ایک در خشا ں مدن جو کفرانِ نعمت کی وجہ سے برباد ھو گیا

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 18
سوره سبأ / آیه 18 - 19سوره سبأ / آیه 15 - 17
خدانے داؤد وسلیمان کو جو اہم نعمتیں عطا کی تھیں ، اور ان دونوں پیغمبروں نے جس طرح سے ان کاشکر ادا کیاتھا ، ان کابیان کرنے کے بعد ، ایک اور قو م کے بارے میں کہ جو ان کے نقطہٴ مقابل میں قرار پائی تھیں گفتگو کررہا ہے ،اور شاید وہ اسی زمانہ میں ہاتھوڑا ساان کے بعد زند گی بسرکرتے تھے ، وہ بھی ایک ایسی قوم تھی کہ خدا نے انہیں انواع و اقسام کی نعمتیں عطافرمائیں تھیں ، لیکن انہوں نے کفرانِ نعمت کی راہ اختیار کر لی ، لہذا خدانے اپنی نعمتیں اُن سے سلب کرلیں ، اوروہ اس طرح سے پریشان اور در بدر ہوئے کہ ان کی زندگی کاماجراسارے جہان کے لوگوں کے لیے ایک درسِ عبرت قرار پایا ، اوروہ ” قومِ سبا “ تھی ۔
قرآن مجید نے ان کی عبرت انگیز سرگزشت پانچ آیتوں کے ضمن میںبیان کی ہے ، اور ان کی زندگی کے جزئیات وخصوصیا ت کے اہم حصہ کی طرف انہیں پانچ مختصر آیات میں اشارہ کیا ہے ۔
پہلے کہتا ہے : ” قوم ِسبا کے لیے ان کے محل سکونت میں خدائی قدرت کی ایک نشانی تھی “ (لَقَدْ کانَ لِسَبَإٍ فی مَسْکَنِہِمْ آیَةٌ ) ۔
جیساکہ ہم دیکھیں گے ، خدا کی اس بزرگ آیت کا سر چشمہ یہ تھا ، کہ قوم سبا . اس علاقے کے اطراف میں واق ع پہاڑوں کے محل وقوع اوران کے خاص حالات وشرائط ، اورا پنی خدا داد ذہانت اور ہو شمند ی سے استفادہ کرتے ہوئے . ان سیلابوں کو کہ جو سوائے ویرانی وتباہی کے کوئی تنیجہ نہ دیتے تھے ، ایک قوی اور مستحکم بند کے پیچھے روک دینے پر قادر ہوگئے تھے اوراس کے ذریعہ انہوں نے بہت ہی آبادملک تعمیر کرلیاتھا . یہ کتنی عظیم آیت ہے کہ ایک ویران اور برباد کرنے والاعامل ، عمران و آبادی کے اہم ترین عوامل میں بدل جائے ۔
اس بارے میں کہ ” سبا “ (بروزن سبد ) کس کانام ہے ؟ اور یہ کیا چیز ہے ؟ مورخین کے درمیان اختلاف ہے ،لیکن مشہوریہ ہے کہ ”سبا“ ’یمن “ کے اعراب کے باپ کانام ہے اور اس رو ایت کے مطابق کہ جو پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ، وہ ایک آدمی تھا، اوراس کا نام ” سبا “ تھا ۔
اوراس کے دس بیٹے تھے ،اور ان میںسے ہر ایک سے وہاں کے قبائل میں سے ایک قبیلہ وجود میں آیا (۱) ۔
بعض ” سبا “ کو سر زمینِ یمن یااس کے کسی علاقے کانام سمجھتے ہیں ، سورہ نمل میںسلیمان و ہُد ہُد کے قصّہ میں قرآن مجید کاظاہر بھی یہی نشا ندہی کرتاہے کہ ” سبا ٴ “ کسی جگہ ،علاقے یامقام کا نام ہے، جہاں پروہ کہتا ہے کہ ( وجئتک من سبا ٴ بنبا یقین ) ” میں سرزمینِ سباسے تیرے پاس ایک یقینی خبرلے کرآیا ہوں “ ۔(نمل ۲۲)
جبکہ زیربحث آیت کاظاہر یہ ہے کہ سبا ایک قوم تھی کہ جو اس علاقے میں رہتی تھی ، کیونکہ ضمیر جمع مذکر (ھم ) ان کی طرف لوٹ رہی ہے ۔
لیکن ان دونوں تفسیر وں میں کوئی منافات نہیں ہے ، کیونکہ ممکن ہے کہ ابتداء میں سبا کسی شخص کانام ہو ، پھر اس کے تمام بیٹے اور قوم اس نام سے موسوم ہوئے ہوں ، اوراس کے بعد یہ نام اس سر زمین کی طرف بھی منتقل ہو گیا ہو ۔
اس کے بعد قرآن اس خدائی آیت کی تشریح کرتے ہوئے کہ جو قومِ سباکے اختیار میں قرار پائی تھی ، اس طرح کہتا ہے : ” دو بڑے باغ تھے دائیں اور بائیں طرف “ (جنّتان عن یمین وشمال ) ۔
یہ ما جرااس طرح تھا کہ قومِ سبا اس عظیم بند کے ذریعہ . جو انہوں نے اس علاقہ کے اہم پہاڑوں کے درمیان بنایاتھا . اس بات پرقادر ہوگئی تھی کہ ان فراواں سیلابوں کو . جو ویرانی کاسبب بنتے تھے یاکم از کم بیابانوں میں بے کار فضول طور سے ضائع اور تلف ہوجاتے تھے . اس بند کے پیچھے ذخیرہ کرلیں ، اوراس طرح سے وسیع و عریض زمینوں کو زیر کاشت لائیں ۔
وہ اشکال جوفخر رازی نے یہاں نقل کیاہے ، کہ دو باغوں کاہونا کوئی عجیب یااہم چیز نہیں ہے ، کہ جنہیں آیت اور نشانی کے طور پر ذکر کیاجائے ، اس کے بعد اس اشکال کاجواب دیاہے ، کہ جو ہماری نظر میں ا س قابل نہیں ہے کہ اسے بیان کیاجائے ، کیونکہ وہ کوئی معمولی اور سادہ قسم کے باغ نہیں تھے ، بلکہ یہ ایک عظیم نہر کے دونوں طرف باغوں کا مسلسل اور ملا ہوا سلسلہ تھا ، جو اس عظیم سد کے ذریعہ سیراب ہوتے تھے اوروہ اتنے برکت والے تھے کہ تا ریخوں میں آیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ٹوکری اپنے سرپر رکھ کر پھلوں کی فصل میں درختوں کے نیچے سے عبورکرتا تھا تو اس قدرپھل اس میں گرتے تھے کہ تھوڑیسی دیر میں و ہ ٹوکری بھرجاتی تھی ۔
وہی سیلاب کہ جو خرابی و بر بادی کاباعث بنیں ، وہ اس طرح سے آبادی کاباعث بن جائیں ،کیا یہ عجیب بات نہیں ہے ؟ کیایہ خدا کی عظیم آیت اور نشانی شمار نہیں ہوتی ۔
ان تمام باتوں کے علاوہ اُس سرزمین پرحد سے زیادہ امن وامان سایہ فگن تھا کہ وہ خود بھی حق تعالیٰ کی ایک آیت شما ر ہوتا تھا کہ جس کی طرف قرآن بعد میں اشارہ کرے گا ۔
اس کے بعد مزید کہتاہے : ” ہم نے اُن سے کہا کہ اپنے پروردگار کی اس فراواں روزی میں سے کھاؤ اوراس کاشکر ادا کرو “ ( کُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّکُمْ وَ اشْکُرُوا لَہُ ) ۔
” ایک پاک و پاکیزہ شہرہے اور پر وردگار بخشنے والا اور مہر بان “ (بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَ رَبٌّ غَفُور) (۲) (۳)
۔
اس چھوٹے سے جملے نے تمام مادی ومعنوی نعمتوں کے مجموعہ کو زیبا ترین شکل میں منعکس کر دیاہے ، مادی نعمتوں کے لحاظ سے تووہ پاک و پاکیزہ زمین رکھتے تھے کہ جو چوروں ، ،ظالموں ، آفات و بلیات ، خشک سالی وقحط اور بدا َمنی ووحشت جیسی طرح طرح کے مصائب سے پاک تھی ، یہاں تک کہ کہا جاتاہے کہ وہ زمین موذی حشرات سے بھی پاک و پاکیزہ تھی ، پاک و پاکیزہ ہَوَا ئیں چلتی تھیں اورفرخت بخش نسیم رواں دواں تھی ، زمین زر خیز تھی اور درخت پُر بار تھے ۔
اور معنوی نعمت کے لحاظ سے خدا کی بخش وغفران ان کے شاملِ حال تھی ، وہ ان کی تقصیر و کوتاہی سے صرف نظر کرتاتھا اور انہیں مشمولِ عذاب اوران کی سزمین کوبلا ومصیبت میں گرفتار نہیں کرتا تھا ۔
لیکن ان ناشکر ے لوگوں نے ان تمام نعمتوں کی قدردانی نہیں کی اور آزمائش کی کٹھا لی سے صحیح وسالم باہر نہ آسکے . انہوں نے کفرانِ نعمت اور رو گردانی کی راہ اختیار کرلی لہٰذا خدا نے بھی ان کی سختی کے ساتھ گوشمالی کی ۔
اسی لیے بعد والی آیت میں فرماتاہے : ” وہ خدا ر و گرداں ہوگئے “ (فاعرضوا ) ۔
انہوں نے خد اکی نعمتوں کی ناقدری کی ، عمر ان وآبادی اورامن و امان کوعام سی چیز خیال کیا ، حق تعالیٰ کی یاد سے غافل ہوگئے ، نعمت میں مست ہوگئے ، مالدار لوگ ، فقراء ومساکین اور غرباء کو حقیر خیال کرتے اور خود پرناز کرتے ، اوران غریبوں کو اپنے لیے رکاوٹ خیال کرتے کہ جس کی تفصیل بعد والی آیات میں آئے گی ۔
یہ وہ موقع تھا کہ عذاب کاکوڑا ان کے پیکرپر آکر پڑا ، جیسا کہ قرآن کہتاہے : ” ہم نے بنیادوں کو اکھاڑ کرپھینک دینے والا وحشتناک سیلاب ان کے پاس بھیجا “ اوران کی آبادسر زمین ایک ویرانے میں بدل گئی (فارسلنا علیھم سیل العرم ) ۔
” عرم “ اصل میں ” عرامہ “ (بروزن علامہ ) ہے ، خشونت وسختی ،کج خلقی اورسخت گیری کے معنی میں ہے ، اور سیلاب کی اس سے توصیف کرنا اس کی شدت وخشونت اور ویران گری کی طرف اشارہ ہے ، اور سیل لعرم کی تعبیر . اصطلاح کے مطابق . موصوف کی صفت کی طرف اضافت کے قبیل سے ہے ۔
بعض نے ”عرم “ کوجنگلی چوہوں کے معنی میں لیا ہے ،کہ جو اس سد میں سوراخ کرنے کی وجہ سے اس کی ویرانی کاسبب ننے تھے ، (چوہوں کاسد میں نفوذ کرنے کا مسئلہ اگر چہ قابلِ قبول ہے ، اس طو ر سے کہ جس کی ہم بعد میں تشریح کریں گے ، لیکن آیت کی تعبیر اس معنی سے چند اں مناسبت نہیں رکھتی ) ۔
” لسان العر ب “ میں مادہ ’ ’ عرم “ کے مختلف معنی آئے ہیں ، منجملہ ان کے ، طاقت فرسا سیلاب ، وہ ر کاوٹیں جو درّوں کے درمیان پانی کو روکنے کے لیے بناتے ہیں ،اسی طرح بڑے صحرائی چو ہے (۴) ۔
لیکن سب سے زیادہ مناسبوہی پہلا معنی ہے ، اور تفسیر علی بن ابراہیم میں اسی کواختیار کیاگیاہے ۔
اس کے بعد قرآن اس سرزمین کی باقی ماندہ حالت و کیفیت کی اس طرح سے توصیف کرتاہے : ” ہم نے ان کے دووسیع اور پُر نعمت باغوں کو دو بے قدر و قیمت کڑ وے پھلوں والے ، او ر جھاؤ کے بے مصر ف درختوں اور تھوڑے سے بیری کے درختوں میں بدل دیا “ (وَ بَدَّلْناہُمْ بِجَنَّتَیْہِمْ جَنَّتَیْنِ ذَواتَیْ اٴُکُلٍ خَمْطٍ وَ اٴَثْلٍ وَ شَیْء ٍ مِنْ سِدْرٍ قَلیل) ۔
” اکل “ ہرقسم کے غذائی مادہ کے معنی میں ہے ۔
” خمط “ (بروزن عمد ) کڑوی گھاس کے معنی میں ہے ۔
” اثل “ (بروزن اصل ) جھاؤ کے درخت کے معنی میں ہے ۔
اوراس طرح سے ان تمام سرسبز وشاداب درختوں کے بجائے ،بہت ہی کم قدر وقیمت والے بیابانی اور جنگل قسم کے چند ایک درخت ، کہ شایداان میں سے سب زیادہ اہم درخت وہی بیری کے درخت تھے ، کہ وہ بھی تھوڑی سی ہی مقدار میں تھے ، باقی رہ گئے تھے ، ( اب تم اس کی اس مجمل داستان کو پڑھنے کے بعد خود ہی ان کی مفصل داستان کااندازہ لگالو ، کہ خو دا ن کے اوپر اوران کی آباد سرزمین پر کیا گزری ؟
ممکن ہے کہ ان تین قسم کے درختوں کابیان کہ جو ا س سرز مین میں باقی رہ گئے تھے ، ( درختوں کے ) تین مختلف گروہوں کی طرف اشارہ ہو ، کہ ان درختوں میں سے ایک حصہ نقصان دہ تھا ، بعض بے مصرف تھے ، اور بعض بہت ہی کم نفع دینے والے تھے ۔
بعد میں آنے والی آیت سے نتیجہ نکالتے ہوئے صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ : ” یہ ہماری طرف سے ان کے کفران نعمت کی سزا تھی “ (ذلِکَ جَزَیْناہُمْ بِما کَفَرُوا) ۔
لیکن اس غرض سے کہ کہیں یہ تصور نہ کر لیا جائے کہ یہ انجام صرف اسی گروہ کے ساتھ مخصوص تھا . بلکہ ان تمام لوگوں کے لےے کہ جو ان ہی جیسے اعمال کے مرتکب ہوں گے ، اس کی عمومیت مسلّم ہے . اس طرح اضافہ کرتاہے : ” کیاہم کفرانِ نعمت کرنے والوں کے سوا کسی اور کو اس قسم کی سز ادیتے ہیں “ ( وَ ہَلْ نُجازی إِلاَّ الْکَفُور) . یہ تھا خلاصہ سباکی سرگزشت کا ، کہ جو بعد والی آیات میں زیادہ تشریح کے ساتھ بیان کیاجائے گا ۔
۱۔ مجمع البیان زیرِ بحث آیہ کے ذیل میں ۔
۲۔ ”بلدة “ خبر ہے مبتدائے محذوف کی ، اور تقدیر میں اس طرح تھا ” ھذہ بلدة طیبة وھذارب غفور “ یہ پاکیزہ شہر ہے اور یہ بخشنے والا خدا ہے ۔
۳۔ کیا یہ خدائی پیغام ان پیغمبروں کے ذریعہ جو ان کے درمیان مبعوث ہوئے تھے ، بھیجا گیاتھا .جیسا کہ بعض مفسرین نے کہاہے . یا حالات وشرائط زبان حال سے اور ادراک عقلی سے اس قسم کاپیغام انہیں دیتے تھے ، دونوں چیزیں ممکن ہیں ۔
۴۔ لسان العرب ، مادہ عر م ۔ 
سوره سبأ / آیه 18 - 19سوره سبأ / آیه 15 - 17
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma