علماء تیری دعوت کو حق سمجھتے ہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
چند اہم نکاتسوره سبأ / آیه 6 - 9

گزشتہ آیات میں ایسے جاہل دل کے اندھوں کے بارے میں گفتگو تھی ، کہ جو ان تمام دلائل کے باوجود ، قطعی طور پر معاد کاانکار کرتے تھے ، اور آیاتِ الہٰی کوجھٹلا نے او ر دوسروں کوگمراہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے ۔
اسی مناسبت سے زیر بحث آیات میں ان علماء اورصاحبان فکرو نظر کے بارے میں گفتگو کرنا ہے ، کہ جو آیات ِ الہٰی کی تصدیق اور دوسروں کو انہیں قبول کرنے کا شوق دلاتے ہیں ، فرماتا ہے :
” وہ لوگ کہ جو علم رکھتے ہیں ، وہ تواس کو ، کہ جو تیرے پروردگار کی طرف سے نازل ہُوا ہے حق سمجھتے ہیں اوررعزیز وحمید پرور دگار کے راستہ کی طرف ہدایت کرنے و الا جانتے ہیں “ ( وَ یَرَی الَّذینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ الَّذی اٴُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ہُوَ الْحَقَّ وَ یَہْدی إِلی صِراطِ الْعَزیزِ الْحَمیدِ) ۔
بعض مفسرین نے ” الَّذینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ “ کی اس آیت میں علماٴ اہل کتا ب کے اس گروہ کے ساتھ تفسیر کی ہے کہ جو قرآن مجید کی حقانیت کے آثار کامشاہدہ کرتے ہوئے اس کی بارگا ہ میں سرتسلیم خم کردیتے ہیں اوراس کے حق ہونے کااعتراف کرلیتے ہیں ۔
اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اس آیت کے مصادیق میں سے ایک مصداق اہل کتاب بھی ہوں ، لیکن صرف انہیں کے لیے محدود کردینے پرکوئی دلیل نہیں ہے ، بلکہ ” بری “ کے جملہ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ( وہ دیکھتے ہیں ) جو فعل مضارع ہے ، اور ، ” الذین او تواالعلم “ کے مفہوم کی وسعت کودیکھتے ہیں ہوئے ہرعصر و زمانہ اورہر مکان کے تمام علماء اورصاحبان ِ فکر و نظر ،اس میں شامل ہیں ۔
اور اگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ تفسیر علی بن ابراہیم میں یہ تعبیر امیر الموٴ منین علی علیہ السلام سے تفسیر ہوئی ہے تو حقیقت میں یہ اس کے اتم واکمل مصداق کابیان ہے ۔
ہاں ! جوبھی غیر متعصب عالم ، اس کتاب کے مطالب و مضامین میں غور فکر کرے گا ، تووہ اس کے پر مغز معارف بختہ احکام ، حکیمانہ نصیحتوں اور ہلا دینے ولے مواعظ سے لے رک اس کے عبرت انگیز تاریخی واقعات اور اعجاز آمیز علمی مباحث تک ( دیکھ کر ) یہ جان لے گا کہ یہ سب کے سب ان آیات کی حقا نیت پرگواہ ہیں ۔
موجودہ زمانہ میں مغربی اور مشرقی علماء اور دانشمندوں کی طرف سے اسلام اور قرآن کے بارے میں مختلف کتابیں لکھی گئی ہیں کہ جن میں اسلام کی عظمت اور اوپر والی آیت کی صداقت پر بہت ہی بلیغ واضح اورروشن اعتراضات نظر آتے ہیں ۔
” ھواالحق “ کی تعبیرایک جامع تعبیر ہے کہ جو قرآن کے تمام مطالب و مشمولات و مضامین پر منطبق ہوتی ہے ، چونکہ ” حق “ واقعیت عینی اوراس کے وجود ِ خارجی کانام ہے ، یعنی قرآن کے مطالب ، عالم ِ ہستی اورجہان ِ انسانیت کی آفرینش کے قوانین اور واقعیتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ۔
اور چونکہ یہ ایسا ہے لہذا راہِ خدا کی طرف ہدایت کرتا ہے ، ایسا خداکہ جو ”عزیز “ بھی ہے اور ” حمید “ بھی یعنی توانائی او ر شکست ناپذیر ہونے کے ساتھ ساتھ ہرقسم کی تعریف و ستائش کے لائق ہے ، نوع ِبشر کے صاحبان اقتدار کی طرح نہیں کہ وہ جس وقت اقتدار اورطاقت کے تحت پر بیٹھتے ہیں تو وہ دھونس ، زبر دستی ، تجاوز ، ستم گری اورخو د خواہی اورخود غرضی کی راہ اختیار کرلیتے ہیں ۔
اس تعبیر کی نظیر سورہٴ ابراہیم آ یہ ۱ میں بھی ہوئی ہے ، جہاں پروہ کہتا ہے :
”کِتابٌ اٴَنْزَلْناہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَی النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلی صِراطِ الْعَزیزِ الْحَمیدِ “”وہ کتاب ہے کہ جو ہم نے تم پر اس لیے نازل کی ہے تاکہ لوگوں کوان کے پرودگار کے حکم سے (گمراہی کی ) تاریکیوں سے ( علم و ایمان کی ) روشنی کی طرح خدائے عزیز وحمید کے راستہ پرنکال لے جاؤ “
یہ بات صاف طور پر ظاہر ہے کہ جوہستی صاحبِ قدرت بھی ہے اورلائق حمد وستائش بھی ، عالم و آگاہ بھی ہے اوررحیم ومہر بان بھی،صرف اس کا راستہ مطمئن ترین راستہ اورمستقیم ترین طریقہ ہے ، اور جولوگ اس کے راستہ پر چلتے ہیں تووہ خود کوسر چشمہ قدر ت اور ہرقسم کے اوصافِ حمیدہ سے قریب اور نزدیک کرلیتے ہیں ۔
بعدوالی آیت میں دوبارہ قیامت اورمعاد کے مسئلہ کی طرف پلٹتا ہے اور گزشتہ بحثوں کی ایک دوسری شکل میں تکمیل کرتے ہو ئے فرماتا ہے : ” کافروں نے کہا ، کیا ہم تمہیں ایسا آدمی دکھائیں کہ جو اس بات کی خبر دیتاہے کہ جس وقت سب کے سب مٹی ہوجاؤگے اور تمہارے بدن کے ذرات ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے اور پرذرہ کسی گوشہ میںٹھکانا بنالے گا ( یا شاید کسی حیوان یاکسی دوسرے انسان کے بدن کاجزو ہوجائے گا ) تو تم دو بارہ ایک نئی خلقت و آفرینش میں پلٹ آؤ گے ( وَ قالَ الَّذینَ کَفَرُوا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفی خَلْقٍ جَدیدٍ ) ۔
ایسا معلوم ہوتاہے کہ مسئلہ معاد پر ان کے انکار کے اصرار کی دوباتیں تھیں ، پہلی بات یہ تھی کہ وہ یہ گمان کرتے تھے کہ وہ معاد کہ جسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بیان کررہے ہیں ( معاد جسمانی ) ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کو آسانی کے ساتھ رد کیاجاسکتا ہے اورجس کے بارے میں وہ عامتہ الناس کوبد ظن کرسکتے ہیں اورآسانی کے ساتھ اس کی نفی کرسکتے ہیں ۔
دوسری بات یہ تھی کہ معاد کا اعتقاد یا احتمالی طو ر پر اسے قبول کرلینا ، بہر حال انسان میں مسئو لیت اور ذمہ دار ی پیداکرتاہے اوراسے حق کی سوچ اورجستجو کے لیے آمادہ کرتاہے اور یہ ایک ایسامطلب تھاکہ جو کفر کے سرغنوں کے لیے سخت خطرناک شمار ہو تا تھا ، لہذا انہیں اس بات پراصرار تھاکہ جس طرح بھی ہو سکے معاد کی فکر اور اعمال کے بدلے میں جزایا سز اکا خیال لوگوں کے دماغ سے باہر نکال دیں ۔
وہ کہتے تھے کہ ، کیا یہ بات ممکن ہے کہ یہ بوسیدہ ہڈیاں ، یہ بکھر ہی ہوئی مٹی کہ جس کے ذرات کوتیز ہواؤں کے جھکڑ ہر طرف لے جاتے ہیں ،ایک دن جمع ہو کرا سے زندگی کالباس پہنادیں گے ؟
اور یا یہ کہ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”رجل “ کے ساتھ تعبیر کرتے تھے ، وہ بھی نکرہ کی صورت میں ، تو یہ تحقیر کی بناء پر تھا ۔
لیکن انہوں نے اس حقیقت کوبھلادیاتھا کہ ہم ابتداء میں بھی تو پراگندہ اجزا ء ہی تھے ، ہمارے بدن میں موجود پانی کاہرقطرہ کسی سمندر یاچشمہ کے کسی گوشہ میں تھا اورہمارے جسم کے آبی اور معدنی مادہ کاہرذرہ زمین کے کسی کونے میں پڑا ہوا تھا ، تو جس طرح ابتداء میں خدانے انہیں جمع کیاتھا ، اسی طرح آخرمیں بھی وہ اس امر پرقدرت رکھتاہے ۔
تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ اسی بات کو اس کے کہنے والے کی در وغ گوئی یاجنون کی دلیل قرار دیتے تھے اوروہ یہ کہتے تھے : ” کیااس نے خدا پرجھوٹ بہتان باندھا ہے ، یااسے کسی قسم کاجنون ہے “ ( اٴَفْتَری عَلَی اللَّہِ کَذِباً اٴَمْ بِہِ جِنَّةٌ ) ۔
ورنہ ایک سچے اورعقلمند انسان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ اس قسم کی بات کرے ؟ !
لیکن قرآن قطعی اوردوٹوک طریقہ سے انہیں اس طرح جواب دیتاہے : ” یہ بات نہیں ہے ، نہ تو وہ دیوانہ ہے اورنہ ہی جھوٹا ، بلکہ وہ لوگ کہ جوآخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ عذاب اورانتہائی گمراہی میں ہیں “ ( بَلِ الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِی الْعَذابِ وَ الضَّلالِ الْبَعیدِ) ۔
اس سے زیادہ واضح اورآشکا ر گمراہی اورکیا ہوگی ، کہ انسان معاد کامنکر ہوجائے ، وہ معاد کہ جس کانمونہ وہ ہرسال اپنی آنکھوں کے سامنے ،عالم طبیعت میں اور مردہ زمینوں کے زندہ ہونے میں ، دیکھتے ہیں ۔
وہ معاد کہ اگر وہ نہ ہوتو اس جہان کی زندگی بغیر کسی مفہوم اور مطلب کے ہے ۔
اور بالآ خر وہ معاد کہ جس کاانکار کرنا ، پرور دگار کی قدرت ، عدل وحکمت کے انکار کرنے کے برابر ہے ۔
لیکن وہ یہ کیوں کہتاہے کہ وہ اسی وقت عذاب و گمراہی میں ہیں ؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی ، دنیا کی عمر کے انہیں چند دنوں میںمحدود ہوتی تو موت کا تصور ہی ہرشخص کے لیے ایک وحشتنا ک عذاب بن جاتا ، اسی وجہ سے منکرین ِ معاد ہمیشہ ایک قسم کی جانکاہ پریشان اور درد ناک عذاب کی حالت میں زندگی بسرکتے ہیں ، جبکہ معاد پر ایمان رکھنے والے کوموت کوعالمِ بقا کے لیے ایک دریچہ اورقفس ِ دنیا کے ٹوٹنے اور اس قید خانے سے آزاد ہونے کاایک وسیلہ اورذریعہ سمجھتے ہیں ۔
ہاں ! معاد پر ایما ن ، انسان کوآرام وسکون بخشتا ہے ، مشکلات کو قابل ِ برداشت بناتا ہے اور ایثار وفدا کاری ا ور جانبازی کوانسان کے لیے آسان دیتاہے ۔
اصولی طور پر وہ لوگ کہ جو معاد وقیامت کودروغ گوئی یاجنون کی دلیل شمار کرتے تھے ، وہ اپنے کفر و جہالت کی وجہ سے تاریک مبنی کے عذاب اوردور دراز کی گمراہی میں گرفتار تھے ۔
اگرچہ بعض مفسرین نے اس عذابِ آخرت کی طرف اشارہ کہاہے لیکن آیت کا ظاہر اس بات کی نشا ندہی کرتا ہے کہ وہ ابھی اسی وقت اسی جہان میں عذاب و گمراہی میں مبتلا ہیں ۔
اس کے بعد معاد کے بارے میں ایک اوردلیل ...ایسی دلیل کوجو ہٹ دھرم غافلوں کوجھنجھوڑ نے والی ہے ... پیش کرتے ہوئے اس طرح کہتاہے کہ : ” کیاانہوں نے اپنے آگے اور پیچھے آسمان و زمین سے متعلق چیز وں پر نظر نہیں کی “ ؟ ( اٴَ فَلَمْ یَرَوْا إِلی ما بَیْنَ اٴَیْدیہِمْ وَ ما خَلْفَہُمْ مِنَ السَّماء ِ وَ الْاٴَرْضِ ) ۔
یہ باعظمت آسمان ، ان تمام عجائبات کے ساتھ ، ان تمام ثابت وسیار ستاروں کے ساتھ ، اوران نظاموں کے ساتھ کہ جواس پرحاکم ہیں ، اسی طرح یہ زمین ، اپنی تمام عجیب و غریب اورانواع و اقسام کے زندہ موجودات و پر کات اور اس کے مواہب کے ساتھ ، آفرید گارکی قدرت کی واضح ترین بولتی ہوئی دلیلیں ہیں ۔
وہ ہستی کوجوان تمام امور پرقدرت رکھتی ہے ، کیاوہ انسان کوموت کے بعد دو بارہ عالمِ حیات کی طرف لوٹ نے سے عاجز ہے ؟ !
یہ وہی ” برہان قدرت “ ہے کہ جس کے ساتھ قرآن کی دوسری آیات میں منکر ین معاد کے مقابلہ میں استدلال ہواہے ، منجملہ اُن کے سورہ یسٰین کے آخرآیہ ۸۲ مین اورسورہ اسرار ء آ یہ ۹۹ اورسورہ ق کی آیہ ۶ ، ۷ ، میں بھی استد لال ہواہے ۔
ضمنی طور پر جملہ ، ان متعصب دل کے اندھوں کی تہدید کے لیے ، کہ جو اس بات پرمصر ہیں کہ تمام حقائق سے آنکھیں بند کرلیں ، ایک مقدمہ اور تمہید ہے ، لہذا اس کے بعد فرماتا ہے کہ : ” اگرہم چاہیں تو زمین کویہ حکم دیں کہ وہ ان کے جسم کونگل لے “ ایک ایسا زلز لہ آئے کہ جس سے زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دفن ہوجائیں (  إِنْ نَشَاٴْ نَخْسِفْ بِہِمُ الْاٴَرْضَ ) ۔
” اور اگرہم چاہیں تو یہ حکم دے دیں کہ آسمانی پتھر وں کے ٹکڑ ے ان پر برسنے لگیں “ اورخود انہیں بھی او ر ان کے گھر بار اور ان کی زندگی کوبھی درہم برہم کردیں (اٴَوْ نُسْقِطْ عَلَیْہِمْ کِسَفاً مِنَ السَّماء ِ ) ۔
ہاں ! اس بات میں خدا کی قدرت اورہرچیز پراس کی توانائی کی واضح اور ر وشن نشانی موجود ہے ، لیکن ( یہ نشانی ) ” ہر اُس بندے کے لیے ہے کہ جو خداکی طرف رجوع کرے اور اس میں غور و فکر کرے “ ( إِنَّ فی ذلِکَ لَآیَةً لِکُلِّ عَبْدٍ مُنیبٍ ) ۔
ہرشخص نے اپنی زندگی میں زلزلوں ، زمین کے پھٹنے اوراُس میں (لوگوں ) دھنس جانے کودیکھا یاسنا ہوگا ، علاوہ ازیں فضاسے آسمان پتھر وں ( شہابوں ) کے گرنے یا بجلیوں کے گرنے یاآتش فشانیوں کے نتیجہ میں پہاڑ وں کوزیزہ زیزہ ہوتے ہوئے دیکھا یاسُنا ہے ، ہر عقلمند انسان یہ جانتا ہے کہ ان امور کاواقع ہوناہر لمحہ اورہر جگہ ممکن ہے ، اگر زمین آرام و سکون میں ہے اورآسمان ہمارے لیے امن و امان بنا ہوا ہے تو یہ کسی دوسری ہستی کی قدرت و فرمان کی وجہ سے ہے . ہم جوہر طرف سے اس کے قبضہٴ قدرت میں ہیں ، معاد کے سلسلے میں اس کی توانائی وقدرت کا کس طرح انکار کرسکتے ہیں ! یااس کی حکومت کی حدود سے کیسے فرار کرسکتے ہیں ۔
چند اہم نکاتسوره سبأ / آیه 6 - 9
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma