چھوڑے اوربڑ ے جہان میں حق کی نشانیاں

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

یہ سورہٴ حٰم سجدہ کی آخری دو آیات ہیں ، جن میں دواہم مطالب کی طرف اشارہ کیاگیاہے ، جو درحقیقت اس پوری سور ت کی جملہ مباحث کاخلاصہ ہیں . پہلی آیت توحید( یاقرآن ) کے بار ے میں گفتگو کررہی ہے اور دوسری معا د کے بار ے میں۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے:ہم بہت جلد انہیں کائنات کے اطرف و آفاق میں اوراسی طرح خود ان کے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے،تاکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہوجائے کہ خدا حق ہے (سَنُریہِمْ آیاتِنا فِی الْآفاقِ وَ فی اٴَنْفُسِہِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اٴَنَُّ الْحَق)۔ 
سورج ،چاند اور ستاروں کی تخلیق اوران پرصحیح انداز میں حاکم نظام ،حوانات ،نباتات ،پہاڑوں ،سمندروں ، دریاؤں کی آفر ینش اوران کے بے شمار اورحیران کن عجائبات اس کے بے شماراسرار آمیز گو نا گو ں موجودات کہ جن کی تخلیق سے ہرروز نئے نئے انکشافات ہوتے رہتے ہیں اوران میں سے ہرایک خدا وند متعال کی ذات اقدس کی حقا نیت پرواضح دلیل ہے آفاقی آیات کہلاتی ہیں۔
اورانسانی جسم کی تخلیق ، انسانی دماغ کی حیرت انگیز ساخت ، دل ، رگوں اور ریشوں اورہڈیوں کی منظم حرکت ، نطفے کاانعقاد ،رحم مادرمیں جنین کی پرورش اوران سب سے بڑھ کرروح انسانی کے حیرت انگیز اسرار و رموز کہ جن میں سے ہرایک پروردگار عالم اورخالق کائنات کی کتابِ معرفت کاایک گوشہ ہے ، انفسی آیات کہلاتی ہیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ یہ آیات اس سے پہلے پروردگار عالم کی طرف سے بڑ ی حد تک دکھائی جاچکی ہیں لیکن ” سنریھم “ کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو کہ فعل مضارع ہے اور استمرار پردلالت کررہاہے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آیات کے دکھانے کایہ عمل مسلسل جاری ہے . اگرکوئی شخص لاکھوں سال تک زندہ رہے پھر بھی ہرزمانے میں آیات الہٰی کانیا نمونہ دیکھے گا کیونکہ اس کائنات کے اسرارختم ہونے میں نہیں آتے۔
سائنس اورانسان شناسی کے تمام ( خواہ وہ علم تشریح ہو یا ... فز یالوجی ... علم نفسیات ... ہو یا ... و غیرہ اور وہ علم الاشیاء جو نباتات،حیوا نات،اشیاء فطرت اور ہیت وغیرہ کے بار ے میں گفتگو کرتاہے درحقیقت کائنات کی یہ چیزیں توحید اور معرفت الہٰی کی کھلی کتاب ہیں کیونکہ یہ عام طور پر حیرت انگز اسرا ر ور موز سے پردہ اٹھاتی ہیں جواس کائنات کے اصلی خالق کے علم و حکمت اور بے انہتا قدرت پردلالت کرتے ہیں۔
بعض اوقات ان علوم میں سے ایک علم بلکہ ان علوم کے بیسوں رشتوں میں سے ایک رشتہ کے لیے ا یک دانشور کی تما م زندگی وقف ہوجاتی ہے . آخرکار وہ بھی تھک کریہی کہتاہے کہ
افسوس ! کہ میں اس سے کچھ بھی نہ جان سکا، جوکچھ معلوم کیاہے اس نے مجھے مزید لاعلمی اور جہالت کی طرف راہنمائی کردی ہے۔
آخر میں اس لطیف اوردلچسپ بیان کو ایک اورخوبصورت اور بامعنی جملہ کے ساتھ مکمل کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے :
آ یاان کے لیے یہ بات کافی نہیں ہے کہ خدا ہرچیز پرشاہد اور گواہ ہے (اٴَ وَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اٴَنَّہُ عَلی کُلِّ شَیْء ٍ شَہیدٌ )۔  (۱)۔ 
اس سے بڑھ کراور کیا شہادت ہوسکتی ہے کہ اس نے اپنی قدرت کے خط تکوین کے ذریعے تماموجودات کی پیشانی پر ، تمام درختوں کے پتوں پر،تمام پھولوں کی پنکھڑ یوں پر، ذہن کے تمام اسرار آمیز طبقوں پر ، آنکھ کے نفس و ظریف پردوں پر،آسمان کے صفحے پراور زمین کے دل پر گویاہر ہر چیز پرا پنی توحید کی نشانیاں لکھ کراپنی تکوین کاشاہد بنادیاہے۔
جو کچھ اورپر بیان کیاگیا اس آیت کی دومعروف تفسیروں میں سے ایک ہے کہ جس کہ بنا پر آیت کی تمام گفتگو مسئلہ توحید اور آفاق وانفس میں آیات حق کے ظہور کے بار ے میں ہے۔
رہی دوسری تفسیرتووہ اعجاز قرآن کے سلسلہ میں ہے . جس کاخلاصہ یہ ہے کہ خدا وند عالم اس آیت میں فرماتا ہے ہم نے اپنے گو ناگوں معجزات اور مختلف نشانیاں انہیں دکھائی ہیں جو جز یرہ نمائے عرب کے مختلف حصوں میں بھی اور دنیا کے دوسرے مقاما ت پر بھی اورخودان مشرکین کے بار ے میں بھی ہیں تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ یہ قرآن برحق ہے۔
آفاقی نشانیوں سے مراد جنگ اورمنطقی مناظروں کے مختلف میدانوں میں اسلام کی کامیابی ، پھر دنیا جہان کے مختلف مقامات پر جہاں جہاں دین اسلام پہنچا اورلوگوں کے افکار واذہان پرحکومت کرنے لگا،ان آیات کے نزول کے وقت جو لوگ مکہ میں بظاہر اس حد تک اقلیت میں تھے کہ کسی قوم کی بھر پور سر گرمی کامظاہرہ نہیں کرسکتے تھے حتٰی کہ انھوں نے پروردگار کے حکم سے ہجرت کی ، لیکن مختصر سے عرصے میں ہر جگہ ان کے جھنڈ ے تلے آگئی اوران کے دین کی دنیا کے عظیم طبقات میں پذیر ائی ہونے لگی۔
جب کہ ” آ یات انفسی “ سے مراد جنگ بدر میں مسلمانوں کی مشرکین مکہ پر کامیابی اور فتح مکہ کے دن اسلام کاغلبہ اور بہت سے لوگوں کے دلوں میں نور اسلام کااثر ونفوذ ہے۔
ان آفاقی اورا نفسی آیات نے بتایا ہے کہ قرآن مجید برحق ہے۔
جوخدا تمام چیزوں کاگواہ ہے اس نے قرآن کی حقا نیت پر بھی گواہی دی ہے۔
ان دونوں تفسیروں کے اپنے قرینے اور اپنی اپنی جیحات ہیں لیکن اسی آیت اور بعد کی آیت کے ذیل کی طرف توجہ کرنے سے پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ( ۲)۔ 
اس آیت کی تفسیرمیں اور بھی اقوال ہیں لیکن چونکہ زیادہ وزنی معلوم نہیں ہوئے لہذا ہم انہیں ذکر کر نے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
اس سورت کی آخر ی آیت اس مشرک ، مفسد اور ظالم ٹولے کی بد بختی کااصل سرچشمہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہے :آگاہ رہو کہ وہ پروردگار کی ملاقات اورقیامت کے دن کے بار ے میں شک وشبہ میں مبتلا ہیں (اٴَلا إِنَّہُمْ فی مِرْیَةٍ مِنْ لِقاء ِ رَبِّہِمْ اٴَلا إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطٌ )۔
چونکہ حساب و کتاب اور سزا وجزا پرانہیں ایمان نہیں ہے لہذا ہرجرم کاارتکاب کرگزر تے ہیں اور ہر شرمناک انجام دے دیتے ہیں، ان کے دلوں پرغفلت اور غرور کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور پر وردگار سے ملاقات کی فراموشی نے انہیں عظمت انسانیت کی بلندی سے پستی میں دھکیل دیاہے۔
لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ ” خدا ہرچیز پرمحیط ہے ( اٴَلا إِنَّہُ بِکُلِّ شَیْء ٍ مُحیطٌ )۔ 
ان تمام اعمال ، گفتار اور نیتیں خداکی بار گاہ علم میں مکمل طورپر عیاں ہیں اور یہ سب کچھ قیامت کی عظیم عدالت کے لیے اکٹھا ہو رہاہے۔
” مریہ “ (بروزن ” جزیہ“ یا بروزن ” قریہ “ ) کسی امر کے بار ے میں فیصلہ کرلینے کے بعداس میں ڈانواں ڈول ہونے کے معنی میں ہے . بعض اسے بڑے شک وشبہ کے معنی میں سمجھتے ہیں . اس کلمہ کااصل سرچشمہ ” مریت الناقة “ اونٹنی کود وہ لینے کے بعد اس کے پستانوں کو اس اُمید کے ساتھ زور زور سے نچوڑ ناکہ شاید بچا کھچا دودھ بھی نکل آئے . چونکہ یہ کام شک وشبہ کی بناء پر انجام پایا ہے اسی لیے یہ کلمہ بھی ” شک و شبہ “ کے معنی میں استعمال ہوتاہے۔
اگر ” مجادلہ “ کو ”مراء“ کہتے ہیں تو بھی اسی لیے کہ انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ قریق مخالف کے ذہن میں ہوتاہے اسے باہر نکل دے۔
درحقیقت آخر ی جملہ معاد کے بار ے میں کفار کے بعض شکوک و شبہات کاجواب ہے جن میں سے کچھ شبہات یہ بھی ہیں کہ یہ بات کس طرح ممکن ہے کہ یہ منتشر اورپھر مخلوط مٹی جدا ہو جائے ؟کون سی طاقت ہرانسان کے اجزاء کو یکجاکرسکے گی ؟ علاوہ بریں پوری تاریخ کے تمام انسانوں کی نیتوں،اعمال او رگفتار سے کون آگاہ ہوسکتاہے ؟
قرآن مجید ان تما م سوالوں کے جواب میں کہتاہے : جو تمام چیزوں کااحاطہ کئے ہوئے ہے اس پر یہ تمام باتیں روشن ہیں تما م چیزوں پر اس کے علمی احاطہ ک یدلیل تمام چیزوں پر اس کی تدبیر ہے،یہ کیونکہ ہوسکتاہے کہ مدبر عالم دنیا جہان کے حالات سے بے خبر ہو ؟
بعض مفسرین نے اس آیت کو بھی مسئلہ توحید سے متعلق سمجھاہے نہ کہ مسئلہ معاد کے،وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ پروردگار عالم کی توحید کے با ر ے میں اس قسم کے استد لا لات متعصب اورضدی مزاج کفار کے لیے موٴ ثر ثابت نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے لیے مفید ہوتے ہیں وہ توتوحید کی روشن ترین دلیل یعنی خداکی ہرجگہ پر موجود گی کے بھی منکر ہیں تو یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ توحید کے دلائل سے کیونکہر بہرہ ورہوسکتے ہیں ؟ ( ۳)۔ 
لیکن اگر دیکھاجائے تو قرآن مجید میں ” لقاء اللہ “ کی تعبیرعموماًقیامت کے لیے کنایہ ہوتی ہے لہٰذا یہ تفسیر بعید معلوم ہوتی ہے۔
۱۔ آیت کے اس جملہ کی ترکیب جیساکہ بعض مفسرین نے کہاہے ” با“ زائدہ ہے اور ” ربک “ فاعل کی جگہ پر ہے اور” انہ علیٰ کل شی ء شھید “ اس کابدل ہے اوراسکامعنی یوں ہوگا ” اولم یکفھم ان ربک علیٰ کل شیء شہید “ ۔
۲۔ پہلی تفسیر کی یہ چار ترجیحات ہیں۔
پہلی یہ کہ آیات کی تعبیرات زیادہ ترتوحید ی دلائل کے بار ے میں۔
دوسری یہ کہ آفاق اورانفس کی تعبیر توحید کی نشانیوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔
تیسری یہ کہ ” اولم کیف بربک انہ علی شی ء شہید “ مسئلہ توحید اور پر وردگار کی ذات پاک کی حقانیت کی تکو ینی شہاد ت کی طرف اشارہ ہے۔
چوتھی یہ کہ بعد کی آیت معاد کے بار ے میں گفتگو کررہی ہے اور معلوم ہے کہ مبدا ٴ اور معاد ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہیں۔
دوسری تفسیر کی بھی تین ترجیحات ہیں۔
پہلی یہ کہ ا” انہ “ کی ضمیر مفر د غائب کے لیے ہے ،جبکہ ” اٰ یاتنا “ میں ضمیرمتکلم مع الغیر کے لیے ہے اورمناسب یہی ہے کہ ہر ایک ضمیر ایک خاص مقصد کو بیان کرے۔
دوسری یہ کہ اس سے پہلے کی آیت خاص طور پرقرآن کے لیے ہے۔
تیسری یہ کہ ” سنر یھم “ جو کہ فعل مضارع ہے اور اس مناسبت کا متقاضی ہے کہ مذ کورہ آیات بعد میں دکھائی جائیں گی ( البتہ ہم نے تین میں ان ترجیحات کاجواب دے دیاہے ) ( غور کیجئے گا )۔ 
۳ ۔تفسیر المیزان ، جلد ۷ ،ص ۴۳۲۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma