وہ بندوں کی توبہ قبول کرتاہے

سایٹ دفتر حضرت آیة اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی

صفحه کاربران ویژه - خروج
ذخیره کریں
 
تفسیر نمونہ جلد 20
سوره فصلت/ آیه 1- 5
یہ آیات ، رسالت ، اجررسالت ، مودت ذی القربی اور اہلبیت علیہم السلام کے بار ے میں سابقہ آیات کے سلسلے کی کڑ یاں ہیں۔سب سے پہلے فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ اس وحی خداکو قبول نہیں کرتے بلکہ ” کہتے ہیں کہ اس نے خدا پرجھوٹ باندھا ہے یہ سب باتیں اس کے اپنے ذہن کی پیدا وار ہیں جنہیں خدا کی طرف منسو ب کرتاہے “ (اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَری عَلَی اللَّہِ کَذِباً َ) ۔
” جب کہ اگر خدا چاہے توتیرے دل پر مہر لگادے اوران آیاتکے اظہا ر کی قدرت تجھ سے چھین لے “ (فَإِنْ یَشَإِ اللَّہُ یَخْتِمْ عَلی قَلْبِک) ۔
درحقیقت یہ چیز اس مشہور منطقی استد لال کی طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی شخص نبوت کادعوی کرے اورمعجزے اور آیات بیّنات بھی اس کے ہاتھوں اور زبان سے ظاہرہوں اورخدا کی تائید اورنصرت بھی اسے حاصل ہو . لیکن وہ خداپر جھوٹ باند ھناشروع کر دے تو حکمت الہٰی اس بات کی متقاضی ہو گی کہ وہ تمام معجزات اورخدا کی نصرت وحمایت سب اس سے واپس لے لی جا ئے اورخدا اسے ذلیل و رسو اکردے جیساکہ سور ہ ” حاقّہ “ کی آیت ۴۴ تا ۴۶ میں ہے :
وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنا بَعْضَ الْاٴَقاویلِ َلاٴَخَذْنا مِنْہُ بِالْیَمینِ ثُمَّ لَقَطَعْنا مِنْہُ الْوَتینَ
اگروہ ہم پر جھوٹ باند ھنا شروع کردے تو ہم اس سے پوری طاقت سے موٴ اخذہ کریں گے اور اسے سزادیں گے اوراس کے دل کی رگ کوکاٹ ڈالیں گے۔
البتہ آیت کی اس تفسیر میں مفسرین نے اور بھی بہت سے احتمال ذکرکئے ہیں لیکن جوتفسیر ہم سطو ر بالا میں بیان کرچکے ہیں وہ زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے۔
یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ کفار ومشر کین منجملہ دیگر ناجائز تہمتوں کے جو وہ رسول گرامی اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرلگا کرتے تھے ایک تہمت یہ بھی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے خدا پرجھوٹ باندھ کراپنی رسالت کااجر اپنے اہلبیت سے مودت کی صورت میں لیاہے.( جیسا کہ گزشتہ آیات میں اس چیز کاذکر ہو چکا ہے ) اور یہ آیت اس تہمت کی نفی کررہی ہے۔
لیکن اس کے باوجود آیت کامفہوم اس معنی میں منحصر بھی نہیں . کیونکہ دوسری قرآنی آیات کی رو سے دشمنان دین و اسلام تمام قرآن اوروحی کے بار ے میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ذا ت با بر کات کومورد الزام ٹھہر ایاکرتے تھے . چنانچہ سور ہ ٴ یونس کی آیت ۳۸ میں ہے :
اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَراہُ قُلْ فَاٴْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِہ
بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ اس (پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے خدا پرجھوٹ باند ھاہے توکہہ دے کہ تم بھی اس جیسی ایک سورت لے آؤ ۔
اسی سے ملتی جلتی بات لیکن کچھ فرق کے ساتھ سورہ ٴ ہود کی تیرھویں اور پینتیسو یں آیات کے علاوہ قرآن پاک کی بعض دوسری آیات میں بھی موجود ہے اوریہ آ یات ہماری مذکورہ تفسیر کی گواہ ہیں۔
پھر اسی امرپر تاکید کے طور پر ارشاد فرمایاگیاہے : خدا باطل کومٹاتے ہے اورحق کو اپنے حکم سے قائم اورثابت کرتاہے (وَ یَمْحُ اللَّہُ الْباطِلَ وَ یُحِقُّ الْحَقَّ بِکَلِماتِہِِ) (۱).
یہ خدا وند عالم کافر یضہ ہوتاہے کہ اپنی حکمت کی بناء پر حق کوظاہر اورباطل کو ذلیل وخوار کرے تو پھر کیونکہ کسی کو اس بات کی کھلی چھٹی دے سکتاہے کہ وہ اس پر افتراء پر داز ی کرے اورپھر وہ اس کی امداد بھی کرے اورپھر معجزات کو اس کے ہاتھوں پر آشکار کرے ؟
اور اگر کوئی شخص یہ تصور کے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) علم خداسے چھپ کرایسا اقدام کرتے ہیں تو یہ اس کی زبردست غلطی ہوگی کیونکہ ” وہ تودلوں میں موجود ہرچیزسے آگاہ ہے ( إِنَّہُ عَلیمٌ بِذاتِ الصُّدُور) ۔
جیسا کہ سورہ ٴ طافر کی آیت ۳۸ کی تفسیر میں ہم بتاچکے ہیں کہ عربی زبان میں” ذات “ کالفظ اشیاء کی عین اورحقیقت کے لیے استعمال نہیں ہوابلکہ یہ توفلاسفہ (۲) کی اصطلاح ہے جبکہ عربی میں” ذات “” صاحب “ کے معنی میں آیاہے .لہٰذااس لحاظ سے ”إِنَّہُ عَلیمٌ بِذاتِ الصُّدُور “ کے جملے کامعنی اور مفہوم یہ ہوگا کہ خداان افکار اور عقائد سے اچھی طرح واقف ہے جو ان لوگوں کے دلوں پرحاکم ہیں اور گو یاان دلوں کے مالک ہوچکے ہیں اور یہ انسانوں کے قلوب وارواح پر ان کے افکار کی حاکمیت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے (غورکیجئے گا ) .
اور چونکہ خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لیے باز گشت کاراستہ ہمیشہ کھلارکھاہے اور آیات قرآن مجید میں بار ہامشر کین اور گناہگاروں کے برے اعمال ذ کرکرنے کے بعدگنا ہگاروں کے لیے توبہ کے در وازوں کوکھلا رکھنے کی طرف اشارہ کیاگیاہے . زیرتفسیر آیات میں بھی سابق گفتار کے بعد فرمایا گیا ہے : خدا تووہ ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتاہے اور گناہوں کومعاف کرتاہے (وَ ہُوَ الَّذی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِہِ وَ یَعْفُوا عَنِ السَّیِّئاتِ ) ۔
لیکن اگرظاہر میں تو توبہ کرلو اور باطن میں کچھ اور کام کرو تویہ تصور مت کرو کہ تمہارایہ طر یقہ کار خدا وندعالم کے علم کی تیز بین نگا ہوں سے چھپارہے گا، نہ ! نہ !! ” جو کچھ تم بجالاتے ہو وہ اسے جانتاہے (وَ یَعْلَمُ ما تَفْعَلُونَ).
گزشتہ آ یات کے آغاز میں شان نزول کے بار ے میں ہم بیان کرچکے ہیں کہ کہاجاتاہے کہ آ یہٴ مودت نازل ہونے کے بعد بعض منافقین اورضعیف الایمان لوگوں نے کہنا شروع کردیاکہ
یہ تو وہ باتیں ہیں جومحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے خدا پرجھوٹ باند ھتے ہوئے اپنی طرف سے گھڑلی ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اپنے بعد ہمیں اپنے رشتہ داروں کے آگے ذلیل کرے ۔
اس پر ” اٴَمْ یَقُولُونَ افْتَری عَلَی اللَّہِ کَذِباً “ والی آیت نے نازل ہوکر ان کے اعتراض کاجواب دے دیا اور جب وہ نزول آیات سے باخبرہو ئے توکچھ لوگوں نے اظہار ندامت کیااور پشیمان ہوئے ، رونے لگے
اور غمگین ہوئے تو آیت ” وَ ہُوَ الَّذی یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبادِہِ وَ یَعْفُوا عَنِ...“ نازلہوئی ، یعنی اگران لوگوں نے خاص توبہ کرلی ہے توخدا نے بھی ان کی توبہ کوقبول فر ما لیاہے اوران کی خطاؤں کو معاف کردیاہے۔
زیرتفسیر آیات کے سلسلے کی آخر ی آیت میں موٴ منین کی عظیم جزااور کافرین کے درد ناک عذاب کومختصر سے جملوں میں بیان کرتے ہوئے فر مایاگیا ہے : خدا ان لوگوں کی دعاؤں کوقبول کرتاہے جوایمان لے آئے ہیں اور اعمال صالح بجالاتے ہیں (وَ یَسْتَجیبُ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ ).
” بلکہ ان کے لیے اپنافضل بڑھادیتاہے “ اور جن چیزوں کے لیے وہ دعابھی نہیں کرتے انہیں عطاکر دیتاہے“ (وَ یَزیدُہُمْ مِنْ فَضْلِہِ).
” لیکن کافروں کے لیے سخت عذاب ہے “ (وَ الْکافِرُونَ لَہُمْ عَذابٌ شَدیدٌ) ۔
اوریہ کہ موٴ منین کی کن دعاؤں کوقبول کرتاہے،اس بار ے میں مختلف تفسیریں ہیں بعض مفسرین نے انہیں بعض دعاؤں میںمحدود سمجھا ہے جن میں سے:
بعض کہتے ہیں کہ وہ موٴ منین کی ایک دوسرے کے حق میں دعا ؤں کوقبول کر تاہے۔
بعض کہتے ہیں کہ ان کی عبادتوں اوراطاعتوں کوقبول کرتاہے۔
بعض مفسرین نے یہ دعائیں موٴ منین کے اپنے بھائی بندوں کے بار ے میں شفاعت کے بار ے میں سمجھی ہیں۔
لیکن اس قسم کی محدود یت پر ان کے پاس کوئی دلیل نہیں بلکہ خداوند عالم صالح موٴ منین کی ہرقسم کی دعاؤں کوقبول فر ماتاہے اوراس سے بڑ ھ کران باتوں کوبھی جوان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں کہ وہ خدا سے طلب کریں لیکن وہ اپنے فضل و کرم کی بناء پر انہیں عطا فر ماتاہے اور موٴ منین کے بارے میں یہ خدا کاانہتائی لطف و کرم ہے۔
”وَ یَزیدُہُمْ مِنْ فَضْلِہ “ کی تفسیر میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی ایک حدیث ہے جو آپ علیہ السلام نے حضرت رسول پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل فرمائی ہے :
الشفاعة للمن و جبت لہ النار ممن احسن الیھم فی الدنیا
خداان پراپنا اضافی فضل یہ فرمائے گاکہ ان موٴ منین کی ان لوگوں کے بار ے میں شفاعت قبول فرمائے گا جنہوں نے دنیامیں ان کے ساتھ نیکی کی ہوگی (لیکن اپنے بُرے اعمال کی بنا پر ) جہنم کے مستحق ہوچکے ہوں گے ( ۳).
اس معنی خیز حدیث کامفہوم یہ نہیں ہے کہ خداکااضافی فضل اسی چیز میںمنحصر ہے بلکہ یہ توصرف اس کے روشن مصداقوں میں سے ایک ہے۔
۱۔ توجہ رہے کہ ” یمح “ دراصل ” یمحو“ تھاجو عام طور پر قرآن کے بہت سے اسم الخط میں” و “ کے ساقط ہونے کے ساتھ آ یاہے ،جیساکہ ” وید ع الانسان بالشر “ (سورہ ٴ بنی اسرائیل . ۱۱) اور” سند ع الزّ بانیة “ ( سورہ ٴ علق . ۱۸) ...ایسے تمام موارد میں موجودہ رسم الخط میں واؤ ذکر ہوتی ہے لیکن عام طورپر قرآن میں محذوف ہے۔
۲۔ دیکھئے مفردات راغب ۔
3.تفسیرمجمع البیا ن، اسی آیت کے ذیل میں۔
سوره فصلت/ آیه 1- 5
12
13
14
15
16
17
18
19
20
Lotus
Mitra
Nazanin
Titr
Tahoma