یہ کم ظرف انسان

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

گزشتہ آیات میں شرکین اوران کے انجام کے بار ے میں گفتگو ہورہی تھی اسی مناسبت سے زیر نظر آیات میں ضعیف الایمان بلکہ بے ایمان لوگوں کی کیفیت کانقشہ کھینچا گیا ہے جو بڑی وضاحت کے ساتھ ان کوتاہ اندیش اورکم ظرف افراد کی صورت حال کو مجسم کرکے پیش کررہی ہے۔
پہلے فرمایاگیا ہے : انسان کھبی بھی نیکیوں ، مال ودولت اور اندگی نعمتیں مانگنے سے نہیں تھکتا ( لا یَسْاٴَمُ الْإِنْسانُ مِنْ دُعاء ِ الْخَیْر)۔ 
اس کی حرص و ہوس کاتنور ہمیشہ گرم ہی رہتاہے . اسے جتنا بھی مل جائے پھر کہتاہے ھل مزیداسے جس قدر بھی دے دیاجائے پھر بھی سیرہونے کو نہیں آتا ۔
” لیکن اگردنیااس سے منہ موڑ لے ، اس کی نعمتیں زائل ہوجائیں ، سختی تنگدستی، اور فقر و فاقہ اسے دامن گیر ہو جائے تووہ بالکل مایوس اور نااُمید ہوجاتاہے “ ( وَ إِنْ مَسَّہُ الشَّرُّ فَیَؤُسٌ قَنُوطٌ)۔
یہاں پر انسان سے مراد غیر تربیت یافتہ انسان ہیں جن کادل معرفت الہٰی ،خداپرایمان اور قیامت کے لیے جوابدہی کے احساس کے نور سے منور نہیں ہوا . ایسے انسان مراد ہیں جو کائنات کے بار ے میں غلط سوچ کر تحت اس مادی دنیا کے چکروں میں پھنس گئے ہیں ، ان کے پاس ایسی بلند روح نہیں ہے جو اس مادی دنیا کے ماورا کو بھی دیکھ سکے اوراعلیٰ انسانی اقدار کو پر کھ سکے۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب دنیا اپنی نعمتیں لے کران کے پاس آتی ہے تووہ اس سے خوش وخرم ، مسرو اور مغرور ہوجاتے ہیں اور جب دنیا منہ موڑ کران سے رخصت ہوجائے تو سخت غمگین اورمایوس ہوجاتے ہیں . نہ تو ان کے پاس کوئی ایسی چیزہوتی ہے جوانہیں پنا ہ دے اور نہ ہی کوئی ایسا روشن چراغ اُن کے پاس ہوتاہے جوا ن کے دلوں کو نور امید سے منور کرسکے۔
یہ بات بھی پیش نظررہے کہ لفظ ” دعاء “ کھی تو بلانے اور پکانے کے معنی میں استعمال ہوتاہے اورکبھی کسی چیز کے طلب کرنے کے معنی میں اور زیر نظرآیت میں دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔” لایسئم الانسان من دعاء الخیر “ کامعنی یہ ہوگا کہ انسان نیکیوں اوراچھائیوں کے مانگنے سے کبھی نہ ملول ہوتاہے اورنہ ہی تکھنے میں آتاہے۔
آیا” یئوس “ اور ’ ’ قنوط “ کاایک ہی معنی ہے ؟ یعنی ناامید انسان “ یادومختلف معانی ہیں ؟ نیز ان کاآپس میں کیافر ق ہے ؟ اس بار ے میں مفسرین کی آ راء مختلف ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ دونوں کاایک ہی معنی ہے ( اور تاکید کے لیے ہے ) (۱)۔
بعض کہتے کہ ” یئوس “ ” یاٴ س“ کے مادہ سے ہے جس کامعنی دل کی اندرونی نااُمید ی ہے اور” قنوط“ کا معنی اس ناامید ی کاچہرے او ر عمل سے اظہار ہے ( ۲)۔
مرحوم طبرسی رحمتہ اللہ علیہ نے تفسیر مجمع البیان میں ان دونوں کے درمیان موجود فرق کو یوں بیان کیاہے کہ ” یاٴ س “ خیر اوراچھائی سے انااُمید ی ہے اور ” قنوط “ رحمت سے نااُمید ی ہے ( ۳).
لیکن قرآن مجید میں” یاٴ س “ اور” قنوط“ کے استعمال سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں الفاظ تقریباًایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کی داستان میں ہے کہ جناب یوسف علیہ السلام نے اپنی اولاد کورحمت الہٰی سے مایوس ہونے سے روکا ہے . جب کہ وہ یوسف کے بار ے میں دلی طور پر مایوس ہو چکے تھے اوراس مایوسی کا اظہا ربھی انہوں نے کردیاتھا . (ملاحظہ ہو سورہٴ یوسف آیت ۸۷ )۔ 
اور ” قنوط “ کے بار ے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کوفرزند کی بشارت کے سلسلے میں ہے کہ انھوں نے اس بار ے میں تعجب ظاہر کیا لیکن فرشتوں نے ان سے کہا :
بشر ناک بالحق فلا تکن من القا نطین
ہم نے آپ کوحق سچ پر مبنی خوشخبری دی ہے لہذا آپ مایوس نہ ہوں . ( حجر . ۵۵)
بعد کی آیت میں علم اور ایمان سے دو ر انسان کی نا پسند یدہ حالت یعنی اس کے غر ور اورخود پسند ی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے : جب ہم کسی انسان کواپنی طرف سے رحمت کالطف چکھاتے ہیں جبکہ اس سے پہلے تکلیف پہنچ چکی ہوئی ہوتی ہے تووہ کہتاہے کہ یہ میری اپنی لیاقت اوراستحقاق کی وجہ سے ہے (وَ لَئِنْ اٴَذَقْناہُ رَحْمَةً مِنَّا مِنْ بَعْدِ ضَرَّاء َ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ہذا لی )۔  
یہ مغر ور بے چارہ اس بات کو بھول چکا ہوتاہے کہ اگر لطف خدا وندی شامل حال نہ ہوتو اس نعمت کے بجائے مصائب میں گرفتار ہوجائے . اس کی کیفیت مغرور قارون کی سی ہے کہ جب خدانے امتحان کی غرض سے اسے دولت سے مالامال کردیااوراسے کہاگیا کہ جب خدا نے تمہیں فراواں دولت عطاکی ہے تو تُو بھی لوگوں کے ساتھ نیکی کیا کر ، تو اس نے کہا نہ نہ ، یہ سب کچھ میرے علم اور ذاتی لیاقت کی وجہ سے ہے ” قالَ إِنَّما اٴُوتیتُہُ عَلی عِلْمٍ عِنْدی“۔( قصص . ۷۸)
اسی آ یت میں ہے کہ آخرکار یہ غر وراسے آخرت کے انکار تک پہنچا دیتاہے اور وہ کہتاہے ” مجھے یقین نہیں ہے کہ قیامت بھی قائم ہوگی “ (وَ ما اٴَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً )۔ 
” بالفرض اگر قیامت ہوبھی تو جب میں اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤں گا تو میرے لیے وہاں اچھی جز اور بہت سی نعمتیں آمادہ ہیں ” جس خدانے مجھے اس دنیا میں اس قدر عزت عطافرمائی ہے آخر ت میں تو یقینا اس سے بہتر خاطر تواضع کرے گا (وَ لَئِنْ رُجِعْتُ إِلی رَبِّی إِنَّ لی عِنْدَہُ لَلْحُسْنی)۔  
اسی طرح کاایک مفہوم سورہ ٴ کہف میں بھی بیان ہوا جہاں پر ان دودو ستوں کی داستان بیان کی گئی ہے جن میں سے ایک دولت مند تھا اور کفر و غرور کی راہ اپنائے ہوئے تھاجب کہ دوسرا راہِ ایمان پرگامزن تھا ، قرآن مجید اس دولت مند مغرور کی بات یوں بیان کرتاہے :
وَ دَخَلَ جَنَّتَہُ وَ ہُوَ ظالِمٌ لِنَفْسِہِ قالَ ما اٴَظُنُّ اٴَنْ تَبیدَ ہذِہِ اٴَبَداً ،وَ ما اٴَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً وَ لَئِنْ رُدِدْتُ إِلی رَبِّی لَاٴَجِدَنَّ خَیْراً مِنْہا مُنْقَلَباً
میں ہرگز گمان نہیں کرتا کہ قیامت بر پاہوگی اور اگر قیامت آبھی جائے تو بھی میں اپنے پروردگار کی طرف جاؤں گا اوراس سے بہتر اور اعلی مقام ومنزلت پاؤں گا ( کہف . ۳۵. ۳۶)
لیکن خداوند عالم ان مغر ور اور سرکش افراد کو آیت کے آخر میں یوں تنبیہ کرتاہے کہ ’ ’ ہم بہت جلد کافروں کا ان کے ان اعمال سے آگاہ کریں گے کہ جو وہ انجام دے چکے ہیں اورانہیں سخت عذاب چکھائیں گے (فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذینَ کَفَرُوا بِما عَمِلُوا وَ لَنُذیقَنَّہُمْ مِنْ عَذابٍ غَلیظٍ)(4)۔ 
یہی چیز قرآ ن مجید کے ایک اورموقع پر بھی ایک اور تعبیر سے آئی ہے . جہاں فر مایا گیا ہے۔
وَ لَئِنْ اٴَذَقْناہُ نَعْماء َ بَعْدَ ضَرَّاء َ مَسَّتْہُ لَیَقُولَنَّ ذَہَبَ السَّیِّئاتُ عَنِّی إِنَّہُ لَفَرِحٌ فَخُور
ہم جب بھی انسان کومصیبت اور سختی کے بعدکسی نعمت کالطف چکھا تے ہیں تو وہ کہتاہے کہ مصائب اورم شکلات مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور ہوچکی ہیں اور پھرلوٹ کر نہیں آئیں گی پھر وہ خوشی ،غفلت ، تکبر اور غر ور میں بدمست ہوجاتاہے۔ ( ہود .۱۰)۔ 
بعد کی آیت میں اس قسم کے انسانوں کی اس حالت کو بیان کیاجارہا ہے ج مادی دنیا کے آنے ااور چلے جانے کے موقع پران پر طاری ہوتی ہے یعنی نعمتوں کے حصول کے وقت فراموش اورمصیبت کے وقت آہ و زا ری۔
چنانچہ فرمایاگیا ہے : جب ہم انسان کوکوئی نعمت عطاکرتے ہیں تووہ منہ پھیر لیتاہے اورحق سے دور ہو جا تا ہے (وَ إِذا اٴَنْعَمْنا عَلَی الْإِنْسانِ اٴَعْرَضَ وَ نَاٴی بِجانِبِہِ)۔ 
” لیکن جونہی اسے تھوڑ ی سی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے دو ر ہونے کے لیے لمبی چوڑی دعائی کر تاہے “ ( وَ إِذا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُو دُعاء ٍ عَریض)۔ 
” نا “ ” ناٴ ی “ ( بروزن ” راٴ ی “ ) کے مادہ سے ہے جس کامعنی دور ہونا ہے اورجب اس کے بعد ” جنب “ ( پہلو ) کا لفظ آجائے تو وہ تکبر اورغرور کے لیے کنایہ ہوتاہے کیونکہ متکبر آدمی اپنامنہ موڑ کر بڑی بے پروائی کے ساتھ دور ہوجاتے ہیں۔
” عریض “ چوڑے کے معنی میں ہے جو کہ ” طویل “ لمبے کے مقابلہ میں ہے اور عرب ان دونوں تعبیروں کوکثرت اور زیادہ کے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔
اسی سے ملتی جلتی آیت سورہ یونس میں بھی موجود ہے۔
وَ إِذا مَسَّ الْإِنْسانَ الضُّرُّ دَعانا لِجَنْبِہِ اٴَوْ قاعِداً اٴَوْ قائِماً فَلَمَّا کَشَفْنا عَنْہُ ضُرَّہُ مَرَّ کَاٴَنْ لَمْ یَدْعُنا إِلی ضُرٍّ مَسَّہُ کَذلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفینَ ما کانُوا یَعْمَلُونَ
جب کبھی انسان کوتھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے توہمیں ہر حالت میں پکار تاہے خواہ پہلو کے بل لیٹا ہو یاسو یا ہو یا بیٹھا ہو ا ہو یاکھڑا ہوا . لیکن جونہی اس سے یہ تکلیف دور کردیتے ہیں تو ایسے گزر جاتے ہے گو یا اس نے ہمیں مشکل کے حل کرنے کے لیے پکار اہی نہیں . اسراف کرنے والوں کے اعمال کواسی طرح زینت دی جاچکی ہے۔ ( یونس . ۱۲)
جی ہاں ! ایمان او ر تقویٰ سے خالی انسان کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ ایسی حالتوں سے دوچار رہتا ہے . جب اسے نعمتیں مل جائیں تو اس وقت وہ حریض مغرور اور بھول جانے والا بن جاتا ہے . اور جب نعمتیں منہ موڑ کرچلی جائیں تومایوس اور نااُمید ہوکر واویلا شر وع کر دیتاہے۔
لیکن اس کے مقابلے میں ایسے مردان حق اور مکتب انبیاء کے سچے پیرو کار بھی ہیں جو اس قدر وسیع ظرف اور بلند حوصلوں کے مالک ہیں کہ نہ تو نعمتوں کاحصول انہیں آ پے سے باہر کردیتاہے اورنہ ہی دنیا کے منہ پھیر لینے سے وہ حوصلہ ہو کر مایوس ہوجاتے ہیں ” رجال لاتلھیھم تجارة ولابیع عن ذکر اللہ “ ( نور . ۲۷) کے مصداق انہیں نہ تو نفع بخش تجارت یاد خدا سے غافل کرسکتی ہے اورنہ ہی سود مند کار و بار .وہ زندگی تلخی اور شیر ینی کے فلسفے سے اچھی طرح واقف ہیں . وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تلخیاں خطر ے کی گھنٹی بن کرہوشیار اور بیدار کررہی ہیں اور شیر ینیاں خدا کی آزمائش اورامتحان کا سبب ہیں۔
کبھی یہ تلخیاں بندوں کی غلفت کی سزا ہوتی ہیں اور نعمتیں ان کی شکر گزار ی کااحساس پیدا کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔
یہ بات بھی لا ئق توجہ ہے کہ آیات بالا میں” اذقنا “ اور” مسّہ “ کی تعبیر یں آئی ہیں جن کامقصد یہ ہے کہ دنیا کی تھوڑ ی سی توجہ یانعمتوں کے ذراسے زوال سے ان کی ظرف لوگوں کی حالت تبدیل ہوجاتی ہے اور فوراً ہی غرور تکبر یا مایوسی اورناامیدی کی راہوں پر چل پڑ تے ہیں اور اس حد تک کو تاہ اندیش اور کوتاہ فکر ہیں کہ مشہور مثال کے مطابق ” ایک انگور سے کھٹے اورایک میوے سے میٹھے ہوجاتے ہیں۔
جی ہاں ! خداکی ذات پر ایمان کی ایک اہم ترین نشانی روح کی وسعت ، افق فکر کی بلندی ، سینے کی کشادگی ، مشکلات و مصائب سے مقابلے کی تاب ہے او ر نعمتوں کے موقع پر آپے سے باہر نہ ہوجانا ہے۔
حضرت امیر المو منین علی علیہ السلام دوستوں کو سبق دیتے وقت ایک دعا میں ارشاد فرماتے ہیں:
نسئل اللہ سبحا نہ ان یجعلنا وایاکم ممن لا تبطر ہ نعمة ،ولا تقصربہ عن طاعة ربہ غایة ، ولاتحل بہ بعد الموت ندامة وکئا بة
ہماراخداسے یہی سوال ہے کہ وہ ہمیں اور تمہیں ایسے لوگوں میں سے قرار دے کہ نعمتیں جنہیں مست اور مغر ور نہیں کرتیں اورکوئی بھی مقصدا نہیں پروردگار عالم کی اطاعت سے با ز نہیں رکھتا او ر موت آنے پر انہیں کوئی ندامت اور پشیمانی لاحق نہیں ہوتی۔( نہج البلاغہ خطبہ . ۶۴)
زیرتفسیر آیات میں سے آخر ی آیت میں خودان متعصب اورہٹ دھرم لوگوں کے بار ے میں گفتگو کی گئی ہے اور ” دفع ضرر “ کے مشہوراصول کی روشن اورواضح انداز میں وضاحت او ر تشریح کی گئی ہے،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے ” ان سے کہہ دے مجھے بتاؤ اگر یہ قرآن خداوند واحد و یکتا کی طرف سے ہو ( حساب وکتاب،سزا وجزا اور جنت و جہنم بھی ہو ) اور تم کافرہوجا ؤ تو اس شخص سے بڑھ کرکون گمراہ ہوگاجو دور کی مخا لفت اور گمراہی میںپڑاہوا ہے۔(قُلْ اٴَ رَاٴَیْتُمْ إِنْ کانَ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ ثُمَّ کَفَرْتُمْ بِہِ مَنْ اٴَضَلُّ مِمَّنْ ہُوَ فی شِقاقٍ بَعیدٍ )(5)۔
البتہ یہ گفتگو ان لوگوں کے بار ے میں ہے جن پر کوئی منطقی دلیل کار گر ثابت نہیں ہوتی . درحقیقت یہ اندازگفتگو ان ہی ہٹ دھرم،متعصب اور مغر ور لوگوں کے بار ے میں اپنایا جاتاہے . اور وہ اس طرح کہ:
اگر تم قرآن،توحید اور مرنے کے بعد کی دنیا کی حقانیت کوسو فیصدی تسلیم نہیں کرتے تو، اس کی نفی پر بھی یقینا تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے.لہذا یہ احتمال ابھی باقی ہے کہ قرآنی دعوت اور معاد کے مسئلے میں حقیقت و صداقت ہو،تو ایسی صورت میں ذراسوچو کہ تمہارا کیسا ہی تاریک اور وحشت ناک انجام ہوگا اوراس مکتب الہٰی کامقابلہ اورمخالفت کرکے اور گمراہی کی راہ اختیار کرکے تم کیسے خطرناک انجام سے دوچار ہوسکتے ہو ۔
یہ وہی اندا ز گفتگو ہے جو ائمہ اطہار علیہم السلام متعصب اورہٹ دھرم لوگوں کے مقابلے میں اپناتے تھے . چنانچہ کتاب کافی میں ایک روایت میں ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے اپنے زمانے کے مشہور مادہ پرست اورملحد ابن ابی العوجاء کے ساتھ کافی بحث و مباحثہ کیااورآخر ی مرتبہ جب وہ موسم حج میں آپ علیہ السلام کی ملاقات کے لیے آیا تو امام علیہ السلام کے ایک ساتھی نے کہاکہ معلوم ہوتاہے کہ ابن ابی العو جاء مسلمان ہوچکاہے .امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا وہ اس سے کہیں زیادہ دل کااندھا ہے.یعنی اگر مسلمان نہیں ہوگا.جونہی اس کی نگاہ امام علیہ السلا م پر پڑی توبولا ” اے میرے سیدو سردار “ ۔
امام نے ارشاد فرمایا :
ماجاء بک الیٰ ھذا الموضع
یہاں کیا کرنے آئے ہو ؟
اس نے عرض کی۔
عادة الجسد و سنة البلد،ولننظر ماالناس فیہ من الجنون و الحلق ورمی الحجارة
اس لیے کہ ہمار ے جسم عادی ہوچکے ہیں علاقے کا رواج بھی ہے،پھر یہ بھی کہ لوگوں کی جنون آمیز حرکات،سرمونڈ نے اور پتھر مارنے کے واقعات کو بھی دیکھوں۔
امام علیہ السلام نے فر مایا :
انت بعد علی عتوک وضلالک،یا عبدالکر یم
اے عبد الکریم ( کریم کے بندے !) تم ابھی تک اپنی سرکشی اور گمراہی پرڈٹے ہوئے ہو ؟ ( 6)
وہ کچھ کہناہی چاہتاتھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:
لا جدال فی الحج
حج میں جدال ومجادلہ نہیں ہوتا۔
یہ کہہ کراپنی عبااس کے ہاتھوں سے چھڑائی اور یہ جملہ ارشاد فرمایا :
ان یکن الامر کمانقول ... ولیس کماتقول .. . نجو ناونجوت ،وان یکن الامر کمانقول . .. وھو کمانقول ... نجونا وھلکت
اگروہی ہے جیسے کہ تم کہتے ہیں ہو( کہ خدا اورقیامت کا وجودنہیں ہے ) ... حالانکہ ایسا نہیں ہے ... تو تم بھی نجات پاگئے اور ہم بھی . لیکن اگرحقیقت وہی ہے جوہم کہتے ہیں ... اور ہے بھی ایساہی ... توا یسی صورت میں ہم بچ جائیں گے اور تم بر باد ہوجاؤ گے۔
یہ سُن کرابن ابی العوجاء نے اپنے ساتھیوں کی طرف منہ کرکے کہا :
وجدت فی قلبی حزا زة فردونی ، فر دوہ فمات
مجھے دل میں درد محسوس ہو رہاہے لہٰذا مجھے واپس لے جاؤ ، وہ اسے واپس لے گئے اور بہت جلد فوت ہوگیا ( 7)۔
۱۔ تفسیر المیزان جلد ۷ ،ص ۴۲۶ (اسی آیت کے ذیل میں )۔
۲۔ تفسیر کبیرجلد ۲۷ ،ص ۳۷ ۱ ،اور تفسیر روح المعانی جلد۲۵ ،ص ۴ ۔
۳۔ تفسیر مجمع البیان جلد ۹ ،ص ۱۸۔
4۔ ” عذاب غلیظ “ کامعنی سخت اور متوا تر عذاب ہے۔
5۔ ” ارء یتم “ کی عام طور پر ” اخبرونی “ کے معنی میں تفسیر کی جاتی ہے ( یعنی مجھے بتاؤ ) اوراس سلسلے میں ہم نے تفصیل سے تفسیر نمونہ کی پانچویں جلد میں سورہٴ انعام کی آیت ۴۰ کے ذیل میں گفتگو کی ہے۔
6۔ عبد الکریم ” ابن ابی العوجاء “ کااصلی نام تھا اور چونکہ وہ خدا کامنکرتھا لہٰذا امام علیہ السلا م نے اسے اس نام سے پکارا تاکہ وہ شرمندہ ہو ۔

7۔ کافی جلد۱، ص ۶۱ کتاب التوحید باب حدوث العالم )۔  
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma