۱۔ کیا انبیاء بھی توریہ کرتے ہیں ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
۲۔ ابراہیم (ع) اور ” قلب ِ سلیم “ابراہیم کی بُت شکنی کا زبردست منظر

پہلے ضر وری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ ” توریہ “ کیاہوتا ہے ؟
” توریہ “ ( بروزن ” توصیہ“ ) کو بعض اوقات ” معاریض “ سے بھی تعبیرکیا جاتاہے . اس سے مراد ہے ایسی بات کہنا جس کاایک ظاہر ی مفہوم ہو لیکن کہنے والے کی مراد کچھ اورہو ،اگرچہ سامع کی نظر ظاہری مفہوم کی طرف ہی جاتی ہو. مثلاً کوئی شخص کسی آدمی سے سوال کرتاہے :تم سفر سے کب آ ئے ہو ؟وہ کہتاہے : غروب سے پہلے . حالانکہ وہ ظہر سے پہلے آ یا ہے . سننے والا اس کلام سے غروب سے تھوڑا سا پہلے سمجھتا ہے ، جبکہ کہنے والے کا ارادہ زوال سے پہلے ہے ، کیونکہ وہ بھی غروب سے پہلے ہے۔
یا کوئی شخص دوسرے سے سوال کرتاہے :” کیا تونے کھا ناکھایا ہے “ ؟ وہ کہتا ہے : ہاں سامع اس بات سے یہ سمجھتا ہے کہ اس نے آج کھالیاہے جبکہ اس کی مراد یہ ہے کہ اس نے کل کھانا کھایاہے۔
یہ نکتہ فقہ کی کتابوں میںبیان ہوا ہے کہ کیا تور یہ جھوٹ شمار ہوتاہے یانہیں ؟بعض بزرگ فقہاء جن میںشیخ انصاری ( رضوان اللہ علیہ ) بھی شامل ہیں کا نظر یہ ہے کہ توریہ جھوٹ میں داخل نہیں ہے . نہ عرفاً اس پرجھوٹ صادق آ تاہے اور نہ ہی اسلامی روایات سے اس کاجھوٹ سے تعلّق معلوم ہوتاہے ، بلکہ چند روایات میں باقاعدہاس کے جھوٹ ہونے کی نفی کی گئی ہے۔
امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث منقول ہے۔
الرجل یستاٴذن علیہ فیقول للجاریة قولی لیس ھو ھیھنا ،فقال (ع) لاباٴ س لیس بکذب
کوئی شخص دروازے پر آ تاہے اور گھر میں داخل ہونے کی اجاز ت چاہتا ہے ،صاحب ِ خانہ ( کو اس کی پذیرائی میں کو ئی امر مانع ہے ) اپنی کنیزسے کہتاہے کہ کہہ دے کہ وہ یہاں نہیں ہے . ( اوراس سے مراد مثلاگھر کے در وازے کے پیچھے ہے ).امام نے فر مایا : یہ جھوٹ نہیں ہے ( 1) ۔
حق یہ ہے کہ یہاں کچھ تفصیل کی ضرورت ہے اور ایک ضابط ٴ کلی کے طورپر کہناچا ہیے کہ جہاں لفظ لغو ی وعرفی مفہوم کے لحاظ سے دو معانی کی قابلیّت رکھتاہے لیکن مخاطب کاذہن اس سے ایک معنی مراد لیتا ہے جبکہ کہنے والے کی نظر میںدوسرا معنی ہے ،اس قسم کا تو ریہ جھوٹ نہیں ہے .مثلاً یہ کہ مشترک لفظ استعمال کریں .سننے والے کا ذہن ایک معنی کی طرف متوجہ ّہوجبکہ کہنے والے کی نظر دوسرے معنی کی طرف ہو ۔
مثلاً سعید بن جبیر کے حالات میں منقو ل ہے کہ حجّاج نے ان سے پوچھا کہ تمہارانظر یہ میرے متعلق کیساہے ؟انہوں نے کہا :میرے نظر یہ کہ مطابق ” تو عادل ہے“،حجاج کے مصاحبین اورحامی خوش ہوگئے . حجّاج نے کہا :اس نے اس بات سے میرے کفر کاحکم صادر کیاہے . کیونکہ عادل کاایک معنی حق کے باطل کی طرف عدول کرنے والا اور منہ پھیر لینے والا ہے۔
لیکن اگر لفظ لغوی اورعرفی مفہوم کے لحاظ سے ایک ہی معنی رکھتا ہے اورکہنے والا اسے چھوڑ کر ، قرینہ مجاز ذکر کیے بغیر مجازی معنی مراد لے تواس قسم کاتور یہ بلاشک وشبہ حرام ہے اور ممکن ہے . اس تفصیل کے ذریعے فقہاء کے مختلف نظر یات یکجااورجمع کیے جاسکیں ۔
البتہ اس بات پرتوجہ رکھنی چاہیے کہ ایسے مواقع پر بھی ، جہاں توریہ جھوٹ کامصداق نہیں ہے بعض اوقات اس کے مفاسد کا حامل ہوتاہے اورجہالت میںپڑنے اورلوگوں کوغلطی میںڈالنے کا سبب بنتاہے اوراس لحاظ سے ہوسکتاہے کہ وہ بعض اوقات حرام کے مرحلہ تک پہنچ جائے لیکن جب اس میں نہ تو اس قسم کاکوئی مفسد ہ ہو اور نہ ہی وہ جھوٹ کامصداق ہو تواس کی حرمت پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اورامام صاد ق علیہ السلام کی روایت اسی پہلو سے ہے . اس بنا پر صرف جھوٹ نہ ہونا تور یہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے کہ دوسرے مفاسد بھی اس میں نہ ہوں ۔
البتہ وہ مواقع جہاں ضرور ت کا تقاضا ہو کہ انسان جھوٹ بولے وہاں یقینا جب تک تور یہ ممکن ہے اسے توریہ کرنا چاہیے تاکہ اس کی بات جھوٹ کامصدا ق نہ بنے ۔
باقی رہی یہ بات کہ انبیاء کے لیے تور یہ جائز ہے یانہیں ؟توکہنا چاہے کہ وہ صورت جس میں تور یہ عام لوگوں کے اعتماد کے تزلز ل کاموجب بنتاہے ، وہاں جائز نہیں ہے کیونکہ تبلیغ کی راہ میں ابنیاء کاسر مایہ عام لوگوں کا اعتماد ہی توہے . لیکن ایسے مواقع جس کی مثال مذ کورہ بالا آ یات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی داستان ہے میں کوئی اشکال نہیں . اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کااظہار کیا ،منجمین کی طرح آسمان کی طرف دیکھا .البتہ خیال ہے کہ ایسے کام میں ایک اہم مقصد پیش نظر ہو اور اس سے حق طلب لوگوں کااعتماد بھی ڈ انواں ڈول نہ ہوتاہو ۔
 1۔وسائل الشیعہ جلد ۸ ،ص ۵۸۰ ( باب ۱۴۱ ازابواب العشرہ حدیث ۸ ) 
۲۔ ابراہیم (ع) اور ” قلب ِ سلیم “ابراہیم کی بُت شکنی کا زبردست منظر
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma