قابل غور نکات

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
۱۔ ” شَرَع َ “” شرع“ ( بروزن ” زرع“ ) کااصل معنی روشن اورواضح راستہ ہے اورجو راستہ نہر یا دریامیں داخل ہوتاہے اسے بھی ” شریعة “ کہتے ہیں .بعد ازاں یہ کلمہ خدائی ادیان اور آسمانی شریعتوں کے بار ے میں استعمال ہونے لگاکیونکہ سعادت اوربھلائی کاروشن اورواضح راستہ انہی میں ہے اورایمان ، تقوی ،صلح اور عدالت کے آب حیات تک پہنچنے کے لیے بھی یہی راستہ ہے۔
اور چونکہ پانی طہارت ، پاکیز گی اورزندگی کابہت بڑا ذریعہ ہے یہ لفظ بھی خدا ئی دین کے ساتھ واضح مناسبت رکھتاہے . کیونکہ یہ بھی معنوی لحاظ سے انسانی معاشرے اورانسان کی جان اورروح کے ساتھ وہی کچھ کرتاہے جو پانی کرتاہے ( 1).
1۔یہ معنی اجمالی طورپر لسان العرب ، مفردات راغب اورلغت کی دوسری کتابوں میں آیاہے۔

۲۔ اس آیت میں خدا کے صرف پانچ ابنیا ء کی طرف اشارہ ہواہے کہ (یعنی نوح ،ابراہیم ،موسٰی ،عیسٰی ،اورحضر ت محمد علیہم الصلوٰة والسلام کی طرف ) کیونکہ یہی پانچ اولوالعزم رسول ہیں یعنی نئے دین و آمین کے مالک صرف یہی پانچ بزرگوار ہیں درحقیقت یہ آیت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شریعت صرف ان پانچ بزرگوں میں منحصر ہے۔

۳۔ سب سے پہلے حضر ت نوح علیہ السلا م کاذکر ہے کیونکہ سب سے پہلے شریعت کہ جس میں ہرقسم کی عبادت اوراجتماعی قوانین موجود تھے آپ،ہی سے آغاز ہوئی ہے اورآپ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام کے پاس محدود پرو گرام اوراحکام تھے (1).
یہی وجہ ہے کہ قرآن مجیدا ور روایات میں نوح علیہ السلام سے پہلے کسی آسمانی کتاب کاذکر نہیں ملتا ۔

1۔ اس سلسلے میں مزید تفصیل سور ہٴ بقرہ کی آیت ۲۱۳ کے ذیل ( تفسیر نمونہ جلد دو م ) میں ملاحظہ فرمائیں۔

۴۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان پانچ اولو العزم رسولوں میں سب سے پہلے نوح علیہ السلام کاذکر آیاہے پھرپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاپھر ابراہیم علیہ السلام،موسٰی علیہ السلام،عیسٰی علیہ السلام کااوراس کی تر تیب اس لیے ہے کیونکہ نوح علیہ السلام بوجہ آغاز گرشریعت کے پہلے ذکر ہوئے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکر بوجہ ان کی عظمت کے ہے پھر دیگر حضرات کاذخر بلحاظ ان کے زمانہ کے ہے۔

۵۔ یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ آیت میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بار ے میں ” اوحینا الیک “ ( ہم نے آ پ کی طرف وحی بھیجی ) کی تعبیرآئی ہے لیکن دوسرے انبیاء کے لیے ” توصیہ“ کاالفظ استعمال ہواہے شاید یہ فرق اس لیے ہے کہ دوسرے آسمانی ادیان کی نسبت اسلام کی اہمیت کوواضح کیاجائے.

۶۔ آیت کے آخرمیں انبیاء کے انتخاب کے طریقہ کار کو ” من یشاء “ کے اشارہ کے ساتھ بیان کیاجارہاہے یعنی انبیاء کاانتخاب ان کی وجودی لیاقت کی بناء پر ہوتا ہے۔
لیکن امت کے بار ے میں ”من ینیب “ ( جو خدا کی طرف رجوع کرے ،گناہوں سے توبہ کرے اور اطاعت اختیار کرے ) کی تعبیرہے تاکہ خدا وند عالم کی ہدایت کامعیار اوراس کی شرائط سب لوگو ں پرواضح ہوجائیں اوران پر عمل پیرا ہو کراس کے دریائے رحمت تک پہنچ جائیں۔
حدیث قدسی میں آیاہے :
من تقرب منی شبراً تقربت منہ ذراعاً ومن اتانی یمشی ،اتیتہ ھر و لة
جوایک بالشت کے بر ابر میرے قریب ہوگا میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب ہوں گا.جو شخص چل کر میرے پاس آئے گا میں دوڑ کراس کی طرف جا ؤں گا (1)۔
آخر ی جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیاگیاہے کہ ” اجتباء “ اورانتخاب صرف انبیاء کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خدا کے وہ خالص ومخلص بندے جو اس مقام کی لیاقت کے حامل ہیں وہ بھی اس کامصداق ہیں۔
چونکہ اولو االعز م انبیاء کی دعوت کے دو ارکان میں سے ایک دین میں تفرقہ بازی سے پرہیز ہے اوریقینا ان سب نے اسی اساس پر تبلغ بھی کی ہے،لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر ان مذہبی اختلافات کاسرچشمہ کیاہے اور یہ کہا ں سے پیدا ہوئے ہیں ؟
بعد کی آیت اسی سوال کاجواب دیتی ہے اور دینی اختلافات کے سرچشمہ کی نشاندہی کرتی ہے :انہوں نے تو تفرقہ بازی کارستہ اُس وقت اختیار کیاجب ان پراتما حجت ہوگی اورکافی حد تک علم ان کے پاس پہنچ گیااور یہ فرقہ باز ی دنیاوی محبت،جاہ طلبی،حسد اور عداوت کی وجہ سے تھی “(وَ ما تَفَرَّقُوا إِلاَّ مِنْ بَعْدِ ما جاء َہُمُ الْعِلْمُ بَغْیاً بَیْنَہُم).
جی ہاں ظالم دنیاپرست اورکینہ پرور حاسد لوگ انبیاء کے اس یکجہتی پرمبنی دین و آمیئن کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ہر ایک گروہ کے لیے ایک ایک رستہ بناکر انہیں اسی راہ پرلگا دیا تاکہ اس طرح سے اپنی حکومتوں کی بنیاد وں کومستحکم بناسکیں،دنیاوی منفعت حاصل کرسکیں اور سچے مومنین اور انبیاء کے ساتھ اپنے بغض وحسد کوآشکار کرسکیں . لیکن یہ سب کچھ اتمام حجت ہوجانے کے بعد تھا ۔
معلوم ہوا کہ ان کے مذہبی اختلافات کاسرچشمہ جہالت اور بے خبری نہیں بلکہ بغاوت ، سرکشی ،ظلم ، راہ حق سے انحراف اورذاتی آرا تھیں۔
یہ آیت ان لوگوں کے لےی ایک واضح جواب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مذہب نے آکر آدمیّت کے درمیان اختلاف اور انتشار پیدا کردیاہے . اور پوری تاریخ میں منصب ہی خو نریزی کا سبب بنا ہے . کیونکہ اگراچھی طرح غور وفکر سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمیشہ مذہب ہی اپنے ماحول اورمحیط میں اتحاد اوروحدت کاسبب رہاہے . ( جیساکہ اسلام نے حجازی قبائل بلکہ جزیرہ نمائے عرب سے باہر کی اقوام کو بھی ساتھ ملاکر اُن کے درمیان موجوداختلافات کوختم کرکے انہیں ” امت واحدہ “ قراردیا )۔
لیکن استعمال سیاست نے لوگوں کے درمیان تفرقہ پیدا کردیا اوراختلافات کوہوا دی جس سے لوگوں کاخون بہااور سر پھٹو ل ہوئی . شخص اورذاتی خواہشات اورطریقہ ار کو مذہب میں شامل کرلیاگیا اوراسے آسمانی مذاہب پرمسلّط کرکر دیاگیا جس کے نتیجے میں لوگوں کے درمیان تفرقہ بڑھ گی. اور یہ سب لوگوں کی سرکشی یعنی ” بغی “ کے باعث ہو ا ” بغی “ کااصلی معنی جوار باب لغت نے ذکر کیاہے کچھ اس طرح ” درمیانی خط سے انحراف و تجاوزکی طلب اور افراط و تفریط کی جانب رجحان “ خواہ یہ طلب پایہ تکمیل تک پہنچے،کبھی تو یہ طلب افراط وتفریط کسی چیز کی کمیت میں ہوتی ہے اورکبھی کیفیت میں . اسی لیے عام طور پر لفظ ظلم کے معنی میں بولا جاتاہے . یہ لفظ کبھی ہرقسم ” طلب اورحصول “ کے معنی میں بھی آتاہے ہرچند کہ یہ امر مناسب ہی کیوں نہ ہو ! لہذا راغب نے مفر ات میں ” بغی “ کودوحصوں میں تقسیم کیاہے . ایک ” قابل تعریف “ اور دوسرا ” قابل مذمت “ پہلا عدالت کی حد سے بڑھ کر احسان اورایثار تک اور واجبات سے بڑھ کرمستحبات تک جاپہنچنے کے معنی میں اور دوسرا حق سے ہٹ کر باطل کی طرف جھک جانے کے معنی میں آتاہے۔
پھر خدا وندعالم فرماتاہے : اگرتمہارے پروردگار کی طرف فرمان جاری نہ ہوچکا ہوتا کہ وہ ایک مقررہ وقت تک کے لیے زندہ اور آزاد رہیں تو خدانے ان کے درمیان فیصلہ کردیاہوتاہے یعنی وہ باطل کے طرفداروں کونیست ونابود کردیتا اورحق کے پیرو کاروں کو کا میابی عطا کرتا (وَ لَوْ لا کَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّکَ إِلی اٴَجَلٍ مُسَمًّی لَقُضِیَ بَیْنَہُمْ ).
یقینا یہ دنیا آزمائش ،نشو و نما اورارتقاء کاگھر ہے اور یہ چیز آ زادی عمل کے بغیر امکان پذیر نہیں ہے . یہ خدا وند عالم کاتکوینی فر مان ہے جوابتدائے آفر ینش سے چلا آرہاہے جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی . یہ دنیا وی زندگانی کی طبیعت میں شامل ہے . لیکن آخرت کے امتیاز ات میں سے یہ بات ہے کہ یہ تمام اختلا فات وہاں پرحل ہوں گے اور انسانیت ایک ہی لڑی میں منسلک ہوگی . اسی لیے توقیامت کو ” یوم الفصل “ کے نام سے بھی یا د کیاگیاہے۔
آخری جملے میں ان لوگوں کے حالات بیان فر مائے گئے ہیں جو ان لوگوں کے بعد برسر کار آئے ہیں یعنی جنہوں نے انبیاء کازمانہ نہیں دیکھا اورایسے زمانے میں آنکھ کھولی جس میں نفاق پر ورا ور تفر قہ انداز لوگوں نے عالم انسانیت کی فضاکو اپنے شیطانی اعمال کے ذریعے تاریک کردیاتھا . لہٰذایک یہ لوگ بخوبی حق تک نہیںپہنچ سکے اوراسے حاصل نہیں کرپائے ۔
ارشاد فرمایاگیا ہے:جولوگ ان کے بعد آسمانی کتاب کے وارث ہوئے ہیں وہ اس کے بار ے میں شک و شبہ میں مبتلا ہوگئے اور شک بھی ایسا کہ جس میں بد گمانی شامل ہے (وَ إِنَّ الَّذینَ اٴُورِثُوا الْکِتابَ مِنْ بَعْدِہِمْ لَفی شَکٍّ مِنْہُ مُریبٍ ) (2).
مفسرین نے ” ریب “ کے معنی کی حقیقت میں اس شرط کوبھی ذکر کیاہے کہ ” ریب ایسے شک کوکہتے ہیں کہ جس سے آخر کار پردہ اٹھا یاجائے اور وہ حقیقت میں بدل جائے اور شاید یہ امر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کی طرف اشارہ ہو کہ جنہوں نے روشن دلائل کے ذریعے حق طلب لوگوں کے دلوں سے شک و ریب کو دور کردیا ۔

ایک نکتہ

تفسیر علی بن ابراہیم میں امام جعفرصادق علیہ السلا سے منقول ہے کہ آپ صلی للہ علیہ وآلہ وسلم نے ” شرع لکم من الدین “ کی تفسیر میں فر مایاگیا ” ان اقیمو االدین “ سے مخاطب امام ہے اور ” لاتتفر قوافیہ “ کاجملہ امیر الموٴ منین علی علیہ السلام کے بار ے میں کنایہ ہے ( 3).
ظاہر سی بات ہے کہ دین سے منحصر اً علی علیہ السلام کی ولایت مراد نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امیر الموٴ منین کی ولایت کاشمار ارکان دین میں توضرورہوتاہے۔
1۔ تفسیر کبیر فخر رازی جلد ۲۷ ،ص ۱۵۷ (اس آیت کے ذیل میں ).
2۔ اسی تفسیر کی بنا پر جوکہ پہلے جملوں مکمل ہم آہنگ ہے ” بعد ھم “ کی ضمیر گزشتہ امتو ں کی طرف لو ٹ رہی ہے جنہوں نے مذہب میں تفرقے ڈالے .نہ کہ انبیاء کی طرف جوگزشتہ آیت میں مذ کور ہوئے ہیں۔ (غور کیجئے گا ) ۔
 3۔ تفسیرنورالثقلین جلد ۴ ،ص ۵۶۷ ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma