قرآن ہدایت اور شفاء ہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
چونکہ کفار مکہ دین اسلام اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زبردست مقابلے کاآغاز کرچکے تھے اور گزشتہ آیات میں توحید کے دلائل تھے نیز ان کے الحاد و کفر اور آیات الہٰی کی تکذیب کی خبرتھی . لہٰذا زیرتفسیر ان آیات سے پہلی آیت پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تسلی کی خاطر اوران دوسرے مسلمانوں کو استقامت اور پامرد کادرس دینے کے لیے نازل ہوئی ہے جنہیں دشمن کے زبردست دباؤ کاسامنا ہو. سب سے پہلے فرمایا گیا ہے : نا روانسبتیں جو تیری طرف دی جاتی ہیں وہی تجھ سے پہلے پیغمبروں کی طرف دی جا چکی ہیں (ما یُقالُ لَکَ إِلاَّ ما قَدْ قیلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ )۔
اگر آپ کوساحر کہتے ہیں توآپ سے پہلے انبیاء کو بھی یہی کچھ کہتے تھے ، اگرآپ ک جھوٹا کہتے ہیں تووہ بھی اس تہمت سے محفوظ نہیں تھے . خلاصہ کلام یہ کہ نہ توآپ کی طرف سے توحید اور دین حق کی طرف دعوت کوئی نئی بات ہے او نہ ہی ان کی طرف تہمت او ر تکذیب. لہذا آپ استقامت سے اپنے فریضے کوانجام دیجئے اور ان کی باتوں کی ہرگز پرواہ نہ کیجئے۔
بعض مفسرین نے یہ احتمال ذکر کیاہے کہ اس جملے سے مراد یہ ہے کہ خدا کی طرف سے جو باتیں آپ کو بتائی جاتی ہیں وہی جوآپ سے پہلے ابنیاء کوبتائی گئی تھیں (۱)۔ 
لیکن بعد کے جملے اور آئندہ کی آیات کومدنظر رکھ کر دیکھاجائے توپہلی تفسیر زیادہ صحیح نظر آتی ہے۔
پھر آیت کے آخرمیں فرمایاگیا ہے : بے شک تیراپر وردگار بخشش اور درد ناک سزا کامالک ہے (إِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَ ذُو عِقابٍ اٴَلیم )۔ 
رحمت اوربخشش ان لوگوں کے لیے ہے جوقرآن کوتسلیم کرتے ہیں اور دردناک عذاب ان کے لیے ہے جو جھٹلا تے ، تہمتیں لگاتے اور مخا لفت پر کمربستہ ہوجاتے ہیں اوردرحقیقت یہ جملہ مومنین کے لیے خوشخبری اور تشویق ہے اور کافروں کے لیے تنبیہ اور دھمکی ہے۔
” مغفر ت “ کو ” عقاب “ پر مقدم کرنے کے کی وجہ ، دوسرے مقامات کی طرح ” غضب پر رحمت کی سبقت “ پر دلیل ہے . جیساکہ دعاکاجملہ ہے ” یامن سبقت رحمت غضبہ “ ( ۲)۔ 
بعد کی آیت میں ان متعصب اورضدی مزاج لوگوں کے عجیب وغیریب بہانوں کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ وہ کہتے تھے : قرآن عجمی زبان میں کیوں نازل نہیں ہواتا کہ ہم مبشیتر اہمیت دیتے اور غیر عرب بھی اس سے زیادہ استفادہ کرتے ؟بظاہر ان کامقصد یہ تھاک ہ عوام الناس اس سے کچھ نہ سمجھ سکیں اس طرح سے انہیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہ رہے کہ :
لا تَسْمَعُوا لِہذَا الْقُرْآنِ وَ الْغَوْا فیہِ (حم السجدہ . ۲۶)
یہ قرآن نہ سنواو ر شور مچا کراسے بے اثر بنادو ( ۳)۔ 
اسی موقع پر قرآن مجیدا ن کاجواب دیتے ہوئے فرماتاہے : اگر ہم اسے عجمی قرآن بناتے تو وہ یقینا یہی کہتے کہ اس کی آیات واضح نہیں ہیں ؟یہ اس قدر پیچیدہ کلام کیوں ہے ؟یہ توہماری سمجھ سے بالاتر ہے (وَ لَوْ جَعَلْناہُ قُرْآناً اٴَعْجَمِیًّا لَقالُوا لَوْ لا فُصِّلَتْ آیاتُہُ)۔ 
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ” یہ عجیب بات ہے کہ قرآن عجمی اور پیغمبر عربی “ ( ء َ اٴَعْجَمِیٌّ وَ عَرَبِیٌّ ) یاکہتے ” عجمی کتاب اور عربی لوگ ! “ اب جبکہ یہ کتاب عربی زبا ن میں نازل ہوچکی ہے اور سب لوگ اس کے مفاہیم اور مطالب کواچھی طرح سمجھ بھی سکتے ہیں اور قرآن کی دعوت اور اس کے پیام کی گہرائی تک بھی پہنچ سکتے ہیں پھر بھی وہ زور زور کہتے ہیں ” اس قرآن کومت سنو اور شور شرابا بر پا کرکے لوگوں کو اس کے سننے سے روک دو “ ۔
خلاصہ کلام یہ کہ وہ دل کے ایسے بیمار ہیں کہ جو بھی منصوبہ بنایا جاتا اور پرو گرام مرتب کیاجاتا اسی پر اعتراض کرتے اور طر ح طرح کے بہانے بناتے اگر عربی ہوتو سحر اور جادو کہتے اور اگرعجمی ہو تو اپنی سمجھ سے بالا تر قرا ر دیتے اگر عربی او ر عجمی زبانو ں سے مل کر بناہو تا تو اسے غیرموزون کہتے ( ۴)۔ 
یاد ر ہے کہ ’ ’ا عجمی “ ”عجمہ “ (بروزن ” لقمہ “ ) عدم فضاحت اور گفتگو میں ابہام کے معنی میں ہے . اور ” عجم “ غیرعرب “ کو کہتے ہیں کیونکہ عرب ان کی زبان کواچھی طرح نہیں سمجھتے . اور ” اعجم“ اس شخص کوکہتے ہیں جومطالب کوصحیح معنو ں میں ادا نہ کرسکے (خواہ وہ عرب ہو یاغیر عرب )۔ 
بنابریں ” اعجمی “ کالفظ ” اعجم“ ہے کہ جس کے ساتھ یاء نسبت ملی ہوئی ہے۔
پھر قرآن مجید پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے کہتاہے : کہہ دے کہ یہ آسمانی کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت اور شفاء کاسبب ہے جوایمان لاچکے ہیں (قُلْ ہُوَ لِلَّذینَ آمَنُوا ہُدیً وَ شِفاء ٌ)۔ 
” اور جولوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بہراپن ہے“ اوراسے وہ سمجھ نہیں پاتے (وَ الَّذینَ لا یُؤْمِنُونَ فی آذانِہِمْ وَقْر)۔ 
” اورنابینا ہونے کی وجہ سے اسے نہیں دیکھتے ( وَ ہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی ) ( ۵)۔ 
” یہ بالکل ان لوگوں کی طرح ہیں کہ جنہیں دور سے پکارتے ہیں “(اٴُولئِکَ یُنادَوْنَ مِنْ مَکانٍ بَعیدٍ)۔ 
اور معلوم ہے کہ ایسے لوگ نہ تو سنتے ہیں اورنہ ہی دیکھتے ہیں۔
جی ہاں ! راہ ڈھونڈ نے اورمنزل مقصو د تک پہنچنے کے لیے صرف نور ہی کافی نہیں ہوتا . چشم بینا کی بھی ضرورت ہوتی ہے . اسی طرح تعلیم حاصل کرنے کے لیے صرف صاحب علم اورفصیح مبلغ کاوجود ہی کافی نہیں ہوتا، سننے والے کان بھی اشد ضروری ہیں۔
بارش کے قطروں کی لطافت اوراس کی حیات بخش تاثیر میںذ رہ بر ابر شک نہیں لیکن
درباغ سبزہ روید و درشوہ زار خس
باغ میں سبزہ اگتاہے مگر کلر اورشور والی زمین خس و خاشاک
جولوگ حق کی جستجو میں قرآن کے پاس آئے اس سے ہدایت اور شفا پاجاتے ، ان کی اخلاقی اور روحانی بیماریوں کاعلاج قرآنی شفاخانہ سے ہوجاتا . پھروہ رخت سفر باندھ کراورقرآنی نور ہدایت کے پر تو میں کوئے دوست کی طرف بڑی تیزی سے چل پڑ تے۔
لیکن ضدی مزاج اورہٹ دھرم متعصب اورحق و حقیقت کے ازلی دشمن جنہوں نے پہلے ہی دن سے انبیاء کی مخالفت پر کمر باندھی ہوئی تھی وہ اس سے کی فائدہ حاصل کرسکتے تھے ؟وہ تو ایسے اندھوں اور بہروں کے مانند تھے جو ایک دور دراز خطے میںرہتے ہوں . اس وجہ سے گو یااُن کے بہرے پن اوراندھے پن میں کئی گنا اضافہ ہوجاتاتھا ۔
بعض مفسرین نے نقل کیاہے کہ جوشخص کوئی بات سمجھتا ہے اسے اہل لغت” انت تسمع من قریب “ کہتے ہیں یعنی تم نزدیک سے سنتے ہو اور جونہیں سمجھتااسے کہتے ہیں ” انت تنا دی من بعید “ یعنی تجھے دور سے بلایا جاتاہے کہ اگر صرف ہمہمہ کو سنتے ہو تو اس کے مطالب کونہیں سمجھ پاتے ہو ( ۶)۔ 
قرآن مجید انسانیت کے جانکاہ درد اور دُکھ کے لیے کس طرح شفا اور دوا ہے ؟اس سلسلے میں ہم تفسیر نمونہ کی بار ہویں جلد، سورہ ٴ بنی اسرائیل کی ۸۲ ویں آیت کی تفسیرمیں تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں۔
بعد کی آیت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوراوائل اسلام کے موٴ منین کی تسلی اوردلجمعی کے لیے ارشاد فر مایاگیا ہے کہ اس سر پھری قوم کی ہٹ دھر می ، انکار اورحیلے بہانوں سے آپ گھبرائیں نہیں یہ ان کا پرانا طریقہ کار ہے ” ہم نے موسٰی کوآسمانی کتاب عطا کی ‘ ‘ اس میں اختلاف پیدا ہوگیاکچھ نے اسے قبول کیااور کچھ نے انکار کردیا“ (وَ لَقَدْ آتَیْنا مُوسَی الْکِتابَ فَاخْتُلِفَ فیہ)۔ 
اگر آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان ضدی اور ہٹ دھرم دشمنوں کے عذاب میں جلدی نہیں کرتے تو یہ صر ف اس لیے ہے ک تربیت کی مصلحتوں کاتقاضایہی ہے کہ وہ آزادہوں اوجہاں تک ممکن ہواتمام حجت ہوجائے “ اور اگر تمہارے پرور دگار کی طرف سے اس بار ے میں کوئی فرمان صادر نہ ہو تا تو ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہوتا‘ ‘ اورخدا ئی عذاب بہت جلدانہیں آلیتا ( وَ لَوْ لا کَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ )۔ 
یہ خدا ئی فرمان انسانی ہدایت کی مصلحت اور اتمام حجت کے طور پر تھ. یہ طریقہ کار تو سابقہ امتوں میں بھی رہا ہے اور آپ کی امت میں بھی جاری ہے۔
لیکن ابھی تک انہوں نے اس حقیقت کوتسلیم نہیں کیا اور تیرے قرآن میں شک کرتے ہیں اور شک بھی ایسا جس میں بد گمانی شامل ہے( إِنَّہُمْ لَفی شَکٍّ مِنْہُ مُریبٍ )۔ 
” مریب“ ” ریب “ کے مادہ سے ہے جس کامعنی ہے ایساشک جس میں بدگمانی شامل ہوتی ہے . انہیں نہ صرف آپ کی باتوں میںشک ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان میںمخالف قرائن بھی موجود ہیں جو بد گمانی کاسبب بنتے ہیں۔
بعض مفسرین نے اس احتمال کاذکر کیاہے کہ آخری جملہ پہود یوں اورموسٰی علیہ السلام کی کتاب کے بار ے میں ہے یعنی اس قوم کو تواب بھی تورا ت میں شک و شبہ ہے ،لیکن یہ معنی بعید نظر آتاہے لہذا بظاہر وہی پہلی تفسیر بہتر ہے ( ۷)۔ 
زیر بحث آخری آیت میں قرآن مجیدنے انسانی اعمال کے بار ے میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے موٴ منین قرآن سے فائدہ اٹھا تے ہیں اور بے ایمان لوگ فیض الہٰی کے ا چشمے سے محروم ہیں اور یہ بات قرآن میں با ر بار آئی ہے . یہی اس بحث کاتتمہ اور تکمیل حصّہ ہے۔
ارشاد ہوتاہے ” جوشخص نیک اعمال بجا لائے ان کافائدہ خوداس کے لیے ہے اورجوشخص برائی کر ے وہ بھی اپنے آپ سے برائی کرے گا اور تمہاراپروردگار ہرگز بندوں پر ظلم نہیں کرتا “ (مَنْ عَمِلَ صالِحاً فَلِنَفْسِہِ وَ مَنْ اٴَساء َ فَعَلَیْہا وَ ما رَبُّکَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبیدِ)۔ 
بنابریں اگروہ اس کتاب پر اوراس عظیم دین پرا یمان نہ لائیں تووہ نہ توخدا کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کو کیونکہ اچھائی اور برائی اپنے کرنے والے کی طرف پلٹ جاتی ہے اور وہ لوگ خود ہی اپنے اعمال کامیٹھا یاکڑ واپھل کھائیں گے۔
۱۔ یہ تفسیر ، کتاب ’ ’ مجمع البیا ن “ اور کتاب تفسیر کبیر فخر رازی میں ایک احتمال کے طور پر بیان ہوئی جب کہ خود انہوں نے بھی پہلی تفسیر کو تر جیح دی ہے۔
۲۔ دعاجوشن کبیر فصل ۱۹ جملہ ۸ ۔
۳۔ فخر رازی کبیر فصل ۱۹ جملہ ۸ ۔
نقلوا فی سبب نزول ھذہ الا یة ان الکفار لا جل التعنت قالوا لو نزل القراٰن بلغة العجم
اس آیت کی شان ِ نزول کے بار ے میں اس طرح نقل کیاگیاہے کہ بہانہ جوکفار نے کہا کہ اگر یہ قرآن عجمی زبان میں نازل ہوتاتو بہتر ہوتا ۔
۴۔ بعض مفسرین نے ” ء اعجمی و عربی “ کے جملہ کا اسی معنی میں ترجمہ کیا ہے یعنی عجمی اور عربی سے ملاکر اس کی تفسیر کی ہے۔
۵۔بعض مفسرین نے مندرجہ بالا جملے کا یوں معنی کیاہے کہ ” قرآن ایسے لوگوں کی عدم بصیرت کاسبب بن جاتاہے “ جب کہ راغب نے مفر دات میں اورابن منظور نے لسان العرب میں” عمی علیہ “ کامعنی ” اشتبہ حتی صار بالا ضافة الیہ کالاعمٰی “ یعنی اس پر بات اس قدر مشتبہ ہوجاتی ہے گویا و ہ اس سے اندھاہے . بنا بریں صحیح معنی وہی ہے جو ہم نے متن میں بیان کیاہے۔
۶۔ تفسیر قرطبی اسی آیت کے ذیل میں۔
۷۔ توجہ رہے کہ یہ آیت بعینہ سورہ ٴ ہودکی آیت ۱۱۰ کے مانند ہے جوگرچکی ہے۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma