کیا ہم اور ہمارے آباء پھر زندہ ہوجائیں گے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 24 - 32سوره صافات / آیه 16 - 23

یہ آیات بھی اسی طرح منکرین ِ معاد کی گفتگو اوران کودیے گئے جواب کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
پہلی آیت منکر ین کا معاد کابعید جاننا اس طرح بیان کرتی ہے کہ وہ کہتے ہیں : کہ جب ہم مرگئے اورمٹی اورہڈ یاں ہوگئے تو دوبارہ اٹھا ئے جائیں گے ؟ (اٴَ إِذا مِتْنا وَ کُنَّا تُراباً وَ عِظاماً اٴَ إِنَّا لَمَبْعُوثُون) (۱) ۔
اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ کیاہمارے گزشتہ آ باؤ اجداد بھی اٹھا جائیں گے (اٴَ وَ آباؤُنَا الْاٴَوَّلُونَ)۔
وہی جن کے وجود سے مٹھی بھر بوسیدہ ہڈ یوں بابکھر ی ہوئی مٹی کے سواکچھ باقی نہیں رہ. کون ہے ایسا جو ان بکھرے ہوئے اجزاء کو اکٹھا کرسکے اورانھیں لباس حیا ت پہناسکے ؟
لیکن یہ دل کے اندھے اس بات کوبھولے ہوئے ہیں کہ پہلے دن وہ سب کے سب خاک ہی توتھے ، وہ مٹی ہی سے پیدا کیے گئے تھے اگر انھیںخداکی قُدر ت میں شک ہے توانھیں جاننا چاہیے کہ خدانے انھیں ایک مرتبہ قُدرت دکھادی اوراگر انھیں مٹی کی قابلیّت میں شک ہے تو اس کاایک مرتبہ ثبوت مل چکا،اس کے علاوہ آ سمانوں اور زمین کی ایسی عظیم پیدائش ، کسی کے لیے حق تعالیٰ کے بے پایاں قُدرت میں شک کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں چھوڑ تی ۔
قابلِ توجہّ بات یہ ہے کہ وہ انکار کے لیے اپنی گفتگو کوطرح طرح کی تاکید وں کے ساتھ زور دار بنا تے ہیں چونکہ جملہ ” إِنَّا لَمَبْعُوثُون“ ” جملہ اسمیہ “ بھی ہے اور ” ان “ اور ” لام“ جودونوں ہی تاکید کے لیے آ تے ہیں ،اس میں استعمال ہوئے ہیں اور یہ سب ان کی جہالت اورہٹ دھرمی کی بنا پر تھا ۔
یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ اس آیت میں لفظ ” تُراب “ ( خاک ) ’ ’ عظام “ (ہڈ یوں ) سے پہلے بیان ہوا ہے . ممکن ہے یہ امر ان تین نکتوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ ہو ۔
۱۔ یہ کہ اگر چہ انسان مرنے کے بعد پہلے ہڈ یوں کی صُورت اختیار کرتاہے اورپھر خاک کی صُورت .لیکن چونکہ خاک کادوبارہ زندہ ہونا زیادہ زیادہ عجیب ہے لہٰذا پہلے اسے بیان کیاگیاہے۔
۲۔ جب مردوں کاجسم بکھر تاہے توپہلے گوشت مٹی میں تبدیل ہو تاہے اور ہڈ یوں ک پہلوں گر پڑ تاہے اور اس بنا پر وہ خاک بھی ہوتاہے اورہڈ یاں بھی ) ۔
۳۔ ممکن ہے ” تراب“ توبہت پہلے کے مرے ہوئے آباؤ اجداد کے جسموں کی طرف اشارہ ہو اور ” عظام “ ان آ باؤ اجداد کے بدنوں کی طرف اشارہ جو ابھی تک کامل طورسے مٹی نہیں ہوئے ہیں ۔
اس کے بعد قرآ ن انھیںٹھونک بجاکرجواب دیتاہے اور پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے کہتاہے ، انہیں کہہ دو:ہاں ! تم سبھی اور تمہارے سارے آباؤ اجداد بھی پھر زندہ کرکے اٹھا ئے جاؤ گے ، اس حالت میں کہ تم سب کے سب ذلیل وخوار اور حقیر ہوگے (قُلْ نَعَمْ وَ اٴَنْتُمْ داخِرُونَ ) (۲) ۔
نعم انکم مبعو ثون حالکو نکم داخرین
کیاتم یہ گمان کرتے ہوکہ تمہارااور تمہار ے سارے گزشتہ آباؤ اجداد کازندہ کرناقادر وتوانا خدا کے لیے کچھ مشکل کام ہے اور کچھ بہت ہی سخت عمل ہے ؟
نہیں ، صرف ایک ہی صیحہ اور عظیم آواز خدا کے مامور کی طرف سے بلند کی جائے گی تو اچانک سب سے سب قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے اور زندہ ہوجائیں گے اور خودا پنی آنکھوں سے محشر کامنظر دیکھیں گے جس کی اس دن تک تکذیب کیاکرتے تھے (فَإِنَّما ہِیَ زَجْرَةٌ واحِدَةٌ فَإِذا ہُمْ یَنْظُرُونَ ) ۔
جیساکہ ہم کہہ چکے ہیں” زجرة “ ”زجر“ کے مادہ سے کبھی نکالنے ،دھکادینے اوربھگا ن کے معنی میں آتاہے اور کبھی آواز کے ساتھ پکارنے کے معنی میں. یہاں دوسرامعنی مراد ہے اور یہ اسرافیل کے دوسرے نفخ صورا ور دوسری چیخ کے معنی میں ہے جس کی تشریح انشاء اللہ سورہ ” زمر “ کی آیات کے زیل میں کی جائے گی ۔
لفظ ” ینظرون“ ( وہ دیکھیں گے ) ان کی میدان ِ محشر میں حران وپریشان ہوکر دیکھنے یاعذاب کانتظار کرتے ہوئے دیکھنے کی طر ف اشارہ ہے اورہر دوصورت میں مطلب یہ ہے کہ نہ صرف وہ زندہ ہی ہوں گے بلکہ اپنے ادراک اوربصارت کو بھی اس ایک صحیہ کے ساتھ ہی واپس پالیں گے ۔
” زَجْرَةٌ واحِدَةٌ “ کی تعبیران دونوں الفاظ کے مفہوم کی طرف توجہّ کرتے ہوئے . قیامت کے تیزی کے ساتھ اچانک آنے اوراس کے خدا کی قُدرت کے سامنے بالکل آسان ہونے کی طرف اشارہ ہے .قیامت کے فرشتے کی ایک ہم تحکم آمیز چیخ کے ساتھ ہر چیز اپنے راستے پر چل پڑے گی ۔
اس موقع پر ان مغر و ر و سرکش مشرکین کی چیخ و پکار بلند ہوگی جواُن کی بدحالی اور بے چارگی کی نشانی ہے اور وہ کہیں گے :وائے ہو ہم پر ، تو یو م ِ جزا ہے (وَ قالُوا یا وَیْلَنا ہذا یَوْمُ الدِّینِ ) ۔
ہاں ! جس وقت ان کی نگا ہیں عدالتِ الہٰی ، اس عدالت کے گواہوں اور فیصلہ کرنے والوں اورعذاب کی نشانیوں اور علا مات پر پڑیں گی تو بے اختیار نالہ و فریاد کریں گے اوراپنے پورے وجود کے ساتھ قیامت کی حقانیّت کااعتراف کر لیں گے ، لیکن ایسا اعتراف ان کی کسی مشکل کوحل نہیں کرسکے گا اور نہ ہی ان کے عذاب و سزا میں معمولی سی بھی کمی ہو سکے گی ۔
اس موقع پر خدا یا ملائکہ کی طرف سے خطاب ہوگا :ہاں ! آج وہی جدائی کادن ہے جسے تم جھٹلا یاکرتے تھے . حق کی باطل سے جدائی ، بدکاروں کی صفوں کی نیکو کاروں سے علیحدگی اور پروردگار بزرگ و برتر کے فیصلے اورعدالت کادن (ہذا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذی کُنْتُمْ بِہِ تُکَذِّبُون) ۔
اس کی نظیر قرآن کی دوسری آیا ت میں بھی نظر آتی ہے جن میں قیامت کے دن کو یوم الفصل یاجدائی کے دن سے تعبیر کیاگیا ہے . کتنی عجیب ، منہ بولتی اوروحشت ناک تعبیرہے ( ۳) ۔
قابل ِ توجہّ با ت یہ ہے کہ جب کفّار قیامت میں اس دن کے بار ے میں بات کریں گے تواسے روز جزاء سے تعبیر کریں گے ( یا وَیْلَنا ہذا یَوْمُ الدِّین) لیکن خدایوم الفصل کے نام کے ساتھ اس کاذکر کرتاہے (ہذا یَوْمُ الْفَصْل) ۔
ممکن ہے تعبیر کایہ فرق اس لحاظ سے ہو کہ مجر مین توصرف اپنی سزا اورعذاب کے بار ے میں ہوچتے ہیں لیکن خداایک زیادہ وسیع معنی کی طرف اشارہ کرتاہے جس کی اقسام میں سے ایک سزا وعذاب کامسئلہ بھی ہے اوروہ یہ ہے کہ قیامت کادن جدائیوں کادن ہے.ہاں ! بد کاروں کی صفوں کی نیکوکاروں سے جدائی .جیسا کہ سورہٴ یٰس کی آیہ ۵۹ میں بیان کیاگیاہے۔
وَ امْتازُوا الْیَوْمَ اٴَیُّہَا الْمُجْرِمُون
اے مجرمو ! تم دوسروں سے الگ ہوجاؤ
کیونکہ یہ دارِ دنیا نہیں ہے ، جس میں بد کا ر لوگ خود کوبند گا نِ خدا کی صف میں قرار دیں اور کتنا دردناک ہے کہ وہ یہ مشاہدہ کریں گے کہ ان کے بایمان دوست واحباب،تعلق دار اور آ ل و اولاد سے جداہو کر جنت کی طرف روانہ ہوجائیں گے ۔
علاوہ ازیں وہ دن حق کی باطل سے جدائی کادن ہے . اس روزسچّے اورجھوٹے طرزعمل . مخالف عقیدے اورمختلف مکاتبِ فکر عالم دنیا کی طرح ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہیں ہوں گے. ان میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ ملے گی ۔
ان سب چیزوں سے قطع نظر وہ دن ،روزفصل کے دن کے معنی میں ہے یعنی عالم و عادخُدااپنے بندوں کے بار ے میں فیصلہ کرتے وقت انتہائی منصفانہ حکم صادر فرمائے گا اور یہ موقع ہوگا کہ مشرکین کے لیے ہر طرف کی رسوائی فراہم ہوگی ۔
المختصر ۔ اس دنیا کی طبیعت ومزا ج و باطل کی آمیزش ہے جبکہ قیامت کی طبیعت ومزا ج ان دونوں کی ایک دوسرے سے جدائی ہے .اسی بناپر قرآن مجید میں قیامت کاایک نام . جس کا بار ہا تکرار ہواہے . ” یو م الفصل “ ہے اصولی طور پر وہ دن جس میں تمام چھپی ہوئی بائیں ظاہر ہوجائیں گی . وہاں مختلف صفوں میں موجود لوگوں کی جدائی یقینی امر ہے۔
اس کے بعد خدا ان فرشتوں کوجو مجرموں کودوزخ کی طر ف چلانے پر مامور ہیں حکم دے گا :ظالموں اور ان کے مانند کام کر نیوالوں کو اورجن کی وہ پرستش کیاکرتے تھے سب کوجمع کردو (احْشُرُوا الَّذینَ ظَلَمُوا وَ اٴَزْواجَہُمْ وَ ما کانُوا یَعْبُدُونَ ) ۔
ہاں ! جن کی وہ خدا کے سواپرستش کیاکرتے تھے انھیںچلتاکرو اوردوزخ کاراستہ دکھاؤ (مِنْ دُونِ اللَّہِ فَاہْدُوہُمْ إِلی صِراطِ الْجَحیمِ) ۔
” احْشُرُوا“ ” حشر “ کے مادہ سے ہے اورمفرادت میں راغب کے قول کے مطابق کسی گروہ کو اس کے مقام سے نکلنے اورانھیں میدانِ جنگ یااسی قسم کی جگہ کی طرف روانہ کرنے کے معنی میں ہے۔
یہ لفظ بہت سے مقامات پر جمع کر نے کے معنی میں بھی آیاہے۔
بہرحال یہ گفتگو یاتوخدا کی طرف سے ہے یافرشتوں کے ایک گروہ کی دوسر ے گروہ سے ہے جو اکٹھا کرنے اورمجر موں کو دوزخ کی طرف چلانے پر مامور ہیں اور نتیجہ ایک ہی ہے۔
” ازواج “ یہاں یاتو ان کی مجر م وبُت پرست بیویوں کی طرف اشارہ ہے یاان کے ہم فکر و ہم کا روہم شکل لوگوں کی طرف اشارہ ہے کیونکہ یہ لفظ دونوں معنی کے لیے آ یاہے ، جیساکہ سُور ہ واقعہ کی آیہ ۷ میں بیان ہواہے :
وکنتم از واجاً ثلاثة
تم قیامت کے دن تین گر وہوں میں تقسیم ہوجاؤ گے ۔
اس بنا پر مشرک مشرکوں کے ساتھ ،بدکار و سیاہ دل اپنے جیسے بدکاروں اور سیاہ دلوں کے ساتھ اپنی اپنی صفوں میں جہنم کی طرف دھکیلے جائیں گے ۔
یااس سے وہ شیاطین مراد ہیں جوان کے ہم شکل وہم عمل تھے ۔
اس کے باوجود یہ تینوں معانی ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اور ہوسکتاہے کہ آیت کے مفہوم میں تینوں جمع ہوں۔
” ما کانُوا یَعْبُدُونَ “ مشرکین کے معبودں کی طرف اشارہ ہے . چاہے وہ بُت اور شیاطین ہوں یا فرعون ونمر ود جیسے ظالم و جابر انسان ہوں اور ” ما کانُوا یَعْبُدُونَ “ ( وہ چیز یں جن کی وہ وعبادت کرتے تھے ) کی تعبیرہو سکتاہے اس بناپر ہوکہ ان کے معبود زیادہ تر بے جان اورغیر ذوی العقول موجودات ہی تھے او ر یہ تعبیر اصطلاح کے مطابق ”تغلیب “ کے لیے ہے۔
” جحیم“ دوزخ کے معنی میں ”حجمہ “ ( بروز ن ” ضربہ “ ) کے مادہ سے ” آ گ بھڑ کنے کی شدت “ کے معنی سے لیاگیا ہے۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن کہتاہے : انھیں ” صراط جحیم “ کی طرف ہدایت کرو . کتنی عجیب عبارت ہے ؟ اور دن انھیں”صراط مستقیم “ کی ہدای کی گئی . لیکن انھوں نے اسے قبول نہ کیاتوآج ان کی صراط جحیم کی طرف راہنمائی ہونا چاہیے اور وہ مجبور ہیں کہ اسے قبول کریں،یہ ایک ایسی گراں بار سرزنش ہے جوان کی روح کی گہرا ئیوں کوجلادے گی ۔
۱۔ یہ آیت ایک جملہ شرطیہ کی شکل میں ہے کہ جس کی شرط کو ( ء اذامتنا ...) اوراس کی جزامحذوف ہے ” ء انّا لمبعوثون “ اس پر قر ینہ ہے کیونکہ یہ جملہ ادبی قواعد کی بناء پر جزاء واقع نہیں ہوسکتا ۔
۲۔” داخر“ ،” دخر “ (بروزن ”فخر“ ) اور ” دخور“ دونوں ہی ذلّت وحقارت کے معنی میں ہیں. درحقیقت زیربحث آ یت کاایک جملہ مقدر ہے کہ اصلی جواب وہی تھا اور اس پر کچھ اضافہ ہے تاکہ بات میں کچھ زیادہ زور پیدا ہوجائے . تقدیر اس طرح تھی ۔
۳۔ دخان .۴۰، مرسلات ،۱۳ ، ۱۴ ،۳۸ اور، بناٴ ۱۷۔
سوره صافات / آیه 24 - 32سوره صافات / آیه 16 - 23
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma