یہ ہے تمہارا رب

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره مؤمن/ آیه 67- 68سوره مؤمن/ آیه 64- 66

ان آیات میں بھی گذشتہ آیات کی طرح اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کاذکر ہے اور بتا یاگیاہے کہ وہ بندوں کے شامل حال ہیں تاکہ ایک توان بندوں کوبیشتر آگاہی سے بہرہ مند کریں اور دوسرے ان کے دل میں امید کااضافہ کریں تاکہ اس طرح سے وہ دعا کرنے کے اہل ہوکر قبولیت کی نعمت سے مالا مال ہوجائیں ۔
یہ نکتہ بھی دلچسپ ہے کہ گزشتہ آیات میں زمان سے متعلق نعمتوں یعنی رات اوردن کاتذ کرہ تھا ، اوریہاں پرمکان سے تعلق نعمتوں یعنی زمین کے آرام کی جگہ ہونے اور آسمان کے بلند چھت ہونے کی بات ہورہی ہے .فر مایاگیاہے :خدا تووہ ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو آرام اوراطمینان کی جگہ بنایا ہے (اللَّہُ الَّذی جَعَلَ لَکُمُ الْاٴَرْضَ قَراراً )۔
جی ہاں اس نے کرہٴ زمین پروہ تمام شرائط پوری کردی ہیں جوکسی قابل اطمینان وسکون جگہ کے لیے ضروری ہوتی ہیں . ایک پائید ار اورہرقسم کے ہچکولے سے خالی ،انسان کی روح وجسم سے بالکل ہم آہنگ ، مختلف چیزوں کے نکالنے کا مرکز ، ضرورت کی تمام چیزوں پرمشتمل وسیع وعریض ،مفت اورمباح ۔
پھرفر مایاگیاہے : اور آسمان کوچھت اور گنبد کے مانندتمہارے سرپر قرار دیاہے ( وَ السَّماء َ بِناء ً )۔
” بناء “ جیسا کہ ابن منظور” لسان العرب “ میں لکھتے ہیں : ان گھروں کوکہتے ہیں جن سے بادیہ نشین عرب استفادہ کرتے ہیں جیسے خیمے اور سائبان وغیرہ ۔
کیسی دلچسپ تعبیر ہے کہ آسمان کو ایسے خیمے سے تشبیہ دی گئی ہے جس نے زمین کوگھیر رکھاہے .البتہ یہاں پر ” آسمان “ سے زیادہ ترمرا دوہی وسیع معنوں میں فضاء ہے جس نے چارو ں طرف سے زمین کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور ایک خیمے کے مانند تمام خرہ ٴ ارضی کوگھیر ا ہوا ہے ۔
خدا کا یہ عظیم خیمہ ایک تو تمازت آفتاب سے بچاتا ہے اورسو رج کی روشنی کی شدت کم کردیتاہے . اگر یہ سا ئبان نہ ہوتا توسورج کی اور دوسری فضائی شعائیں روئے زمین پر کسی بھی چیز کو زندہ باقی نہ رہنے دیتیں . یہی وجہ ہے کہ فضا نورد مجبور ہیں کہ ان شعاعوں سے بچنے کے لیے ہمیشہ مخصوص لباس میں رہیں جوا یک توسنگین ہوتاہے اوردوسرے گراں قیمت ہوتاہے ۔
اس کے علاوہ یہ سائبان ان آسمانی پتھروں کو بھی زمین پرگرنے سے روکتاہے جوہمیشہ کوہٴ ارضی کی طرف کھینچ آتے ہیں کیونکہ یہی پتھر جب پہلی بار آسمان سے ٹکراتے ہیں تو بڑی تیزی میں ہوتے ہیں اورنہایت زور سے آکرٹکراتے ہیں توجل کربھسم ہوجاتے ہیں اور ان کی خاکستر آہستہ آہستہ زمین پر بیٹھتی رہتی ہے ۔
اور یہ وہی چیز ہے جسے سورہ انبیاء کی آیت ۳۲ میں ” سقف محفوظ “ سے تعبیر کیاگیاہے ۔
” و جعلنا السماء سقفاً محفوظاً “ (۱)۔
اس کے بعد” آفاقی آیات“ سے ” انفسی آیات“ کوبیان فرماتے ہوئے کہتاہے : وہ خداتو وہی ہے جس نے تمہاری صورتیں بنائی ہیں اور تمہاری کیاخوبصورت تصویر یں بنائی ہیں ( وَ صَوَّرَکُمْ فَاٴَحْسَنَ صُوَرَکُم)۔
قامت میانہ اور رسید ھی ،صورت زیبا اوردلکش جسے نہایت ہی نظم کے ساتھ مرتب کیاگیاہے .جسے پہلی نظردیکھتے ہی دوسرے موجودات اورحیوانات سے نمایاں فرق معلوم ہوتاہے . اس کی یہی فزیکل ساخت اس کے لیے اس بات کاسبب بنتی ہے کہ وہ مختلف کاموں کوسرانجام دے اور نفیس یابھاری مصنو عات ایجادکرے اورمختلف اعضاء کی بناء پر آرام سے زندگی بسر کر ے اورزندگی کی دوسری سہولیات سے فائدہ اٹھائے ۔
دوسر ے جانو راپنے منہ کے ذریعے کھاتے پیتے ہیں جبکہ اس کے برعکس انسان اپنے ہاتھوں کے ذ ریعے دیکھ بھال کے کھاتا اورپیتا ہے . یہی وہ سبب ہے کہ جس کے ذریعے انسان ناپاک ،غیرمتعلقہ اورغیر ضروری غذا ؤں کوجدا کرکے پاک و پاکیزہ غذا کا انتخاب کرتاہے . پھلو ں کے چھلکے اتار دیتا ہے اور ناقابل استعمال اشیاء کوپھینک دیتاہے ۔
بعض مفسرین نے یہاں پرصورت کاعمومی معنی مراد لیاہے جس میں ظاہر ی اور باطنی دونوں صورتیں شامل ہیں . انہوں نے اسے استعد اد اورذوق کی مختلف قسموں کی طرف اشارہ سمجھاہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر خلق فرمایاہے اورجن کے ذ ریعے اسے دوسرے حیوانات پرفضیلت عطاکی ہے ۔
آ خر میں اس سلسلے کی چوتھی اورآخری نعمت کو بیان کرتے ہوئے پاک و پاکیزہ روزی کاذکر کیاگیاہے : اس نے تمہیں طیبات پرمبنی روزی عطاکی ہے (وَ رَزَقَکُمْ مِنَ الطَّیِّبات)۔
” طیبات “ کاایک وسیع مفہوم ہے جس میں ہرپاک و پاکیزہ چیز شامل ہے خواہ خوراک ہو یالباس ،زن و شوہر ہو یا مکان اور سواری ،حتٰی کہ پہ کیزہ اورشستہ گفتگو بھی اس میں آجاتی ہے ۔
خداوند عالم نے یہ تمام چیزیں عالم آفرینش میں توپاک و پاکیزہ خلق فرمائی ہیں یہ اور بات ہے کہ بسا اوقات انسان خود انہیں ناپاک بنادیتاہے ۔
ان چار عظیم نعمتوں کے بیان کے بعد کہ جن میں سے نصف کاتعلق زمین و آسمان سے ہے اورآدھی کاتعلق خودانسان سے ہے ، فرمایاگیاہے : یہ خدا،تمہارا پر وردگار ( ذالکم اللہ ربکم ) (۲)۔
اورچونکہ حقیقت امر اسی طرح ہے لہذا تمام جہانوں کاپر وردگار جاوید وبابرکت ہے (فَتَبارَکَ اللَّہُ رَبُّ الْعالَمینَ )۔
جی ہاں ! جس نے اس قدر نعمتیں انسان کوعطا فرمائی ہیں وہی کائنات کاچلا نے والا اورلائق عبادت ہے ۔
بعدکی آیت توحید عبودیت کے مسئلے کوایک اور انداز میں پیش کررہی ہے اوروہ ہے حقیقی معنوںمیں حیات کاذات خداوندعالم میں انحصار ،چنانچہ فرمایاگیاہے : وہی حقیقی معنوں میں زندہ ہے ( ھوالحی )۔
کیونکہ اسکی حیات اسکی عین ذات ہے کسی اور چیز کی اسے ضرورت نہیں ہے .ایسی زندگی ہے جس تک موت کی رسائی نہیں بلکہ و ہ زندگی ، جاوید ہے یہ صرف خدا وند متعال کی ذات سے خاص ہے کا ئنات کے دوسرے تمام موجودات ایسی زندگی کی حامل نہیںہیں بلکہ ان کی زندگی کے ساتھ موت ملی ہوئی ہے اوریہ عارضی اورمحدودزندگی بھی اسی کی پاک ذات سے حاصل کرتے ہیں ۔
ظاہر سی بات ہے اس کی عبادت کی جانی چاہیے جوزندہ ہے اورحیات مطلق کامالک ہے . اسی لیے توفوراً ہی فر مایاگیاہے : اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ہے ( لاالٰہ الاّ ھو )۔
جب حقیقت حال یہی ہے توپھر تم بھی اسی کوپکارواوراپنے دین کو اسی کے لیے خالص کرو (فَادْعُوہُ مُخْلِصینَ لَہُ الدِّینَ)۔
جواس کے علاوہ ہیں انہیں ایک طرف ہتا دوکہ سب فناہو جائیں گے اورپھر اپنی زندگی کے دو ران میں بھی ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں . جس میں کسی قسم کی تبدیلی رونمانہیں ہوتی وہ صرف وہی ہے اورجس کے بار ے میں موت کاتصّور نہیں کیاجاسکتاوہی ہے اوربس ۔
” آنچہ نپذ یر داو ست “ و ” آنچہ نمردہ است ونمیر د اوست “
آیت کو ا س جملے پرختم کیاگیا ہے : تمام تعریفیں اس ذات کے ساتھ مخصوص ہیں جورب عالمین ہے (الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمینَ )۔
درحقیقت یہ جملہ خداکے ان بندوں کے لیے در س ہے جوگذشتہ آیات میں مذ کور اورخوداپنی ذات میں موجود نعمتو ں خاص کرزندگی کی نعمت کی جہ سے اس کی حمد وستائش وسپاس بجالاتے ہیں ۔
اسی سلسلے کی آخر ی آیت میں توحید سے متعلق گفتگو کوسمیٹتے ہوئے مشرکین اوربُت پرستوں کومایوس کرنے کے لیے روئے سخن پیغمبرالسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے فر مایاگیاہے ” کہہ د ے کہ مجھے اس بات سے روک دیاگیاہے کہ خداعلا وہ جن جن کوتم بلاتے ہو میں ان کی عبادت کروں ، کیونکہ میرے پر وردگار کی طرف سے بینا ب اور روشن دلائل آچکے ہیں “ (قُلْ إِنِّی نُہیتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ الَّذینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ لَمَّا جاء َنِی الْبَیِّناتُ مِنْ رَبِّی )۔
نہ صرف غیر اللہ کی عبادت سے روکاگیاہوں بلکہ مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں صرف اورصرف عالمین کے پرو ر دگار کے آگے سر تسلیم خم کروں
(وَ اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴُسْلِمَ لِرَبِّ الْعالَمین)۔
ایک طرف توبتوں کی عبادت سے ممانعت کی گئی ہے اوراس کے ساتھ خدا کی طرف سے عقلی اورنقلی منطقی اور روشن دلائل بھی آئے اوردوسری طرف ” رب العالمین “ کے آگے سرجھکانے کا حکم ہے ، جو بذات خود مقصد اورمد عاپر ایک اوردلیل ہے کیونکہ عالمین کاپرور دگار ہوناہی اس کی پاک ذات کے سامنے سرتسلیم خم کردینے کے لیے کافی ہے ۔
یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں ” امر “ اور ” نہی “ کے دو علیحٰدہ علیحٰدہ مو ارد ہیں . یعنی خدا وند عالم کے آگے جھک جانے کا امراور بتوں کی عبادت سے نہی . ممکن ہے یہ تعبیر اس لیے ہو کہ بتوں کے بارے میں صرف جس چیزکا تصوّر ہوسکتاہے وہ ہے ان کی پرستش اورعبادت لیکن خدا کے بار ے میں عبادت کے علاوہ اس کے فرامین اوراحکام پرعملدر آمد بھی ضروری ہوتاہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سورہ زمر کی گیارہویں اوربار ہویں آیت میں ہے :
قُلْ إِنِّی اٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَعْبُدَ اللَّہَ مُخْلِصاً لَہُ الدِّینَ وَ اٴُمِرْتُ لِاٴَنْ اٴَکُونَ اٴَوَّلَ الْمُسْلِمین
کہہ دے مجھے حکم دیاگیا ہے کہ خلوص کے ساتھ خداکی عبادت کرو اوریہ حکم بھی دیاگیا ہے کہ اس کے سامنے سب سے پہلا سرجھکانے والابنوں ۔
بہرحال مند رجہ بالاآیت میں موجود تعبیرات قرآن مجید کی دوسری سورتوں میں بھی ملتی ہیں جوسرکش اورہٹ دھرم دشمنوں کے ساتھ ایسے انداز کی گفتگو پر مشتمل ہیں کہ اگران میں حق کو قبول کرنے کی ذرہ بھر بھی صلاحیت موجود ہو توان سے یقیناً مثاثر ہوجائیں ۔
غور کیجئے گا ،فر مایاگیاہے : مجھے اس بات کا حکم گیا ہے ، مجھے اس با ت سے روکا گیاہے یعنی جب مجھے ایساحکم دیاگیا ہے یا رو کاگیا ہے تواپنا حساب تم خود ہی کرلو . یہ ایسی تعبیر ہے جوان کی سر کشی کو چیلنچ کئے بغیران کے ضمیر کوجھنجھوڑ رہی ہے ۔
مندرجہ بالاآیات کے بار ے میں آخری بات جو کہنے کی ہے وہ یہ ہے کہ مسلسل تین آیات میں خدا کی ” رب العالمین “ کے ساتھ توصیف کی گئی ہے ملاحظہ فر مائیے :
پہلے فر مایاگیاہے :
فتبارک اللہ رب العالمین
اس کے بعدفرمایاگیاہے :
الحمد اللہ رب العالمین
پھرفرمایاگیاہے :
وامرت ان اسلم لرب العالمین
پھران کے درمیان ایک طرح کی منطقی ترتیب پائی جاتی ہے کیونکہ پہلی میں اس کے بابر کت ہونے کی بات ہے ، اس کے بعدہرقسم کی حمد ستائش کے ساتھ اختصاص ہے آخری کار عبودیت اور پرستش کو اسی کی ذات مقدس میں منحصر کردیا گیا ہے ۔
۱۔مزیدوضاحت کے لیے تفسیر نمونہ کی جلد ۳ مذکورہ آیت کی تفسیر کامطالعہ فرمائیں ۔
۲۔ ”ذالکم “ دراصل دور کی طرف اشارہ ہ اورایسے مقاما ت پر اس کااستعمال بلند مرتبہ اورعظمت کے لیے ہوتاہے اورچونکہ فارسی زبان میں اس قسم کی تعبیر کامعمول نہیں ہے لہذا ہم نے نز دیک کے اشارے کی صورت میں اس کاترجمہ کیاہے ۔
سوره مؤمن/ آیه 67- 68سوره مؤمن/ آیه 64- 66
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma