سجدہ صرف خدا کو کرو

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

درحقیقت ان آیات سے اس سورہ کے ایک نئے حصّے کاآغاز ہو رہاہے جس میں توحید ،معاد اور نبوت اورقرآن کی عظمت کابیان ہے اور یہ حقیقت مشرکین کی بتوں کی طرف دعوت کے مقابلے میں ” دعوت الی اللہ “ کاایک روشن مصدا ق ہے۔
بات توحید کے مسئلہ سے شروع کی گئی ہے اورآفاقی آیات کے ذریعے لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے :رات دن سورج اور چاند ہیں توپر وردگار کی نشانیوں میں سے ہیں (وَ مِنْ آیاتِہِ اللَّیْلُ وَ النَّہارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ )( ۱)۔ 
رات آرام و سکون کاذ ریعہ اور دن کی روشنی اور چمک دمک تحرک اور فعا لیت کاسبب ہوتی ہے . یہی دونوں مل کر منظم اور مرتب طریقے سے انسانی زندگی کے پہیے کو چلارہے ہیں . اگران میں سے کوئی ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتایا کم از کم ایک دوسرے سے بہت زیادہ طویل ہوتا تو تمام ذی روح فناہوجاتے . یہی وجہ ہے کہ کرہ زمین کے جس خطے پر پندرہ دن کے برابر یاراتیں ہوتی ہیں وہ کسی بھی مخلوق کے لیے کسی صورت میں میں بھی قابل سکونت نہیں ہوتا . کیونکہ اس کی سر د اور تاریک راتوں میں سب چیزیں جم جاتی ہیں اور گرم ار جھلس دینے والے دنوں میں ہرچیز جل کر راکھ ہوجاتی ہے . اسی لیے انسان جیسی مخلوق کاوہاں پرزندہ رہنامحال ہے۔
لیکن یہ سورج ہمارے نظام شمسی میں تمام مادی برکات سرچشمہ ہے . روشنی گرمی ، حرکت، تحرک ،بارش کاناز ل ہونا ،نباتات کااگنا ،پھلوں کادلکش اور زیبا چراغ ہے اور اپنے مدوجز رکے ذریعے بے انتہابرکتیں وجودمیں لاتاہے۔
اسی لیے توکچھ لوگوں نے آسمان کے ان دونوں روشن چراغوں کے سامنے سجدہ کر ناشروع کردیاتھا . درحقیقت انہوں نے عالم اسباب میں مست الا سباب کودیکھے اورا س کی معرفت حاصل کیے بغیر اسباب کی پرستش شروع کردی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن اس کے ساتھ ہی کہہ رہا ہے : سورج اور چاند کوسجدہ نہ کرو بلکہ اُسے سجدہ کرو جس نے ان کو خلق فر مایا ہے اگرتم اسی کی عبادت کرناچاہتے ہو ۔ ( لا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَ لا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذی خَلَقَہُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ) (۲)۔
تم ان برکتوں کے منبع و مر کز اور سرچشمہ کوتلاش کیوں نہیں کرتے ؟ اس کے مقدس آ ستان پر جبہ سائی کیوں نہیں کرتے ؟کیوں ایسی مخلوق کی عبادت کرتے ہو جوخود قوانین آفرینش کی اسیرہے ؟ ان میں توطلوع بھی ہے اورغروب بھی عروج بھی ہے اور زوال بھی اور یہ ہمیشہ تبدیلیوں کامحور چلی آرہی ہے۔
کسی ایسے کی تلاش کرنی چاہیئے جوقوانین کاخالق بھی ہو اور ان پرحاکم بھی ، جس میں غروب و زوال نہ ہو اور تغیروتبدل جس کی ذات کبریائی تک نہ پہنچ سکتے ہوں۔
سورج اور چاند چونکہ عالم طبیعت کاحصّہ ہیں اس طرح سے شرک اور بت پرستی کے ایک شعبے کی نفی کی جارہی ہے اور انہیں سب کوپیغام دیاجارہاہے کہ ان مخلوقات کے خالق اکاسراغ لگاؤ ، معلوم پر ہی نہ رک جاؤ بلکہ علت العلل کی تلاش کرو ۔
درحقیقت اس آیت میں سورج ، چاند ، رات اور دن پر جویکساں نظام حاکم ہے اس کے ذریعے خدا وند عالم کی وحد نیت اور یگا نگت پراستد لال کیاگیاہے اور اس کی خالقیت اورحاکمیّت کو اس کی عبادت کالازمہ بتایاگیاہے۔
” ان کتنم ایاہ تعبدون “ کاجملہ درحقیقت اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ اگرخدا کی عبادت کاقصد رکھتے ہو تو اس کے غیر کی عبادت چھوڑ دو اور کسی بھی چیز کوا س کی عبادت میں شریک قرار نہ دو. کیونکہ اس کی عبادت کبھی بھی دوسروں کی عبادت کے ساتھ نہیں ملائی جاسکتی۔
پھر قرآن فرماتاہے کہ اگر یہ منطقی دلیل بھی ان کی افکار وعقول کے لیے موٴ ثر نہ ہو اور اس کے باوجود وہ بتوں اورمجازی معبودوں کی عبادت میں جتے رہیں اور معبود حقیقی کو فراموش کردیں اور” اگر عبادت خداکے بار ے میں تکبر کااظہار کریں ، تُو ہرگز نہ گھبر اکیونکہ مقرب فرشتے اس کی بار گاہ میں شب اور روز اس کی تسبح کرتے رہتے ہیں اور کبھی اس کی عبادت سے نہ تنگ آتے ہیں اور نہ ہی تھکاوٹ اکااظہار کرتے ہیں “(فَإِنِ اسْتَکْبَرُوا فَالَّذینَ عِنْدَ رَبِّکَ یُسَبِّحُونَ لَہُ بِاللَّیْلِ وَ النَّہارِ وَ ہُمْ لا یَسْاٴَمُونَ) (۳)۔  
اگر جاہل اور نادانوں کاایک گروہ اس کی پاک ذات کوسجدہ نہیں کرتا توکیاہوا ، یہ وسیع کائنات مقرب فرشتوں سے معمور ہے جوہمیشہ رکوع ، سجود ،حمد اور تسبیح میںمصروف ہیں اور وہ پھر یہ کہ اس پاک ذات کو توان فرشتوں کی عبادت کی بھی ضمیرورت نہیں بلکہ انہیں اس کی عبادت کی ضرورت ہے . کیونکہ اس عالم امکان میں جو بھی اعزاز و کمال ہے سب اس کی عبو دیت کے زیر سا یہ ہے۔
جیساکہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ مندرجہ بالا آ یت ، آیات سجدہ میں سے ہے لیکن سوال پیداہوتا ہے کہ آیا پہلی آیت کے آغاز ” تعبدون “ سے واجب ہے یادونوں آیات کے اختتام ” وھم لایسامون “ پر؟ توا س سلسلے فقہائے اہلسنت میں اختلاف ہے . بعض حضرات جن میں شافعی اور مالک شامل ہیں نے پہلے قول کواور بعض کہ جن میں ابوحنیفہ اوراحمد بن حنبل شامل ہیں نے دوسرے کو ترجیح دی ہے ، لیکن علماء امامیہ کے مطابق ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے فرامین کی روشنی میں سجدے کامقام ” تعبدون“ ہے اور اسی جگہ پر قرآن کاسجدہ واجب ہے۔
لا الہٰ اللہ حقّا حقّاً ، لاالہ ٰ الاّ اللہ ایماناً و تصدیقاً ، لا الہٰ الاّ اللہ عبود یّة ورقاً ،سجد ت لک یارب تعبدًا ورقّاً ، لا مستنکفاً و لامستکبراًبل اناعبد ذلیل خائف مستجیر ( ۴)۔ 
ایک بار پھر قرآن توحید پر مشتمل آیات کی طرف لوٹتاہے جومسئلہ معاد کا پیش خیمہ ہے . اگر پہلی آیت میں سورج ، چاند اور آسمانی آیات کے بار ے میں گفتگو تھی تو یہاں پراضی اورزمینی نشانیوں کاتذ کرہ ہے۔
ارشاد فرماتاہے : اس کی نشا نیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تم زمین کو خاشع وخشک اور بے حرکت پاتے پوتو جب ہم اس پر با رش کے حیات بخش قطرے بھیجتے ہیں تو وہ حرکت میں آجاتی ہے اور نشو و نما کر نا شروع کردیتی ہے (وَ مِنْ آیاتِہِ اٴَنَّکَ تَرَی الْاٴَرْضَ خاشِعَةً فَإِذا اٴَنْزَلْنا عَلَیْہَا الْماء َ اہْتَزَّتْ وَ رَبَتْ)۔ 
بے حس وحرکت،خشک اور مر دہ زمین کی اوراس کے یہ تمام آثار حیات اور گوناگون جلوے کہاں ؟کونسی قدرت ہے جوبار ش کے چند قطرے برسا کرمردہ زمین میں ا س قدر تحرک اور زندگی پیدا کردیتی ہے ؟ یہ سب کچھ اس خدا کے بے انہتا علم اور بے پایاں قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی اور اس کے وجود ذیجود کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔
اس واضح ترین توحید ی مسئلہ یعنی زندگی کے مسئلہ کے جس کے اسرا را ب بھی بہت سے عظیم دانشور وں سے پوشیدہ ہیں ، سے خوبصورت طریقے سے گریز کرتے ہوئے معاد کے مسئلے کو بیان فرمایاگیا ہے .ارشاد ہوتاہے : بے شک جس ذات نے اس مردہ زمین کوزندہ کیا ہے وہی مردوں کو بھی قیامت کے دن زندہ کرے گی ( إِنَّ الَّذی اٴَحْیاہا لَمُحْیِ الْمَوْتی )۔ 
جی ہاں ” وہ یقینا ہرچیز پرقادر ہے “ (إِنَّہُ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ قَدیر)۔ 
اس کی قدر ت کے دلائل ہرجگہ ظاہر اوراس کی نشا نیو ں کوہرسال اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو ، پھر معاد میں کیوں شک وشبہ کااظہار کرتے ہو اور اسے محال سمجھتے ہو ؟کس قدر نا دانی ،جہالت،غفلت اور بے خبر ی کاشکارہو ؟
” خاشعة “ ”خشوع “ کے مادہ سے ہے اور دراصل اس نکساری کوکہتے ہیں جس میں ادب کے پہلو کومدنظر رکھاجائے .خشک زمین کے بارے میں ایسی تعبیرکااستعمال دراصل ایک طرح کاکنایہ ہے . جی ہاں ! جب زمین خشک اورپانی سے محروم ہوتی ہے توہر قسم کی نباتات اورپھولوں پھلوں سے عاری ہوتی ہے بالکل ایسے جیسے ایک خاضع وخاشع انسان یابے جان مردہ ہو تاہے . لیکن جونہی اس پر بارش برسی، تواس نے بھی نئی زندگی حاصل کرناشروع کردی اوراس میں تحرک اور نشو و نما شروع ہوگی۔
” ربت “ ” ربو“ ( بروزن غلو ) کے مادہ سے ہے جس کامعنی افزائش اور نشو و نماہے . اور” ربا“ ( سود) بھی اسی مادہ سے ہے کیونکہ رباخوار ( سود خوار ) اپنا قرضہ اصل زرسے افزائش اور اضافے کے ساتھ واپس لیتاہے۔
” اھتز ت “ ” ھز “ (بروزن ”حظ “ ) کے مادہ سے ہے جس کامعنی ” زبر دست حرکت “ ہے۔
معاد جسمانی کے اثبات اور نباتات کے ذریعے اس پر استد لال کی تفصیل ہم نے تفسیر نمونہ کی اٹھا رہویں جلد کے آخری اور سورہ ٴ یٰسین کے اختتام پردرج کی ہے۔
۱۔ توجہرہے کہ یہ آیات ان آیات میں سے ہیں جن کی تلاوت یاسماعت کے وقت سجدہ کرناواجب ہوجاتاہے۔
۲۔ یہاں پر” خلقھن“ میں جمع موٴ نث کی ضمیر لیل ونہار اورشمن وقمر کی طرف رہی ہے .صاحبان اد ب اور مسرین ( کے بقو ل ، جمع موٴ نث عاقل کی ضمیر کبھی غیر جمع عاقل کی طرف بھی لوٹتی ہے . بعض کانظر یہ ہے کہ یہ ضمیر ” آیات “ کی طرف لوٹ رہی ہے کہ وہ بھی جمع موٴ منث غیر عاقل ہیں. اور بعض کااحتمال ہے کہ یہ ضمیر سورج اور چاند کی طرف لوٹ رہی ہے اوروہ بھی ان کی جنس کے لحاظ سے گو یا یہ تمام ستاروں کے لیے ہے جن کے بار ے میں وہ قائل تھے کہ عقل و شعور رکھتے ہیں۔
۳۔ ” لا یساٴ من“ ” سٴا مت “ کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے مسلسل کام کرتے کرتے تھک جانااور ضمنی طور پر ” فان استکبروا “ کاجملہ ،جملہ شرطیہ ہے جس کی جزا محذوف ہے اور تقدیری طورپر یوں ہے ” فان استکبروامن عبادة اللہ و تو حید ہ لا یضرہ شیئا ً“ ۔
۴ ۔ ” وسائل الشیعہ “ جلد ۴ ،ص ۸۸۴ ( باب ۴۶ . ( ابواب قرائت القرآن سے دوسری حدیث )۔  
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma