مودّت فی القربیٰ کی وضاحت

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5

اس جملے کے بار ے میں مفسرین نے المبی جوڑی گفتگو اورخوب بحث کی ہے اورجب ہم خالی الذہن ہوکر ان کے پہلے سے طے شدہ فیصلے کے تحت بیان کردہ تفاسیر کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ مختلف عوامل اوراسباب کی وجہ سے آیت کے اصلی مفہوم سے ہٹ گئے ہیں اورانہوں نے ایسے احتمالات کو اپنا یاہے جونہ تو آیت کے مفہوم سے مطابقت رکھتے ہیں نہ شان نزول سے اورنہ ہی دوسرے مشہور تفسیر یں بیان ہوئی ہیں :
۱ ۔ جیساکہ اشارہ ہوچکا ہے کہ ذوی القربی سے مراد پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اہل بیت ہیں اوران کی محبت ائمہ معصومین علیہم السلام کی امات اور رہبری کو تسلیم کرنے کاایک ذریعہ اور فریضے کی ادائگی کی ضمانت ہے۔
اس معنی کو بہت سے قدیمی مفسرین اور تمام شیعہ مفسرین نے اپنا یا ہے . شیعہ ، سنی دونوں کی طرف سے اس بار ے میں بہت سی روایات منقول ہوئی ہیں جن کی طرف ہم بعدمیں اشارہ کریں گے ۔
۲۔ دوسری تفسیر کے مطابق مراد یہ ہے کہ رسالت کااجریہی ہے کہ تم ا ن چیزوں کودوست رکھو جو تمہیں ” خدا کے قرب “ کی دعوت دیتی ہیں۔
اس تفسیرکو بعض اہلسنت مفسرین نے اپنایا ہے جوکسی بھی لحاظ سے آیت کے ظاہر ی مفہوم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگاکہ میں تم سے یہ چاہتا ہوں کہ تم خداکی اطاعت کودوست رکھو اوراس کی محبت کودل میں جگہ دو ،جبکہ کہنایہ چاہیے تھا کہ میں تم سے خدا کی اطاعت کوچاہتاہوں ( نہ کہ اطاعت الہٰی کی محبت )
اس کے علاوہ آیت کے مخاطب افراد میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جوخداکا قرب نہ چاہتا ہو، حتٰی کہ مشرکین بھی اس بات کے خواہش مندتھے کہ خدا نزدیک ہوں اوراصولی طور پر و ہ بتوں کی پرستش کواسی بات کاذ ریعہ سمجھتے تھے ۔
۳۔ تیسری تفسیر کے مطابق مراد یہ ہے کہ تم اجر رسالت کے طور پر اپنے قر یبی رشتہ داروں کودوست رکھو اورصلہ رحمی بجالاؤ ۔
اس تفسیر میں رسالت اورجر رسالت کے درمیان کوئی مناسبت نظرنہیں آتی کیونکہ اپنے رشتہ داروں سے دوستی کرنے سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی کونسی خدمت ہوسکتی ہے ؟ اورپھر یہ دوستی کس طرح اجررسالت قرار پاسکتی ہے ؟
۴۔ چوتھی تفسیر کے مطابق مراد یہ ہے کہ تم سے جومیری قرابت ہے اس کی حفاظت کرو اوراسے محفوظ رکھو . یہی مری رسالت کااجر ہے . چونکہ میراتمہارے اکثر قبائل سے رشتہ ہے لہٰذا مجھے تکلیف نہ پہنچا یاکرو ( کیونکہ آنحضرت کانسبی لحاظ سے قریش کے قبائل سے رشتہ تھا اور سببی ( از دواجی ) لحاظ سے بہت سے قبائل سے تعلق تھا نیز مادی لحاظ سے مدینہ بنی نجار کے متعددلوگوں سے اوررضاعی ماں کے لحاظ سے قبیلہ بنی سعد سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کارشتہ تھا ۔
یہ تعبیرتمام معنوں میں سے بدترین معنی ہے جو آیت کے لیے کیاجاتا ہے کیونکہ اجررسالت کاتقاضاان لوگوں سے کیا جاتاہے جوآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی رسالت کوقبول کرچکے ہیں جب یہ لوگ آپ کی رسالت کو قبول کرچکے ہیں توپھران سے اس قسم کی خواہش کااظہار غیر ضروری معلوم ہوتاہے . یہ لوگ آنحضرت کابحیثیت رسول اللہ احترام کیاکرتے تھے . پھرکیا ضرورت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کابحیثیت نسبی یاسببی رشتہ دار کے احترام کریں ، کیونکہ رسالت کی وجہ سے کیاجانے والااحترام دوسرے تمام اسباب و وجوہات سے بالا ترہوتاہے . درحقیقت اس تفسیر کاشماربہت بڑی غلطیوں میں سے ہوتاہے جوبعض مفسرین سے سر زد ہوئی ہے اوراس نے آیت کے مفہوم کومکمل طورپرمسخ کرکے رکھ دیاہے۔
قرآن مجید کی بہت سی آیات میں ہم بڑھتے ہیں کہ :انبیاء کرام فر ماتے تھے
وماسئلکم علیہ من اجران اجری الاّ علی رب العالمین (1).
دعوت رسالت کے بدلے ہم تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے ، ہمارااجر توصرف پروردگار عالم کے پاس ہے۔
اورخود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذات کے بار ے میں بھی مختلف تعبیریں دیکھی جاسکتی ہیں . کہیں ارشاد ہوتاہے :
قُلْ ما سَاٴَلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ فَہُوَ لَکُمْ إِنْ اٴَجْرِیَ إِلاَّ عَلَی اللَّہ
کہہ دے میں جو بھی اجررسالت تم سے طلب کیاہے وہ صرف تمہارے ہی فائدہ کے لیے ہے اورمیرا اجر تو صرف خداکی ذات پر ہے۔( سبا ٴ / ۴۷).
ایک اور مقام پرارشاد ہوتاہے :
قُلْ ما اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ إِلاَّ مَنْ شاء َ اٴَنْ یَتَّخِذَ إِلی رَبِّہِ سَبیلا
کہہ دے میں تبلیغ رسالت کے بدلے تم سے کچھ بھی اجرنہیں مانگتا مگر جو لوگ پرور دگار کے راستے کواختیار کریں۔( فرقان / ۵۷).
اورآخر میں ایک اور آیت :
قُلْ ما اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اٴَجْرٍ وَ ما اٴَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفین
کہہ دے : میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اورنہ ہی تم پر کوئی بوجھ ڈالتا ہوں۔ ( ص/ ۸۶).
جب ہم ان تینوں آیات کوزیربحث آیت کے ساتھ ملاکر دیکھتے ہیں تونتیجہ نکالنا آسان ہوجاتاہے ایک مقام پر تواجر اور اجرت کی بالکل نفی کی گئی ہے۔
دوسرے مقام پرفرماتے ہیں میں اجر رسالت صرف ان لوگوں سے مانگتا ہوں جو خدا کی راہ کواپناتے ہیں۔
تیسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے میں تم سے جوبھی اجرمانگتا ہوں وہ صرف اورصرف تمہارے فائدہ کے لیے ہے۔
اورزیرنظر آیات میں فرماتے ہیں : میرے قریبیوں سے مودت ہی میری رسالت کااجر ہے.یعنی :
میں نے تم سے ایسا اجررسالت طلب کیاہے کہ جس کی یہ خصو صیات ہیں کہ یہ بالکل ایسی چیز نہیں ہے جس کافائدہ مجھے پہنچنے،بلکہ اس کاسو فیصد فائدہ خود تمہیں ہی ملے گا اور یہ ایسی چیز ہے جوخدا تک پہنچنے کے لیے تمہاری راہ ہموارکرتی ہے۔
اس لحاظ سے کیااس کا اس کے علاوہ کوئی مفہوم ہوسکتاہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے مکتب کے راستے کوان ہادیان ِ الہٰی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معصو م جانشینوں کے ذریعے تسلسل جائے کہ جوتمام ترآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے خاندان میں سے ہوں . اور چونکہ مودت کامسئلہ اس تسلسل اوررابطے بنیاد ہے لہٰذا اس آیت میں صراحت اوروضاحت کے ساتھ اس کاذکر ہواہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی آیت ” مود ت فی القربیٰ “ کے علاوہ قرآن مجید میں اور پندرہ مقامات پر ” القربیٰ “ کالفظ استعمال ہوا ہے.جوہرجگہ پر قریبیوں اور نزدیکیوں کے معنی میں ہے.پھر معلوم نہیں کہ بعض لوگ اس بات پر کیوں اصرار کرتے ہیں کہ صرف اسی آیت میں ” قربیٰ “ کو ” مودت الی اللہ ‘ ‘ کے علاوہ قرآن مجید میں اورپند رہ مقامات پر ” القربیٰ “ کالفظ استعما ل ہواہے . جوہرجگہ پرقریبیوں اورنزدیکیوں کے معنی میں ہے .پھرمعلوم نہیں کہ بعض لوگ اس بات پرکیوں اصرار کرتے ہیں کہ صرف اسی آیت میں ” قر بیٰ “ کو” تقرب الی اللہ “ کے معنی میں منحصر کردیاجائے اوراس کے واضح اورظاہر معنی کوجو کہ قرآن میں ہرجگہ استعمال ہواہے ، صرف نظر کردیا جائے۔
پھر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ اسی زیر بحث آیت کے آخر میں آیا ہے : جوشخص نیک عمل بجالائے توہم اس کی نیکیوں میں اضافہ کریں گے کیونکہ خدابخشنے والا اور شکر گزار ہے اوربندوں کے اعمال کی مناسب جزاعطافرماتاہے (وَ مَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فیہا حُسْناً إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ شَکُور).
اس سے بڑ ھ کراور کیا نیکی ہوسکتی ہے کہ انسان ہمیشہ خدائی رہبروں کے پرچم تلے رہے ، ان کی محبت کودل میں جگہ دے ان کے بتائے ہوئے اصولوں پرعمل پیروہو ، کلام الہٰی کے سمجھنے میں جہاں ابہام پیدا ہووہاں ان سے وضاحت حاصل کرے ، ان کے اعمال کواپنے لیے معیار عمل قر ار دے اورخود ان کی ذات کو اپنے لیے اسوہ اورنمونہ قراردے ۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma