ان کا اعتنا ء نہ کر !

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 19
سُورہ ٴ ”ص “ کے مطالب و فضیلتسوره صافات / آیه 178 - 182

ہم بیان کرچکے ہیں کہ اس سُور ہ کی آخر ی آ یات پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور مومنین کی دلجوئی کے لیے ایک وسیلہ وذریعہ ہیں اورہٹ دھرم کفّار کے لیے ایک تہدید ہیں ۔
زیر بحث دو آ یتیں تو وہی ہیں جو پہلے بھی آچکی ہیں اور یہاں پر تاکید کے لیے دہرائی گئی ہیں . تہدید آمیز لہجے میں فرمایاگیا ہے :ان سے مُنہ پھیرلے اورنہیں ایک مُدّت معیّن تک ان کی حالت پرچھوڑ دے (وَ تَوَلَّ عَنْہُمْ حَتَّی حین) ۔
ان کی ہٹ دھرمی،انحراف او ر تکذیب وانکار کودیکھ ، وہ بھی جلد ہی اپنی کام کے نتیجہ کو دیکھ لیں گے (وَ اٴَبْصِرْ فَسَوْفَ یُبْصِرُون) ۔
جیساکہ ہم بیان کرچکے ہیں یہ تکرار تاکید کے لیے ہے تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ یہ ایک قطعی مسئلہ ہے کہ وہ جلد ہی اپنی سزا،شکست اور ناکامی کودیکھ لیں گے اوراپنے اعمال کے تلخ تنائج میں گرفتار ہوں گے اور مومنین کی کامیابی قطعی او ر مسلّم ہے۔
یایہ اس بنا پر ہے کہ پہلے تو انہیں دنیاوی سزا اورعذاب کی تہدہد کی گئی ہے اور دوسری مرتبہ آخرت میں خدائی سزا و عذاب کی دھمکی ہے۔
اس کے بعد سُور ہ کو ” خداوند تعالیٰ “” پیغمبر وں ‘ ‘ اور” عالمین“ کے بار ے میں تین پُر معنی جملوں کے ساتھ ختم کیا گیاہے۔
فرمایاگیاہے : تیرا پر وردگا ر ، پروردگار ِعزّت و قدرت ان بے بنیاد وتوصیفوں سے ، جو جاہل و مشرک لوگ کرتے ہیں،پاک و منزّ ہ ہے (سُبْحانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ ) ۔
کبھی فرشتوں کوا س کی بیٹیاں کہتے ہیں ، کبھی اس کے اور جنّوں کے درمیان رشتہ داری جوڑتے ہیں اور کبھی پتھر وں اور لکڑ ی جیسی بے قدر وقیمت موجودات کواس کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں ۔
عزّ ت (مطلق و شکست ناپذ یرقُدرت ) حقیقت میں ان تمام خیالی معبودوں پرخطِ بُطلان کھینچنے کے معنی میں ہے۔
اس سورہ کی آ یا ت میں کبھی ” عِبادَ اللَّہِ الْمُخْلَصین “ کی تسبیح و تنز یہ کاذکر ہے اور کبھی فرشتوں کی تسبیح کاتذ کرہ اور یہاں خود خدا کی ذاتِ پاک کے بار ے میں خداکی تسبیح و تنزیہ کا ذکر ہے۔
دوسر ے جملے میں اللہ تعالیٰ تمام پیغمبر وں کے لیے اپنے بے پایاں لطف و کرم کااظہار فرماتے ہوئے کہتاہے ، تمام رسولوں پر سلام ہو (وَ سَلامٌ عَلَی الْمُرْسَلینَ)۔
وہ سلام جوقیامت کے دن ہر قسم کے عذاب و سزا سے سلامتی و عافیت کی نشانی ہے . وہ سلام جوشکستوں کے مقابلہ میں امان اور دشمنوں پرکامیابی کی دلیل ہے۔
قابلِ تو جہ ّ بات یہ ہے کہ اس سُورہ کی آیات میں بہت سے پیغمبر وں پر الگ الگ سلام بھیجا گیاہے . آ یہ ۷۹ میں فرمایاگیا ہے :
سَلامٌ عَلی نُوحٍ فِی الْعالَمین
اور آ یہ ۱۰۹ میں فرمایا گیا ہے۔
سَلامٌ عَلی إِبْراہیمَ
اور آ یہ ۱۲۰ میں ہے :
سَلامٌ عَلی مُوسی وَ ہارُونَ
اور آ یہ ۱۳۰ میں ہے :
سَلامٌ عَلی إِلْیاسین
لیکن یہاں پر ان تمام سلاموں اور ان کے علاوہ دوسروں کو ایک ہی جملے میں خلاصہ کرکے اور یکجا طورپر فرمایاگیا ہے : سب رسولوں پر سلام ۔
اور بالاآخر گفتگو کے آخر ی جملے کوحمد الہٰی پرختم کرتے ہوئے ارشاد ہوتاہے : حمد و ستائش مخصوص ہے اس خدا کے لیے جو عالمین کا پروردگار ہے (وَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمین) ۔
آخر ی تین آ یات ہوسکتاہے اس سُورہ کے تمام مسائل پر ایک اجمالی نظر اور اشارہ ہو . کیونکہ اس سورہ کااہم حِصّہ توحید اور شرک کی مختلف اقسام سے مقابلہ کے سلسلہ میں تھا اور پہلی آ یت سب مشرکین کی تمام توصیفوں سے خدا کی تسبیح وتنز یہ کررہی ہے۔
اس سورہ کا دوسراحِصّہ ساتھ عظیم پیغمبروں کے حالات کے کچھ گوشوں کابیان تھا . دوسر ی آ یہ انہیں کی طرف اشارہ ہے۔
اور آخر میں تیسراحِصّہ خداکی نعمتوں ،خصوصاًبہشت کی طرح طرح کی نعمتوں اورخدا کے لشکر وں کی کفر کے لشکر پر کامیابی کے بار ے میں تھا.لہذ اآخر میں خدا کی حمد و ستائش ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ ہے۔
بعض مفسّرین نے اس سورہ کی ان آخری تین آ یات کی ایک او ر تحلیل کی ہے ، جو یہ ہے :
اہم ترین مسائل جوانسان کواپنی طرف متوجہّ رکھتے ہیں ،وہ تین چیزوں کی معرفت ہے . پہلی چیزبشر کی طاقت کے مطابق خداوند ِ عالم کی معرفت اور آخر ی کام جو انسان اس سلسلے میں انجام دے سکتا ہے ، وہ تین امر ہیں ۔
اسے ان چیز وں سے پاک ومنزّہ جاننا جو اس کے مقام کے لائق نہیں ہیں،یہ مفہوم ”سُبحان “ کے لفظ میں موجود ہے اوراس کی تمام صفاتِ کمال کے ساتھ توصیف،جس کی طرف لفظ ِ ’رب “ میں اشارہ ہو ا ہے،جو خدا کی حکمت ورحمت اور مو جودات کی مالکیت و پر ورش کی دلیل ہے۔
اور ہر قسم کے شریک و نظیر سے منزّہ ہونا،اس کامفہوم ”عمّا یصفون “ کے جملہ میں آیاہے۔
دوسرااہم مسئلہ انسانوں کی زندگی میں نقائص کو دُور کرناہے جو خدائی رہبروں اور آسمانی ہادیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ” سَلامٌ عَلَی الْمُرْسَلینَ“ کاجملہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔
تیسرا اہم مسئلہ انسانی زندگی کایہ ہے کہ وہ یہ جانے کہ مرنے کے بعد اس کاا نجام کیاہوگا ؟یہاں پر ”رب العالمین“ کی نعمتوں کی طرف توجہّ اوراس کامقامِ غنا اوررحمت ولطف ، انسان کوآرام وسکون بخشتاہے ”وَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمین “ (۱) ۔
ہرکام کے آخر میں سوچنے کی بات
متعدد روایات میں جو پیغمبر گرامی السلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ،امیرالموٴ منین علیہ السلام ، اور امام باقر علیہ السلام سے منقول ہوئی ہیں،یہ آ یاہے :
من اراد ان یکتال بالمکیال الاو فی(من الاجر یوم القیامة ) فلیکن اٰ خر کلا مہ فی مجلسہ سبحان ربک رب العزة عمّا یصفون وسلام علی المر سلین والحمد اللہ رب العامین
جوشخص یہ چاہتاہے کہ قیامت کے دن اس کو اجر بڑ ے اور کامل پیمانہ سے دیاجائے گا تووہ جس مجلس میں بیٹھے اس کی آخر ی گفتگو یہ ہونی چاہیے ” سبحان ربک رب العزة عمّا یصفون وسلام علی المر سلین والحمد اللہ رب العامین “ ( ۲) ۔
ہاں ! اپنی مجلس کوذاتِ خداکی تنزیہ اوراس کے پیغمبروں پر درود بھیجنے اور پر وردگا ر کی نعمتوں پرحمد وشکر کے ساتھ ختم کرناچاہیے ، تاکہ اگراس مجلس میں اس سے کوئی غلط کام یانا رواگفتگو سرزد ہوگئی ہو تواسکی تلافی ہوجائے ۔
کتابِ توحید صدوق میں اس طرح آ یا ہے کہ :
”شام کاایک عالم امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں آ یا اورعرض کیاکہ میں آپ سے ایک مسئلے کے بار ے میں سوال کرنے آیا ہوں ، جس کے متعلق اب تک کسی نے میرے لیے درست وضاحت نہیں کی . میں نے تین گروہوں سے سوال کیاہے اور ہر کسی نے دوسر ے کے برخلاف جواب دیاہے “ ۔
امام باقر علیہ السلام نے فر مایا : ’ ’ تیرامسئلہ کیاہے “ ؟
اس نے عرض کیا : میرا سوال یہ ہے کہ پہلی چیز جو خدا وند تعالیٰ نے خلق فرمائی تھی وہ کیاتھی ؟بعض نے تو مجھے یہ جواب دیاہے کہ وہ ” قدرت “ تھی اوربعض نے کہا ” علم “ تھا اور بعض نے کہا ” روح “ تھی ۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا :
کسی نے بھی تجھے صحیح جواب نہیں دیا . اب میں تجھے بتاتاہوں کہ ابتداء میں خدا تھا اوراس کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہ قادر وعزیزتھا اورابھی عزّت پیدانہیں ہوئی تھی ( وہ اپنی ذات پاک میں قدرت بھی رکھتا تھا اور علم بھی بغیر اس کے کہ علم و قدرت کی آ فرینش کامحتاج ہو ) پھر مزید فرمایا : یہ وہی چیز ہے کہ جو خدافرماتاہے ” سبحان ربک رب العزة عمّا یصفون“ َ(۳) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِدھر اُدھر لوگوں نے جوتجھ سے باتیں کی ہیں وہ شرک آلودہ باتیں ہیں کہ جن کاجواب اس آیت میں موجود ہے . یہی خدا ازل سے ہی قادر و عالم و عزیز ہے۔
پروردگار ا! تو نے خود وعدہ کہاہے کہ اپنے رسولوں کی مدد اوراپنے لشکروں کوکامیاب کرے گا ہمیں رسولوں کاپیرو کار اور اپنے لشکر و میں قرار دے اورہمیں ان خو نخوار دشمنوں پرکامیاب فرما کہ جوعالم کے مشرق ومغرب سے قرآن کے نور کوخاموش کرن کے لیے اُٹھ کھڑ ے ہوئے ہیں ۔
بار الہٰا ! ہمیں ہرقسم کے شرک میں آلودہ ہونے سے اور توحید کے راستے سے انحراف کرنے سے محفوظ فرما ۔
خداوندا ! جومشکلا ت انبیاء کو تاریخ میں شرک و کفر کے لشکر کے مقابلے میں درپیش تھیں وہی اس وقت ہمارے اسلامی معاشر ے کے سا منے پیدا ہوچکی ہیں.وہی سلام جوپیغمبرونِ مرسلم کی سلامتی کاباعث تھا ان معرکوں میں ہمارے شاملِ حال فرما ۔

آمین یاربّ العالمین ۔
۱۔ تفسیر کبیر ، فخر رازی ،جلد ۲۶ ص ۱۷۳۔
۲۔ ” مجمع البیان “ زیربحث آ یات کے ذیل میں، اصو ل کافی اور” من لا یحضر ہ الفقیہ “ ( تفسیر نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۴۰ کے مطابق ) ۔
۳۔ تفسیر نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۴۰۔
سُورہ ٴ ”ص “ کے مطالب و فضیلتسوره صافات / آیه 178 - 182
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma