پروردگار کے دس صفات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 17
سوره لقمان / آیه 31 - 32سوره لقمان / آیه 25 - 30

اوپر والی چھ آیت میں خدا کی صفات کا ایک مجمو عہ بیان ہوا ہے جو حقیقت میں دس اچھے صفات یا اسماء حسنیٰ میں سے دس اسماء کو بیان کرتا ہے، غنی، حمید، عزیز، حکیم، سمیع، بسیر، خبیر، حق، علی اور کبیر۔
یہ تو ہوا ایک لحاظ سے، رہادوسراپہلو تو پہلی آیت میں خدا کی ”خالقیت“ کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے اور دوسری آیت میں اس کی”مالکیّت عامہ“ سے، تیسری آیت میں اس کے بے انتہا”علم“ سے اور چوتھی وپانچوں آیت میں اس کی غیرتناہی قدرت سے۔
اور آخری آیت میں نتیجہ اخذکرتا ہے۔ جو ذات ان صفات کی حامل ہے، وہ ”حق“ ہے اور جواس کے علاوہ ہے، وہ باطل ناچیزاور حقیر ہے۔
اس اجمالی بحث کو مدِنظر رکھتے ہُوئے ہم آیت کی تشریح کی طرف لوٹتے ہیں۔
پہلے فرماتا ہے۔ ”اگران سے سوال کرو کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو خلق کیا ہے تو یقینا وہ جواب دیں گے کہ ”اللہ“ نے: (وَلَئِنْ سَاٴَلْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضَ لَیَقُولُنَّ الله) ۔
یہ تعبیر جو دوسری قرآنی آیات میں بھی نظر آتی ہے(جیسے سورئہ عنکبوت آیت ۶۱۔تا۶۳۔سورئہ زمرآیہ ۳۸۔ سورئہ زخرف آیات ۹) جہاں ایک طرف اس امر کی دیل ہے کہ مشرک لوگ خالق کی توحید کے ہرگز منکر نہیں تھے۔ اور بتوں کی خالقیت کے قائل بھی نہیں ہو سکتے تھے۔ صرف عبادت میں شرک اور بتوں کی شفاعث کا رکھتے تھے۔
وہاں دوسری طرف توحید کے فطری ہونے اور تمام انسانوں کی فطرت میں نورِالٰہی کی تجلیّ کی دلیل بھی ہے۔
اس کے بعد کہتا ہے۔ اب جبکہ وہ خالق کی توحید کے معترف ہیں ”توکہہ دے کہ حمدوستائش اللہ کے ساتھ مخصوص ہے“
جو ہر چیز کا خالق ہے نہ کہ بتوں کے ساتھ جوخود مخلوق ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر نہیں جانتے اور وہ نہیں سمجھتے کہ عبادت کو خالق عالم کے لیے مخصرہونا چاہیے:(قُلْ الْحَمْدُ لِلّٰہِ بَلْ اٴَکْثَرُھُمْ لَایَعْلَمُونَ) ۔
اس کے بعد حق تعالیٰ کی ”مالکیّت کے ثبوت کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ فرماتا ہے”خدا کے لیے ہے تمام وہ کچھ جو آسمانوں اور زمین میں ہے:“ (لِلّٰہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ) ۔
واضح رہے کہ وہ ذات جو ”خالق“ اور ”مالک“ ہے وہی امور جہاں کی مدبرّ بھی ہے اور اس طرح سے توحید اپنی تینوں قسموں (تو حیدِ خالقیّت، توحیدِ مالکیّت اور توحیدِ ربوبیّت) سمیت ثابت ہو جائے گی۔
اور جو ذات ان صفات کی حامل ہے، وہ ہر چیز سے بے نیاز اور ہر قسم کی ستائش کے لائق ہو گی، اسی بناء پر آیت کے آخر میں مرید کہتا ہے۔ ”خدا غنی وحمید ہے:“ (إِنَّ اللهَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِید) ۔
وہ غنی مطلق اور ہر لحاظ سے حمید ہے ۔کیونکہ جو نعمت وعطا و بخشش جہان میں ہے ، اسی کی طرف ٹوتی ہے اور ہر شخص جو کچھ رکھتاہے اس کی طرف سے ہے اور تمام اچھائیوں کے خزانے اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔اور یہی اس کے غنا اور تونگری کی زندہ دلیل ہے ۔
اور چونکہ ”ھم“ کا معنی کسی اچھے کام کی تعریف دستائش ہے ، جو ارادہ واختار کے ساتھ کسی سے انجام پاتا ہے اور اس عالم میں جو اچھائیوں اور نیکی ہمیں نظر آتی ہے وہ چونکہ پروردگار عالم کی طرف سے ہوتی ہے ۔لہٰذا ہر قسم کی تعریف اور ستائش بھی اسی کے لیے ہی ہوگی۔ یہاں تک کہ اگر ہم پھول کی زیبائی اور خوبصورتی کی تعریف کرتے ہیں یا ملکوتی عشق کی کشش کی تو صیف کرتے ہیں یا کسی ایثار وقربانی کرنے والے شخص کے کام کن عظمت کو قدرکی نکاہوں سے دیکھتے میں تو در حقیقت اسی کی ہی ستائش وتعریف کررہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ زبیائی ہو یاوہ قوت جاذبہ اور عظمت سب کچھ اُسی کی طرف سے ہے پس وہی ” حمیدعلی الا طلاق“ ہے۔
بعد والی آیت خدا کے غیرمتناہی اور بے پایاں علم کی تصویر کشی کرتی ہے۔ جو ایک بہت ہی واضح اور روسن مثال کے ساتھ مجسم ہو تی ہے۔ لیکن پہلے اس نکتے کا ذکر نا ضروری معلوم ہو تا ہے۔ جیسے علی بن ابراہیم کی تفسیر کے مطالق ”یہودیوں کے ایک گروہ نے جس وقت مسئلہ رُوح کے بارے میں پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے سوال کیا اور قرآن نے ان کے جواب میں کہا (قل الروح من امرربی وما او تیتم من العلم الّا قلیلا) ”رُوح میرے پرور دگار کا امر اور حکم ہے اور علم سے تمھارا حصّہ بہت ہی تھوڑا ہے“۔ تو یہ گفتگو ان پر گراں گزری اور پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے پوچھاکہ یہ حکم صرف ہمارے بارے میں ہے ؟ فرمایا نہیں بلکہ سب کو شامل ہے (یہاں تک کہ ہمیں بھی) ۔
لیکن انھوں نے مزید کہا: اے محمد! آپ بھی علم کا تھوڑا سا حِصّہ رکھتے ہیں۔ حالا نکہ آپ کو قرآن عطا ہوا ہے اور ہمیں بھی تورات دی گئی ہے۔ آپ کے قرآن میں آیا ہے ”جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر دی گئی ہے“۔ یہ باتیں ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتیں تو اس مقام پر (وَلَوْ اٴَنَّمَا فِی الْاٴَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اٴَقْلَام) (زیربحث) آیت نازل ہوئی اور واضح کیا کہ انسان کا علم جتنا بھی وسیع ہو، خدا کے علم کے مقابلہ میں ایک بے مقدار ذرہ سے زیادہ نہیں، جو کچھ تمھارے نزدیک بہت زیادہ ہے، وہ خدا کے ہاں بہت ہی کم ہے۔ (۱)
اس طرح ایک اور وایت ایک دوسرے طریق سے ہم نے سورئہ کہف کی آیت ۱۰۹ کے ذیل میں بیان کی ہے۔ بہر حال قرآن مجید خدا کے غیرمتناہی علم کی تصویرکشی کرتے ہوئے، اس طرح کہتا ہے: ”جتنے کچھ رُوئے زمین پر درخت ہیں، قلم ہو جائیں اور سمندر اس کے لیے سیاہی بن جائیں اور سات سمندروں کا اس پر اضافہ ہو جائے تا کہ وہ علم خدا کو لکھیں۔ یہ سب ختم ہو جائیں گے لیکن کلماتِ خدا ختم نہیں ہوں گے۔ خدا وندعالم عزیزوحکیم ہے۔ “ (وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ اٴَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ) .

”یمدّ“ ”مداء “ کے مادہ سے سیاہی یاکوئی دوسرا ر نگین مادہ ہو تاہے، جس کے ساتھ لکھتے ہیں اور اصل ”مد“ سے جو کشش کے معنی میں ہے لیا گیا ہے، کیونکہ خطوط قلم کی کشش کے ذریعہ کا غذ کے صفحہ پر ظاہر ہو تے ہیں۔
بعض مفسرین نے اس کے لیے ایک اور معنی نقل کیا ہے اور وہ تیل ہے جو چراغ میں ڈالتے ہیں، اور وہ چراغ کی روشنی کا سبب بنتا ہے اور دونوں معنی حقیقت میں تایک ہی اصل کی طرف لوٹتے ہیں۔ ”کلمات“ جمع ہے ”کلمہ“ کی اور اصل میں اُن الفاظ کے معنی میں، ہے جن کے ساتھ انسان بات کرتا ہے اور پھر وہ اس سے زیادہ وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے اور وہ ہر چیز ہے، جو کسی مطلب کو بیان کر سکے اور چونکہ اس جہان کی گونا گوں مخلوقات میں سے ہر چیز خدا کی پاک ذات اور اس کے علم وقدرت کی بیان کر تی ہے۔ لہٰذا ہر موجود کو ”کلمةاللہ“ کہا جاتا ہے، خصوصاً صاحبانِ شرافت وعظمت موجودات کے بارے میںیہ تعبیر استعمال ہوئی ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سورئہ نساء کی آیت ۱۷۱ میں ہم پڑھتے ہیں: (انّما المسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللّٰہ وکلمتہ) (اور اس جیسا معنی سُورہ آلِ عمران کی آیت ۴۵ میں آیا ہے) ۔
اس کے بعد اسی مناسبت سے ”کلمة اللہ“ پر وردگارِ عالم کے علم ودانش کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔
اب ہمیں ٹھیک طرح سے غور وفکر کرنا چاہئیے کہ ایک انسان کی تمام معلومات کو معرض تحریر میں لانے کے لیے کبھی تو ایک قلم سیاہی کی کچھ مقدار کے ساتھ کافی ہو رہتا ہے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اُسی ایک قلم سے دوسرے انسان بھی اپنی معلومات کے مجموعہ کوکا غذکے صفحہ پر لے آئیں۔ لیکن قرآن کہتا ہے۔ اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں۔ ظاہر ہے کہ بسا ادقات ایک تنوع مند درخت کے تنوں اور شاخوں سے ہزاروں بلکہ لاکھوں قلم وجود میں آسکتے ہیں، رُوئے زمین کے تمام عظیم درختوں اور جنگلوں کی تعداد کو مدّ رکھتے ہو ئے کہ جن سے کائنات کے پہاڑ، دشت اور صحرا اٹے پڑے ہیں ۔پھر ان سے تیار ہونے والے قلم اور اسی طرح اگر رُوئے زمین کے تمام سمندر سیاہی بن جائیں ، جو تقریباً کرہ ارض کے تین چوتھائی حصہ پر محیط عمیق اور گہرے ہیں ۔ تو لکھنے کے لیے اس وقت کس قدر عجیب وغریب کیفیت رونماہو گی اور علم ودانش کی کتنی مقدار کو لکھا جاسکے گا: مخصوصا اس وقت ا ن کے ساتھ دوسرے سمندروں کا بھی اضافہ کردیا جائے کہ جن میں سے ہر ایک سمندروئے زمین کے تمام سمندروں کے برابر ہو اور خاص کر جب اس مرا کو مدّ نظر رکھا جائے کہ یہاں پر سات کا عدد شمار کے معنی میں نہیں، بلکہ کثرت اور زیادتی کے معنی میں ہے اور بے شمار سمندروں کی طرف اشارہ کرتاہے ۔تو ایسی صورت میں واضح ہو جاتاہے کہ علم الٰہی کی وسعت کس قدر عظیم اور نا پید کنارہ ہے اور پھر یہ کہ یہ سب تو ختم ہو سکتے ہیں۔ لیکن اس کے علوم پھر بھی ختم ہو نے میں نہیں آئیں گے۔
کیا کسی لامتناہی کے لیے اسی سے زیادہ خوبصورت انداز میں تصویرکشی کی جاسکتی ہے؟ ہر عدداس قدر داضح اور ناطق ہے کہ اس کے ساتھ انسانی فکر کی لہریں بے کراں اور لا محدُود آفاق کی طرف پر واز کر جاتی ہیں اور خود انسان کو حیرت واستعجاب کے سمندر میں ڈبودیتی ہیں۔
اس واضح ترین بیان کی طرف توجہ کرنے سے انسان محسوس کرتا ہے کہ خدا ئی علم کے سامنے تو اس کی معلومات ایسی ہیں جیسے کسی لامتناہی کے سامنے ایک صفرکی ہوتی ہے اور اس مقام پر پہنچ کراسے زیب دیتا ہے کہ کہے ”میرا علم ودانش وہاں تک جاپہنچا ہے کہ میں نے اپنی نادانی کو پالیا ہے“ یہاں تک کہ اس واقعیت کو بیان کرنے کے لیے قطرہ اور سمندر کی تشبیہ بھی ناکافی نظر آتی ہے۔
منجملہ لطیف نکات کے جو آیت میں نظر آتے ہیں، ایک یہ بھی ہے کہ لفظ ”شجرة“ مفرد کی شکل میں اور ”اقلام“ جمع کی صورت میں آیاہے تاکہ قلموں کی تعداد کی فراوانی کو بیان کرے۔جو ایک درخت کے تنوں اور شاخوں سے وجو د میں آتے ہیں۔
اور نیز ”البحر“ کی تعبیر مفرد کی صورت میں اور اس پر ”الف ولام جنس“اس لیے ہے کہ یہ روئے زمین کے تمام سمندروں کو شامل ہے۔ خصوصاً اس لیے کہ تمام دُنیا کے سمندر آپس میں مربوط ومتصل ہیں اور واقع ہیں ۔ایک ہی وسیع وعریض سمندر کے حکم میں ہیں ۔
اور مزید اربات یہ ہے کہ ”قلموں “کے بارے میں اضافی اور کمک کرنے اور مدد کرنے والے قلموں کی بات نہیں کی ۔بلکہ سمندروں کے بارے میں سات دوسرے سمندروں کی گفتگو درمیان آئی ہے ۔وہ اس لیے کہ لکھتے وقت قلم کا مصرف کم اور سیاہی کا مصرف زیاہ ہو تا ہے ۔
لفظ ”سبع “(سات) کا انتخاب لغت عرب میں تعداد کی کثرت اور زیادتی کرنے کے لیے ہے اور یہ شاید اس لحاظ سے ہے کہ گزشتہ زمانہ میں لوگ منظومہ شمسی کے کروں کی تعداد کا عددسات سمجھتے تھے۔ (اور حقیقت میں موجودہ زمانہ میں بھی آلات لگائے بغیر مہٴ شمسی میں جو کچھ نظر آتے ہیں وہ سات کروں سے زیادہ نہیں) اور پھر یہ کہ ”ہفتہ“ سات دنوں کی ایک کامل سیٹ سے زیادہ نہیں ہے اور تمام کرّئہ ارض کو بھی سات حصّوں میں تقسیم کرتے تھے۔ اور اس کانام سات ”اقلیم“ رکھا ہوا تھا۔ ان باتوں سے واضح ہو جاتا ہے کہ اکائیوں میں سے سات کا عددایک کامل عدد کے عنوان سے اور تعداد کی کثرت بیا ن کرنے کے لیے کیوں استعمال ہواہے، ؟(۲)
پروردگار کے غیر متناہی علم کے ذکر کے بعد اس کی بے انتہا قدرت کی بات درمیان میں لاتے ہوئے فرماتا ہے۔ تم سب کی خلقت وآفرینش نیز موت کے بعد تم سب کا اُٹھنا ایک فرد کی مثال سے زیادہ نہیں ہے۔ ”خدا سننے اور دیکھنے والا ہے:“ (مَا خَلْقُکُمْ وَلَابَعْثُکُمْ إِلاَّ کَنَفْسٍ وَاحِدَةٍ إِنَّ اللهَ سَمِیعٌ بَصِیرٌ) ۔
بعض مفسرین نے کہاہے کہ کفار قریش کی ایک جماعت مسئلہ معاد پر تعجّب کرتی اور اسے بعید سمجھتی تھی اور کہتی تھی کہ خدا نے ہمیں مختلف شکلوں میں پیدا کیا ہے اور گونا گوں مرا حل کے اندر، ایک دن ہم نطفہ تھے، پھر علقہ ہوئے ۔ اس کے بعد لوتھڑا بنے اور پھر تدریجی طور پر مختلف صورتوں میں اس دُنیا میں آئے تو کس طرح ہم سب کو خدا ایک ہی لمحہ میں نئی خلقت دے گا؟ تو زیرِ بحث آیت نازل ہوئی اور اس کا جواب دیا۔
در حقیقت وہ اس نکتہ سے غافل تھے کہ ”سخت“ و”آسان“ اور ”چھوٹے“ اور ”بڑے“ جیسے لفظوں کے مفہوم ہمارے جیسی موجودات کے لیے ہیں جو محددو قدرت رکھتی ہے۔ لیکن حق تعالیٰ کی غیر متناہی قدرت کے سامنے میں برابر ہیں۔ خلقت خواہ ایک شخص کی ہویاکئی اشخاص کی، ایک موجودکی خلقت ایک لمحہ میں ہویا سالہا سال کے دوران میں، اس کی بارگاہ قدرت میں سب ایک جیسا ہے۔
اگر کفار کا تعجب اس بناء پر ہے کہ یہ مختلف طبعتییں، گوناگوں شکلیں اور انواع واقسام کی شخصیتیں اور وہ بھی انسان کے خاک اور مٹی ہو جانے اور خاک کے منتشرہو جانے اور ایک دوسرے سے مل جانے کے بعد کس طرح ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوںاور چیز اپنی جگہ کی طرف لوٹ آئے؟ تو اس کا جواب خدا کا غیر متناہی علم اور لازوال قدرت دیتی ہے۔

اس نے موجوداتِ عالم کے درمیان روابط کچھ اس طرح بر قرار کیے ہیں کہ ایک اکائی مثل ایک مجموعہ کے، اور ایک مجموعہ مثل ایک اکائی کے ہے۔
اصولی طور پر اس جہان کا باہمی اتّصال وارتباط کچھ اس طرح ہے کہ کثرت ایک آن میں وحدت کی صورت اختیار کر سکتی ہے اور تمام انسانوں کی خلقت بھی اسی طرح اس اصول اور فارمولے کے تابع ہے، جس طرح ایک انسان کی خلقت۔
اور اگران کا تعجب زمانہ کے لحاظ سے ہے کہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ مراحل جو انسان حالتِ نطفہ سے لے کر جوانی کے دورتک کئی برسوں میں طے کرتا ہے، مختصرسے لمحات میں طے کرے؟ تو اس کا جواب بھی پروردگار کی قدرت دیتی ہے۔ جہاں تک ہم جاندارکی دنیا میں انسانی بچوں کو دیکھتے ہیں کہ انھیں ایک طویل مدّت گزارناچاہیے تا کہ وہ چلنا پھرنا اچھی طرح سیکھ سکیں یاہر نوع غذاسے استفادہ کر سکیں۔ اس کے بر عکس جب پرندوں کے بچّوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنا سرانڈے سے باہر نکالتے ہی اور پیداہوتے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں اور چلنے پھرنے لگتے ہیں بلکہ غذاکھانے میں وہ اپنی ماں کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ یہ امور نشان دہی کرتے ہیں کہ اس قسم کے مسائل کی خدا کے سامنے کوئی اہمیّت نہیں۔
اس آیت کے آخر میں خدا کے ”سمیع وبصیر“ ہو نے کا ذکرہے ممکن ہے کہ یہ مشرکین کی طرف سے ہو نے والے ایک اور اعتراض کا جواب ہو اور وہ اس طرح، کہ چلومان لیا کہ تمام انسان اپنی گو نا گوں اور مختلف تخلیقی خصوصیات کے باوجودایک وقت مقررہ پر اپنی قبروں سے باہر آجائیںگے، لیکن اُن کے اعمال اور اقوال کا کس طرح محاسبہ کیا جائے گا جووجود میں آنے کے بعد فورًا نیست ونابود ہوجاتے ہیں؟
تو قرآن جواب دیتا ہے کہ خدا سننے اور دیکھنے والاہے اُس نے ان کی تمام باتیں سُنی ہیں اور اُن کے تمام اعمال دیکھے ہیں (علاوہ ازیں اس جہان میں مطلق فنا اور نابودی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے بلکہ ان کے اعمال واقوال ہمیشہ موجودرہتے ہیں)
اس سے قطع نظر اُوپر والا جُملہ ان لوگوں کے لیے تنبیہ ہے جو حیلوں بہانوں سے کام لیتے ہیں کہ یاد رکھو یہ جو تم تمام لوگوں کے افکار کو مسموم کررہے ہو، خدا تمھاری اس زہریلی گفتگو سے بے خبر نہیں ہے۔ حتی کہ جو کچھ تم دل میں رکھے ہوُئے ہواور زبان پر نہیں لاتے، خدا اس سے بھی آگاہ ہے۔
بعد وال آیت تاکید اور خدا کی وسیع قدرت کے لیے ایک اور بیان ہے۔ روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ”کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ خدا رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے:“ (اٴَلَمْ تَریٰ اٴَنَّ اللهَ یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَیُولِجُ النَّھَارَ فِی اللَّیْل) ۔
نیز کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ”خدانے سُورج اور چاند کو انسانوں کے لیے مسخر کیا ہے:“ (وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَر) ۔
”اور ان میں سے ہر ایک مقررہ مدّت تک اپنی حرکت کو جاری رکھے ہوئے ہے: “ (کُلٌّ یَجْرِی إِلَی اٴَجَلٍ مُسَمًّی) ۔
”اور یہ کہ خدا اس سے کہ جوتم انجام دیتے ہو آگاہ ہے: “ (وَاٴَنَّ اللهَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ) ۔
”ولوج“” اصل ‘ ‘ ”دخول“ کے معنی میں ہے۔ اور رات کا دن میں داخل ہونا اور دن رات میں، ہو سکتا ہے کہ تدریجی اضافہ اور سال بھر میں رات دن کے کم اور زیادہ ہونے کی طرف اشارہ ہو۔ کہ تدریجاً ایک میں کمی اور دوسرے میں غیر محسوس شکل میں اضافہ ہو تا ہے تا کہ چاروں موسم اپنی خصوصات اور بابرکت آثار کے ساتھ ظاہرہوں۔ (صرف رُوئے زمین کے دوخطّے ایسے ہیں کہ جن میں نہ تو یہ تدریجی تبدیل ہو تی ہے اور نہ ہی چار موسم) ایک تو قطبِ شمالی ہے اور دوسرا اقطبِ جنوبی، جہاں سارے سال میں چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن ہو تا ہے اور دوسرا باریک خطِ استوار ہے، جہاں سال بھر میں رات دن یکساں ہو تے ہیں) اور یا اس طرف اشارہ ہے کہ زمینی فضا میں رات کا دن میں اور دن کا رات میں تبدیل ہو نا ناگہانی شکل میں صورت پذیر نہیں ہوتا تاکہ انسان اور زندہ موجودات کو مختلف خطرات کا سامنانہ کرنا پڑے۔ بلکہ سوُرج کی شعاعیں طولِ فجرکے وقت پہلے تاریکی کی گہرائیوں میں داخل ہو تی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہیں یہاں تک کہ تمام آسمان کو گھیرلیتی ہیں۔ دن کے اختیار اور رات کے آغاز کے بالکل بر عکس۔
یہ تدریجی اور مکمّل منظم سوچا سمجھا انتقال، قدرت خدا کے مظاہر میں سے ہے۔
البتہ ان دونوں تفاسیر کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے، ہوسکتا ہے دونوں مل کرہی آیت کامعنی دے رہی ہوں۔
انسانوں کے لیے ”شمس“ و”قمر“ اور باقی آسمانی کرّات کی تسخیر کے بارے میں ، جیساکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں، مرادانسان کی خدمت کی راہ میں تسخیر ہوا اور دوسرے لفظوں میں ” سخرلکم“میں ”لام“ ”لام نفع“ ہے، نہ کہ”لام اختصاص“ اور یہ تعبیر قرآن میں سُورج، وچاند، ورات ، دن ، نہروں اور دریاؤں اور کشتیوں کے بارے میں آئی ہے اور یہ سب انسانی شخصیت کی اور خدا کی نعمتوں کی دسعت کو بیان کرتی ہیں کہ زمین وآسمان کے تمام موجودات حکم خدا کے آگے سر جھکائے فرمانبرداری میں مصروف ہیں جب صورت حال یہ ہو تو پھر انصاف سے بعید ہوگا کہ انسان خدا کا فرمانبردار نہ ہو۔ (۳)
(کلّ یجری الیٰ اجل مسمیّ) کا جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ یہ جچاتُلا حساب شدہ اور منظم نظام ابدتک جاری وساری نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی دن اسے ختم ہونا چاہیے اور اس کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔ وہی کچھ ہوگا جو ”سورئہ تکریر“ میں کہا گیا ہے:
<”اذا الشمس کوِّرت واذا النّجوم انکدرت
”جس وقت سورج بے نور ہو جائے گا اور ستاہ اور تاریک ہو جائیں گے“
۱۔ (انّ اللّٰہ بما تعملون خبیر) ہماری مندرجہ بالا گفتار کو پیش نظررکھتے ہوئے اس جملہ پر غور کیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ اس کا اسی بحث کے ساتھ کیسا تعلق ہے ۔کیونکہ وہ خداجی نے باعظمت سورج اور چاند کو اس منظم حساب وکتاب کے ساتھ چلا یاہوا ہے اور رات دن کو مخصوص نظم وضبط کے ساتھ لاکھوں کروڑوں سال ایک وسرے میں وارد کرتا آرہاہے ، اس سے کس طرح ممکن ہے کہ وہ انسانوں کے اعمال سے بے خبر جائے؟ہاں!وہ ان کے اعمال کو بھی جانتا ہے ہے اور ان کی نیات و افکار اور تصورات کوبھی ۔
آیت کے آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے نتیجے کے طور پر فرماتاہے ”یہ اموراس اس چیز کی دلیل ہیں کہ خداحق ہے اور اس کے علاوہ جنھیں وہ لوگ پکارتے ہیں، باطل ہیں اور خدا بلند مقام اور بزرگ مرتبہ والاہے“ (ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ ھُوَ الْحَقُّ وَاٴَنَّ مَا یَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ الْبَاطِلُ وَاٴَنَّ اللهَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیرُ) ۔(4)
گزشتہ آیات میں خداوندِعالم کی خالقیت، مالکیّت اور غیر متناہی علم وقدرت کے بارے میں بحث سے ثابت ہوگیاہے کہ ”حق“ صرف وہی ہے اور اس کے علاوہ سب زائل، باطل، محدوداور حاجت مندونیازمند ہے۔ اور ”علی وکبیر“ کہ جوہر چیز سے برتراور توصیف وتعریف سے بالاترہے، وہ اسی کی پاک ذات ہے. شاعر کے بقول ۔
الاکل شیء ماخلا اللّٰہ باطل وکل نعیم لا محالة زائل
”آگاہ رہو کہ خدا کے علاوہ جو کچھ ہے وہ باطل ہے اور ہر نعمت آخر کار زوال پذیرہے“
اس بات کو فلسفی تعبیر میں یوں بیان کیا جاسکتاہے:
حق اصلی اور پائیدار وجود کی طرف اشارہ ہے اور اس جہان میں وہ وجود حقیقی جو قائم بالذّات اور ثابت، بر قرار اور جاودانی ہو وہ صرف وہی ہے اور باقی جو کچھ بھی ہے بالذات کوئی وجود نہیں رکھتا اور عین بطلان ہے کہ جو اپنی ہستی کو اس وجودِ حق سے وابستگی کی بناء پر ظاہر کرتا ہے اور جس لمحہ وہ اپنی نظرلطف ان سے اٹھالے تو وہ فناونیستی کی تاریکیوںمیں مٹ کر ناپید ہو جائیں ۔ تواس طرح دوسرے موجودات کا ارتباط حق تعالیٰ کے وجود کے ساتھ جس قدر زیادہ ہوگا، اسی نسبت سے وہ زیادہ حقانیّت کسب کریں گے۔
بہر حال جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ آیت خدا کی برجستہ صفات میں سے دس صفات کا مجموعہ اور اس کے اسماء حسنیٰ میں سے دس نام ہیں اور ہر قسم کے شرک کی نفی اور تمام مراحل عبودیت میں توحید کے لزوم پر دلائل پر مشمتل ہیں۔
۱۔ تفسیر برہان، ج۳، ص۲۷۹.
۲۔ ”پروردگار کے لامتناہی علم “کے سلسلے میں جلد ۱۲ اور سورہٴ کہف کی آیت ۱۰۹ میں ہم نے گفتگو کی ہے۔
۳۔انسان کے لیے سورج چاند اور دوسرے موجودات کی تسخیر کے بارے میں جلد نمبر ۱۰ سورہ رعد کی آیہ ۲ کے ذیل میں (صفحہ۱۴) اور سورہٴ ابراہیم کی آیہ ۳۲ (صفحہ۲۸۳) میں ہم نے تفصیلی بحث کی ہے (اور ترجمہ)
۴۔ با ”بان اللّٰہ ہو الحق“ میں اگرچہ بادی النظر میں ”باء سببیت“ نظر آتی ہے اوشاید اسی بناء پر بعض مفسرین نے (جیسے آلوسی نے روح المعانی میں) اس آیت کے مضمون کو گذشتہ مطلب کا سبب قرار دیا ہے، لیکن آیات کا سیاق اور گذشتہ صفات کا ذکر یعنی خالقیت ومالکیت وعلم وقدرت اور عالم خلقت میں اس کی نشانیاں بظاہر یہ ہے کہ وہ سب اس کے نتیجہ کے گواہ تھے۔ اس بناء پر آیت کا مضمون گذشتہ آیات کا نتیجہ ہے نہ کہ سبب۔
سوره لقمان / آیه 31 - 32سوره لقمان / آیه 25 - 30
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma