گزشتہ گمراہ اقوام

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سوره صافات / آیه 75 - 82سوره صافات / آیه 71 - 74

کیونکہ مجرموں اورظالموں سے مربوط گزشتہ مسائل کسی خاص زمان و مکان کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں. لہذا قرآن زیربحث آ یات میں ان کی عمومیّت اوروسعت کو بیان کرتاہے۔
ان چند آ یات میں گزشتہ بہت سی اُمتوں کے حالات کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جن سے مطلع ہوناگزشتہ مباحث کے لیے ایک اچھی سند ہے . مثلاًقوم ِ نوح ،ابراہیم ، قوم موسٰی و ہارون ،قوم لوط ، قوم ِ یونس و غیرہ ۔
پہلے فرمایاگیا ہے : ان سے پہلے بہت سے گزشتہ لوگ گمراہ ہوگئے (وَ لَقَدْ ضَلَّ قَبْلَہُمْ اٴَکْثَرُ الْاٴَوَّلینَ ) ۔
صرف مشرکین مکہ ہی نہیں جواپنے بڑوں کی تقلید میں تھاو ہ گمراہی میں جاگرے ہیں بلکہ ان سے پہلے بھی اکثر گزشتہ اقوام میں اس قسم کے انجام سے دوچار ہوئی تھیں اوران کے مومنین بھی ان کے گمراہو ں کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑے تھے اوریہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے اوران پہلے مومنین کے لیے جو اس زمانے میں مکہ میں تھے اور ہر طرف سے دشمن کے محاصرہ میں تھے ، ایک تسلّی خاطر ہے۔
اس کے بعد قرآن مزید کہتاہے : ان کی گمراہی اس لیے نہیں تھی کہ ان کاکوئی رہبر و رہنما نہیں تھا بلکہ ہم نے ان میں ڈرانے والے بھیجے تھے (وَ لَقَدْ اٴَرْسَلْنا فیہِمْ مُنْذِرین) ۔
ایسے پیغمبر جو انھیں شرک وکفر،ظلم وستم اور دوسروں کی اندھی تقلید سے ڈ راتے اورانھیں ان کی ذمہ ّداریوں سے آشنا کرتے تھے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ انبیاء کے ایک ہاتھ میں انذار اوردوسرے ہاتھ میں بشار ت کا پر وانہ ہوتا تھا لیکن چونکہان کی تبلیغ کارکنِ اعظم خصوصاً اس قسم کی گمراہ اورسرکش اقوام کے لےے انذار ہی تھالہذا یہاں صرف اسی کو بیان کیاگیاہے۔
اس کے بعد ایک مختصر اورپُر معنی جملے میں فر مایا گیاہے :اب دیکھ ڈ رائے جانے والوں اورہٹ دھرم اور گمراہ اقوام کاانجام کیا ہوا ؟ (فَانْظُرْ کَیْفَ کانَ عاقِبَةُ الْمُنْذَرینَ)۔
” فانظر “ (اب دیکھ ) میں ہو سکتا ہے کہ مخاطب پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذات ہو یا ہر عاقل بیدارفرد ہو ۔
حقیقت میں یہ جملہ ان اقوام کے انجام کار کی طرف اشارہ ہے . جن کی حالت کی تشریح بعدوالی آیات میں آئے گی ۔
آخر ی آیت میں ایک استثناء کے بعد فر مایا گیا ہے :مگرخدا کے مخلص بندے ۔ (إِلاَّ عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین) ۔
حقیقت میں یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان اقوام کی عاقبت اورانجام کو دیکھ کہ ہم نے انھیں کیسے دردناک عذاب میں گرفتار کیاہے اور ہلاک کیا ہے ،سوائے صاحبانِ ایمان اورمخلص بندوں کے کہ جو اس ہلاکت سے بچے رہے اورنجات پاگئے ( ۱) ۔
قابل ِ توجہ بات یہ ہے کہ اس سُورہ میں مختلف آیات میں پانچ مرتبہ خداکے مخلص بندوں کاذکر آیاہے اور یہ ان کے مرتبہ ومقام کی عظمت کی نشانی ہے . جیساکہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے ، وہ ایسے لوگ ہیں جومعرفت ، ایمان اور جہاد بالنفس میں اس طرح کامیاب ہوئے ہیں کہ خدا نے انھیں منتخب کرکے خالص کرلیا ہے اوراسی وجہ سے وہ انحرافات اور لغز شوں سے بچے رہے۔
شیطان ان میں نفوذ پیدا کرنے سے عاجز ااور مایوس ہے اورپہلے دن سے ان کے مقابلے میں سپر ڈال کرانی عاجزی کااظہار کرچکاہے۔
ماحول کاشور وغوغا ،گمراہ کرنے والوں کے وسوسے ،آباؤ اجداد کی تقلید ، غلط اور طاغوتی تعلیمات انھیں ہرگز اپنے راستے سے منحرف نہیں کرسکتیں ۔
حقیقت میں یہ اس زمانے میں مکہ میں پامردیدکھانے والے مومنین کے لیے اور آج کی شور وغوغا سے پُر دنیا میں رہنے والے ہم جیسے مسلمانوں کے لیے ایک الہام بخش پیام ہے کہ ہم دشمنوں کی کثرت سے نہ ڈ ریں اورکوشش کریں کہ خدا کے مخلص بندوں کی صف میں جگہ پالیں ۔
فانظر کیف کان عاقبة المنذ رین فانا اھلکنا جمیعاً الاّ عبداللہ المخلصین
 ۱۔ یہ جملہ ایک محذوف سے استثناء ہے جو مذ کور میں سمجھاجاتاہے اور جو تقدیر میں اس طرح ہے۔
سوره صافات / آیه 75 - 82سوره صافات / آیه 71 - 74
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma