگو کا صرف پہلا حصّہ نقل کیا ہے
۵۔ مجمع البیان، (خلاصہ کے ساتھ)
سوره لقمان / آیه 16 - 19۱۔ لقمان کون تھے ؟
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma