۱۔ ذبیح اللہ کون ہے ؟

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
۲۔کیا ابراہیم (ع) فرزند کوذبح کرنے پرمامورتھے ؟ابراہیم قُر بان گاہ میں

اس بار ے میں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلا م کے دونوں فرزند وں ( اسمعٰیل علیہ السلام اوراسحاق علیہ السلام ) میں سے کون قربان گاہ میں لا یا گیااور کس نے ذبیح اللہ کالقب پایا ؟مفسّرین کے درمیان شدید بحث ہے . ایک گروہ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ”ذبیح“ جانتا ہے اور ایک جماعت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو . پہلے نظر یئے کوبہت سے مفسّرین اہل سنت اور دوسرے نظر یہ کومفسّرین شیعہ نے اختیار کیاہے۔
لیکن جوکچھ قرآن کی مختلف آ یات کے ظا ہرسے ہم آہنگ ہے وہ یہی ہے کہ ”ذبیح “ ” اسماعیل علیہ السلام “ تھے کیونکہ :
اوّلاً : ایک جگہ بیان ہوا ہے :
وَ بَشَّرْناہُ بِإِسْحاقَ نَبِیًّا مِنَ الصَّالِحین
ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی جوصالحین میں سے ایک پیغمبرتھا (صافات . ۱۱۲)
یہ تعبیربخوبی نشاندہی کرتی ہے کہ خدانے اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت اس واقعے کے بعد دی ہے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربا نیوں کی وجہ سے انہیں یہ بشارت دی گئی . اس بنا پر ذبح کاواقعہ ان کے ساتھ مربوط نہیں تھا ۔
علاوہ ازیں جب خدا کسی کی نبوت کی بشارت دیتاہے تواس کامفہوم یہ ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور یہ بات بچپن میں ذبح کے مسئلے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔
ثانیاً سوُ رہ ٴ ہود کی آیہ ۷۱ میں بیان ہو اہے :
فَبَشَّرْناہا بِإِسْحاقَ وَ مِنْ وَراء ِ إِسْحاقَ یَعْقُوب
ہم نے اسے اسحٰق کے پیدا ہونے کی بشارت دی اوراسحاق کے بعد یعقوب کے پیدا ہونے کی بھی ۔
یہ آ یت اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مطمئن تھے کہ اسحاق علیہ السلام زندہ ہیں گے اوران سے یعقوب علیہ السلام جیسا فرزند پیدا ہوگااس اس بنا پران کے ذبح کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا . جولوگ حضرت اسحاق علیہ السلام کو ذبیح جانتے ہیں ،حقیقت میں انہوں نے ان آ یا ت کونظر انداز کردیاہے۔
ثالثاً: منا بع اسلامی میں بہت سی روایات ایسی آ ئی ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ”ذبیح “ اسماعیل علیہ السلام تھے نمونہ کے طورپر :
ایک معتبر حدیث پیغمبرگرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے منقول ہے :
انا ابن الذ بیحین
میں دوذ بیحوں کابیٹا ہوں
اور د و ذبیحوں سے مراد ایک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے والدگرامی حضرت عبداللہ ہیں ، کیونکہ پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے جدا مجد حضرت عبدالمطلب نے نذر مانی تھی کہ وہ انہیں خد کے لیے قربان کریں گے . اس کے بعد حکم ِ خد اسے ایک سواونٹ ان کے فدیہ کے طورپر دیئے گئے اوران کی داستان مشہور ہے .دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے کیونکہ یہ با ت مسلّم ہے کہ پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جناب اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے نہ کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی ( 1) ۔
اس دعا میں جوعلی علیہ السلام نے پیغمبرگرامی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل کی ہے ،یہ بیان ہو اہے :
یامن فدا اسماعیل من الذبح اے وہ جس نے اسماعیل کے لیے فدیہ قرار دیا ( 2) ۔
ان احادیث میں جو امام باقر علیہ السلام اورامام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہیں یہ بیان کیاگیاہے جس وقت لوگوں نے سوال کیاکہ ”ذبیح “ کو ن تھا ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فر مایا :” اسماعیل “ ۔
اس حدیث میں جو امام علی بن موسٰی الرضا علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ، یہ بیان ہوا ہے۔
لوعلم اللہ عزو جل شیئاً اکرم من الضا ٴ ن لفد ابہ اسما عیل
اگر کوئی جانور ( خدا کے نزدیک ) دبنے سے بہتر ہوتاتواسے اسماعیل کافدیہ قرار دیتا ( 3) ۔
خلاصہ یہ کہ اس سلسلے میںبہت سی روایات ہیں اگر ان سب کو نقل کرناچاہیں تو گفتگو لمبی ہوجائے گی (4) ۔
ان فر اواں روایات کے مقابلے میں جو قرآن کی آ یات کے ظاہری مفہوم سے بھی ہم آہنگ ہیں ایک شا ذ روایت بھی ہے ، جو حضرت اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے پردلالت کرتی ہے جوپہلی روایات کامقابلہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی ظاہر آیات کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔
ا ن سب باتوں سے قطعِ نظریہ مسئلہ مسلّم ہے کہ وہ بچہ جسے ابراہیم علیہ السلام حکم خدا سے اس کی ماں کے ساتھ مکّہ لائے اوروہاںپراسے
چھوڑ ا ۔
پھرخانہ کعبہ اس کی مدد کے ساتھ بنایا اوراس کے ساتھ طواف ،وسعی بجالائے وہ اسماعیل تھے . یہ امور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ذبیح بھی اسماعیل علیہ السلا م ہی تھے کیونکہ ذبیح کاعمل مذ کورہ بالا پروگرام کی تکمیل کرتاہے۔
البتہ جوکچھ کتب عہد عتیق ( مو جودہ تو رات ) سے معلوم ہوتاہے یہ ہے کہ ذبیح اسحاق علیہ السلام تھے ( 5) ۔
یہاں سے معلو م ہوتاہے کہ مسلمانوں کے ہاں بعض غیر معروف روایات جن میں حضرت اسحاق علیہ السلام کوذبیح قرار دیاگیاہے ، اسرائیلی روایات سے متاثر ہیں اوراحتمالاً یہود یوں کے جہولات میں سے ہیں . یہودی چونکہ حضر ت اسحاق علیہ السلامکی اولاد میں سے تھے لہذ اوہ چاہتے تھے کہ یہ افتخارواعزاز اپنے لیے ثبت کرلیں اور مسلمانوں کہ جن کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نسل ِ اسماعیل علیہ السلام سے ہیں ان سے یہ اعزز چھین لیں ،چاہے اس کے لیے یہ حقائق کاانکار ہی کیوں نہ ہو ۔
بہرحال ہمارے لیے جوکچھ سب سے زیاد ہ محکم ہے وہ آ یات ِ قرآن کے ظواہر ہیں جوبخوبی نشاندہی کرتے ہیں کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام تھے اگر چہ ہمار ے لیے اس سے کوئی فر ق نہیں پڑ تا کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہوں یااسحاق علیہ السلام ،دونوں ابراہیم علیہ السلام کے فرزند تھے اور دونوں ہی خدا کے عظیم پیغمبر تھے . مقصد تواس تاریخی واقعے کاواضح و روشن ہوناہے۔
1۔ تفسیر ” مجمع البیان “ زیر بحث آ یت کے ذیل میں ۔
2۔ نورا لثقلین جلد ۴ص ۴۲۱۔
3۔نو رالثقلین جلد ۴ ص ۴۲۲۔
4۔ان روایات کے بار ے میں مزید اطلا ع کے لیے تفسیر ” برہان “ ( جلد ۴، ص ۲۸) اور تفسیر نورالثقین جلد ۴ ص ۴۲۰ ،اس کے بعد کی طرف رجوع کریں ۔
5۔تورات ،سفرتکوین فصل ۲۲۔
۲۔کیا ابراہیم (ع) فرزند کوذبح کرنے پرمامورتھے ؟ابراہیم قُر بان گاہ میں
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma