مودت فی القربیٰ روایات کی نظر سے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
مندرجہ بالاآیت کی اس تفسیر پرشاہد ناطق وہ بہت سی روایات ہیں جوشیعہ اورسنی کتب میں خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) وسلم کی زبان نقل ہوئی ہیں اورپکار پکار کرکہہ رہی ہیں کہ ” قربیٰ “ سے مراد پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے نزدیکی اورمخصوص لوگ ہیں . نمونے کے طورپر:
۱۔ احمدنے ” فضائل الصحابہ “ میں اسناد کے ساتھ سعید بن جیرسے اورانہوں نے عامر سے یوں روایت نقل کی ہے:
لمانزلت قل لا اسئلکم علیہ اجراً الاالمودة فی القربیٰ ، قالو ا: یارسول اللہ ! من قر ابتک ؟من ھٰؤ لاء الذ ین وجبت علینا مودّ تھم ؟قال:علی و فاطمة وابنا ( علیھم السلام ) وقا لھا ثلاثاً ۔
جب آیت ” قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی “ نازل ہوئی تواصحاب نے عرض کیایارسول اللہ ! آپ کے وہ نز دیکی کون لوگ ہیں کہ جن کی مودت ہم پرواجب ہوئی ہے ؟ توآپ نے ارشاد فرمایا علی،فاطمہ اوراُن کے دوبیٹے ہیں۔
اوراس بات کو آپ نے تین مرتبہ دہرایا ( 2).
۲۔ ” مستدرک الصحیحیں “ میں امام علی بن الحسین (زین العابدین ) علیہ السلام سے منقول ہے کہ امیر الموٴ منین علی بن ابن ابی طالب علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسین علیہ السلام نے لوگوں سے جو خطاب فرمایا اس کاایک حصّہ یہ بھی ہے :
انامن اھل البیت الذ ین افترض اللہ مودّ تھم علی کل مسلم فقال تبارک وتعالیٰ لنبیہ (ص) قل لا اسئلکم علیہ اجراً الاّ المودة فی القربیٰ ومن یقترف حسنة نزدلہ فیھا حسناً فاقتراف الحنة مودتنا اھل البیت
میں اس خاندان میں سے ہوں خدانے جس کی مودت ہرمسلمان پرفرض کردی ہے اوراپنے رسول سے فر مایا ہے ”قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی ---... “ اورنیکی کمانے سے خدا کی مراد ہم اہلبیت کی مودت ہے ( 3).
۳۔ ”سیوطی “ نے ”درمنثور “ میں اسی آیت کے ذیل میں مجاہدسے،انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ” قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی “ کی تفسیرمیں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے فرمایا :
ان تحفظو فی فی اھل بیتی وتود وھم بی
میراد یہ ہے کہ تم میرے حق کی میرے اہلبیت علیہم السلام کے بار ے میں حفاظت کرو اور میری وجہ سے ان سے محبت کرو ( 4).
یہاں سے یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ابن عباس سے جو ایک اور روایت نقل ہوئی ہے وہ مسلم نہیں ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی عرب قبائل سے قرابت کی وجہ سے انہیں تکلیف نہ دی جائے کیونکہ جیساکہ ہم نے دیکھا ہے ابن عباس سے اس کے خلاف روایت نقل ہوئی ہے۔
۴۔ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اپنی اسناد کے ساتھ سعید بن جبیر سے اور دوسری اسناد کے ساتھ عمربن شعیب سے نقل کیاہے کہ اس آیت سے مراد:
ھی قربیٰ رسول اللہ
رسول خداکے نزدیکی افراد ہی ( 5).
۵۔ مشہور مفسرین مومرحوم طبرسی رحمتہ اللہ علیہ نے حاکم حسکانی کی کتاب ” شواھد التنزیل “ سے ایک روایت نقل کی ہے.حاکم کاشمار اہل سنت کے مشہور مفسرین اور محدثین میں ہوتا ہے.انہوں نے ” ابوامامہ با ہلی “ سے نقل کیاہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) فر ماتے ہیں:
ان اللہ خلق الانبیاء من اشجار شتی ،وانا وعلی من شجرة واحدة ،فانا اصلھا ،وعلی فر عھا ،وفا طمة لقاحھا ، والحسن الحسین رھا،واشیا عنا اور اقھا ۔ ... یاں تک کہ فرمایا ... لوان عبداً عبد اللہ بین الصفاوالمروة الف عام ، ثم الف عام ، ثم الف عام،حتی یصیر کالشن البالی ،ثم لم یدرک محبتناکبہ اللہ علی منخریہ فی النار،ثم تلا : قل لا اسئلکم علیہ اجراً
خدانے تمام انبیاء کومختلف درختوں سے پیداکیاہے لیکن مجھے اور علی کوایک ہی درخت سے پیدا کیا جس کی جڑ میں ہوں،شاخ علی ،فاطمہ اس کی افزائش کاذریعہ ہیں،حسن اورحسین ا س کے میوے ہیں اورہمارے شیعہ اس کے پتے ہیں ... پھرفرمایا ... اگرکوئی شخص صفا اورمرو ہ کے درمیان ہزارسال تک خدا کی عبادت کرے ،پھرہزارسال اور ، پھر ہزار اوراس کی عبادت کرے اوراتنی عبادت کرے کہ سوکھ کرپرانی مشک کے مانند ہوجائے لیکن ہماری محبت اس کے دل میں نہ ہو تو خدااسے منہ کے بل جہنم میں ڈالے گ. پھرآپ نے یہ آیت تلاوت فر مائی ”قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی “ ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس روایت کو اس قدرشہرت حاصل ہوئی ہے کہ مشہور شاعر کمیت نے بھی اپنے اشعار میں اس کی جانب اشارہ کیاہے اور کہاہے :
وجدنالکم فی اٰل حامیم اٰیة ... تاولھا مناتقی ومعرب
تمہاری ( ایلبیت علیہم السلام ) شان میں ہمیں حم سورتوں میں ایک ایسی آیت مل گئی ہے جسے تقیہ کرنے والوں نے تاٴویل کرکے اورواضح بیان کرنے والوں نے آشکار طور پر بیان کیاہے (6).
۶۔ ”سیوطی “ نے اپنی تفسیردرمنثور میں ” ابن جریر “ سے انہوں نے ” ابی دیلم “ سے یوں نقل کیاہے :
” جب علی بن الحسین کوقید کرے دمشق کے در وازے پرلایا گیا تواہل شام میں سے ایک شخص نے کہا ” الحمد اللہ الذی قتلکم واستاصلکم “ ( خدا کاشکر جس نے تمہیں قتل کیااور تمہاری بیخ کنی کردی ) تو علی بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا : کیاتم نے قرآن پڑھا ہے ؟اس نے کہا، ہاں ! پھر فر مایا حٰم سورتوں کوبھی پڑھاہے ؟ کہا نہیں . امام نے کہا : آ یااس آیت کی تلاوت نہیں کی ” قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی“ ؟وہ کہنے لگا تو کیاوہ ” قربیٰ “ آپ لوگ ہیں جن کی طرف آیت میں اشارہ کیاگیا ہے ؟ فر مایا جی ہاں ( 7).
۷۔ زمخشر ی نے اپنی تفسیر کشاف میں ایک حدیث نقل کی ہے جسے فخر رازی اور قرطبی نے تفسیروں میں لکھا ہے . یہ حدیث بڑ ی صراحت کے ساتھ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے مقام اوران کی محبت کی اہمیت کوبیان کررہی ہے ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) خدا فر ماتے ہیں :
من مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) مات شھیدا ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) مات مغفر رً الہ ۔
الاومن مات حب اٰل محمد (ص) مات تائبا ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) موٴ منا ً مستکمل الایمان ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) بشرہ ملک الموت بالجنة ثم منکر ونکیر ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد(ص) یزف الی الجنة کماتزف العروس الیٰ بیت زوجھا ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) فتح لہ فی قبرہ بابان الی الجنة ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) جعل اللہ قبرہ مزار ملا ئکة الرحمة ۔
الاومن مات علیٰ حب اٰل محمد (ص) مات علی السنة والجما عة ۔
الاومن مات علیٰ حب بعض اٰل محمد (ص) جاء یوم القیا مة مکتوب بین عینیہ اٰیس من رحمة اللہ ۔
الاومن مات علیٰ بعض اٰل محمد (ص) مات کافراً ۔
الاومن مات علیٰ بغض اٰل محمد (ص) لم یشم رائحة الجنة ۔

جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت پرمراوہ شہید ہوکر مرا ۔
خبردار ہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مرااس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔
خبردار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مراوہ تائب ہوکرمرا ۔
خبردار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مرا وہ کامل الایمان موٴ من ہوکرمرے گا ۔
خبردار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مرا موت کے فرشتے اسے بہشت کی خوشخبری دیں گے ، پھر ( قبر میں سوال کرنے والے فرشتے ) منکر اور نکیر اسے خوشخبری دیں گے ۔
خبردار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مرااسے یوں آراستہ کرکے احترام کے ساتھ بہشت میں لے جایا جائے گا جس طرح دلہن کو اس کے دولہا کے گھر لے جایا جاتا ہے۔
خبردار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مرااس کی قبر میں بہشت کے دو دو دروازے کھول دیئے جائیں گے ۔
خبر دار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مراخدا اس کی قبر کو ملائکہ رحمت کی زیارت گاہ بنادے گا ۔
خبر دار رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کے ساتھ مراوہ اسلام کی سنت اور مسلمانوں کی جماعت پرمرے گا ۔
آگاہ رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دشمنی کے ساتھ مرا قیامت کے دن وہ ایسی حالت میں عرصہ محشر میں داخل ہوگاکہ اس کی پیشانی پرلکھا ہوگا کہ یہ خدا کی رحمت سے مایوس ہے۔
آگاہ رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دشمنی کے ساتھ مرے گا وہ کافر ہو کرمر ے گا ۔
آگاہ رہو ! جوشخص آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دشمنی کے ساتھ مرے گ. وہ بہشت کی خوشبو کونہیں سونگھ پائے گا ( 8).
دلچسپ بات یہ ہے کہ فخررازی اس حدیث کوجسے صاحب کشاف نے ”حدیث مرسل مسلّم “ کے نام سے یاد کیاہے ، ذکرکرنے کے بعد کہتے ہیں۔
” آ ل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ لوگ ہیں جن کے امور کی بازگشت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی طرف ہوتی ہے،جن لوگوں کارابط زیادہ محکم اورکامل ہوگاانہی کا ” آل “ میں ہو گا اوراس میں شک نہیں کہ فاطمہ ، علی ، حسن اورحسین ( علیہم السلام ) کارسول خدا سے محکم ترین رشتہ ہے اور یہ بات مسلّمات میں سے ہے اورمتو اتر ا حادیث سے ثابت ہے . بنابریں لازم ہے کہ ہم انہیں ” آل رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سمجھیں “ ۔
آگے چل کرکہتے ہیں :
” کچھ لوگوں نے آل کے مفہوم میں اختلاف کیاہے،بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے قر یبی رشتہ داری آل رسول ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی امت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آل ہے . اگرہم اس لفظ کوپہلے معنی پر محمول کریں تو اس سے مر اد صرف اورصر ف مذ کورہ بزرگ ہستیاں ہیں اوراگر اس سے مراد امت یعنی وہ افرادہیں جنہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی دعوت کوقبول کیا توپھر بھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے نزدیکی رشتہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آل سمجھے جائیں گے،بنابریں ہرلحاظ سے یہ ہستیاں توآپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آل ہیں،البتہ ان کے علاوہ لوگ آل میں داخل ہیں یانہیں اس میں اختلاف ہے “ ۔
اس کے بعد فخررازی نے صاحب کشاف سے یوں نقل کیاہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تولوگوں نے عرض کی،یارسول اللہ ! آپ کے قریبی رشتہ دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر فرض ہوئی ہے ؟توآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا :وہ علی و فاطمہ اوران کے دو فر زند ہیں۔
پس معلوم ہوایہ چاربزرگوار ہستیاں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذوی القربی ہیں اورجب یہ ثابت ہوگیاپھرضر وری ہے کہ اُن کاانتہا ئی احترام کیاجائے۔
فخر الدین رازی مزید کہتے ہیں کہ اس مسئلے پرمختلف دلائل دلالت کرتے ہیں :
۱ ۔ ” إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی“ کاجملہ کہ جس کاطرز استد لال بیان ہوچکا ہے۔
۲۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ کوحضرت فاطمہ سے محبت تھی اوران کے بار ے میں فرمایا ” فاطمة بضعة منی یوٴ ذینی مایوٴ ذ یھا “ (فاطمہ میرے بدن کاٹکڑا ہے جوچیزاسے تکلیف دے گی وہ مجھے تکلیف دے گی اوررسول خدا کی متواترحدیثیوں سے یہ بات پایہٴ ثبوت کوپہنچ چکی ہے آپ علی ، اورحسن اورحسین سے محبت فرماتے تھے ، اور جب یہ بات ثابت ہوگی توا ن کی محبت تمام امت پرواجب ہے چونکہ خد فرما تاہے ” وَ اتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون“ ( رسول خداکی پیروی کرو تا کہ تم ہدایت پاؤ (9) نیز فرما تا ہے ” فَلْیَحْذَرِ الَّذینَ یُخالِفُونَ عَنْ اٴَمْرِہِ“ (جولوگ فرمان رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں عذاب الہٰی سے ڈر ناچاہیئے ( 10) اور یہ بھی فر ماتاہے ”قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ “ (پیغمبر ! کہہ دیجئے کہ اگرخدا کودوست رکھنا چا ہتے ہو تومیری اتباع کروتاکہ خدا تمہیں دوست رکھے (۱1) ساتھ ہی اس کایہ فرمان بھی ہے کہ ”لَقَدْ کانَ لَکُمْ فی رَسُولِ اللَّہِ اٴُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“ (تمہارے لیے رسول خداکی زندگی بہترین نمونہ ہے (12).
۳۔ ” آل “ کے لیے دعا ایک عظیم اعزاز ہے لہذا یہ دعاتشہد کے اختتام پرموجود ہے ” اللھم صلی علیٰ محمد و علی اٰل محمد،وار حم محمد اً واٰل محمد “ اور اس قسم کی عظمت اور احترام آل کے علاوہ کسی اورکے بار ے میں نظر نہیں آتالہٰذا ان سب دلائل کی روشنی میں یہ بات پایہ ٴ ثبوت کوپہنچ جاتی ہے کہ آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت واجب ہے۔
آخر الا مرفخر الدین رازی اپنی گفتگو کوامام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ان مشہور اشعار پر ختم کرتے ہیں۔
یاراکبا قف بالمح من منی ... واھتف بساکن خیفھا والناھض
سحراً اذا فاض الحجیج الی منی ... فیضا کمانظر الف الفائض
ان کان رفضا حب اٰل محمد ... فلیشھد الثت نی رافضی
اے حج کے لیے جانے والے سوار ! جہاں پر منی کے نزدیک رمی جمرات کے لیے کنکر یاں اکٹھا کر تے ہیں اورجو خانہ ٴ خداکے زائرین کاعظیم اجتماعی مرکز ہے تووہاں پرٹھہر جااوران لوگوں کو آواز دے جو مسجد خیف میں مصروف عبادت ہیں یاچل رہے ہیں۔
اس وقت پکار جب بوقت سحر حجاج مشعر الحرام سے منیٰ کی جانب چل پڑتے ہیں اور عظیم اورٹھاٹھیں مارتے در یاکے مانند سرزمین منٰی میں داخل ہوتے ہیں۔
یاتوبآ واز بلند کہہ دے کہ اگر آل محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی محبت کانام رفض ( رافضی ہونا ) ہے تو تمام جن وانس گواہ رہیں کہ مین رافضی ہوں (13).
جی ہاں یہ ہے آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کامقام اوران کی قدرو منزلت ،ہم جن کے دامان سے متمسک ہیں اورجنہیں ہم نے اپنادین اوردنیا ہم کاراہبر ورہنما تسلیم کیاہے . ہم انہیں اپنے لیے اسوہ حسنہ اور نمونہ کامل سمجھتے ہیں اورہم سمجھتے ہیں کہ اُن کی امامت کے ذ ریعے راہ
ِ نبو ت کاتسلسل باقی ہے۔
البتہ مندرجہ بالا احادیث کے علاوہ اسلامی کتابوں میں اور بھی بہت سی احادیث موجود ہیں لیکن ہم اختصاد او ر تفسیر ی پہلوؤں پرقناعت کرتے ہیں اور مندرجہ بالا سا ت احادیث پراکتفا کرتے ہیں ، لیکن اس نکتے کو بیان کرنامناسب سمجھتے ہیں کہ علم کلام کی بعض کتابوں مثلاً ” احقا ق الحق “ اوراس کی مبسوط شرح میں”قُلْ لا اٴَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی “ کی تفسیر میں مذ کورہ بالا مشہور حدیث اہل سنّت کی پچاس سے زائد کتابوں سے نقل کی گئی ہے ، جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ روایت کس قدر مشہورومعروف ہے . البتہ کتب شیعہ میں بھی یہ حدیث اہل بیت کے حوالے سے بہت سی کتب حدیث میں نقل کی گئی ہے۔
1۔ شورہ شعراء آیت ۱۰۹، آیت ۱۲۷ . آیت ۱۶۴ . آیت ۱۸۰۔
2۔ ” احقاق الحق “ جلد ۳ ،ص د۲ ،ص نیز قرطبی نے بھی اسی روایت کواسی آیت کے ذ یل میں درج کیا ہے . ملاحظہ ہوتفسیر قرطبی جلد ۸ ،ص ۵۸۴۳۔
3” متدرک الصحیحین “ جلد ۳ ،ص محب الدین طبرسی نے بھی اسی حدیث کو اپنی کتاب ” ذخائر العقبٰی “ کے ص ۱۳۷ میں اورابن حجر نے اپنی کتاب ”صواعق محرقہ “ میں نقل کیاہے ملاحظ ہو ص ۱۰۱۔
4۔ تفسیردرمنثور جلد ۶ ۷ اسی آیت کے ذیل میں۔
5۔تفسیر طبری جلد ۲۵ ، ص ۱۶.۱۷۔
6۔ تفسیر مجمع الیبیان ، جلد ۹ ،ص ۲۹۔
7۔ تفسیردرمنثور جلد ۶ ،ص ۷۔
8۔ تفسیر کشاف ، جلد ۴ ،ص ۲۲۰،ص ۲۲۱ تفسیر فخر رازی ، جلد ۲۷ ،ص ۱۶۵ و ص ۱۶۶ ،تفسیر قرطبی ،جلد ۸ ،ص ۴۳ ۵۸ . تفسیرثعلبی جلیل بن عبداللہ بجلی سے اسی آیت کے ذیل میں ( منقول از المر جعات خط ۱۹).
9۔ سورہ اعراف آیت ۱۵۸ ۔
۱0۔ سورہ نور آیت ۶۳۔
۱1 ۔ سور ہ آل عمران ۳۱۔
۱2۔ سور ہ احزاب آیت ۲۱۔
۱3۔ تفسیر فخر رازی ،جلد ۲۷ ،ص ۱۶۶۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma