یونس امتحان کی بھٹی میں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
۱۔ حضرت یونس کی زندگی کی مختصر تاریخ سوره صافات / آیه 139 - 148

اس سورہ میں یہ گذ شتہ ابنیاء اوراقوام کی چھٹی اورآخر ی سرگشت ہے . ان آ یات میںیونس علیہ السلام اوران کی توبہ کرنے والی قوم کی سرگزشت بیان کی گئی ہے . قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ گزشتہ پانچ سرگز شتیں جن نو ح علیہ السلام ،ابراہیم علیہ السلام ،موسٰی علیہ السلام ، وہا رو ن علیہ السلام ، الیاس علیہ السلام ، اور لُوط علیہ السلام کاذکر تھا وہ سب کی سب یہاں آ کرختم ہوئیں کہ وہ قو میں ہرگز بیدار نہ ہوئیں اور عذاب ِ الہٰی میں گرفتار ہو گئیں اور خدانے ان میں سے ان عظیم انبیاء کو نجات بخشی ۔
لیکن اس داستان میں معا ملے کااختتام ان کے برعکس ہے . یونس علیہ السلام کافر قوم عذابِ الہٰی کی ایک نشانی کو دیکھتے ہی بیدار ہوگئی اوراس نے توبہ کرلی اور خدانے اس پر اپنا لطف و کرم فر مایا .اوراسے مادی و روحانی برکات سے بہرہ مندکیا . یہاں تک کہ یونس علیہ السلام کو اس ترک ِ اولیٰ کی بنا پر جو اس قوم کے درمیان سے ہجرت کرنے میںجلدی کرنے کی وجہ سے ان سے سرزد ہواتھا ،مصائب ومشکلات میںپھنسادیا ، یہاں تک کہ ان کے بار ے میں لفظ ” بق “ استعمال کیاکہ جو عام طورپر بھاگ جانے والے غلاموں کے لیے بولا جاتاہے۔
یہ داستانیں اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ اے مشرکین ِ عرب اوراے دیگر انسانو! کیاتم ان پانچ قوموں کی طرح بننا چاہتے ہو یاقومِ یونس علیہ السلام کی طرح ؟ کیاتم اس بُر ی اور در دناک عاقبت اورانجام کے طالب ہو یااس خیر و سعادت کے ؟یہ بات خود تمہارے اپنے ارادے کے ساتھ وابستہ ہے۔
بہرحال قرآن مجید کی متعّدد سورتوں میں(منجملہ سُور ہ ٴ ابنیاء،یونس ،قلم اور زیر بحث سورہٴ صافات میں) ا س عظیم پیغمبر کی داستان بیان ہوئی ہے اورہر ایک میں ان کے حالات کاایک حِصّہ ذکر ہواہے . سُورہ ٴ صافات میں زیادہ تر یونس علیہ السلام کے فرار ، ان کی گرفتار ی اور پھر نجات کامسئلہ بیان ہواہے۔
پہلے گزشتہ داستانوں کی طرح ان کے مقام ِ رسالت کے بار ے میں گفتگو کرتے ہوئے فر مایا ہے : یونس خدا کے رسولوں میں سے تھا (وَ إِنَّ یُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلین) ۔
یونس علیہ السلام نے بھی دیگر انبیاء کی طرح اپنی دعوت کی ابتداء توحید اوربُت پرستی کے خلاف قیام سے شروع کی . اس کے بعد ان برائیوں کے خلاف نبرد آزمائی کی جواس ماحول میں رائج تھے ۔
لیکن وہ متعصّب قو م ، آنکھیں اور کان بند کرکے ، اپنے بڑ ے بوڑھوں کی تقلید کررہی تھی ،ان کی دعوت کوتسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئی ۔
حضر ت یونس علیہ السلام اسی طرح ایک مہر بان باپ کے ماننددل سوزی اورخیر خواہی کے ساتھ اس گمراہ قوم کووعظ نصیحت کرتے رہے ،لیکن اس حکیمانہ منطق کے مقابلے میںدشمنوں کے پاس مغا لطے اور ڈھٹائی کے سوا کوئی چیزنہ تھی ۔
صرف ایک چھوٹا ساگروہ جوشایددوافراد ( ایک عابداو ر ایک عالم ) پر مستمل تھا ان پرایمان لایا ۔
حضرت یونس علیہ السلام نے اس قدر تبلیغ کی کہ ان سے تقریبا ًمایوس ہوگئے .بعض روایات میں آ یا ہے کہ عابد کے کہنے پر ( او ر گمراہ قوم کی کیفیت اورحالات کودیکھتے ہوئے ) آپ نے پُختہ ارادہ کرلیا کہ ان کے خلاف بد و عا کریں ( ۱) ۔

اسی واقعے کی طرف قرآن بعد والی آ یت میں ارشارہ کرتے ہوئے کہتاہے : اس وقت کو یاد کرو جب اس نے وزن اورلوگوں سے بھری ہوئی کشتی کی طرف فرار کیا (إِذْ اٴَبَقَ إِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُونِ) ۔
” ابق “ ” اباق “ کے مادہ سے غلام کے اپنے آ قا و مولاکے پاس سے بھاگ جانے کے معنی میں ہے اس مقام پر یہ ایک عجیب وغریب تعبیر ہے.یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بہت ہی چھوٹاساتر کِ اولیٰ کہ جو عا لی مقام پیغمبروں سے سرز د ہوجائے،خداکی طرف سے کس قد رسخت گیری اور عتاب کاباعث بنتاہے،یہاں تک کہ وہ اپنے پیغمبر کوبھاگ جانے والے غلا م کا نام دیتاہے۔
بلاشک وشبہ یونس معصوم پیغمبر تھے اوروہ کبھی بھی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے،لیکن پھربھی بہتر یہی تھاکہ وہ تحمل سے کام لیتے اور نزول ِ عذاب سے قبل کے آخر ی لمحا ت تک اپنی قوم میں رہتے کہ شاید وہ بیدار ہوجائے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ بعض روایات کے مطابق آپ نے چالیس سال تک تبلیغ کی تھی،لیکن پھر بھی بہتر یہی تھا کہ چند رو ز یاچند گھنٹے اور ٹھہر جاتے.آپ نے چونکہ ایسانہیں کیاالہذا آپ کو بھاگ جانے والے غلام سے تشبیہ دی گئی ہے۔
بہرحال یونس کشتی پر سوا ر ہوگئے.روایات کے مطابق ایک بہت بڑی مچھلی نے کشتی کی راہ روک لی اورمنہ کھول دیاگو وہ کچھ کھا نے کو مانگ رہی ہو.کشتی میں بیٹھنے والوں نے کہامعلوم ہوتاہے کہ کوئی گنہگا ر ہمرے درمیان ہے ( کہ جسے اس مچھلی کالقمہ بننا چاہیے اور قرعہ اندازی سے کام لینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے ) . اس موقع پر انہوں نے قرعہ حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکل آیا.ایک روایت کے مطابق انہوں نے تین مرتبہ قرعہ ڈالا اور ہر دفعہ حضر یونس علیہ السلام ہی کا نام نکلا . ناچار اتھو ں نے یونس علیہ السلام کو پکڑ کراس بہت بڑی مچھلی کے منہ میں پھینک دیا۔
قرآن زیربحث آ یات میں ایک مختصر سے جملے کے ذریعے اس ماجر ے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے : یونس نے ان کے ساتھ زمانے میں قر عہ ڈالا اورمغلوب ہوگیا (فَساہَمَ فَکانَ مِنَ الْمُدْحَضینَ ) ۔
” ساھم“ ” سھم“ کے مادہ سے دراصل تیر کے معنی میں ہے اور” ساھمہ“ قرعہ اندازی کے معنی میں ہے، کیونکہ گزشتہ زمانے میں قرعہ اندازی کے وقت تیر کی لکڑیوں پرنا م لکھاکرتے تھے اورانہیں ایک دوسر ے کے ساتھ ملا دیتے تھے ،پھر ان میں سے ایک تیر کی لکڑی باہر نکالتے تھے،جس کے نام کاہوتا اسی کاقر عہ کہلا تا ۔
’مد حض “ ” اد حاض “ کے مادہ سے باطل کرنے،زائل کرنے اورمغلوب کرنے کے معنی میں ہے . یہاں مراد یہ ہے کہ قرعہ ان کے نام نکلا ۔
یہ تفسیر بھی بیان کی جاتی ہے کہ دریامیں طوفان آگیاتھا اور کشتی پر وزن بہت زیادہ تھا اورکشتی میں بیٹھنے والوں کوہرلمحے غرق ہونے کاخطرہ ہونے لگا . اس کے سوااورکوئی چارہٴ کارنہیں تھاکہ کشتی کو ہلکا کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو دریا میںپھینک دیاجائے اورقرعہ یونس علیہ السلام کے نام نکل آ ی. انہوں نے آپ کودریا میں پھینک دیا اورٹھیک اسی وقت ایک مگر مجھ وہاں آن پہنچااوراس نے آپ کونگل لیا۔
بہرحال قرآن کہتاہے کہ ایک بہت بڑی مچھلی نے اسے نگل لیاجب کہ وہ مستحق ملامت تھا(فَالْتَقَمَہُ الْحُوتُ وَ ہُوَ مُلیم) ۔
” التقمہ “ ” التقام “ کے مادہ سے نگل جانے کے معنی میں ہے۔
” ملیم“ دراصل ” لوم“ کے ماد ہ سے ہے جو ملامت کے معنی میں ہے ( اور جب یہ بابِ افعال میں چلا جائے تو استحقاق ملامت کے معنی دیتاہے۔
یہ بات مسلّم ہے کہ یہ ملامت و سرزنش کسی کبیرہ یاصغیرہ گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے نہ تھی ، بلکہ اس کاسبب صرف ترکِ اولیٰ تھا،جوان سے سرزد ہوا اور وہ تھا وہ اپنی قوم کوچھوڑ جانے اوران سے ہجر ت کرنے میں جلد ی کرنا ۔
لیکن وہ خداجوآگ کو پانی کے اند ر اور شیشے کوپتھر کی آغوش میں محفوظ رکھتاہے، اس نے اس عظیم جانور کوحکم تکوینی دیاکہ اس کے بند ے یونس علیہ السلام کو معمولی سی تکلیف بھی نہ پہنچائے . حضرت یونس علیہ السلام کو ایک بے نظیر اورعجیب قید میں رہنا تھا ، تاکہ وہ اپنے ترکِ اولیٰ کی طرف متوجہ ہوں اوراس کی تلافی کریں ۔
ایک روایت میں آ یاہے :
اوحی اللہ الی الحوت لا تکسر منہ عظماً ولا تقطع لہ وصلاً
خدانے اس مچھلی کی طرف وحی کی کہ اس کی کوئی ہڈ ی نہ توڑ نااوراس کے کسی جوڑ کونہ کاٹنا ( ۲) ۔
یونس بہت ہی جلد اصل قضیّے کی طرف متوجہ ہوگئے . آپ نے پور ی توجہّ کے ساتھ بار گاہ ِ خداوندی کی طر ف رُخ کیا اوراپنے ترک ِ اولی پر استغفار کی اور اس کی مقدس بار گاہ سے عفو کاتقاضا کیا ۔
اس مقام پر ایک نہایت پرمعانی اور معروف ذکر حضرت یونس علیہ السلام کی زبا نی نقل ہواہے جو سورہٴ ابنیاء کی آ یہ ۸۷ میں آ یاہے اور اہل عرفان کے درمیان ذکر” یونسیہ “کے نام سے مشہور ہے :
فَنادی فِی الظُّلُماتِ اٴَنْ لا إِلہَ إِلاَّ اٴَنْتَ سُبْحانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمین
اس نے تہہ بہ تہہ تار یکیوں میں پکا ر ا کہ :تیرے سواکوئی معبود نہیں ہے ، توپاک ومنزہ ہے میں ہی ظا لموں میں سے تھا ۔
میں نے اپنے اوپر ظلم کیاہے اور تیری بار گاہ میں سے دور ہوگیاہوں اور تیر ے عتاب وسرنش میں ، جومیرے لیے جہنم سوزاں کے مانند ہے ، گرفتار ہوگیاہوں ۔
اس مخلصانہ اعتراف او ر ندامت سے ملی ہوئی تسبیح نے اپناکام کیا اورجیسا کہ سورہٴ ابنیاء میں بیان ہوا ہے :
فَاسْتَجَبْنا لَہُ وَ نَجَّیْناہُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنینَ
ہم نے اس کی دعا قبول کرلی اوراسے اسے غم وندوہ سے نجات دی اور ہم ایمان والوں کواسی طرح سے نجات دیاکرتے ہیں ( ابنیا ء . ۸۸) ۔
اب دیکھیں زیر بحث آ یات اس سلسلے میں کیاکہتی ہیں،ایک مختصر سے جملے میں فرمایاگیا ہے:اگروہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا (فَلَوْ لا اٴَنَّہُ کانَ مِنَ الْمُسَبِّحین) ۔
تو یقینا وہ قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتا (لَلَبِثَ فی بَطْنِہِ إِلی یَوْمِ یُبْعَثُونَ)۔
اور یہ وقتی قید خا نہ دائمی زندان میںبدل جاتااوروہ دائمی زنداں اس کے لیے قبرستان میںبدل جاتا ۔
حضرت یونس علیہ السلام کامچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہنا ( بالفرض اگروہ درگاہِ الہٰی میں تسبیح او ر توبہ نہ کرتے ) زندہ صورت میں ہونا یامُرد ہ صورت میں . اس ضمن میں مفسّرین نے کئی احتمال بیان کیے ہیں ۔
پہلا احتمال تویہ ہے کہ وہ دونوں ہی زند ہ رہتے اوریونس علیہ السلام ایک قید کی صورت میں قیامت کے دن تک مچھلی کے پیٹ میں قید رہتے۔
دوسرااحتمال یہ ہے کہ یونس علیہ السلام تو مر جاتے اور مچھلی چلتی پھرتی قبر کی صورت میں زندہ رہتی ۔
تیسرااحتمال یہ ہے کہ یونس علیہ السلام اور مچھلی دونوں ہی کاپیٹ یونس علیہ السلام کی قبر بن جاتا اور زمین مچھلی کی قبر . وہ مچھلی کے اندر اور مچھلی زمین کے اندر قیامت کے دن تک دفن ہوجاتے ۔
زیر بحث آ یت ان اقوام میں سے کسی کے لیے بھی دلیل نہیں بن سکتی . لیکن متعدد آ یات جویہ کہتی ہیں کہ اختتام دنیا پرست مرجائیں گے ، اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ قیامت کے دن تک یونس کازند ہ رہنایامچھلی کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہے اس لیے ان تینوں تفاسیرمیں سے تیسر ی تفسیر زیادہ مناسب نظر آ تی ہے ( ۳) ۔
یہ احتمال بھی ہے کہ یہ تعبیر طولانی مدّت کے لیے کنا یہ ہو یعنی وہ ایک طولانی مدّت تک اسی زنداں میں رہتے . جیساکہ یہ تعبیراس سے ملتے جلتے موقعوں پراستعمال پر استعمال کی جاتی ہے کہ تجھے فلاں کام کے انتظار میں قیامت تک رہنا ہوگا ۔
لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سب کچھ اس صورت میں ہوتا جب وہ تسبیح اور توبہ نہ کرتے لیکن ایسانہیں ہو ابلکہ انہوں نے تسبیح پروردگار کی اوراس کی خاص بخشش اور عفو ان کے شامل ِ حال ہو ئی ۔
پھر جیساکہ قرآن کہتاہے :ہم نے اسے ایک خشک اور درخت اورسبز ے سے خالی سرزمین میں پھینک دیا، اور اس حالت میں کہ وہ بیمار تھا (فَنَبَذْناہُ بِالْعَراء ِ وَ ہُوَ سَقیمٌ) ۔
وہ بہت بڑ ی مچھلی خشک و بے گناہ ساحل کے نزدیک آ ئی اورحکمِ خداسے اس لقمے کو جو اس سے زائد تھا باہر پھینک دیا ۔
لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس عجیب و غریب زنداں نے یونس علیہ السلا م کے جسم کی سلامتی کو در ہم برہم کردیاتھا . لہذ اوہ بیمار و ناتواں اس زند اں سے آز ا د ہوئے ۔
ہمیں صحیح طورپر معلوم نہیں ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام کتنی مدت تک مچھلی کے پیٹ میں رہے .لیکن یقینی طورپر جتنا عرصہ بھی رہے اس کے عوارض سے بچ نہیں سکتے تھے . یہ ٹھیک ہے کہ فر مان ِ الہٰی صادر ہو اتھا یونس علیہ السلام مچھلی کے بدن میں ہضم اور جذب نہ ہوں ،لیکن یہ اس معنی میں نہیں تھا کہ اس زندا ں کے کچھ آثار بھی وہ اپنے ساتھ نہ لائیں لہذا مفسّرین کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ وہ ایک نو مولود ،ضعیف و ناتواں اور بے پرو بال ، پرند ے کے بچے کی طرح مچھلی کے پیٹ سے باہر آ ئے . اس طرح سے کہ ان میں حرکت کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی ۔
پھر لطفِ الہٰی ان کے شامل ِ حال ہو ا،کیونکہ ان کابدن بیمار اور خستہ حال تھا اوران کاجسم کمزور و ناتوا ںتھا . ساحل کی دھوپ انہیں تکلیف پہنچا تی تھی . لہذ اان کے لیے ایک نرم و گداز اورلطیف قسم کے لباس کی ضرور ت تھی تاکہ ان کے بدن کو اس کے نیچے آرام حاصل ہو.اس مقام پر قرآن کہتا ہے :” ہم نے ایک کدّو کی بیل اس کے اوپر اگادی “ تاکہ وہ اس کے چوڑ ے اور مرطوب پتوں کے نیچے آ رام کرے (وَ اٴَنْبَتْنا عَلَیْہِ شَجَرَةً مِنْ یَقْطینٍ) ۔
” یقطین “ کامعنی بہت سے اربابِ لغت اور مفسّرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ یہ اس پودے کوکہتے ہیں جس کی شاخ اور تنانہ ہو. اور جس کے پتے چوڑے ہوں . مثلاًخربوزہ ،کدو ، کھیر ااور تربوز وغیرہ . البتہ بہت سے مفسّرین اوراویانِ حدیث نے تصریح کی ہے کہ اس مقام پر اس سے مراد کدّو کی بیل ہے . توجہّ رہے کہ ”شجرة “ عربی زبان میں ان نباتات کو بھی کہاجاتا ہے جن کاتنا اور شاخ ہو اوران کوبھی جوتنا اور شاخ نہ رکھتے ہوں . دوسر ے لفظوں میں یہ درخت اور پود ے کے لیے عام ہے . یہاں تک کہ اس ضمن میں پیغمبر گرامی السلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک حدیث بھی نقل کی گئی ہے کہ ایک شخص نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے عرض کیا :
انک تحب القرع
آپ کدو کوپسند کرتے ہیں ؟
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فر مایا :
اجل ھی شجرة اخی یونس
ہاں یہ میرے بھائی یونس علیہ السلام کی سبزی ہے ( ۴) ۔
کہتے ہیں کہ کدو کی بیل میں اس کے علاوہ کہ اس کے پتے چوڑ ے اورپانی سے پُر ہوتے ہیں اوراس سے اچھا خاصا سائبان بنایاجاسکتاہے ، مکھی بھی اس کے پتوں پر نہیں بیٹھتی اور یونس علیہ السلام کے بد ن کی جلد مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے اس قدر نازک اورحساس ہوگئی تھی کہ اس پرحشر ات کے بیٹھنے سے بھی تکلیف ہوتی تھی . انہوں نے اپنے بدن کو اس کدّ وکی بیل کے ساتھ چھپالیا تاکہ سورج کی پتش سے بھی مامون رہیں اور حشر ا ت الارض سے بھی ۔
شاید خدا کو یہ مطلوب ہے کہ وہ سبق جو حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں دیاتھا اس کی اس مرحلہ میں تکمیل کرے . وہ سورج کی تپش اور اس کی حرارت کو اپنے بدن کی نازک جلدپر محسوس کریں . تاآ یند ہ رہبر ہوتے ہوئے اپنی امت کی جہنم کی جلانے والی آگ سے نجا ت کے لیے زیادہ کوشش کریں . یہی مضمون بعض روایا ت میں بھی آ یا ہے ( ۵) ۔
اب ہم حضرت یونس علیہ السلام کاذکر چھوڑ تے اوران کی قوم کا حال بیان کرتے ہیں ۔
جب حضرت یونس علیہ السلام نے غیض وغضب کی حالت میں اپنی قوم کوچھوڑ دیا اورخد ا کے غضب ک آ ثار بھی اس پر ظاہر ہوگئے ، تووہ لوگ شدّت کے ساتھ لرزاُٹھے . اب انہیں ہوش آ یا . ایک عالم کہ جوان کے درمیان رہتاتھا وہ اس کے گر و جمع ہوگئے اور اس کی رہبر ی اور ہدایت سے تو بہ پرآ ما دہ ہوگئے ۔
بعض روایات میں ہے کہ وہ سب مل کربیابا ن کی طرف چل پڑ ے اور عورتو ں اوربچّوںنیز جانور وں اوران کے بچوں کے درمیان جدائی ڈال دی .پھر گریہ وزاری میں مشغول ہوگئے اورنالہ وفریاد کی صدابلند کی . اورخلوص کے ساتھ اپنے گناہوں اوران کوتا ہیوں پر توبہ کی کہ جو انہوں نے خدا کے پیغمبرحضرت یونس علیہ السلام کے ساتھ روا رکھی تھیں ۔
اس موقع پر عذاب کے پردے ہٹ گئے اور وہ حادثہ پہاڑ و ں پر جاگر. اورتوبہ کرنے والے اہلِ ایمان نے لطفِ الہٰی کے باعث نجات پائی ( ۶) ۔
حضرت یونس اس ماجرے کے بعد اپنی قوم کے پاس آ ئے تاکہ دیکھیں کہ عذاب سے ان پر کیاگز ری ؟
جب وہ آ ئے تو بہت متعجّب ہوئے کہ گو یا دنیا بد ل گئی . وہ تو ان کی ہجرت کے وقت سب کے سب بُت پرست تھے لیکن اب وہ سب کے سب خدا پرست موحّد بن گئے ہیں ۔
قرآن اس موقع پر کہتاہے :ہم نے اسے ایک لاکھ یااس سے کچھ زیادہ افراد کی طرف بھیجا(وَ اٴَرْسَلْناہُ إِلی مِائَةِ اٴَلْفٍ اٴَوْ یَزیدُونَ)۔ 
وہ ایمان لے آ ئے اورہم نے انہیں ایک معیّن مُدّت تک دنیا وی نعمتیں اور زندگی سے بہر ہ مند کیا (فَآمَنُوا فَمَتَّعْناہُمْ إِلی حین) ۔
البتہ ان کااجمالی ایمان اورتوبہ توپہلے ہوچکی تھی لیکن خدااوراس کے پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام اوران کی تعلیمات واحکام پر تفصیلی ایمان اس وقت صورت پذیر ہو ا جب جناب ِ یونس علیہ السلام ان کے درمیان پلٹ کرآئے ۔
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ آ یات قرآنی سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ ما مور یت نئے سر ے سے اسی قوم کی طرف ہوئی تھی اور یہ جو بعض نے ان کی جدید ماموریت کو ایک نئی قوم کے لیے سمجھا ہے وہ ظاہر آیات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے ، کیونکہ ایک طرف تویہ بیان ہوا ہے کہ:
فَآمَنُوا فَمَتَّعْناہُمْ إِلی حین
یعنی یہ قوم جس کی ہدایت کے لیے یونس علیہ السلام مامور ہوئے تھے وہ ایمان لے آ ئی اور ہم نے انہیں ایک معین زمانے تک بہرہ مند کیا ۔
اور دوسری طرف یہی تعبیر سورہٴ یونس میں اسی سابق قوم کے بار ے میں آ ئی ہے۔
فَلَوْ لا کانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَہا إیمانُہا إِلاَّ قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنا عَنْہُمْ عَذابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا وَ مَتَّعْناہُمْ إِلی حینٍ
(دوسری ) قوموں میں سے کوئی قوم بر وقت ایمان کیوں نہ لائی تاکہ وہ ان کے حال کے لیے مفید ہوتا . سوائے قومِ یونس کے کہ جس وقت وہ ایمان لے آ ئی توہم نے دنیاوی زندگی میں خوار کرنے والاعذاب ان سے برطرف کردیااور ہم نے انہیں ایک مدّت معین تک بہرہ مند کیا(یونس. ۹۸) ۔
ضمنی طورپر یہاں یہ بھی واضح ہو جاتاہے کہ ” الیٰ حین “ (معیّن مدتک ) سے مراد وہی ان کی زند گی اور اجل طبیعی کااختتام ہے۔
زیر بحث آ یات میں ” ایک لاکھ یااس سے زیادہ “ کیوں فر مایاگیاہے اور زیادہ سے مراد کتنی تعداد ہے ؟ اس بار ے میں مفسّرین نے طرح طرح کی تفسیریں بیان کی ہیں .لیکن ظاہر یہ ہے کہ اس قسم کی تعبیریں کسی چیز کی عظمت اور تاکید کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ کہنے والے کے شک وشبہ کے لیے ( ۷) ۔
۱۔ یہ پرو گرا م پورا ہوگیااورحضرت یونس علیہ السلام نے ان پر نفرین کی اورانہیں بد دعادی . جوآپ پروحی آ ئی کہ فلاں وقت عذاب ِ الہٰی نازل ہوگا . جب عذاب کے وعد ے کاوقت قریب آیا توحضرت یونس علیہ السلام اس عابد کے ساتھ اس قوم کے درمیان سے باہر چلے گئے ، ایسی حالت میں کہ آپ نہایت غُصّے میں تھے یہاں تک کہ دریا کے کنارے پرپہنچ گئے وہاں لوگوں اور وزن سے بھری ایک کشتی دیکھی . آپ نے ان سے خواہش کی کہ مجھے بھی اپنے ہمراہ لے چلیں ۔
۲۔ تفسیر رازی جلد ۲۶ ص ۱۶۵ ۔ نیز یہی بات تھوڑ ے سے فرق کے ساتھ تفسیر برہان جلد ۴ ،ص ۳۷ پربیان کی گئی ہے۔
۳۔قابل توجہ بات یہ ہے کہ مفسّرین عظیم طبرسی مرحوم جوعام طورپر مختلف اقوام آ یات کے ذیل میں جمع کرتے ہیں.یہاں انہوں نے صرف اسی احتمال پرقناعت کی ہے اور کہتے ہیں :
لصار بطن الحوت قبراً لہ الیٰ یوم القیامة
مچھلی کاپیٹ قیامت تک کے لیے ان کی قبر بن جاتا ۔
۴۔ روح البیان جلد ۷ ص ۴۸۹۔
۵۔ تفسیر نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۲۶ حدیث ۱۱۶۔
۶۔ تفسیربر ہان جلد ۴ ص ۳۵ پریہ حدیث امام صادق علیہ ا لسلام سے منقول ہے۔
۷۔ اس بناء پر یہاں ” بل “ (یعنی بلکہ ) کے معنی میں ہے۔ 
۱۔ حضرت یونس کی زندگی کی مختصر تاریخ سوره صافات / آیه 139 - 148
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma