دامن وحی مضبُو طی سے پکڑ ے رہیں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 21
گذشتہ آیات میں ہٹ دھرم اورناقابلِ ہدایت کفار اور ظالمین کے ذکر کے بعد زیر تفسیرآیات میں رُو ئے سخن پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی طرف کرکے ایسے لوگوں کو شدید تنبیہ اورپیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی تسلّی اورع دلجوئی کی خاطر ارشاد فرمایا گیا ہے : اگر ہم تجھے ان کے درمیان سے لے جائیں توہم ان سے ضرور انتقام لیں گے اورانہیں ضرور سزادیں گے ۔
(فَإِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَإِنَّا مِنْہُمْ مُنْتَقِمُونَ) ۔
اس قوم کے درمیان سے پیغمبر کے لیے جانے سے مراد خواہ رسُول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی وفات ہو یامکّہ سے مد ینہ کی طرف ہجرت دونوں صورتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )شاہد اور ناظر نہ بھی ہوں اور وہ لوگ اپنی اسی روش پر باقی رہیں پھربھی ہم ان کوسخت سزا دیں گے . کیونکہ دراصل ” انتقام “ کامعنی سزادینا ہے . ہر چند کہ متعدد دوسر ی قرآنی آیات سے جو اِس بار ے میں نازل ہوئی ہیںیہ بات سمجھ آ تی ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو ” لے جانے “ سے مراد آپ کی وفات ہے جیساکہ سورہٴ یونس کی ۴۲ ویں آ یت میں ہے :
وَ إِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذی نَعِدُہُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِلَیْنا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ اللَّہُ شَہیدٌ عَلی ما یَفْعَلُونَ
” اگر ہم آپ کی زندگی میں ان کوکُچھ وہ سزا ئیں دیں جن کاہم نے ان سے وعدہ کیا ہے ، یاآپ کو یہاں سے اُٹھالیں اور آپ انہیں نہ دیکھ پائیں ، ہرحالت میں اس کی باز گشت ہماری طرف ہے اور خدا ان اعمال کاگواہ ہے جووہ انجام دیتے رہتے ہیں “ ۔
یہی چیز سورہ رعد کی چالیسویں اور سُورہٴ موٴ من کی ۷۷ ویں آ یت میں بھی آچکی ہے .لہذا زیر نظر آیت سے ہجرت مراد لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا ۔
اس کے بعد فر مایاگیاہے : اگر توزندہ بھی رہے اورہم نے ان سے جس عذاب کاوعدہ کیا ہے،وہ دکھا بھی دیں پھر بھی ہم ان پر ہر طرح سے قابو رکھتے ہیں (اٴَوْ نُرِیَنَّکَ الَّذی وَعَدْناہُمْ فَإِنَّا عَلَیْہِمْ مُقْتَدِرُونَ) ۔
وہ ہر حالت میں ہمارے قابُو میں ہیں ، خواہ آپ ان لوگوں کے درمیان موجود ہوں یانہ ہوں اوران کی اسی روش پرقائم رہنے کی صُورت میں یہ لوگ ہمارے انتقام اورہماری سزاسے نہیں بچ سکتے ، خواہ ان کا یہ انجام آ پ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی زندگی میں ہو خواہ آپ کی وفات کے بعد جلدی یادیر تو ہوسکتی ہے لیکن بچ ہرگز نہیں سکتے ۔
قرآن کی یہ تاکید ممکن ہے ایک طرف توکفّار کی اس بے تابی کی طرف اشارہ ہو جو وہ کہتے تھے :
اگر توسچ کہتاہے توپھر ہم پر وہ مصیبت نازل کیوں نہیں ہوتی ۔
دوسری جانب ممکن ہے ان کی طرف سے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی موت کے انتظار کی طرف اشارہ ہو کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ جو نہی آپ اس دُنیا سے تشریف لے جائیں گے ساری بات ختم ہوجائے گی ۔
اس تنبیہ کے بعد رسولِ پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کو خدا کی طرف سے حکم ملتاہے : تیری طرف جووحی کی گئی ہے تواسے مضبوطی سے تھامے رہ کیونکہ تو یقیناسیدھی راہ پر ہے : (فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذی اٴُوحِیَ إِلَیْکَ إِنَّکَ عَلی صِراطٍ مُسْتَقیمٍ ) ۔
تیری کتاب اور طرز ِ عمل میں ذرہ بھر کجی اور ٹیڑ ھاپن نہیں ہے اور کفار ومشر کین کے ایک ٹولے کاانہیںقبول نہ کرنا تیری حقانیت کی نفی کی دلیل نہیں بن سکتا .تواپنے اس سِلسلے کوپوری طرح سے جاری رکھ باقی سب ہمار ے ذمہ ہے ۔
اس کے بعد فرمایاگیاہے : یہ قرآن کی جس کی تجھ پروحی کی گئی ہے تیرے لیے اور تیر ے قوم کے لیے یاد آ وری کاایک ذریعہ ہے (وَ إِنَّہُ لَذِکْرٌ لَکَ وَ لِقَوْمِکَ ) ۔
اسکے نزول کامقصد ہ لوگوں کو بیدارکرنا او ران کے فرائض سے انہیں آگاہ کرنا ہے ۔
” اور تم لوگوں سے عنقریب ہی باز پرس کی جائے گی “ کہ تم اس خدائی پرو گرام اوراس آ سمانی وحی کے ساتھ کیاسلوک کیاہے (وَ سَوْفَ تُسْئَلُون) ۔
اس تفسیر کے مطابق مندرجہ بالا آیت میں ” ذکر “ سے مراد ” ذکر اللہ “ اور دینی فرائض سے آشنا ئی اور آگا ہی ہے . جیساکہ اسی سُورت کی پانچویں اور چھتیسویں آیات میں یہ بات آئی ہے ، قرآن کی بہت سی دوسری آیات کے مانند ۔
اصولی طورپر قرآن مجید کاایک نام ” ذِکر “ بھی ہے ، ذکر بھی وہ کہ جو یاد آوری اور ذکر اللہ ہے اور سُورہ ٴ قمر میں تویہ جُملہ متعدد بار آیا ہے :
وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُدَّکِرٍ
” یعنی ہم نے قرآن مجید کو یاد آوری کے لیے آ سان اور سہل بنا دیاہے آیاکوئی ہے جو یاد سے کام لے “ ۔
ملاحظہ ہوں اسی سُورت کی آیا ت نمبر ۱۷، ۲۲، ۳۲ ،اور ۴۰۔
اس کے علاوہ ” و لسوف تسلئون “کا جُملہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہاں پرسوال سے مراد اس خدائی پرو گرام پرعمل کے بارے میں پُوچھ گچھ ہے ۔
ان تمام باتوں کے باوجود اس بات پر تعجب ہوتاہے کہ اس آیت کے لیے بہت سے مفسرین نے ایک اور تفسیر کاانتخاب کیاہے جومذ کورہ تفسیر سے مناسبت نہیں رکھتی .منجملہ انہوں نے یہ کہاہے کہ آیت کا معنی یہ ہے :
” یہ قرآن تیرے اور تیر ے قوم کے لیے سر مایہ شرف و آ بر و یاذ کرخیر ہے اور عرب و قریشی یا تیری اُمت کوشرف عطا کرتاہے .کیونکہ انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے اوراس نعمت الہٰی کے بار ے میں عنقریب ان سے باز پُرس ہوگی ( ۱) ۔
یہ ٹھیک ہے کہ قرآن مجید نے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اورعربوں بلکہ تمام مسلمانوں کو ساری کائنات میں شہر ت دی ہے اور چو دہ سو سال سے زیادہ عرصے سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کانام ہرصبح وشام گلدستہ ٴ اذان پر عظمت واحترام کے ساتھ لیا جارہا ہے ذمانہ ٴ جاہلیّت کے بے نام ونشان عربو ں کو نام مِلا ہے اوراسی کے پرتومیں اُمّت ِ اسلامیہ کوشرف اور سربلند ی نصیب ہوئی ہے ۔
اور یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ قرآن میںکہیں کہیں پر ”ذکر“ کا لفظ اس معنی میں بھی آ یاہے ،لیکن اس میں بھی شک نہیں ہے کہ پہلا معنی قرآنی آیات میں ذیادہ وسعت رکھتاہے اور نزُولِ قرآن اور زیرِ بحث آیات کے مقاصد سے زیادہ ہم آہنگ ہے ۔
بعض مفسرین نے سورہٴ انبیاء کی دسویں آ یت کو دوسری تفسیر پر شاہد قرار دیاہے آ یت یہ ہے :
لَقَدْ اٴَنْزَلْنا إِلَیْکُمْ کِتاباً فیہِ ذِکْرُکُمْ اٴَ فَلا تَعْقِلُون
” ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے کہ جس میں تمہار ی یاد کا ذریعہ ہے آیاتم عقل سے کام نہیں لیتے “ ؟ َ (۲) ۔
حالانکہ یہ آ یت بھی پہلی تفسیر کے لیے زیادہ موزون ہے ،جیساکہ ہم تفسیر نمونہ کی تیرھویں جلد میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں (۳) ۔
اس آ یت کے ذیل میں حدیث کی کتابوں میں کچھ روایات ذکر ہوئی ہیں ، جو بعد میں بیان کی جائیں گی ۔
پھر بُت پرستی کی نفی اور مشرکین کے عقاید باطل کرنے کے لیے ایک اور دلیل پیش کرتے ہُو ئے فرمایاگیاہے : اور ہم نے تجھ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں ان سب سے در یافت کردیکھ . آیا ہم نے رحمان خدا کے علاوہ اور معبُود قرار دیئے تھے کہ ان کی عبادت کی جا ئے (وَ سْئَلْ مَنْ اٴَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنا اٴَ جَعَلْنا مِنْ دُونِ الرَّحْمنِ آلِہَةً یُعْبَدُون) ۔
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام ابنیاء نے توحید کی طرف بلایا ہے اور سب نے دوٹوک الفاظ میں بُت پرستی کی مذمت کی ہے بنابریں پیغمبر ِ السلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے بُتوں سے اپنی لخالفت کے سلسلے میں کوئی بناکام انجام نہیں دیا . بلکہ انبیاء علیہم السلام کی دائمی سُنّت کااحیاء فرمایاہے اور یہ بُت پرست اور مشرکین ہی ہیں جنہوں نے تمام انبیاء کے مکتب کے خلاف قدم اٹھایا ہے ۔
اس تفسیر میں اگرچہ مخاطب حضرت رسُول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہی ہیں لیکن مراد تمام اُمّت ہے حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کے مخالفین بھی ۔
اور جن سے سوال کیاجاتاہے وہ انبیائے ماسلف کے پیرو کار ہیں .البتہ سچّے اورقابلِ اعتماد پیر وکار بھی اور عام پیرو کار بھی کیونکہ ان کے مجموعی اقوال سے ” خبر متواتر “ دستیاب ہو گی جو انبیاء علیہم السلام کے توحید ی مکتب کی مظہر ہے ۔
یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ اصول توحیدسے رو گردانی کرنے والے ( موجودہ دور کے عیسائی جو تثلیث کے پیر وکار ہیں ) تک توحید کا دم بھر تے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمار ی تثلیث، توحید کے منافی نہیں ہے جوتمام انبیاء کا دین ہے اسی لیے ان امتوں کی طرف رجوع بھی مشر کین کے دعویٰ کوجھوٹاثابت کرنے کے لیئے کافی ہے ۔
لیکن کچھ مفسرین نے بعض روایا ت کی روشنی میں ایک اورتفسیر کااحتمال ذکرکیاہے (۴) ۔
وہ یہ کہ سوال کرنے والے خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہیں اور سوال کیے جانے والے خود انبیائے ماسلف . وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ شبِ معراج پیش آیا کیونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) وہاں انبیائے ماسلف کی ارواح سے رابطے کے لیے زمانی اور مکانی روکاٹ نہیں بن سکتے تھے اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )گرامی قدر ہر لمحہ اور ہر جگہ ان سے رابط قائم کرسکتے تھے ۔
البتہ ان تفسیروں میں کوئی عقلی مشکل موجودنہیں ہے . لیکن آیت کامقصد مشرکین کے مذہب کی نفی کرنا ہے نہ کہ رسُول ِ پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کوتسلی دینا ، کیونکہ رسُول ِ پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )مسئلہ توحید میں اس مستغرق اور شرک سے اس قدر بیزار تھے کہ سوال کرنے کی ضرورت ہی محسُوس نہیں فر ماتے تھے اور مشرکین کے مقابلے کے لیے دلیل قائم کرنے کے لیے رسُول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کاانبیائے ماسبق کی ارواح سے روحانی رابط قائم کرنا انہیں مانع نہیں کرسکتا تھا . لہذا پہلی تفسیرزیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے اور ممکن ہے کہ دوسر ی تفسیر آ یت کے باطنی معنی کی طرف اشارہ ہو، کیونکہ قرآنی آ یات کاظاہر بھی ہوتاہے اور باطن بھی ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مندجہ ہے کہ بالا آ یت میں خدا کے نا موں سے ایک نام ” رحمان “ کو ذ کرکیاگیاہے جوا س سوال کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایسے خداکو جھوڑ دیں جس کی رحمت عام اور سب پرمحیط ہے اور بتُوں کے پیچھے لگ جائیں جن سے کسی قسم کی اچھائی یابُرائی کی کوئی توقع نہیں ہے ۔
پیغمبر کی قوم کون لوگ ہیں ؟
” وَ إِنَّہُ لَذِکْرٌ لَکَ وَ لِقَوْمِک“ والی آیت کے بار ے میں یہ سوال ہوتاہے کہ اس میں مذ کور ” قوم “ سے کون لوگ مراد ہیں ؟ چنانچہ اس بار ے میں تین احتمال ہیں ۔
ایک تو تمام اُمّت مسلمہ ، دوسر ے عرب قوم اورتیسر ے قبیلہ قریش ۔
چونکہ قرآنی نظر سے بہت سی آ یات میں ”قوم “ کالفظ انبیاء کی اُمتوں یا ان کی معاصر اقوام کے لیے استعمال ہوٴ ا ہے لہذا معلوم ہوتاہے کہ یہاں پر بھی یہی معنی پیشِ نظر ہیں ۔
اس صُورت میں قرآن مجید تمام اسلامی اُمتوں کے لیے ذکر و آگاہی کا سبب ہوگا ( پہلی تفسیر کے مطابق اوران سب کے لیے سر مایہ شرف و افتخار ہوگا ( دوسر ی تفسیر کے مطابق ) ۔
لیکن اہلبیت علیہم السلام کے ذ رائع سے ہم تک پہنچنے والی متعد د روایات سے معلوم ہوتاہے کہ آ ئمہ معصومین علیہم السلام فرماتے ہیں کہ اس آ یت میں ” قوم “ سے مراد ہم لوگ یعنی اہل بیت پیغمبر ہیں ( ۵) ۔
لیکن کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ آیت کاایک روشن مصداق ہوں . قوم کا مفہوم خواہ تمام اسلامی امتیں ہوں یاعرب اقوام یاپھر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کا قبیلہ ، ہرصُورت میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام اس کاواضح ترین مصداق ہیں ۔
۱۔ ملاحظہ ہو تفسیر مجمع البیان ، تفسیر کبیر فخر رازی ، تفسیر قرطبی ،تفسیر مراغی اور تفسیر ابو الفتوح ،انہی آیات کے ذیل میں ۔
2۔تفسیر قرطبی انہی آ یات کے ذیل میں ۔
۳۔ایک اور بات جومشہور تفسیر کے لیے دلیل بن سکتی ہیں وہ لفظ ” قوم “ کے بارے میں ہے جو مندرجہ بالا آ یات میں مذ کور ہے وہ یہ کہ قرآن مجید ساری دُنیا کے لوگوں کے لیے یاد آوری کاایک ذریعہ ہے ، نہ صرف پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )کی قوم یامِلّت اسلامیہ کے لیے لیکن یہ بات بھی جواب طلب ہے ، کیونکہ مذکورہ گروہ دوسر وں سے پہلے قرآن سے بہرہ مند ہوئے ہیں .اسی لیے ان کے ذکر پر زور دیاگیاہے ۔
۴۔یہ روایات تفسیر قرطبی ، تفسیر فخر رازی اور تفسیر مجمع البیان میں ابن عباس سے منقول ہیں. اور تفسیرنو رالثقلین میں اس بار ے میں دومفصل روایتیں ” احتجاج طبرسی “ اور تفسیرعلی بن ابراہیم سے منقول ہیں (دیکھیئے تفسیرنمونہ جلد تمبر ۴ ) ۔
۵۔ ان احادیث کوتفسیر نورالثقلین کے موٴ لف نے جلد چہارم ص ۶۴ تا ۶۵ میں جمع کر دیا ۔
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma